الٰہی جلال اور اخلاقی اقدار کی ہم آہنگی

295

 مکر وفریب کی تدبیر اخلاقی اعتبار سے و ہاںبری اور ناپسندہے جب مقصد باطل کی حمایت اور حق کی مخالفت کرناہو۔حالانکہ الٰہی جال عین حق ہے اور اسی وجہ سے خداوندعالم اپنے مکر وجال کے متعلق ارشاد فرماتاہے:(اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن )(١)’بیشک میر ا جال بہت محکم اور استوار ہے’۔اور شیطان کے جال کو باطل ہو نے کی وجہ سے ضعیف او رکمزور شمار کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :(۔۔۔اِنَّ کَیْدَالشَّیْطَٰنِِ کَانَ ضَعِیْفاً)(٢)’۔۔۔بیشک شیطان کا مکر(نہایت ہی )کمزور ہے ‘۔املاء اور استدراج کی روش قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی بیان کی گئی ہے منجملہ سورئہ مبارکہ رعدمیں اعلان ہو تا ہے :(وَلَقَدْاِسْتُہْزِیَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُواثُمَّ اَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَکَانَ عِقَابِ)(٣)…………..١۔سورئہ اعراف آیت ١٨٣۔٢۔سورئہ نساء آیت٧٦۔٣۔سورئہ رعد آیت٣٢’تم سے پہلے (بھی)بہت سے پیغمبروں کی ہنسی اڑائی جاچکی ہے پس میں نے کافروں کو مہلت دیدی پھر انھیں (عذاب میں )گر فتار کر دیا۔پس (دیکھا)میرا عذاب کیساتھا؟’۔اس آیت میں پیغمبر اسلام ۖ کے دشمنوں کو یہ پیغام دیا جارہاہے کہ گذشتہ امتوں کے کفّار نے جب اپنے زما نے کے انبیاء علیہم السلام کا مذاق اڑایا اس کے باوجود خداوند عالم نے ان کو مہلت دی کہ وہ جتنا چاہیں کفر میں اترجائیں اور اس کے بعد عذاب الٰہی نے ان کو گھیر لیا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ عذاب کوئی مطلوب اور پسند یدہ چیز ہے؟اگر ایسا ہے تو تم بھی انھیں کا راستہ اختیار کرکے انھیںکے انجام سے دوچار ہونا پسند کرلو۔اور اگر عذاب پسندیدہ انجام نہیںہے تو اپنے کفر سے پلٹ آئو اور اپنے کو خداوند عالم کے عذاب سے نجات دیدو ۔۔۔بہر حال اس آیت میں بھی کافروں کو املاء یعنی(مہلت دینے)کی بات کی گئی ہے اوریہ ایسی مہلت ہے جس کا انجام خداوندعالم کے سخت عذاب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔سورئہ قلم میں بھی املاء اور استدراج کی روش کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے :(فَذَرْنِیْ ومَنْ یُکّذِّبُ بِہَٰذَاالْحَدِیْثِ سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُونَ واُمْلیِْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن)(١)’پس مجھے اس کلام کے جھٹلانے والے کے ساتھ چھوڑدو ہم ان کو آہستہ آہستہ اس طرح جکڑلیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی اور میں ان کو مہلت دیتا ہوں اسلئے کہ میری تدبیر(سخت و )استوار ہے ‘۔اس آیت کی بنیاد پر خداوندعالم کا مکراورتدبیرتقا ضا کرتا ہے کہ قرآن کو جھٹلانے والوں کے ساتھ استدراج سے کام لے ۔یعنی آہستہ آہستہ ان کی نعمتوں میں اضافہ کیا جائے اور ان کو چھوڑدے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق جتنا چاہیں پیغمبر اکرم ۖ اور قرآن کی مخالفت کریں لیکن آخر کار ایک دن یہ مہلت ختم ہوجائیگی اور یہی تدبیر ان کو خداوند عالم کے عقاب و عذاب کے جال میں پھنسا دے گی ۔دوسری آیات میں خداوندعالم کا ارشاد ہو تا ہے(وَاِنْ یُکَذِّبُوکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادوَثَمُوْدُ۔وَقَوْمُ اِبْرَٰھِیْمَ وَقَوْمُ لُوطٍ۔وَ…………..١۔سورئہ قلم ،آیت٤٤۔٤٥۔اَصْحَابُ مَدْیَنَ وَکُذِّبَ مُوسَیٰ فَاَمْلَیْتُ لِلْکَافِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ فَکَیْفْ کَانَ نَکِیْرِ)(١)’اور اگر یہ تم کو جھٹلاتے ہیں تو یقینا ان سے پہلے نوح کی قوم اورقوم عاد،ثمود اور ابراہیم کی قوم اور لوط کی قوم اور (اسی طرح)اہل مدین (بھی)(اپنے اپنے پیغمبروں کو )جھٹلاچکے ہیں اور موسیٰ بھی جھٹلائے جاچکے ہیں تو میں نے کافروں کو مہلت دی اسکے بعد ان کا (گریبان )پکڑلیا تو تم نے دیکھا میرا عذاب کیسا تھا ؟’۔یہ آیت پیغمبر اکر م ۖ کو گذشتہ قو موں کی جا نب سے ان کے پیغمبروں کی تکذیب کی یاددہانی کراتی ہے اور اس حقیقت کا انکشاف کرتی ہے کہ وہ سب صرف ایک سنّت الٰہی کے دا ئرے میں آتے تھے یعنی خداوند عالم نے ان کو مہلت دی اور پھر ان پر اپنا عذاب نازل فرمایا ‘نکیر ‘اور ‘انکار ‘کے تقریباًایک ہی معنی ہیں اوریہ اس کام کو کہاجاتا ہے جو دوسروں کے برے اور نا پسند فعل کے بالمقابل انجام دیا جاتا ہے ۔(فکیف کان نکیر )یعنی ان کے برے کردار کے مقابلے میں میرا عکس العمل کیسا تھا؟البتہ اس آیت میں ‘نکیر’ سے مراد خداوند عالم کا عذاب ہی ہے ۔سورئہ مبارکۂ آل عمران میںارشاد ہو تا ہے(وَلَایَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوااَنَّمَانُمْلِی لَھُمْ خَیْر لِاَنْفُسِہِمْ اِنَّمَا نُمْلِی لَھُمْ لِیَزْدَادُوْا اِثْماً وَلَھُمْ عَذَاب مُھِیْن)(٢)’اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے ان کو جو مہلت اور فارغ البالی دے رکھی ہے وہ ان کے حق میں بہتر ہے ۔ہم نے مہلت اور فارغ البالی صرف اسی وجہ سے دی ہے تاکہ وہ خوب گناہ کرلیں اور ان کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے ‘ ۔اس آیت میں آشکارا طور پر یہ بیان کردیا گیا ہے کہ کافروں کو مہلت دینا تدبیر الٰہی ہے جو نہ صرف ان کے لئے فائدہ مند نہیں بلکہ اس دوران وہ اپنے گناہوں میں اضافہ کرتے ہیں اور ان کو جو فرصت ملتی ہے اس میں وہ قدم بہ قدم ہدایت الٰہی سے دور ہو تے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ رسوا کرنے والے عذاب کے مستحق ہو جائیں ۔…………..١۔سورئہ حج آیت٤٢۔ ٤٤۔٢۔سورئہ آل عمران آیت١٧٨۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.