۱۵۰۰ میلاد نبوی کی تابندگی
تاریخ کے سینے میں، جاہلیت کی سیاہی اور ظلمت زدہ ریگستان میں ایک ایسا ستارہ طلوع ہوا، جس نے نہ صرف عرب کی سرزمین بلکہ پوری دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا۔ اے رسولِ رحمت! آپ کی آمد تشنہلب انسانیت اور عدالت کے صحرا پر بارانِ رحمت بن کر برسی۔
بسم الله الرحمن الرحیم
۱۵۰۰ میلاد نبوی کی تابندگی
آیتِ پیمان
تاریخ کے سینے میں، جاہلیت کی سیاہی اور ظلمت زدہ ریگستان میں ایک ایسا ستارہ طلوع ہوا، جس نے نہ صرف عرب کی سرزمین بلکہ پوری دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا۔
اے رسولِ رحمت! آپ کی آمد تشنہلب انسانیت اور عدالت کے صحرا پر بارانِ رحمت بن کر برسی۔
آپ تشریف لائے تاکہ “اِقْرَأ” اور قلم کے پیغام کے ذریعے جہالت کو للکاریں اور اس دنیا کو، جو بت پرستی، ظلم اور نادانی میں ڈوبی ہوئی تھی، توحید اور دانائی کی روشنی سے ہمکنار کریں۔ آپ نے عورت کے لیے کرامت عطا کی، یتیم کے لیے پناہ گاہ بنے، اور غلاموں کے لیے آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ آپ کا پیغام عرب کے ریگستانوں سے نکل کر دنیا کے کونے کونے تک پھیل گیا، اور اسی ریگستان کے قلب سے وہ تہذیب نمودار ہوئی جس نے علم کو مشرق سے مغرب تک پہنچایا اور قرونِ وسطیٰ کی تاریکی میں حکمت و دانش کا چراغ روشن رکھا۔
آج، پندرہ صدیوں کے بعد بھی، آپ کی صدا دنیا کے کانوں میں گونج رہی ہے۔ آج کی دنیا جو اپنی پیچیدگیوں کے بوجھ تلے سرگرداں اور تاریک دکھائی دیتی ہے، آپ کی تعلیمات—مدارا، انصاف، اخلاق اور علم—اب بھی ایک درخشاں چراغ اور ابدی رہنما ہیں۔
آپ نے ہمیں یہ سکھایا کہ:
“تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔”
یہی وہ نسخہ ہے جو آج کی انسانیت کے امراض کا علاج ہے: خود غرضی، تعصب اور کینہتوزی کا مداوا۔
اے رسولِ صلح و محبت! آپ کی یاد قرنوں کے بعد بھی پرانی نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ تازگی اور ضرورت کے ساتھ نمایاں ہے۔ آپ وہ امید ہیں جو ہمیں سکھاتی ہے کہ تاریک ترین شب میں بھی طلوعِ آفتاب پر یقین رکھا جا سکتا ہے۔
آپ کی ولادت کی سالگرہ—پندرہ صدیوں کے بعد بھی—آپ پر اور آپ کے ماننے والوں پر مبارک ہو۔
آپ وہ نور ہیں جو کبھی بجھ نہیں سکتا اور آپ کا پیغام جب تک کائنات باقی ہے، تلاش گاروں کے لیے حق و عدل کی راہنمائی کرتا رہے گا۔
قم، ۱۲ ربیع الاول ۱۴۴۷ھ