لفظ تحریف کی تحقیق
لفظ تحریف کی تحقیقتحریف باب ” تفعیل” کا مصدر ہے جو لفظ ”حرف” سے مشتق ہے جس کے لغوی معنیٰ کسی چیز کے کنارہ اور طرف کے ہیں۔یا کسی چیز کے کنارے اور طرف سے کچھ حصہ کے ضائع کرنے یا ہونے کو کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا تحریف کے معنیٰ کسی چیز میں تبدیلی لانے اور اس کے اطراف اور گوشہ سے کچھ کم یا ضائع کرنے کوکہتے ہیں ۔خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:”و من النّاس من یعبد اللہ علیٰ حرفٍ”۔(١)یعنی لوگوں میںسے بعض ایسے بھی ہیں جو کنارے ہو کر خدا کی عبادت کرتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کو اپنے دین پر یقین نہیں ،ایسے لوگ ان افراد کی مانند ہیں جو جنگ کے دوران کسی کنارے میں کھڑے ہو کر لشکروں کے ما بین ہونے والی جنگ کو دیکھ رہے ہوں ،اگر اپنی اطراف کامیابی نظر آئے تو مال غنیمتکی خاطر جا کر شامل ہوتے ہیںورنہ راہ فرار اختیار کرتے ہیں ۔(٢)پس تحریف لغت کے اعتبار سے ہر چیز کی تبدیلی اور جا بجا ہونے کو کہاجاتا ہے ۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہی کہ تحریف سے ہمیشہ تحریف لفظی سمجھ میں آتا ہے لیکن قرآن کریم میں ایک قرینہ کے موجود ہونے کی بنا پر تحریف کا ایک ثانوی ظہور یعنی تحریف معنوی کا مفہوم بھی نظر آتا ہے ۔جیسا کہ یہودی علماء کی مذمت میں ارشادہوا:”ویحرفون الکلم عن مواضعہ”(3)یعنی تورات میں کلام حق کو اس کے محل و معانی اور مقاصد الٰہی سے تبدیل کرتے ہیں اور کلام حق کو اس کے ظاہری معنوں پر محمول نہیں کرتے ۔اس آیت کریمہ میں لفظ ”عن مواضعہ ”تحریف معنوی ہونے پر واضح قرینہ اور دلیل ہے لہٰذا راغب اصفہانی نے صرف تحریف نہیں بلکہ تحریف الکلام کے بارے میںیوں لکھا ہے ۔تحریف الکلام ،ان تجعلہ علیٰ حرفٍ من الاحتمال یمکن حملہ علیٰ الوجھین(4) یعنی کلام میںاس طرح تبدیلی لانا کہ جس سے اس کلام میں دو احتمال ہو سکتے ہوں ۔یہاں واضح ہے کہ راغب کا مقصد تحریف سے اس کے لغوی معنیٰ کی وضاحت کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد تحریف معنوی کو سمجھانا ہے جس کا ذکرآیت شریفہ میں ہوا ہے۔فخر رازی نے اس آیت کریمہ کی تفسیر اور وضاحت میں کئی احتمالات پیش کئے ہیں ان میںسے بعض تحریف لفظی کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔لیکن آخر کسی آیت کی تفسیر میں تحریف معنوی کو صحیح قوک قرار دیا ہے اور یوں کہتا ہے :”ان المراد بالتحریف القاء الشبہ الباطلۃ والتأویلات الفاسدۃ و صرف اللفظ عن معناہ الحق الیٰ معنی باطلٍ بوجوہ الحیل اللفظیۃ کما یفعلہ اہل البدعۃ”(5)بے شک تحریف سے مراد باطل شبہات اور فاسد تاویلات کے ذریعے لفظ کو ان کے حقیقی معنوں سے بدل کر مختلف لفظی حیلوں کےذریعے باطل معنی کی طر ف لے جانا ہے جیسا کہ اہل بدعت کرتے رہتے ہیں ۔
تحریف کی قسمیں اور ان کے استعمال کے مواردہمارے بزرگ علمائے کرام کی عبارات میںجیسے محقق خوئی نے دعوا کیا ہے کہ لفظ تحریف چھ معانی میںبطور ”مشترک لفظی ” استعمال ہوا ہے ۔جن میں سے بعض معانی قرآن کریم میںپائے جاتے ہیںجن پر سارے مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے جبکہ بعض موجود تو ہیںمگر ان کے بارے میں اجماع واقع نہیں ہوا کہ اور بعض کے بارے میںاختلاف ہے۔ہم یہاں مرحوم خوئی نے تحریف کے اصطلاحی معانی کے بارے میںجو مطالب بیان کئے ہیںاس کا ذکر کر کے تبصرہ کرتے ہوئےاپنا نظریہ بھی بیان کریںگے انہوںنے فرمایا:تحریف کا لفظ کئی معانی میںاستعمال ہوا ہے ان میںسے پہلے معنی کسی چیز کواس کے معانی اور محل سے منتقل کر کے تبدیل کرناہے ۔اس آیہ شریفہ میں اسی کی طرفاشارہ ہے ۔”ومن الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ”(6)یہودیوں میںسے کچھ لوگ ایسے بھی ہیںجو کلام کو اس کے محل سے بدل ڈالتے ہیں اس قسم کی تحریف کو تفسیر بالرائے یا تحریف معنوی کہا جاتا ہے اس قسم کی تحریف قرآن مجید میںواقع ہونے پر تمام مسلمانوںکا اجماع ہے کیونکہ کچھ مفسرین قرآن نےآیات کی اس طرح کی تفسیر کی ہیں کہ جو قرآن کے الفاظ کے حقیقی اور واقعی معنیٰ نہیں ہیںبلکہ اپنی خواہشات اور آراء کے مطابق انہوں نے آیات کی تحریف کی ہے اور اہل بیت علیہم السلام سے منقول روایات میں اس کی مذمت ہوئی ہے چناچہ امام محمدباقر علیہ السلام نے ایک خط میں سعد الخیر سے فرمایا:”و کان من نبذہم الکتاب ان اقاموا حروفہ و حرفوا حدودہ فھم یرونہ ولا یرعونہ”(7 )۔اور ان میںسے بعض کتاب (قرآن) کی عبارات اور حروف کے پابند ہیں جبکہ اس کے حدود میںتحریف کرتے ہیں ،ایسے لوگ اسکتاب کے راوی ہیںلیکن محافظ نہیں۔تحریف کے دوسراے معنیٰتحریف کے دوسرے معنیٰ یہ ہیں کہ کوئی حرف یا حرکت اجمالی طور پر کم زیادہ ہوئی ہو لیکن خود قرآن محفوظ ہو ۔اس طرح کی تحریف بھی قرآن کریم میں ثابت ہے جسے ہم اس کی اپنی جگہ ثابت کر چکے ہیںکہ قرآن کریم کی موجودہ قرائتوں میںسے کوئی بھی متواتر نہیں(8)لہٰذا ان تمام میں سے صرف ایک قرآن واقعی کے مطابق ہے اور دوسری قرآنوںمیںسے بعض میںاضافہ یا بعض میںکمی ہے ۔تحریف کے تیسرے معنیقرآن کریم میں ایک لفظ یا اس سے زیادہ کو کم یا زیادہ کرنا،حالانکہ خود قرآن کریم محفوظ ہے ۔ان معنوں میںتحریف صدر اسلام اور اصحاب کرام کے زمانے میںیقینا واقع ہوئی ہے لیکن اس کی شدت سے مخالفت ہوئی ہے اس کی دلیل اجماع مسلمین ہے ۔یعنی جناب عثمان کے دور میںمصاحف میںسے کچھ صحیفوں کو جمع کر کے آگ لگا دی گئی اور اپنے حکمرانوں کو دستور دیا کہ میرے قرآن کے علاوہ دوسروں کو جلا دو ،اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عثمان کا قرآن دوسرے قرآنوں سے الگ تھا اور محققین و علماء کی ایک جماعت جس میںسے ایک ابی داؤد سجستانی ہے انہوں نے اس وقت کے نسخوں کے جن موارد میں اختلاف تھا ان کو جمع کیا ہے یعنی عثمان نے جن نسخوں کوآگ لگانے کا حکم دیا تھا ان میں اجمالی طور پر تحریف ہوئی تھی لیکن عثمان نے جس قرآن کو جمع کر کے رائج کیا وہ یہی قرآن کریم ہے جو آج تک کسی تحریف کے بغیر ہم تک پہنچا ہے ۔لہٰذا عثمان کے دور حکومت سے پہلے جو نسخے معاشرے میںرائج تھے ان میں سے ایسی تحریف واقع ہونے کو قبول کرنا چاہیے لیکن جو قرآن دور حاضر میںہمارے پاس موجود ہے وہ عثمانی نسخہکے مطابق ہے جس میںکوئی کمی یا بیشی نہیں ہے ۔چوتھے معنیتحریف کا چوتھا معنیٰ یہ ہے کہ قرآن میںایک آیت کا اضافہ یا ان میںسے ایک آیت کم ہو جائے ،اگرچہ نازل شدہ قرآن کریم محفوظ اور مصون ہے لیکن ایسی تحریف سوائے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے کسی دوسری آیت میںنہیںہوئی ہے۔یعنی مسلمانوںکا اجماع ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (سورہ توبہ کے علاوہ ) ہر سورہ کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت فرماتے تھے ۔لیکن اس بارے میں اہل سنت کے نظریے میں اختلاف ہے کہ بسم اللہ قرآن میںشامل ہے یا نہیںبعض قائل ہیں کہ شامل ہے بعض کہتے ہیںکہ شامل نہیں ہے۔لیکن شیعہ امامیہ کے تمام علماء قائل ہیںکہ بسم اللہ آیات قرآنی میں سے ایک آیت ہے اور ان کا اجماع ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورہ کاجزہے ۔پانچویں معنیجو قرآن کریم آج مسلمانوں کے ہاتھوں میںموجود ہے اس کی کچھ آیات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ قرآن کریم میںنہیںتھیں آج اضافی ہیں ۔ایسی تحریف کے مسلمانوں میںسے صرف دو گروہ قائل ہوئے ہیںالف:عجاردہ ،وہ لوگ جو عبدالکریم عجر د(جو خوارج کے بزرگوںمیںسے ایک ہے) کی پیروی کرنے والے ہیں ،جن کا عقیدہ یہ ہے کہ سورہ مبارکہ یوسف قرآنکریم کا جزء نہیں ہے۔ب:ابن مسعود کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ وہ سورہ مبارکہ ”قل اعوذ برب النّاس ” اور ”قل اعوذ برب الفلق” (معوذتین) کو قرآن کا جزء نہیںسمجھتے ہیں ۔اور ان دو گروہ کے علاوہ دوسرے تمام مسلمانوں کا اجماع اور اتفاق ہے کہ ایسی تحریف قرآن میں نہیں ہوئی ہے اور ایسی تحریف کا نظریہ رکھنے والوں کا عقیدہغلط اور باطل ہونا بھی ایک امر لازمی ہے ۔چھٹے معنییعنی جو قرآن ہمارے درمیان موجود ہے اس میں پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ قرآن کی چند آیات آج کے قرآن میںموجود نہیں ہیں ۔قرآن میں ایسی تحریفکے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اختلاف ہے ۔نتیجہنتیجہ یہ نکلا کہ ان چھ معنوںمیںسے پہلے چار معنوں میںقطعی طور پر تحریف واقع ہوئی ہے پانچویںمعنے میںاجماع واقع نہیںہوا ہے اور چھٹے معنے پرعلماء کو اختلاف ہے۔اس عظیم محقق (جناب مرحوم خوئی )کے بیان پر دو اعتراض ہو سکتے ہیں ۔پہلا اعتراضہماری تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام معانی اس عنوان میںنہیںہیںکہ لفظ تحریف اس میںاستعمال ہو جس کی وجہ سے مشترک لفظی کہلائے بلکہ تحریف کے صرف ایک معنی ہیںجو معانی مذکورہ میںسے پہلے معنی ہےں ۔تحریف یعنی ”نقل الشیء عن مواضعہ” کسی چیز کو اس کے محل سے ہٹا دینا ،لیکن دوسرے سارے معانی اس کے مصادیق ہیں یا دوسرے لفظوں میںیوں کہا جائے کہ مذکورہ تمام معانی میںنقل الشیء عن موضعہ کے معنی پائے جاتے ہیں۔لیکن کبھی نقل معنیٰ میں جس کو تحریف معنوی کہتے ہیں اور کبھی نقل ،لفظ میں جس کو تحریف لفظی کہتے ہیں اور خود اس کی دو قسمیں ہیں ١۔یا تو نقل لفظ تفصیلی ہے ٢۔یا اجمالی۔یادوسرے لفظوں میںیوںکہا جائے کہ کمی و بیشی معین طور پر ہوتی ہے یا بطور اجمال واقع ہوتی ہے ۔لہٰذا اس مختصر تحقیق کی بنا پر یہ کہہ سکتے ہیںکہ اس عظیم محقق کے کلام میںجو معانی تحریف کے لئے ذکر ہوئے ہیںوہ اس کے مصادیق ہیں،یعنی لفظ تحریف مشترک معنوی ہے ایسا نہیںہے کہ تحریف معانی کے لئے مختلف موضوع لہہوں اور تحریف”مشترک لفظی” کے طور پر ان میںاستعمال ہو۔دوسرا عتراضاس تقسیم کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تحریف کے تمام اقسام میںباطل کا عنوان موجود نہ ہو اگران اقسام میںسے کوئی اس عنوان میں داخل ہو جائے تو اس آیہ شریفہ ”ولا یأتیہ الباطل من بین یدیہ ” کے خلاف ہے کیونکہ اس آیہ شریفہ کی ظاہری دلالت یہ ہے کہ قرآن شریف میںکسی قسم کے باطل کے آنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ لہٰذا جن موارد میں فرمایا ہے کہ بنا پر اجماع مسلمین تحریف واقع ہوئی ہے ان موارد میںتحریف کا عنوان صدق روک دیتا ہے اگرچہ یہ مطلب تحریفمعنوی میں مشکل نظر آتا ہے ۔لفظ تحریف کے معانی کی وضاحت اور تحقیق کے بعد ہم اس کی اقسام بیان کریں گے جیسا کہ اہل فن اور علماء کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریف کیچھ قسمیں ہیں :١۔تحریف لفظی ،یعنی الفاظ اور جملوںمیںکمی اور زیادتی یا تبدیلی کرنا ۔٢۔تحریف معنوی ،کسی کلام یا جملے کی اس طرح تفسیر کرنا کہ وہ اس پر دلالت نہ کرے اس کو تحریف معنوی یا تفسیر بالرائے کہتے ہیں ، روایات میں شدت کے ساتھ اس کی مذمت کی گئی ہے ۔چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :من فسر القرآن برأیہ فلیتبوء مقعدہ من النّار” (9)جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے کی بنا پر کرے تو اس نے اپناٹھکانہ جہنم میںبنایا۔٣۔تحریف موضعی ،یعنی کسی ایک آیت یا سورہ کو نزول کی ترتیب کے خلاف مرتب کرنے کو تحریف موضعی کہتے ہیں ۔ایسی تحریف آیات میںبہت نادر ہے کیونکہ تمام آیات کو نزول کی ترتیب سے مرتب اور جمع کیا گیا ہے ،لیکن سورتوں کی نسبت یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساری سورتیں نزول کی ترتیب کے خلاف پیغمبر اکرم (ص) کے حکم کے مطابقترتیب دی گئی ہیں۔٤۔قرأت میں تحریف ،کسی لفظ کو جمہور مسلمین کے یہاں جس قرائت کے ساتھ رائج ہے اس کے خلاف پڑھنے کو قرأت کی تحریف کہا جاتا ہے ۔جیسے اکثر قرّاء اپنے اجتہاد اور نظریہ کی بنا پر قرائت کرتے ہیں جو جمہور مسلمین کی قرائت کےخلاف ہے ۔٥۔لہجے کی تحریف، اقوام و قبائل کے درمیان لہجے کا اختلاف بھی سبب بنتا ہے کہ تلاوت ہر قبیلہ کے یہاں مخصوص لہجے کے ساتھ ہوتی ہے اس کو لہجے کی تحریف کہتےہیں ۔٦۔تحریف تبدیلی ،کسی ایک لفظ کو دوسرے لفظ میںتبدیل کرنا ،چاہے دونوں ہم معنی ٰ ہوںیا نہ ہوں ،ابن مسعود نے ایسی تحریف کو ہم معنیٰ (مترادف) الفاظ میںجائز سمجھا ہے ۔چنانچہ فرمایاہے :”لفظ ”علیم” کی جگہ ”حکیم ” رکھا جا سکتا ہے ”۔
١۔حج/٢٢،١١٢۔کشاف ج٢ص١٢٦3۔نسائ/٤،٤٦4۔مفردات ص ١١٢5۔تفسیر کبیر ج١٠ ص١١٧ طبع قدیم6۔البیان ص٢١٥7۔نسآء ٤/٤٦8۔ کافی ج ٨ ص٥٣ و الوافی فی آخر الصلوٰۃ9۔١عوالی اللأالی ج٤ ص ١٠٤