حدیث ثقلین کا ابلاغ عام

282

حدیث ثقلین کو قطعی اور یقینی طور پر رسول اکرم (ص) نے متعدد مقامات پر مختلف اوقات میں ارشاد فرمایا ھے کہ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ھے کہ اس کا مقصد عام لوگوں تک اس کو پنچانا اور امت مسلہ پرا تمام حجت کرنا ھے جن مواقع پر آنحضرت نے یہ حدیث بیان فرمائی ھے ان میں سے ایک مقام عرفہ ھے۔صاحب سنن ترمزی نے اس حدیث کو اسی تمام سندوں کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ھے وہ کھتے ھیں۔ میں نے رسول اکرم (ص) کو ایام حج میں میدان عرفہ میں دیکھا کہ آپ ایک قصویٰ نامی اونٹنی پر سوار تھے۔ ([16])اور خطبہ ارشاد فرمایا رھے تھے میں آپ کو ارشاد فرماتے سنا: ایھاالناس میں تمھارے درمیان ایک امانت چھوڑ کر جارھا ھوں کہ اگر اس کو محفوظ رکھا تو ھر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب خدا (قرآن ) اور میری عترت کہ اھل عقل و فکر ھیں۔ ([17])اور منیٰ میں بھی حضرت نے یہ حدیث ارشاد فرمائی۔ اس کو صاحب غیبتہ النمعانی نے اپنی کتاب میں اسناد کے ساتھ حریز بن عبداللہ عن ابی عبداللہ جعفر بن محمد عن آیاہٴ عن علی علیہ اسلام سے نقل کیا ھے۔ آپ نے فرمایا کہ مسجد حنیف میں رسول خدا(ص) نے خطبہ دیا۔ جس کے ضمن میں اس حدیث کو بیان کیا([18])اور فرمایا:یقینا میں (آخرت کی جانب ) تم سے پھلے جارھاھوں اور تم حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو گے وہ ایک ایسا حوض ھے جس کا عرض بصریٰ سے صنعا تک ھے اور اس پر رکھے ہوئے جام آسمانی ستاروں کے برابر ھیں آگاہ ہوجاوٴ کہ تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جارھا ھوں ۔ ۱۔ ثقل اکبر جو کہ قرآن ھے ۲۔ثقل اصغر جو کہ میری عترت (طاھرہ)ھے یہ دونوں تمھارے اور خدا کے درمیان کھنچی ہوئی رسی کے مانند ھیں۔ لھٰذا ان دونوں سے متمسک رھے تو ھر گز گمرہ نہ ہوگے اس کا ایک سرا خدا کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سرا تمھارے ھاتھوں میں ھے۔ ([19])دوسری وہ جگہ جھاں پر رسول اکرم (ص) نے حدیث ثقلین ارشاد فرمائی غدیر خم ھے۔ چنانچہ مستدرک حاکم وغیرا میں زید بن ارقم سے روایت ھے کہ جب رسول اکرم (ص) حجتہ الوداع سے واپس ہورھے تھے تو غدیر خم میں منزل کی (اور لوگوں کو سائے میں جانے) کا حکم دیا: اور سائبانوں کے لئے خس وخاشاک اکھٹاکئے گئے (اور لوگ سائبانوں تلے جمع ہوئے)۔اس وقت آپ نے فرمایا: گویا مجھے اس دنیا سے کوچ کا حکم مل چکا ھے اور میں نے اس پر لبیک کہہ دیا ھے (لھٰذا میری وصیت کو غور سے سنو)بیشک میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جارھا ھوں جن میں سے ایک دوسرے سے بزرگ ھے کتاب خدا (قرآن) اور میری عترت لھٰذا دھیا ن رکھو کہ کس طرح تم ان دونوں کے سلسلے میں میری مدد کرتے ہو۔اور یہ دونوں ھر گز ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ (روز قیامت) حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے اس کے بعد فرمایا:یقینا خدا میرا مولیٰ ھے اور میں ھر مومن کا مولیٰ ھوں اس کے بعد حضرت علی عليه السلام کے دست مبارک کو پکڑ کر فرمایا: جس کا میں مولیٰ ھوں اس کے علی مولیٰ ھیں ([20])مسلم نے صحیح ([21])میں اور طبرنی نے معجم الکبیر ([22])میں اور ان کے علاوہ دوسرے افراد نے اس حدیث کی روایت کی ھے۔نبی اکرم نے جن مواقع پر حدیث ثقلین بیان فرمائی ھے ان میں سے ایک مدینہ منورہ ھے جب آپ سفر سے واپس آئے تھے۔چنانچہ ابن مغازلی شافعی نیاپنی مناقب میں حاکم سے اور انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ھے کہ رسول خدا(ص) سفر سے واپس آئے تو (آپ کے چھرے کا رنگ متغیر تھا اور آپ کریہ فرما رھے تھے اور اسی حالت میں آپ نے ایک بلیغ خطبہ دیا۔ اور فرمایا: اے لوگو! دو بھت قیمتی چیزیں تمھارے درمیان بطور جانشین چھوڑ کر جا رھا ھوں کتاب خدا (قرآن) اور میری عترت ([23])یہ حدیث پیغمبر اسلام آخری خطبے میں بھی ذکر کی گئی ھے۔ینابیع المودة میں جموینی نے امام علی عليه السلام سے روایت کی ھے آپ نے فرمایا: نبی اکرم نے اپنے آخری خطبے میں (جس روز خدا تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کی) فرمایا: دو چیزوں کو تمھارے سپرد کرکے جا رھا ھوں اگر ان سے متسک رھے تو ھر گز گمراہ نھیں ہوگے کتاب خدا اور میری عترت۔ خدا وند مھربان وآگاہ نے مجھ سے وہ عدہ کیا ھے کہ یہ دونوں ھر گز جدا نہںھوں گے یھاں تک کہ قیامت کہ دن حوض کوثر مجھ سے ملاقات کریں گے۔ اس طرح سے پھر دونوں ھاتھوں کی انگشت شھادت کو ملا کرفرمایا ایسے ([24])اس کے بعد انگشت شھادت اور درمیانی انگلی کو ملا کر فرمایا ایسے نھیں۔ لھٰذا ان دونوں سے متمسک رہو ان سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو (ورنہ) یقینی طور پر گمراہ ہو جاوٴ گے۔۔۔ ([25])غیتہ النمانی([26])اور ارجح المطالب ([27])میں اس حدیث کے مثل روایت کی گئی ھے۔ ان مواقع میں جھاں آپ نے حدیث ثقلین ارشاد فرمائی حالت بیماری بھی ھے جس میں آپ کی وفات ہوئی۔چنانچہ ینابیع المودة میں (علّامہ قندوزی) نے لکھا ھے کہ: ابن عقدہ نے عروة بن خارجہ کے طریقے سے جناب زھرا سلام اللہ علیھا سے روایت کی ھے آپ نے فرمایا: کہ میں نے اپنے والد بزرگوار سے (اس بیماری کی حالت میں جو وفات کا باعث بنی) سنا آپ نے فرمایا: (جبکہ آپ کا حجرہٴ مبارک اصحاب سے بھرا ہوا تھا) اے لوگو! عنقریب قبض روح کے بعد تمھارے درمیان سے چلا جاوٴں گا ایک خاص بات کھنا چاھتا ھوں تاکہ تمھارے لئے حجت رھے۔جان لو کہ۔ در حقیقت تمھارے درمیان اپنے خدا کی کتاب اور اپنی عترت کو بطور جانشین چھوڑ کر جارھا ھوں اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک کو پکڑ کر فرمایا: یہ علی عليه السلام قرآن کے ساتھ ھیں اور قرآن علی عليه السلام کے ساتھ ھے۔دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے اور ان میں فاصلہ نھیں ہوگا یھاں تک کہ روز محشر حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔ اس وقت میں تم لوگوں سے سوال کروں گا کہ تم لوگوں نے ان دونوں کے بارے میں میرے ساتھ کیا برتاوٴکیا([28])ابن حجر کا کھنا ھے کہ۔ ([29])بعض سندوں میں ذکر کیا گیا ھے کہ رسول اکرم (ص) نے حدیث ثقلین کو عرقہ میں بیان فرمایا ھے۔دوسرے طریقے سے روایت کی گئی ھے کہ رسول اکرم (ص) نے اس کو غدیر خم میں بھی بیان فرمایا ھے۔ اسی طرح اور ایک طریقہ سے روایت ھے کہ رسول اکرم (ص) نے اس کو مدینے میں ذکر فرمایاھے جبکہ آپ بستر بیماری پر تھے اور اصحاب سے آپ کا حجرہٴ مبارک بھرا ہوا تھا۔ دوسری جگہ کھا گیا ھے کہ طالٴف سے واپسی پر آپ نے حدیث ثقلین کو بیان کیا ھے جبکہ آپ کھڑے ہوئے خطبہ ارشاس فرما رھے تھے۔پیغمبر اسلام کا مختلف طریقوں سے حدیث ثقلین کا فرمانا کسی قسم کے منافات کا سبب نھیں ھے۔ اس لئے کہ رحلت پیغمبر کے بعد لوگوں کی ھدایت و رھبری کے لئے قرآن و عترت کی اھمیت کے پیش نظر آپ نے اس حدیث کو مختلف مواقع پر متعدد بار فرمایا ھے۔ ([30])اور اسی طرح سے اس کو بار بار ھرانا نھایت ھی سود مند تھا کیونکہ یہ کام:
اولاً:قرآن و عترت کی اھمیت کی خاطر تھا۔ و ثانیاً: کسی کے لئے کوئی عذر کا موقع نہ چھوڑنے کی خاطر تھا۔ جیسا کہ خود پیغمبر نے اس طرف اشارہ فرمایا ھے (ایسا امر تمھارے لئے بیان کرنا چاھتا ھوں کہ تمھارے لئے حجت رھے)۔حدیث ثقلین(مختلف زمان و مکان میں مثلاً عرفہ، منیٰ، غدیر خم، اور آخری خطبہ جو کہ رسول اکرم (ص) نے وفات سے پھلے ارشاد فرمایا تھا) لوگوں کے عظیم الشان رھبر کی جانب سے اس لئے بیان ہوئی کہ آپ کو اسلام و مسلمین کی حیات پر اختیار تام حاصل تھا۔ لھٰذا ( رسول خدا(ص) کی جانب سے) اس حدیث کا بار بار دھرانا جیسا کہ ذکر ہو چکا ھے خاص طور سے ایام ومقامات پر جبکہ شدت تمازت آفتاب زوروں پر تھی اور لوگوں کا اژدھام تھا (یعنی میدان غدیر خم میں) خصوصاً آپ کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں اور آپ کا اپنی وفات کے بارے میں مطلع کرنا تاکہ مسلمان اس کی اھمیت کو محسوس کریں۔ اور برادرن اسلامی (خدا ان کے عزت وشرف میں اضافہ کرے) پر واجب ھے کہ زیادہ سے زیادہ اس حدیث کے مطالب توجہ فرمائیں اور اس پر عمل پیرا ھوں ۔ھمارا فریضہ ھے کہ ھم اپنے آپ کو دیکھیں کہ آیا ھم قرآن و عترت رسول سے متمسک ھیں یا نھیں؟خدا گواہ ھے کہ حدیث شریف (کہ جس پر مسلمان کا اجماع ھے)مسلمان کی رھبری کی وضاحت اور اتحاد واتفاق کے مسئلہ کو آسان بنانے کے لئے کافی ھے۔اے برادران اسلامی فکر کریں غوور خوض کریں اور اپنے اصلاح نفس کے لئے کوشال رھیں اور حق حقیقت کا اعتراف کریں اس لئے کہ یہ راہ حق ھے اور پیغمبر اسلام(ص) نے (متعدد مقامات اور بڑے ھی سخت مواقع پر) اس کی وصیت و سفارش کی ھے لھٰذا اس کی مخالف نہ کریں۔مختلف زمان و مکان میں حدیث ثقلین کی نشر واشاعت اور اس میں وقت اور تفکر ھم پر واجب ھے اور ھماری یہ عمل درحقیقت رسول اکرم (ص) کی پیروی ھے جیسا کہ جناب ابوذر نے در کعبہ کی زنجیر کو پکڑ کر لوگوں کے سامنے کیا تھا۔ میں نے رسول اکرم (ص) کو فرماتے سنا ھے کہ آپ نے فرمایا:تمھارے درمیان دو گر انقدر چیزیں چھوڑ کر جارھا ھوں ایک کتاب اور دوسرے میری عترت یہ دونوں ایک دوسرے سے ھر گز جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاوات کریں گے۔ پس دھان رکھنا تم لوگ دو چیزوں میں میری کس حد تک مدد کرتے ہو۔ ([31])
حدیث ثقلین سے استدلالتعیین خلیفہ کے لئے تشکیل دی گئی شوایٰ میں مولائے متقیان نے اپنے آپ کو خلافت کے لئے دوسروں سے زیادہ حقد ارثابت کرنے کے لئے حدیث ثقلین سے استدلال فرمایا تھا۔ابن مغازلی نے اپنی تمام اسناد کے ساتھ عامر بن واثلہ سے روایت کی ھے وہ کھتا ھے: شوریٰ کے دن علی عليه السلام کے ساتھ حجرہ میں تھا میں نے خود علی(ع)کو یہ کھتے سنا ھے انھوں نے اھل شوریٰ سے مخاطب ہو کر کھا: میں تمھارے درمیان ایک ایسی چیز سے استدلال کروں گا کہ عرب و عجم میں سے کوئی بھی اس کو بدلنے کی طاقت نھیں رکھتا۔ اس کے بعد فرمایا: اے لوگو! میں تم کو خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تم لوگوں میں سے کوئی ھے جو مجھ سے پھلے وحدانیت خدا پر ایمان لایا ہو۔؟لوگوں نے یک زبان ہو کر کھا: نھیں۔ ( ھم آپ پر سبقت نھیں رکھتے) یھاں تک کہ آپ نے فرمایا: میں تم لوگوں کو خدا کی قسم دیتا ھوں کیا تم لوگ جانتے ہو کہ رسول اسلام نے فرمایا: تمھارے درمیان دو گر انقدر چیزیں چھوڑ کر جارھا ھوں ایک قرآن دوسرے میری عترت جب تک اس سے متمسک رہو گے ھر گز گمراہ نھیں ہوگے یہ دونوں ایک دوسرے سے ھر گز جدا نھیں ھوں گے یھاں تککہ کوثر پر ھم سے ملاقات کریں گے۔لوگوں نے کھا: ھاں۔ ایساھی ھے۔ ([32])اسی طرح سے حضرت عثمان کے دور خلافت میں مسجد نبوی میں اصحاب کے درمیان آپ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا:لوگوں نے یک زبان ہوکر کھا کہ ھم اس بات کی گواھی دیتے ھیں کہ رسول اسلام نے وھی کچھ فرمایا ھے جو کہ آپ نے کھا ھے۔([33])امام حسن بن علی علیھما السلام نے بھی اپنے آپ کو امامت کا حقدار ثابت کرتے ہوئے اس حدیث کو بطور استدلال پیش کیا ھے۔شیخ سلیمان قندوزی نے ینابیع المودةمیں مناقب ھشام بن حسان سے روایت کی ھے۔ جب لوگوں نے امام حسن عليه السلام کی بیعت کرلی توآپ نے فرمایا: ھم خدا کی فوج ھیں جو کہ غالب و فاتح ھیں۔ ھم عترت رسول ھیں جو کہ ان کے نزدیک ترین افراد ھیں ھم ھی رسول کے طیب و طاھر اھل بیت ھیں ھم دو گرانقدر چیزوں میں ایک ھیں جس کے بارے میں ھمارے جد محترم نے امت کے درمیان جانشینی کا اعلان کیا تھا ھم خدا کی کتاب ثانی ھیں جس میں تمام چیزیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ھیں باطل کسی بھی راستے سے ان میں نفوذ نھیں کر سکتا۔ ([34])
[16] قصویٰ۔ تیز رفتاری کے باعث اس کو قصویٰ کیا جاتا تھا۔[17] سنن ترمزی جلد ۵ صفحہ، ۳۲۷۔ ۳۲۸ شمارہٴ حدیث ۳۸۸۴[18] یہ بھت مشہور خطبہ ھے جو کہ حجہ الوداع میں ارشاد فرمایا ھے۔۔[19] بصریٰ شام کے ایک شھر کا نام ھے صنعایمن کا ایک قصبہ ھے۔ اور وازہٴ شام کا ایک گاوٴں ھے۔[20] مستدرک الحاکم جلد ۳ صفحہ ۱۰۹ مسندنسائی۔ کتاب الخصائص صفحہ۱۵۰[21] صحیح مسلم جلد ۵ صفحہ ۲۵ ش۔ ۲۴۰۸[22] المعجم الکبیر۔۵۔ صفحہ ۱۶۶۔ ۴۹۶۹ ّ( ابن حجر نے صواعق محرقہ میں صفحہ ۴۳ پر درج کیا ھے (طبع قاھرہ)[23] احقاق الحق جلد ۹ صفحہ ۳۵۵[24] المسجّہ۔ انگشت شھادت[25] ینابیع المودة صفحہ ۱۱۷۔ ۱۱۶۔ طبع استانبول (ترکی)[26] غیتہ النمانی صفحہ ۴۳[27] ارجح المطالب صفحہ ۳۱۴ طبع الاہور (پاکستان)[28] ینابیع المودة صفحہ ۳۸[29] ھم نے ابن حجرسے نقل کیا ھے کہ حدیث ثقلین مختلف طرق سے روایت ہوئی ھے۔ صواعق محرقہ صفحہ ۲۲۸ طبقع قاھرہ۔[30] حدیث ثقلین۔ آقای شیخ قوام الدین و شنوی صفحہ ۱۴۔ ۱۳۔ صواعق محرقہ صفحہ ۱۵۰ طبقع قاھرہ۔[31] ینابیع المودة صفحہ ۳۷۔ ۳۸[32] المناقب لابن مغازلی صفحہ ۱۱۲۔ ۱۱۵[33] امیر المومنین(ع) نے عترت نبی اکرم کے بارے میں فرمایا۔ تم لوگ کھا جارھے ہو۔ تمھارا رخ کس جانب ھے۔ پرچم حق لھرا رھا ھے اس کی علامتیں آشکار ھیں۔ جبکہ ھدایت کے چراغ روشن ھیں لوگ بھیک کر کھاں جارھے ہو۔ کیوں سر گردان ہو۔ درآں حالیکہ عترت رسول تمھارے درمیان وہ ھے (عترت رسول) زمام حق، پرچم دین، اور زبان صدق ھیں۔ اور وہ بھترین منزل، (پاک و پاکیزہ دل ) جھاں قرآن کو محفوظ رکھتے ھیں ان کو وھیں محفوظ کر لو۔ پیاسوں کی مانند اس کے شفاف چشمے پر ٹوٹے پڑو۔ اے لوگو! اس حقیقت کو پیغمبر اسلام سے سیکھو کہ (جو کوئی ھم سے مرتا ھے وہ در حقیقت مرتا نھیں۔) اور ھم میں سے کوئی چیز پورانی نھیں ہوتی۔ پس جس چیز کا علم نھیں رکھتے اس کے بارے میں کچھ نہ کہو کیونکہ بھت سارے حقایق ایسے میں ہوتے ھیں جن کا تم انکار کرتے ہو اور جس کے خلاف کوئی دلیل نھیں رکھتے ہو اس سے غدر خواھی کرو اور وھی ھوں ۔ کیا میں نے تمھارے درمیان ثقل اکبر (قرآن) پر عمل نھیں کیا اور ثقل اصغر (عترت رسول) کو تمارے درمیان زندہ نھیں رکھا؟کیا پرچم ایمان کو تمھارے درمیان نصب نھیں کیا ؟ کیا حلال و حرام سے تم کو آگاہ نھیں کیا؟ کیا ایسا نھیں ھے کہ لباس عافیت کو (عدل) کے ساتھ تمھارے زین تن نھیں کیا؟ اور نیکوں کو اپنے قول و فعل سے تمار ھے درمیان پھلایا اور انسانی اخلاقی ملکہ سے تمھیں روشناس کرایا۔ لھٰذا اپنے وھم وگمان کو ایسی جگہ استعمال نہ کرو جس کی گھرائی تمھاری آنکھیں دیکھ نھیں سکتی۔ اور پرواز فکر پھنچ نھیں سکتی۔ ینابیع المودة صفحہ ۱۱۴۔ ۱۱۶ باب ۱۳۸ لمعحم المفھرس الفاظ نھج البلاغہ ،صفحہ۔ ۳۷ حصہ خطبات۔ خطبہ ۸۷[34] ینابیع المودة صفحہ۲۱

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.