متقيوں كے اوصاف

379

 اور آنحضرت كو قسم دى كہ اس سے زيادہ وضاحت كے ساتھ بيان فرمائيں_ اس وقت آنحضرت(ع) نے حمد و ثناء بارى تعالى اور پيغمبر (ص) پر درود و سلام كے بعد فرمايا _ خداوند عالم نے لوگوں كو پيدا كيا جب كہ ان كى اطاعت سے بے نياز تھا اور ان كى نافرمانيوں سے آمان اور محفوظ تھا كيونكہ گناہگاروں كى نافرمانى اسے كوئي ضرر نہيں پہنچا سكتى اور فرمانبردارى كى اطاعت اسے كوئي فائدہ نہيں دے سكتي_ ان كى روزى ان ميں تقسيم كردى اور ہر آدمى كو اس كى مناسب جگہ پر برقرار كيا_ متقى دنيا ميں اہل فضيلت ہيں_ گفتگو ميں سچے _ لباس پہننے ميں ميانہ رو_
راستہ چلنے ميں متواضع _ حرام كاموں سے آنكھيں بند كر ركھى ہيں_ جو علم
انہيں فائدہ ديتا ہے اے سنتے ہيں مصيبتوں اور گرفتاريوں ميں اس طرح ہوتے ہيں جس طرح آرام اور خوشى ميں ہوتے ہيں_ اگر موت ان كے لئے پہلے سے معين نہ كى جا چكى ہوتى تو ثواب كے شوق اور عتاب كے خوف سے ايك لحظہ بھى ان كى جان ان كے بدن ميں قرار نہ پاتي_ خدا ان كى نگاہ ميں بہت عظيم اور بزرگ ہے اسى لئے غير خدا ان كى نگاہ ميں معمولى نظر آتا ہے_ بہشت كى نسبت اس شخص كى مانند ہيں كہ جس نے بہشت كو ديكھا ہے اور بہشت كى نعمتوں سے بہرہ مندہ ہو رہا ہے_ اور جہنم كى نسبت اس شخص كى طرح ہيں كہ جس نے اسے ديكھا ہے اور اس ميں عذاب پا رہا ہے_ ان كے دل محزون ہيں اور لوگ ان كے شر سے امان ميں ہيں_ ان كے بدن لاغر اور ان كى ضروريات تھوڑى ہيں_ ان كے نفس عفيف اور پاك ہيں_ اس دنيا ميں تھوڑے دن صبر كرتے ہيں تا كہ اس كے بعد ہميشہ كے آرام اور خوشى ميں جا پہنچيں اور يہ تجارت منفعت آور ہے جو ان كے پروردگار نے ان كے لئے فراہم كى ہے_ دنيا ان كى طرف رخ كرتى ہے ليكن وہ اس كے قبول كرنے سے روگرداغن كرتے ہيں_ دنيا انہيں اپنا قيدى بنانا چاہتى ہے ليكن وہ اپنى جان خريد ليتے ہيں اور آزاد كرا ليتے ہيں_ رات كے وقت نماز كے لئے كھڑے ہوجائے ہيں_ قرآن كى آيات كو سوچ اور بچار سے پڑھتے ہيں_ اس ميں سوچنے اور فكر كرنے سے اپنے آپ كو غمگين اور محزون بناتے ہيں اور اسى وسيلے سے اپنے درد كى دواء ڈھونڈتے ہيں جب ايسى آيت كو پڑھتے ہيں كہ جس ميں شوق دلايا گيا ہو تو وہ اميد وار ہوجاتے ہيں اور اس طرح شوق ميں آتے ہيں كہ گويا جزا اور ثواب كو اپنى آنكھوں سے مشاہدہ كر رہے ہيں _ اور جب ايسى آيت كو پڑھتے ہيں كہ جس ميں خوف اور ترس ہو تو دل كے كانوں سے اس كى طرف اس طرح توجہ كرتے ہيں كہ گويا دوزخ ميں رہنے والوں كى آہ و زارى اور فرياد ان كے كانوں ميں سنائي دے رہى ہے_ ركوع كے لئے خم ہوتے ہيں اور سجدے كے لئے اپنى پيشانيوں اور ہتھيليوں اور پائوں اور زانوں كو زمين پر بچھا ديتے ہيں اپنے نفس كى آزادى كو خدا سے تقاضا كرتے ہيں_ جب دن ہوتا ہے تو بردبار دانا نيكوكار اور باتقوى ہيں_خدا كے خوف نے ان كو اس تير كى مانند كر ديا ہے كہ جسے چھيلا جائے اور لاغر اور كمزور كر ديا ہے_ انہيں ديكھنے والے گمان كرتے ہيں كہ وہ بيمار ہيں جب كہ وہ بيمار نہيں ہيں_ كہا جاتا ہے كہ ديوانے ہيں جب كہ وہ ديوانے نہيں ہيں بلكہ قيامت جيسى عظيم چيز ميں فكر كرنے نے ان كو اپنے آپ سے بے خود كر ديا ہے_اپنے تھوڑے عمل پر راضى نہيں ہوتے اور زيادہ عمل كو زيادہ نہيں سمجھتے_ اپنى روح اور نفس كو اس گمان ميں كہ وہ اطاعت ميں كوتاہى كر رہے ہيں متہم كرتے ہيں اور اپنے اعمال سے خوف اور ہراس ميں ہوتے ہيں_ جب ان ميں سے كسى كى تعريف كى جائے تو جو اس كے بارے ميں كہا گياہے اس سے ڈرتے ہيں اور كہتے ہيں كہ ہم اپنے آپ كو دو سروں سے بہتر پہچانتے ہيں اوراللہ تعالى ہم سے زيادہ آگاہ اور باخبر ہے_ خدايا جو كچھ ہمارے بارے ميں كہا گيا ہے اس پر ہمارا مواخذہ نہ كرنا اور اس سے بالاتر قرار دے جو وہ گمان كرتے ہيں اور ان گناہوں كو جو دوسرے نہيں جانتے بخش دے_
اہل تقوى كى نشانى يہ ہے كہ تو اسے دينى معاملہ ميں نرمى اور دور انديشى كے ساتھ قوى ديكھے گا اوريقيين ميں با ايمان اور مضبوط _ علم كے حصول ميں حريص بردبارى ميں دانشمند مالدار ہوتے ہوئے_ ميانہ روي، عبادت باخشوع اور فقر ميں آبرو مند اور با وقار_ سختيوں ميں صبر كرنے والے _ حلال روزى كے حاصل ميں كوشش كرنے وال_ ہدايت كے طلب كرنے ميں علاقمندي_ طمع سے دور اور سخت جان_ نيك كام كرنے كے باوجود خوف زدہ ہيں_ رات كے وقت شكرانہ ادا كرنے ميں ہمت باندھتے ہيں اور دن ميں ذكر اور خدا كى ياد كو اہميت دينے والے_ رات كو اس ڈر سے كہ شايد غفلت برتى ہو خوف زدہ_ دن كو اللہ تعالى كے فضل و كرم و رحمت كيوجہ سے خوشحال_ اگر نفس نے كہ جسد وہ پسند نہيں كرتا سختى برتى تو وہ بھى س كے بدلے جسے نفس پسند كرتا ہے بجا نہيں لاتے _ اس كا رابط اور علاقمند نيك كاموں سے ہوتا ہے اور فنا ہوتے والى دنياوى چيز كى طرف ميلان نہيں ركھتے_ تحمل اور بردبارى كو عقلمندى سے اور گفتاركو كردار كے ساتھ ملاتے ہے_ اسے ديكھے گا كہ اس كى خواہشات تھوڑى اور اس كى خطائيں بھى كم_ دل خشوع كرنے والا اور نفس قناعت ركھنے والا_ اس كى خوراك تھوڑى اور اسے كام آسان اس كا دين محفوظ اور اس كى نفسانى خواہشات ختم ہوچكى ہيں اور غصہ بيٹھ چكا ہے_ لوگ اس كے احسان اور نيكى كى اميد ركھتے ہيں اور اس كے شر سے امن و امان ميں ہيں اگر لوگوں ميں غافل اور بے خبر نظر آ رہا ہو تو وہ اللہ تعالى كے ذكر كرنے والا شمار ہو رہا ہو گا اور اگر ذكر كرنے والوں ميں موجود ہوا تو وہ غفلت كرنے والوں ميں شمار نہيں ہوگا_
گالياں دينے سے پرہيز كرتا ہے نرمى سے بات كرتا ہے_ برے كام اس سے نہيں ديكھے جاتے اور نيك كاموں ميں ہر جگہ حاضر ہوتا ہے_ خيرات اور نيكى كى طرف قدم بڑھانے والا اور برائيوں سے بھاگ جانے والا ہوتا ہے_ سختيوں ميں باوقار اور مصيبتوں ميں صبر كرنے والا آرام اور آسائشے ميں شكر گزار جو اس كے نزديك مبغوض ہے اس پر ظلم نہيں كرتا _ جس كو دوست ركھتا ہے اس كے لئے گناہ نہيں كرتا گواہوں كى گواہى دينے سے پہلے حق كا اقرار كر ليتا ہے_ جسے حفظ كر ليا ہے اسے ضائع نہيں كرتا اور جو اسے بتلايا جائے اسے نہيں بھلاتا _ كسى كو برے لقب سے نہيں بلاتا_ ہمسايہ كو نقصان نہيں پہنچاتا_ لوگوں پر جب مصيبتيں ٹوٹ پڑيں تو اس سے خوشى نہيں كرتا_ باطل كے راستے ميں قدم نہيں ركھتا اور حق سے خارج نہيں ہوتا_ اگر چپ رہے تو چپ رہنے سے غمگين نہيں ہوتا اگر ہنسے تو ہنسنے كى آواز بلند نہيں ہوتى اور اگر اس پر ظلم كيا جائے تو صبر كرتا ہے تا كہ اس كا انتقام اس كے لئے لے لے_ اس كا نفس اس كى طرف سے سختى ميں ہوتا ہے ليكن لوگوں كے نفس اس كى طرف سے آرام اور آسائشے ميں ہوتے ہيں آخروى كاموں كے لئے اپنے نفس كو سختيوں ميں ڈالتا ہے اور لوگوں كو اپنى جانب سے آرام اور آسائشے پہنچاتا ہے_ اس كا كسى سے دور ہوجانا زہد اور عفت كى وجہ سے ہوتا ہے اور كسى سے نزديك ہونا خوش خلقى اور مہربانى سے ہوتا ہے دور ہونا تكبر اور خودخواہى كيوجہ سے نہيں ہوتا اور نزديك ہونا مكرر اور فريبسے نہيں ہوتا_راوى كہتا ہے كہ جب امير المومنين كى كلام اس جگہ پہنچى تو ہمام نے ايك چيخ مارى اور بيہوش ہوگيا_ اور اپنى روح خالق روح كے سپرد كردي_ آنحضرت(ع) نے فرمايا ہيں ‘ اس طرح كى پيش آمد كيوجہ سے اس كے بارے ميں خوف زدہ تھا_آپ نے اس كے بعد فرمايا لائق افراد ميں وعظ اس طرح كا اثر كرتے ہيں_(273)
273_نہج البلاغہ/ خطبہ 193_
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.