وحی کی حقیقت
جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ لغت میں وحی چپکے چپکے گفتگو کر نے کو کہتے ہیں چاہے وہ کسی کے ساتھ ہو ، لہٰذا اس آیت میں شیا طین کی مخفی گفتگو اور وسو سے کو وحی کہا گیا ہے ۔ اس بنا ء پر وحی کے مختلف مصا دیق ہیں جو حقیقت کے اعتبار سے مکمل طور پر ایک دو سرے سے جدا ہیں ۔ لفظی مشا بہت اس بنا پر ہم مختلف مقامات پر استعمال ہونے والے لفظ وحی کی حقیقت و ما ہیت کو یکساں خیال نہ کریں اس بات پر توجہ رہے کہ قرآ نِ کریم کی تفسیرمیں الفا ظ کے لغوی مادوں کو دیکھ لینا کا فی نہیں ہے بلکہ ان کے استعمال کے مقاما ت پر غور و فکر کے ساتھ ہر ایک کی خصو صیت کو تلاش کر نا چا ہئے ۔بہر حال شیا طین چا ہے وہ انسان ہوں یا جنات ، ایک دوسرے کو اندر سے ور غلا تے ہیں اور لو گو ں کو دھو کا دینے کی نیت سے ایک دو سرے کے ساتھ چپکے چپکے باتیں کر تے ہیں اور ان کی گفتگو بھی چکنی چپڑی دلکش اور مؤثر ہوتی ہے ۔ خدا وند عا لم اس آیت میں اپنے پیغمبر کو آگا ہ کر نے کے لئے ایک بالا حقیقت سے پردہ اٹھا یاہے اور اعلان کیاہے کہ یہ سب کچھ ایک الٰہی سنت کے مطا بق ہے اور ان شیا طین کی صف آرا ئی سے نہیں ڈ رنا چا ہئے اگر چہ خدا وند عا لم ان کو روکنے پر قا در ہے مگر اس کی مشیت کا تقا ضایہ ہے کہ وہ آ زاد رہیں ۔ آیت میں آگے بڑھکر جس کی حکمت کی طرف اشارہ مو جودہے (وَلِتَصْغیٰ اِلَیْہِ اَفْئِدَ ةُ الَّذِیْنَ لَاْ یُوْمِنُوْنَ بِا لاٰ خِرَةِ۔۔۔)’اور یہ اس لئے ہے کہ جن لوگوں کا ایمان آخرت پر نہیں ہے ان کے دل ان کی طرف مائل ہو جا ئیں ۔۔۔’یہ کا فروں کی و ہی آزمائش ہے ؛وہ لوگ جو اپنے اختیار سے غلط فا ئدہ اٹھا کر آخرت پر ایمان نہ لا ئیں اور دنیا کی محبت ان کے ایما ن میںرکا وٹ میںمانع بن جا ئے مزید گمراہی کے مستحق ہیں اور یہ شیا طین ان کی گمراہی کا وسیلہ فرا ہم کر تے ہیں ان کی یہ پر فریب با تیںکا فرقبول کر لیتے اور دل و جان سے مان لیتے ہیں ‘اَصْغیٰ اِلَیْہِ ‘یعنی اس کو غور سے سننا ،لیکن آیت میں ‘لِتَصْغیٰ اِلَیْہِ اَفْئِدَة۔۔۔’کی حسین تعبیراستعمال ہوئی ہے یعنی کا فر کا نوں سے نہیں اپنے دل کے کا نوں سے شیطانی وسوسوں کا استقبال کرتے ہیں ،ان پر خوش ہو تے ہیں اور آخر میں اپنے برے انجام تک پہنچنے کی خا طر انھیں شیطانی کا موں کو انجام دیتے ہیں۔درج ذیل آیت کا مضمون بھی مذکو رہ آیت کے مشابہت رکھتا ہے :(وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوّاًمِنَ الْمُجْرِمِیْنَ وَکَفَیٰ بِرَبِّکَ ھَادِیاً وَ نَصِیْراً)(١)اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے گنہگا روں میں سے کچھ دشمن قرار دیدئے ہیں اورہدایت وامداد کے لئے تمہارا پر ور دگار کا فی ہے ‘ ۔اس آیت سے بھی استفادہ ہو تا ہے کہ ہر ایک پیغمبر کے مقابلہ میں مجرموں کا ایک گروہ رہا ہے جو نبی کی مخالفت اور دشمنی کر تا چلا آیاہے ۔ہر چند الٰہی ہدایت اور نصرت بندوںکے لئے کافی ہے مگر الٰہی امتحان کی سنت پر عمل در آمد ہو نے کے لئے ضروری ہے کہ ایک گروہ راہ حق کی مخالفت کرنے اور باطل راستے کی طرف راہنما ئی کرنے والا مو جود ہو ۔اسی حقیقت کو سورئہ حج کی آیات میں ایک دوسرے طریقہ سے بیان کیا گیا ہے :(وَمَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ وَلَانَبِیٍ اِلَّااِذَاتَمَنَّیٰ اَلْقیَ الشَّیْطَانُ فِی اُمْنِیَّتِہِ فَیَنْسَخُ اللہُ مَا یُلْقِیْ الشَّیْطَانُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللہُ ئَ ایَاتِہِ وَاللَّہُ عَلِیم حَکِیْم )(٢)’اورہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجامگر جب بھی اس نے تلاوت کا ارادہ کیا تو شیطان نے اپنے رسولوں کے ذریعہ اس میں رکا وٹ ڈالی تو پھرخدا نے شیطان کی رکا وٹ کو مٹا دیا پھر اپنی آیا ت کو مستحکم بنا دیا کہ وہ بہت جا ننے والا اور صا حب حکمت ہے ‘۔اس آیت سے واضح ہے کہ جب بھی کو ئی پیغمبر دل میں سوچتا تھا کہ کس طرح الٰہی دعوت کو پھیلا یا جا ئے اور اہل دنیا کی ہدایت کی جا ئے تو شیطان سا زش کر تا کہ انبیاء علیہم السلام کی یہ فکر عملی جامہ نہ پہن سکے لیکن خدا اس کے تمام…………..١۔سورئہ فرقان آیت٣١۔٢۔سورئہ حج آیت ٥٢۔ارادوں کو ناکام بنا دیتا تھا ۔رہا یہ مسئلہ کہ شیطان کی سا زشوں اور وسوسوں سے کیا آثار مر تب ہو تے تھے بعد کی آیت میں اس کی اس طرح وضاحت ہو تی ہے 🙁 لِیَجْعَلَ مَایُلْقِی الشَیْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَض وَالْقَاسِیَةِ قُلُوْبُھُمْ وَاِنَّ الظَّا لِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ )(١)’تاکہ شیطان جو( وسوسہ) ڈالتا ہے تو خدا اسے ان لوگوں کی آزمائش (کا ذریعہ) قرار دے کہ جن کے دلوں میں (کفر کا ) مرض ہے اور جن کے دل سخت ہیں اور بیشک (یہ) ظالم (مشرکین ) دور دراز کی مخا لفت میں (پڑے) ہو ئے ہیں’۔اس بنا ء پرجن لوگوں کی روح بیمار ہے اورجن کا دل سخت ہو چکا ہے انبیاء کی دعوت کے مقابل کے ذریعے شیطانی وسوسوں کی وجہ سے ان کا امتحان ضروری ہے گمرا ہی کا راستہ طے کرنے میںان کی امداد کی جاتی ہے۔ دوسری طرف مو منوں کا بھی الٰہی امتحان ضروری ہے کہ شیطانی وسوسوں سے متأثر نہ ہوں اور یہ جا ن لیں کہ حق وہی ہے جو پیغمبر پر نا زل ہوا ہے اگرچہ شیطان ان کو گمراہ کرنے کے در پے رہے لیکن خدا اپنے اولیاء کو سیدھے راستے پر لگا دیتا ہے:( وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْعِلْمَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَیُوْمِنُوْابِہِ فَتُخْبِتَ لَہُ قُلُوْبُھُم وَاِنَّ اﷲَ لَھَادِالَّذِ یْنَ آمَنُوْااِلَیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ )(٢)’اور اس لئے بھی کہ صا حبا نِ علم کومعلوم ہو جا ئے کہ یہ (قرآن ) حق ہے(اور) آپ کے پرور دگا ر کی طرف سے ہے اور اس پر وہ ایمان لے آ ئیں اور پھر ان کے دل اس کی با رگاہ میں جھک جا ئیں اور یقیناً اﷲ ایمان لانے وا لو ں کی سیدھے راستے کی طرف ہدا یت کر نے والا ہے ‘ ۔یہا ں تک تو ہم نے قر آ ن کی رو سے خدا وند عالم کی اہم سنتو ں کا جا ئزہ لیا ہے اب علوم سما جیات اور نفسیات کی شناخت کے بعض ایسے اصو لوںکے با رے میں مختصر سی بحث منا سب معلوم ہوتی ہے جو مذ کو رہ آیات سے حاصل ہو تے ہیں ۔ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ کی انبیاء علیہم السلام کے سا تھ لو گو ں کے رویّے اور ان کی امتوں کے ساتھ خدا کے…………..١۔سورئہ حج آیت ٥٣۔٢۔سورئہ حج آیت ٥٤۔رویّے سے متعلق جو آیات ہیں ان سے علوم سماجیات و نفسیات کے با رے میں اسلامی نقطۂ نگاہ سمجھنے کے لئے مسا ئل اخذ کیے جا سکتے ہیں اور ظا ہر ہے ان تمام مسا ئل کو اس طرح کی مختصر بحثو ں میں بیا ن نہیں کیا جا سکتا لہٰذا ہم ان مسائل کی طرف صرف اشا رہ پر اکتفا ء کرتے ہیں کہ شاید اس سلسلے میں وسیع تحقیقات کے لئے زمین فراہم ہو جا ئے ۔