دنیا و آخرت کے در میان را بطہ کی قسم

264

اور قر آن کریم کی روشنی میں ان نسبتوں کے اصول ہو نے کے با رے میں کسی طر ح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور اُن کاانکار کر نا گو یا خو د قر آن کا انکا ر کر نا ہے ۔لیکن اس اہم اور ضروری گفتگو کے متعلق کچھ ایسے مسا ئل سا منے آتے ہیں کہ جس کے با رے میں بحث اور وضا حت کی ضرو رت ہے، بطور مثا ل یہ کہ آیا مذ کو رہ رو ابط حقیقی ہیںیا تکوینی ؟ اور کیا یہ روا بط ، وضع و اعتبار ( معا ہدے) کے تا بع ہے ؟ ایما ن اور عمل صالح کے در میان کیا را بطہ ہے ؟ اور کفر و گنا ہ کے در میان کیا نسبت ہے ؟اور کیا خو د اعمال صا لح اور برے اعمال کے در میان موثر اور متاثرہونے کے اعتبار سے کوئی رابطہ پایا جا تا ہے یا نہیں ؟اس در س میں ہم سب سے پہلے، مسئلہ سے متعلق گفتگو کر تے ہو ئے اس با ت کی وضا حت کر نا چا ہیں گے کہ مذکو رہ رو ابط فر ضی اور قرا ردا دی امو ر میں سے نہیں ہیں ۔
را بطہ حقیقی ہے یا قرار دادی (فر ضی)جیسا کہ ہم نے با رہا اس امر کی طر ف اشا ر ہ کیا ہے کہ دنیا وی اعمال اور نعمتو ںیا آخرت کے عذا ب کے در میان کو ئی معمولی یا ما دی رو ابط نہیں پا ئے جا تے کہ جن کو فیزیکی یا کیمیا وی قوا نین کی بنیا د پر بیان کر تے ہو ئے اس کی تفسیر کی جا ئے، حتیٰ یہ تصور جو بعض لو گو ں کا ہے ،کہ انسانی اعمال میں جو قو ت صرف ہو تی ہے وہ ان لوگوں کے نظریہ کی بنیاد پر جو اس بات کے قا ئل ہیں ،کہ ما دہ اور قوت ایک دوسرے سے تبدیل ہو کر مجسم ہو جا تا ہے اور آخرت کی نعمتوں یا عذا بو ں کی شکل میں ظا ہر ہو تے ہیں یہ ایک غلط تصور ہے کیو نکہ ۔١۔ایک انسان کی گفتار اور کر دار میں استعما ل ہو نے والی قوت کی مقدا ر اتنی بھی نہیں ہے کہ جو مجسم ہو نے کے بعد ایک سبب کے برابر ہو سکے، چہ جا ئے کہ جنت کی بے شما ر نعمتوں میں تبدیل ہو جا ئے٢۔ یہ کہ ما دہ اور قوت کا ایک دوسرے میں تبدیل ہو نا کسی خا ص عوا مل و اسباب کے مطا بق ہو تا ہے جس کا اعما ل کی نیکی یا برا ئی اور فا عل ( انسان) کی نیت سے کو ئی وا سطہ نہیں ہے اور کسی بھی طبیعی ( فطری) قا نون کی بنا پر خا لص اعمال اور دکھا وے کے اعمال میں امتیا ز قائم نہیں کیا جا سکتا تا کہ یہ کہا جا سکے کہ ایک کی قوت نعمت میں تبدیل ہو گئی ہے اور دوسرے کی قوت عذاب میں بد ل گئی ہے ۔٣۔ وہ قوت اور طا قت جو ایک مر تبہ کسی عبا دت میں کا م آچکی ہے ممکن ہے دوسری مر تبہ کسی گنا ہ میں استعما ل ہو ۔لیکن ایسے رابطے کا انکا ر کر نا حقیقی را بطے کے مطلقاًانکا ر کے معنی میں نہیں ہے کیو نکہ حقیقی ار تبا طا ت کا دا ئرہ نا شنا ختہ اور غیر مجر ب رو ابط کو بھی شا مل ہے اور جس طر ح علوم تجربی (تجر بیا تی علوم) د نیوی اور اخروی علوم، مو جودا ت کے در میان را بطہ سببیت کو ثا بت نہیں کر سکتا اسی طر ح انکے در میان سببیت اور مسببیت کے را بطے کے با طل کر نے کے اُوپر بھی قا در نہیں ہیں ،اور اگر یہ فر ض کر لیا جا ئے کہ اچھے اور برُے اعما ل انسانی روح پر وا قعی اثر رکھتے ہیں اور وہی روحی اثر ہے جو آخرت کی نعمت یا عذا ب کا سبب ہے جسے دنیا کی خا رق عا دت(غیر معمو لی) مو جودا ت میں بعض نفسوں کے اثر انداز ہوتے ہیں ایسا فر ض غیر معقو ل نہیں ہو گا بلکہ فلسفہ کے خاص اصول کی مدد سے اس کو ثا بت بھی کیا جا سکتا ہے اور اس کتا ب میں اس بیا ن کی گنجا ئش نہیں ہے ۔
قر آنی دلیلیں:اگر چہ قر آنی بیا نات اکثر مقا مات پر فر ضی اور قرادادی را بطے کو ذہن سے نزدیک کر تے ہیں، جسے وہ آیا ت شر یفہ جو اجر و جزاکی تعبیر پر مشتمل ہے (١)لیکن دوسری آیتوں سے انسان کے اعما ل اور آخرت کے ثوا ب و عقاب کے در میان فر ضی اور قرار دادی را بطہ کے علا وہ دوسرے را بطے کا بھی استفا دہ کیا جا سکتا ہے اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلے گروہ کی آیتوں کی تعبیر سمجھنے میں آسانی کے لئے اور اکثر لو گوں کی فکری سطح کی منا سبت سے ہے کہ جن کا ذہن ایسے مفا ہیم سے زیا دہ ما نوس ہو تا ہے ۔اسی طر ح احا دیث شر یفہ میں بھی بے شما ر دلیلیں مو جو دہیں جو یہ بیان کر رہی ہیں کہ انسان کے اختیا ر ی اعما ل کی کئی ملکو تی اور مثا لی شکلیں جو عالم بر زخ اور قیا مت میں ظا ہر ہو ںگی ۔اب ہم ان آیا ت شر یفہ کو جو انسان کے اعما ل اور آخر ت کے نتیجوں کے در میان حقیقی را بطے پر دلا لت کر تی ہیں سا منے رکھتے ہیں١۔(وَ مَا تُقَدِّمُوا لِاَ نفُسِکُم مِن خَیرٍ تَجِدُوہُ عِندَ اللَّہِ )(٢)ہر وہ نیکی جس کو تم نے پہلے سے بھیج دیا ہے خدا کے پا س اُسے پا ئو گے ۔…………………………………………١۔ اجر کی تعبیر تقریباً نو ے (٩٠) مر تبہ اور جزا کی تعبیر اور اس کے مشتقا ت کی تعبیر ایک سو سے زیا دہ قر آن مجید میں استعما ل ہو تی ہے ۔٢۔بقرہ ١١٠، اور سورہ مزمل آیت نمبر ٢٠ کا بھی مطا لعہ کریں٢۔(یَومَ تَجِدُ کُلُّ نَفسٍ مَا عَمِلَت مِن خَیرٍ مُحضَراً وَ مَا عَمِلَت مِن سُوئٍ تَوَدُّ لَواَنَّ بَینَہَا وَ بَینَہُ اَمَداًبعیداً)(١)اس دن جب ہر شخص اپنے انجام دئے ہو ئے ہر اعما ل خیر کو اپنے سا منے حاضر دیکھے گا، اور اپنے بر ے اعما ل کو بھی دیکھے گا تو اس با ت کی تمنا کرے گا کہ اس کے اور اعما ل کے در میان دوری اور فا صلہ ہو جائے ۔٣۔(یَومَ یَنظُرُ المَرئُ مَا قَدَّ مَت یَدَا ہُ)(٢)اُس دن جب انسان دیکھے گا کہ اس کے ہا تھوں نے پہلے کیا بھیجا ہے٤۔(فَمَن یعَمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ خَیراً یَرَہُ ٭وَ مَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَہُ)(٣)بس اگر کسی ایک نے ذرہ بر ابر بھی کار خیر انجام دیا ہے تو اسے (ضر ور )دیکھے گا اور اگر کسی نے ایک ذرہ بر ابر بھی برُا کام کیا ہے تو وہ بھی اسے دیکھے گا ۔٥۔(ہَل تَجزَونَ اِلّا مَا کُنتُم تَعمَلُونَ )(٤)کیا وہ جزا جو تمکو دی جا ئے گی ان اعما ل کے علا وہ ہے جو تم نے ( دنیامیں ) انجا م دیا ہے ۔٦۔(اِنَّ الَّذِینَ یَاکُلُونَ اَموَالَ الیَتَامیٰ ظُلماً ِانَّما یَاکُلُونَ فِ بُطُو نِہِم نَا راً)(٥)بے شک وہ لو گ جو یتیموں کا ما ل نا حق ( چھین) کر کھا تے ہیں گو یا وہ لو گ اپنے شکم کو آگ سے بھر تے ہیں ۔…………………………١۔ آل عمران ٣٠٢۔ نبا٤٠٣۔ زلزال ٧،٨٤۔نمل ٩٠، اور سو رہ قصص آیہ نمبر ٨٤ کی طرف رجوع کر یں۔٥۔نساء ١٠،
ظا ہر ہے کہ قیامت کے روز انسان کے لئے اس دنیا میں انجام دئے ہو ئے اعما ل کا دیکھ لینا ،اس کی جزا یا سزا نہیں ہو سکتی بلکہ یہ اس کی ملکو تی اور مثا لی صو رتیں ہیں جو مختلف نعمتیں اور قسم قسم کے عذا ب کی شکل میں ظا ہر ہو نگی اور انسان انھیں شکلوں کے ذریعہ نعمت سے سر فرا ز ہو گا یا عذا ب میں مبتلا ہو گا جیسا کہ اس آخری ایہ شریفہ سے استفا دہ ہو تا ہے کہ یتیم کے ما ل کو کھا نے کی با طنی صو رت آگ کا کھا نا ہے اور جس وقت دنیا (قیا مت ) میںحقیقتیں کھل کر سا منے آئیں گی تب معلو م ہو گا کہ فلا ں حر ام غذا کا با طن آگ ہی تھی، اور پھر اس کے اندر جلنے کی تکلیف کو محسو س کرے گا اور پھر اس سے کہا جا ئے گا کیا یہ آگ اس حر ام ما ل کے سوا کچھ اور ہے جو تو نے کھا یا تھا ؟
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.