حبط و تکفیر

277

یا ایسا نہیں ہے بلکہ دونوں کو جمع کرکے جبری صورت میں اس کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خوشبختی یا بد بختی کو معین کردیاجائے گا؟یا ایسا بھی نہیں ہے بلکہ کوئی اور راستہ نکالا جائے گا؟یہ مسئلہ در حقیقت حبط و تکفیر(١)کے مسئلہ کے جیسا ہے، کہ جو قدیم زمانے سے اشاعرہ اور معتزلہ فرقوں کے علماء کلام کے درمیان موضوع بحث وگفتگو رہا ہے ،اور ہم اس درس میں شیعوں کے نظرئے کو خلاصہ کے طور پر بیان کریں گے۔
ایمان اور کفر کا رابطہ۔گذشتہ درسوں میں ہم یہ جان چکے ہیں کہ بغیر اعتقادی اصولوں پر ایمان رکھے ہوئے کوئی عمل صالح ابدی خوشبختی کا ذریعہ نہیں بن سکتا،بلکہ جملہ بدل کر کہا جائے کہ کفر اچھے اور شائستہ امور کو بے اثر بنا دیتا ہے، یہاں پر اس بات کا اضافہ ضروری ہے کہ انسان کی زندگی کے آخری لمحات میں ایمان کا پایا جانا اس کے سابقہ کفر کے بُرے اثرات کو محو کر دیتا ہے ، جس طرح روشن نور گذشتہ تاریکیوں کو بر طرف کردیتا ہے ،اور اس کے بر عکس، آخری وقت کا کفر، اس کے گذشتہ ایمان کے اثر کو ختم کردیتا ہے،اور انسان کے نامۂ اعمال کو سیاہ اور عاقبت کو تباہ کردیتا ہے،با لکل اُس آگ کے مانند جس کی ایک چنگاری پورے خرمن کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے ، یایہ کم ایمان ایک روشن چراغ کی طرح ہے کہ جو دل ودماغ کے آشیانوں کو روشن اور تابناک کردیتا ہے اور تاریکیوں وتیرگیوں کو دور کردیتا ہے،اور کفر اُس چراغ کے بجھنے کے مانند ہے جو اپنے گل ہونے کے ساتھ ساتھ تمام اُجالوں کو ختم کرکے اندھیرے کو جنم دیتا ہے اور جب تک انسان کا دل ودماغ اس مادی وتغیر نیز پیچ وخم سے بھری ہوئی دنیا سے وابستہ رہے گا ،مسلسل روشنی و تاریکی ،نور وظلمت کی کمی اور زیادتی کے خطرے سے اس وقت تک دوچاررہے گا جب تک اس سرای فانی سے گذر نہ جائے،اور اس کے اوپر ایمان اور کفر کے انتخاب کرنے کا راستہ بند نہ ہوجائے،اور پھر چاہے جتنا آرزو کرے کہ ایک بار پھر اس دنیا میں آکر اپنیتاریکیوں کو ختم کرلے،لیکن یہ تمنا اس کو کوئی فائدہ نہ پہچائے گی(١)……………………………١۔ حبط و تکفیر یہ قر آن مجید کی دو اصطلا حیں ہیں کہ جس میں سے پہلے کا مطلب یہ ہے کہ نیک کا م کا بے اثر ہو جا نا اور دوسرے کا مطلب یہ ہے کہ گنا ہوں کی تلا فی ہو جا نا ۔
ایمان وکفر کے درمیان یہ اثر متقابل قرآن کی نگاہ میں ایک ثابت امر ہے جس میں کسی طرح کے شک و تردید کی گنجائش نہیں ہے،اور اس بیان پر قرآن کریم کی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں مثلاًسورۂ تغابن کی آیت نمبر(٩)وَ مَن ےُومِن بِاللّہِ وَ ےَعمَل صَالِحاً ےُکَفِّر عَنہُ سَیِّاٰ تِہِ،جو بھی خدا پر ایمان لایا اور عمل صالح انجام دیا تو یہ اس کے برے کاموں کو محو کردیگا،اور سورۂ بقرہ کی آیت نمبر (٢١٧) میں ارشاد ہورہا ہے کہ (وَمَن ےَرتَدِد مَنکُم عَن دِینِہِ فَےَمُت وَہُوَکَافِر فَاُولیِٔکَ حَبِطَت اَعمَالُہُم فِ الدُّنےَا وَالآخِرَةِ وَاُولیِٔکَ اَصحَابُ النَّارِ ہُم فِیہَا خَالِدُونَ)،تم سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے(مرتد ہوجائے)اور حالت کفر میں چلاجائے ،تو اس کے اعمال دنیاو آخرت میں باطل ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
نیک وبد اعمال کا رابطہایمان و کفر کے مابین موجود رابطہ کی طرح نیک و بد امور کے درمیان بھی اسی طرح کا رابطہ فرض کیا جا سکتا ہے،لیکن بطور کلی اس طرح نہیں کہ ہمیشہ انسان کے نامۂ اعمال میں اس کے نیک کام ثبت ہو جائیں اور گذشتہ تمام برے اعمال اس سے مٹ جائیں(جیسا کہ بعض معتزلی متکلمین کا نظریہ ہے ) یا یہ کہ ہمیشہ دونوں اعمال کو جمع کر کے جبری صورت میں گذشتہ اعمال کی مقدار و کیفیت کو دیکھتے ہوئے اسی کے مطابق ثبت کردیا جائے(جیسا کہ بعض دوسرے افراد کا نظریہ ہے)بلکہ اعمال کے متعلق تفصیل کا قائل ہو نا پڑے گا یعنی اس طر ح کہ بعض نیک اعمال اگر شا یستہ طر یقہ سے انجام د ئے جا ئیں اور پیش خدا وہ امور قبو ل ہوں تو وہ بر ے اعما ل کے اثر ا ت کو ختم کر دیتے ہیں جیسے تو بہ اگر مطلو ب اور بہتر طریقہ سے انجام پا ئے، تو انسان کے گنا ہ بخش دئے جا ئیں گے (٢)…………………………………١۔ در س نمبر ١٤ کی طرف رجو ع کریں ۔٢۔ رجوع کریں ، نساء ١١٠، آل عمرا ن ١٣٥، انعام ٥٤، شو ریٰ ٢٥، زمر ٥٣ ، و……..اور یہ امر با لکل روشنی کی اس شعاع کی طر ح ہے جو کسی خا ص اور معین مقام پر پڑے اور اس جگہ کو روشن کر دے، لیکن ہر نیک عمل ہر گنا ہ کے اثر کو ختم نہیں کر تا، اور اسی لئے ممکن ہے ایک شخص مو من ایک مدت تک اپنے گنا ہو ں کے عذاب میں مبتلا رہے اور آخر کا ربہشت میں پہنچ جا ئے گو یا کہ انسان کی روح کے مختلف ابعاد(پہلو) ہیں اور اعمالِ نیک یا بد میں سے ہر ایک صرف ایک پہلو سے مربوط ہوتا ہے مثلاً وہ نیک عمل جو ،،الف،،کے جنبہ سے متعلق ہے وہ،،ب،،کے جنبہ سے متعلق گناہوں کو محو نہیں کریگا،مگر یہ عمل صالح اتنازیادہ نورانی ہو کہ جو روح کے دوسرے جوانب سرایت کر جائے یا گناہ ا تنی زیادہ آلودگی رکھتا ہو کہ تمام پہلوں و اطراف وجوانب کو آلودہ کردے جیسا کہ روایات شریفہ میں وارد ہوا ہے کہ قبول شدہ نماز گناہوں کو دھودیتی ہے اور ان کے بخشش کا سبب بنتی ہے،اور قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ (وَاَقِمِ الصَّلَوٰ ة طَرفَِ النَہَارِ وَ زُلفاً مِنَ اللَّیلِ اِنَّ الحَسَنَاتِ ےُذہِبنَ السِّیاتِ)(١)اے پیغمبر ۖ آپ دن کے دونوں اطراف میں اور رات گئے نماز قائم کریں اس لئے کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردینے والی ہیں۔اور بعض گناہ جیسے عاق والدین،شراب پینا ایسے ہیں کہ جو ایک مدت تک عبادت کو قبول ہونے میں مانع ہو جاتے ہیں،یا جیسے کسی کی مدد کرنے کے بعد احسان جتانا جو اس کام کے ثواب کو ختم کر دیتاہے ، جیسا کہ قرآن میں موجود ہے( لاتُبطِلُوا صَدَقَاتِکُم بِالمَنَّ وَالَا ذَیٰ)ٰ(٢)اپنے احسانات اورصدقات کو احسان جتانے اور تکلیف پہچانے کے ذریعہ ضائع نہ کرو ،لیکن نیک و بد اعمال کے ایک دوسرے میں اثر انداز ہونا نیز اس کی نوعیت اقسام اور اس کی مقدار کو وحی خدا اور معصومین علیہم السّلام کے کلمات کے ذریعہ معین کرنا پڑے گا،اور ان سب کے لئے کسی کلی قانون کو معین نہیں کیا جاسکتا۔……………………………١۔ ھود ١١٤،٢۔بقرہ ٢٦٤،اس درس کے اختتام پر مناسب ہے کہ اشارہ کیا جائے کہ نیک و بد اعمال اس دنیا میں کبھی کبھی خوشحالی یا بد حالی، یا کسی نیک کام کی توفیق یا اس کے سلب ہوجانے میں اپنا اثر دکھاتے ہیں ،جیسا کہ دوسروں کے ساتھ نیکی کرنا، بالخصوص والدین اور قرابت داروں کے ساتھ احسان کرنا، طول عمر اور آفات و بلاؤں کے دور ہونے کا سبب بنتا ہے،یا بزرگوں کی بے احترامی بالاخص معلم اور اساتذہ کی بے احترامی،توفیقات کے سلب ہوجانے کا باعث ہے، لیکن ان آثار کے مترتب ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے ،کہ انسان کو پوری جزا یا سزا اسے مل چکی، بلکہ جزا اور سزا کی اصلی جگہ قیامت ہے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.