علامہ طبرسی امام المفسّرین
علامہ كی ولادت
آپ نے ۴۶۸ یا ۴۶۹ میں ولادت پائی 1 اورآپ كے والد حسن بن فضل طبرسی نے آپ كا نام فضل ركھا 2 ۔ فضل بن حسن كی اصل ” تفرش ” تھی اسی بنا پر آپ طبرسی سے مشہور ہوئے ۔ 3 اگر چہ اس عالم خیز علاقہ میں آپ كی ولادت یا سكونت كے بارے میں كوئی دلیل نہیں مل سكی اس كے بر عكس بعض سوانح زندگی لكھنے والوں نے طبرسی كو طبرستان (مازندران) سے جانا ہے 4 لیكن طبرس اور تفرش كے ایك ہونے كے واضح دلائل ان دعووں كو مخدوش بنا رہے ہیں 5 ان میں سے بعض كی طرف اشارہ كیا جا سكتا ہے:
بیہقی (المعروف بہ ابن فندق) طبرسی كے معاصرین میں سے تھے 6 وہ آپ كی شرح زندگی كے بیان میں فرماتے ہیں: طبرسی قاشان (كاشان) اور اصفہان كے درمیان كے ایك مقام كا نام ہے ۔ آپ كی اصل اسی سر زمین سے تھی ۔ 7 اسی طرح یعقوبی 8 اور علامہ مجلسی 9 نے طبرسی كو تفرشی كا بدلا ہوا كلمہ جانا ہے اور تفرش كو قم كے تحت آنے والے علاقوں سے جانا ہے ۔یہ علاقہ پہلے قم كے ضلعی حصہ میں تھا اور آج مركزی صوبہ كے شہروں میں شمار كیا جاتا ہے ۔ یہ چونكہ شہر قم سے نزدیك تھا لہذا اسلام كے آغاز ہی میں شیعہ مذہب كو اپنا لیا ۔ 10
علامہ كی تعلیم
فضل بن حسن نے اپنا كمسنی اور تعلیمی دور امام ہشتم حضرت امام رضا علیہ السلام كی ملكوتی بارگاہ كے جوار میں گذارا اور چند سال مكتب كی حاضری اور لكھنے پڑھنے اور قرائت قرآن كے سیكھ لینے كے بعد اپنے كو اسلامی علوم كے حصول اور علمائے دین كے درسی جلسات میں شركت كے لیے تیار كیا ۔ انھوں نے ادبیات عرب، قراٴت، تفسیر، حدیث، فقہ، اصول اور كلام جیسے علوم كے حصول میں غیر معمولی سعی و كوشش سے كام لیا اس حد تك كہ آپ ان تمام علوم میں صاحب نظر بن گئے ۔ اسوقت جبكہ مدارس میں حساب، جبر و مقابلہ جیسے علوم رائج نہیں تھے اور كوئی ان كی طرف مائل بھی نہیں ہوتا تھا، آپ نے ان علوم كی طرف بھی قدم بڑھائے اور آپ كو اس فن كے ماہروں میں سے شمار كیا جاتا تھا ۔ 11
امین الدین 12 طبرسی كے اساتیذ جن كا آپ كی علمی اور معنوی شخصیت كے سلسلہ میں اہم كردار تھا ان كے اسماء اس طرح سے ہیں:
ابو علی طوسی (شیخ طوسی كے فرزند ) جعفر بن محمد دوریستی، عبد الجبار مقری نیشاپوری، امام موفق الدین حسین واعظ بكرآبادی جرجانی، سید محمد قصبی جرجانی، عبد اللہ قشیری، ابو الحسن عبید اللہ محمد بیہقی، سید مہدی حسینی قاینی، شمس الاسلام حسن بن بابویہ قمی رازی، موفق عارف نوقانی اور تاج القراء كرمانی ۔ 13
شعر كے میدان میں
طبرسی نے اپنی جوانی كے ایام میں بہت زیادہ اشعار كہے ہیں 14 جو تمام كے تمام عالی معانی و مفاہیم پر مشتمل اور آپ كی شعر گوئی سے آشنائی اور اس میں ماہر ہونے كی صادق دلیل ہیں ۔ اہلبیت علیہم السلام سے عقیدت كے بیان میں ذیل كے اشعار آپ كے ان جاوداں آثار میں سے ایك ہیں:
اُطیّبُ یومی بذكراكُم
و اُسعِد نومی بروٴیاكُم
لئن غِبتُم عن مغانِیكُم
فانّ فُوٴادی مغناكُم
فلا باٴس ان ریب دھری اتَی
بما لا یسرّ رعایاكُم
فنصر من اللہ یاٴتیكم
و فضل من اللہ یغشاكُم
و عقد ولائی لكم شاھد
بانی فتاكم و مولاكم
لكم فی جدودِكُم اسوہ
اذا سائكم عیش دنیاكم
و كم مثلھا افرَجت عنكُم
و حُطّ بھا من خطایاكم
كما صُفِّی التِبرُ فی كورة
كذالكم اللہ صفّاكم 15
” میں اپنے دن كو آپ كی یادوں سے معطر كرتا ھوں اور نیند كو آپ كے دیدار سے شیریں اور دلچسپ بناتا ہوں ۔ اگرچہ آپ اپنے گھروں سے غائب ہوگئے ھیں پر میرا دل آپ كا مكان ھے ۔ مجھے اس بات كا خوف نہیں كہ حوادث زمانہ مجھ پر آن پڑیں جو آپ كی امت كے لیے ناگوار ہوں ۔ اس لیے كہ نصرت خدا آپ كو نصیب ہوگی اور فضل خدا آپ كو اپنے احاطہ میں لے لے گا ۔ آپ كی محبت جو میرے وجود میں سمائی ہوئی ہے وہ اس بات كی شاہد ہے كہ میں آپ كا غلام اور چاہنے والا ہوں ۔ آپ كے اجداد آپ كے لیے اسوہ ہیں جب بھی دنیاوی زندگی آپ كے ساتھ برا سلوك كرے ۔ كتنی ایسی سختیاں ہیں جو آپ سے دور ہوتی ہیں اور ان كے وسیلہ سے آپ كی پریشانیاں محو ہوجاتی ہیں ۔ جس طرح سونا بھٹیوں میں صاف كیا جاتا ہے اسی طرح خدا آپ كو پاك و پاكیزہ ركھا ھے ۔
ثمر بخش ھجرت
امین الاسلام طبرسی تقریباً ۵۴ سال تك مشہد مقدس میں مقیم رھے اور اس كے بعد سبزوار كے عمائدین كی دعوت اور اس شہر میں ایسے وسائل كی فراوانی كی بنا پر جو اس شہر میں موجود تھے اور آپ كے لیے تدریس و تاٴلیف اور تبلیغ دین كا راستہ فراہم كر رہے تھے آپ نے ۵۳۲ میں اس شہر كی طرف كوچ فرمایا ۔ سادات آل زبارہ جن سے آپ خاندانی نسبت بھی ركھتے تھے نے آپ كی میزبانی كی اور مدد و حمایت كے سلسلہ میں كسی طرح كا دریغ نہ كیا ۔ 16 آپ كا سب سے پہلا اقدام “مدرسہ دروازہ عراق ” كی زعامت كو قبول كرنا تھا 17 جس كے بعد آپ كی سرپرستی اور رہنمائی كی بنا پر یہ مدرسہ ایك وسیع حوزہ علمیہ اور ایك بہت زیادہ اہمیت كے حامل مقام میں تبدیل ہوگیا ۔ یہاں كی علمی اور ثقافتی فراوانی ایران كے دور دراز علاقوں كے بہت سے طلاب كے جذب ہونے كا سبب بنی ۔ جوان طلاب كمالات كی منزلوں كو طے كرنے اور اپنے مكتب فكر كی خدمت كے شوق میں اس مدرسہ میں اپنی تعلیم شروع كرتے اور فقہ و اصول جیسے مختلف علوم طبرسی كی خدمت میں رہ كر حاصل كرتے ۔ آپ كی علمی كوششوں كا نتیجہ آپ كے یہ مشہور و معروف اور دانشور شاگرد ہیں:
رضی الدین حسن طبرسی (طبرسی كے فرزند)، قطب الدین راوندی، محمد بن علی بن شہر آشوب، ضیاء الدین فضل اللہ حسنی راوندی، شیخ منتجب الدین قمی، شاذان بن جبرئیل قمی، عبد اللہ بن جعفر دوریستی، سید شرف شاہ حسینی افطسینی نیشاپوری اور برھان الدین ھمدانی ۔ 18
سبز اوراق
امین الاسلام كے متعدد آثار و تصنیفات موجود ھیں جن میں كی ھر ایك تصنیف اس كوشاں عالم دین اور قوی مفكر كے فضائل و علم پر دلیل ھے ۔ آپ كے آثار كے گنجینہ كی تفصیل اس طرح سے ھے:
الآداب الدینیۃ للخزانۃ المعینیۃ، اسرارالامامة، اعلام الورع باعلام الہدیٰ، تاج الموالید، جوامع الجامع، الجواہر (جواہر الجمل)، حقائق الامور، عدة السفر عمدة الحضر، العمدة فی اصول الدین و الفرائض و النوافل، غنیة العابد و منیة الزاھد، الفائق، الكافی الشافی، كنوز النجاح، مجمع البیان، مشكوة الانوار فی الاخبار، معارج السوٴال، الموٴتلف من المختلف بین ائمة السلف، نثر اللآلی، النور المبین و روایت صحیفة الرضا علیہ السلام ۔ 19
امام المفسرین
ایام جوانی سے ھی خدمت قرآن كی فكر علامہ كے ذھن میں گھر كیے ہوئے تھی ۔ آپ كی زندگی اس الٰہی كتاب كے ہمراہ تھی، اس بےمثل و بےنظیر معجزہ كے معارف كا احیا اور اس كی تفسیر كی تصنیف آپ كی اصلی آرزووں میں تھی ۔ خالق جہاں، مرادیں پوری كرنے والے نے اس جاوداں اثر اور ابدی میراث كے پیش كرنے كی توفیق آپ كو نصیب فرمائی ۔ جب كہ آپ كا سن مبارك ساٹھ سال سے زیادہ كا ھوگیا تھا اور سر كے بال سفیدی كی طرف مائل تھے تبھی آپ نے مختلف انداز كے ساتھ قرآن كی تین تفسیریں لكھ ڈالیں ۔ آپ نے تفسیر قرآن میں ایسی خلاقیت سے كام لیا كہ آج تك مفسرین آپ كی تفسیر كے آستانہ كا طواف كركے آپ كے لامحدود خرمن جس نے مكتب اھل بیت علیہم السلام سے الہام لیا ھے سے خوشہ چینی كرتے رھے ھیں ۔ بہتر ھے كہ ھم یہاں پر اس عظیم عالم دین كی تمام تفاسیر كے مفاھیم اور طرز تفسیر كے بارے میں اختصار كے ساتھ اشارہ كریں:
الف) “مجمع البیان” افضل التفاسیر
” آستین ھمت الٹی اور تمام جدّ و جہد كو بروئے كار لایا اور ذھن پر زور ڈالا اور خوب فكر كی، مختلف تفاسیر كو دیكھا اور خداوند سے توفیق اور آسانی كی دعا كی اور ایسی كتاب كی تالیف شروع كی جو بےانتہا كم ھجم، مزین اور بہترین نظم و ترتیب كے ساتھ ھے اور تفسیر، انواع و اقسام كے علوم پر مشتمل ھے اور علم قرائت، اعراب و لغت، پیچیدگی و مشكلات، معانی و مفاہیم، نزول و اخبار، قصص و آثار، حدود و احكام، حلال و حرام جیسے تمام علوم كے گہر كو اپنے دامن میں سمیٹے ھے اور اس میں لوگوں كے پیش كردہ شبہات كو بیان كیا گیا ھے اور ایسے كلام كا ذكر كیا گیا ھے جو فقط ہمارے اصحاب رضی اللہ عنہم سے ھیں اور اصول و فروع، معقول و منقول كے بہت سے استدلال اپنے اعتقادات كی صحت پر لایا ھوں اس طرح كہ افراط و تفریط سے دور، مختصر ایجاز سے بڑھ كر اور تفصیل سے كم ھیں اس لیے كہ عصر رواں كے اعتقادات زیادہ سنگینی كے تحمل كی قوت نہیں ركھتے اور بڑے مسابقوں كے میدانوں میں سعی كرنے سے معذور ھے اس لیے كہ آج علماء كے فقط نام باقی ھیں اور علوم كی فقط رمق حیات ۔ 20
اپنے منحصر و انوكھے طرز تحریر اور خلاقیت كے ساتھ تفسیر لكھنے كا روحی جذبہ و تمایل آپ میں جوانی كے ایام سے ھی جوش ماررہا تھا اسی طرح آپ كے مقرب دوست محمد ابن یحییٰ ( سبزوار كی برجستہ شخصیتوں اور سادات آل زبارہ میں سے ھیں ) كی تشویق و ترغیب تھی یہ دو ایسے عامل اور سبب ھیں جن كی طرف خود آپ نے مقدمہ میں اشارہ كیا ھے ۔ بعض موٴرخوں نے ایك داستان كو تفسیر كی تحریر میں دخیل جانا ھے ۔ وہ داستان اس طرح سے ھے:
ایك زمانے میں علامہ پر سكتہ طاری ہوتا ھے اقرباء نے سمجھا كہ آپ خدا كو پیارے ھوگئے لھٰذا انھیں قبر كے حوالہ كردیتے ھیں ۔ كچھ دیر بعد جب انھیں ھوش آتا ھے تو اپنے كو قبر كے اندر پاتے ھیں اور وھاں سے نجات پانے اور باہر نكلنے كا كوئی راستہ نہیں ملتا، اسی اثنا میں خدا سے نذر كرتے ھیں كہ اگر انھیں اس قبر سے رھائی عطا كردے گا تو وہ تفسیر قرآن پر ایك كتاب تحریر كریں گے ۔ اسی رات ایك كفن چور كے ہاتھوں قبر كھلتی ھے اور وہ كفن چور قبر شگافتہ كرنے كے بعد كفن اتارنا شروع كرتا ھے تبھی علامہ اس كے ہاتھ پكڑ لیتے ھیں ۔ كفن چور خوف و وحشت سے لرز اٹھتا ھے، علامہ اس سے بات كرتے ھیں لیكن اس كے خوف و ھراس میں مزید اضافہ ھوجاتا ھے علامہ طبرسی اس كی دلجوئی كے لیے پورا ماجرا بیان كرتے ھیں اور اس كے بعد كھڑے ھوجاتے ھیں ۔ كفن چور بھی راحت كی سانس لیتا ھے اور علامہ كو جو اس وقت چلنے كی تاب نہیں ركھتے تھے اپنی پشت پر سوار كركے ان كے دولتكدہ تك پہونچاتا ھے ۔ علامہ اس كفن چور كی زحمتوں كے عوض اپنے كفن كے ساتھ كچھ روپیہ پیسہ اسے ھدیہ كرتے ھیں وہ شخص بھی ان مناظر كا مشاھدہ كرنے اور علامہ كی مدد سے توبہ كركے بارگاہ خداوندی میں اپنے سابقہ اعمال كے سلسلہ میں طلب مغفرت كرتا ھے ۔ طبرسی بھی اس كے بعد اپنی نذر كو پوری كرتے ھوئے كتاب مجمع البیان كو تاٴلیف فرماتے ہیں ۔ 21
شیخ طبرسی نے سات سال كے عرصہ میں اور شیخ طوسی كی تفسیر ” التبیان ” سے اقتباس كرتے ھوئے اپنی تفسیر كی كتاب پر تمت بالخیر كی مہر لگائی اور قرآنی فنون كو ایك ایك كركے منظّم اور مرتب سانچہ میں ڈھال كر بیان كیا ہے ۔ اس خاص نظم كی بنا پر شیعہ اور سنی علماء نے اس كو دوسری تمام تفاسیر پر فوقیت دیتے ھوئے اس كی تعریف و تمجید كی ھے ۔ 22
مجمع البیان دس جلدوں میں تدوین اور پانچ مجلدوں میں منتشر ھوئی ھے ۔ اس كا آغاز ایك فائدہ مند مقدمہ كے ذریعہ ھوتا ھے اور مندرجہ ذیل سات فنون پر گفتگو ھوتی ھے:
قرآنی آیات كی تعداد اور ان سے آشنائی كا فائدہ، قرآن كے مشہور قرّاء كے اسماء اور ان كے آراء و نظریات كا ذكر، تفسیر كی تعریف، تاٴویل اور معنیٰ، قرآن كے اسماء اور ان كے معانی، علوم قرآن اس سے مربوط مسائل اور ان سے متعلق لكھی گئی كتابوں كا تذكرہ، فضیلت قرآن و اھل قرآن كے سلسلہ كی مشہور احادیث اور ان چیزوں كا بیان جو ایك قرآن كے قاری كے لیے بہتر ھیں (مثلاً الفاظ قرآن كو خوبصورت انداز میں تلاوت كرنا) ۔
آپ بعض موارد میں آیات كے معنی كی تلاش میں اور بیشتر توضیح كے لیے مطالب كی طرف اشارہ كركے اس موضوع كو ” فصل” كا عنوان دیتے ھیں ۔ تقوا، ھدایت اور ھدیٰ كی خصوصیت، توبہ اور اس كے شرائط، اخلاص، نام محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور آخر میں لقمان حكیم كے پندوں اور حكمتوں كے انتخاب جیسے عناوین ان فصلوں كی مثالیں ھیں ۔ اسی طرح آپ كی تفسیر میں روایات اور احادیث كثیر تعداد میں ملتی ھیں كہ جو ایك ھزار تین سو سے زیادہ ھیں ۔
ب) “الكافی الشافی” الكشاف كا خلاصہ
علامہ طبرسی نے تفسیر كبیر كے نام سے مشہور مجمع البیان كی تاٴلیف كے بعد جار اللہ زمخشری كی كتاب تفسیر كشاف كو ملاحظہ كیا اور اس كی جذابیت اور فنكاریوں كو دیكھتے ھوئے اس كی تلخیص كا تہیّہ كرلیا آپ نے اس كتاب كے بدیع اور نئے مطالب اور خوبصورت الفاظ جو اپنی جگہ بےنظیر تھے كشاف سے چنے اور انھیں ایك جلد میں تاٴلیف كیا اور اس منتخب اور مختصر تفسیر كو ” الكافی الشافی” كا نام دیا ۔ 23 یہ كتاب بعض تاریخ دانوں كی كتابوں میں” الوجیزہ” كے نام سے جانی گئی ھے 24 اس لیے كہ آپ كی یہ كتاب مجمع البیان اور جوامع الجامع كے نام كی دوسری تفاسیر كی نسبت چھوٹی تھی ۔
ج) جوامع الجامع، تفسیر وسیط
یہ كتاب مجمع البیان كے بعد آپ كی سب سے مشہور كتاب ھے جو ایك سال كی مدت میں (ماہ صفر ۵۴۲ سے محرم ۵۴۳ تك) اور دونوں گذشتہ تفاسیر كے كامل ھونے كے بعد تاٴلیف كے مرحلوں سے گذری ھے 25 اس تفسیر میں انتخاب اور گلچینی مفسر كا شیوہ تھا ۔ آپ نے اس میں كوشش كی ھے كہ ان دونوں كتابوں كے اھم اور برجستہ مطالب اور ظریف نكات كو یكجا كریں اور دونوں تفسیر كبیر و وجیز كے مطالب سے صرف نظر كریں ۔ اسی طرح حسن خلاقیت اور لطافت تعبیر كہ جو آیات كے نكات كے بیان اور كیفیت توجیہ میں استعمال ھوئی ھیں اور زمخشری كی كشاف سے استفادہ، اس كتاب كے مجمع البیان سے ممتاز قرار پانے كا باعث بنی ۔ 26
علامہ نے جوامع الجامع كے بیشتر مطالب زمخشری كی كشاف سے اقتباس كیے ھیں ۔ بعض موارد میں اپنی تفسیر مجمع البیان سے بھی مطالب نقل كیے ھیں ۔ آپ كی یہ تفسیر كشاف كے مقابل امتیازات كی حامل ھے؛ مثلاً اختصار اور حذف اضافات و غیر ضروری مطالب، شیعہ طرق سے نقل احادیث جو كبھی تفسیر كشاف كے موافق ھیں اور اكثر جگہوں پر اس سے مخالف، اور شیعہ امامیہ متكلمین كے آراء كا بیان كرنا جہاں پر ان كے نظریات معتزلہ سے توافق نہیں ركھتے یا آیت كی تفسیر میں خود اپنی نظر جو زمخشری كی نظر سے موافق نہیں اس صورت میں آپ نے صاحب كشاف كی نظر سے عدول كرتے ھوئے جس چیر كو خود حق مانا ھے ذكر كیا ھے ۔ 27
فقاہت كی منزل میں
علم فقہ جو كتاب و سنت، اجماع و عقل جیسے مدارك سے احكام كے استنباط كے فن كا نام ھے شیخ كے ان ایسے دقیق علوم میں سے تھے جن میں آپ صاحب نظر تھے ۔ بزرگ علماء اور شرح حال لكھنے والوں نے آپ كو ایك عظیم فقیہ و مجتہد كے عنوان سے یاد كیا ھے ۔ 28 طبرسی نے وجود كے طفیل قرآن كی آیتوں میں سے پانچ سو سے زیادہ آیتوں كو جو عبادات اور معاملات كے احكام كے سلسلہ میں ھیں اپنی دونوں تفسیر كبیر و وسیط میں درج كركے ان پر بحث كی ھے ۔ آپ پہلے مختلف فرقوں كے اقوال كو بیان كرتے ھیں اس كے بعد شیعہ نظریہ كی تشریح كرتے ھیں پھر اپنے نظریہ كو فتویٰ كے طور پر تحریر فرماتے ھیں ۔ عالم تشیع كے بہت سے عظیم فقہاء نے آپ كی نظر كی طرف اشارہ كیا ھے جن میں سے آپ كے بعض فقہی نظریوں كی طرف اشارہ كیا جا سكتا ھے: تمام گناھوں كا كبیرہ ھونا 29، تیمم كے شرعی معنی 30 نماز و دوسری چیزوں میں استعاذہ كا مستحب ھونا 31، حج و عمرہ كے اركان و واجبات 32، جب دو دلیلوں میں تعارض واقع ھوجائے تو اس كا حكم 33، خمس 34، قبض و رھن 35، دین مفلس 36،37، شفعہ 38 ،حكم ربا 39 صائبین سے جزیہ نہ لینا 40، كافر پر حكم وقف 41، ذمی شخص پر وصیت كا جواز 42، شكار اور ذبح 43، رضاع 44، خلع و مبارات 45 خوف شقاق كا مطلب 46۔
آئینہ وحدت
مذھبی اختلافات اور لڑائی جھگڑے عصر شیخ طبرسی كی دشواریوں اور گرفتاریوں میں سے تھے ۔ اگرچہ مشرقی زمین پر سلجوقی تركوں كی حكومت نے اسلامی تہذیب میں بہت زیادہ تبدیلیاں پیدا كیں لیكن ان كی ایك مذھب كی طرف داری اور دوسرے مذاھب خصوساً شیعہ امامیہ پر سختی كی بنا پر دوسرے اسلامی فرقے اصول پر تكیہ كرنے اور اتحاد و بھائی چارے كو اھمیت دینے كے بجائے مذھبی تنازعہ كا شكار ھوگئے اور اپنے اختلافات میں اضافہ كیا ۔ شیعوں نے علوی اور آل بویہ كی حكومت كے زمانے میں قدرت و عظمت حاصل كرلی تھی لیكن غزنویوں كے عہد حكومت اور سلجوقی اقتدار كے آغاز میں ان كی سیاسی زندگی تعصب كے سیاہ بادلوں میں غروب ھوگئی اور افق حیات ان كے لیے تاریك ھوگیا ۔ اس زمانے كے بعض حكمرانوں كے بقول وہ زرتشتیوں اور مسیحیوں كے ردیف میں دینداری اور عمومی خدمات كے میدان میں آنے كی تاب نہیں ركھتے تھے ۔ 47
ان تمام دشواریوں اور مشكلات كے با وجود علمائے مذہب تشیع نے ایران میں توسعہ كی راہ میں اور كھوئی ہوئی طاقت كو آہستہ آہستہ حاصل كركے اپنی ثقافت اور عظمت كی پاسداری كی ۔ ملك شاہ كی سلطنت كے آخری سالوں میں شیعوں كی بانفوذ شخصیتوں كے ایك گروہ نے سلجوقی حكومت میں سیندھ لگا دی اور خواجہ نظام الملك كی بركناری اور كرسی وزارت كے لیے تاج الملك ابو الفضل قمی نامی ایك شیعہ شخص كے منتخب ہوجانے كے بعد مجد الملك ابو الفضل قمی جیسے شیعوں كے ایك گروہ كے لیے دربار كے دروازے كھل گئے ۔ 48
اس زمانے میں مذاھب كے علماء كے درمیان كی بحث و جدال بعض اوقات گروہوں كے درمیان تصادم اور خونریزی پر تمام ہوتی تھی ۔ سنیوں كے درمیان حنفی و شافعی مذہب جبر و اختیار، مذہب اشعری یا معتزلی كی افضلیت وغیرہ كے بارے میں اور شیعہ و سنی كے درمیان مختلف اختلافی مسائل میں اور ان سبھوں اور باطنیوں كے درمیان شدید و طویل بحثیں ہوا كرتی تھیں كہ جو مجالس كے انعقاد اور كتابوں كی تاٴلیف یا ترك عقیدہ كا تحریری اقرار اور دوسرے عقیدہ كے قبول كرنے تك پہنچتی اور كبھی ملك بدری یا قتل جیسی چیزوں پر تمام ہوتی تھیں ۔
حقیقت میں، اس صورت حال كو دیكھتے ہوئے دردمندوں اور اصلاح كے خواہاں افراد كی آرزو یعنی اتحاد و مسلمانوں كے قلوب كے ایك دوسرے سے نزدیك كرنے كے سلسلہ میں كون سا قدم اٹھایا جانا چاہیے تھا ؟ آیا معاشرہ كی زہریلی فضا كے سامنے تسلیم ہوجانا اور صف بندیوں اور مختلف دھڑوں میں بٹنے كی رغبت دلانا اور اسے رواج دینا معاشرہ كی خدمت تھی یا معاشرہ كے سخت و دشوار مسائل اور حالات سے كنارہ كشی اور خاموشی بہترین راستہ تھا ؟ بےشك یہ دونوں راستے اختلاف كی آگ كو بھڑكا رہے تھے اس بحران سے نمٹنے كے لیے ان دونوں طریقوں كے بجائے كسی بہتر اور دلیرانہ قدم كی ضرورت تھی ۔
علامہ طبرسی اس درد سے اچھی طرح واقف تھے اور فكری وحدت اور مذھبی تفاھم كے نظریہ كے احیاء اور اسے قوی بنانے اور زمانے كے تقاضوں كو دیكھتے ہوئے اور موجودہ اختلافات كو كم كرنے كی غرض سے اتحاد كے میدان میں وارد ہوئے ۔ قرآن مجید كو جو سب كے لیے محترم تھا اپنے كام كا محور بنایا ۔ روشن فكری، اعلیٰ نگاہ، وسعت قلب، قلم كی عفت اور تحقیق و تفحص میں انصاف ان بارز خصوصیات میں سے ہیں جو كتاب ” مجمع البیان ” سے عیاں ہیں ۔ انھوں نے اپنے كو چند كتابوں میں محصور نہ ركھا بلكہ موافق و مخالف دونوں كے نظریات و اعتقادات كو ملاحظہ كیا اور تحقیق و جستجو كے دامن كو اپنے نظریات كی حدوں كے پار تك لے گئے اور دوسروں كے آراء كی كھوج میں نكل پڑے ۔ وہ تمام فرقوں اور گروہوں كو ایك نظر سے دیكھتے ہوئے صحیح اور معقول باتوں كو قبول كرتے اور ان كی تقدیم و تاخیر میں كوئی خاص غرض شامل نہیں تھی ۔ اسی طرح علامہ اگر مخالف كا كوئی عقیدہ اور نظر اصولاً ان كے مذھب كے عقائد و اصول كو خدشہ دار نہ بناتا ھو تو اس كے نقل كرنے میں دریغ نہیں فرماتے تھے ۔
مولفین اور مصنفین میں بہت كم ایسا دیكھنے میں آتا ہے كہ ان كا كلام اپنے نظریہ كے مخالف پر اعتراض اور طعنہ سے خالی ہو ۔ لیكن آپنے سلف صالح كے قدم بقدم اور شیعہ امامیہ كے ائمہ كی پیروی كرتے ہوئے شیعہ مبانی اور اصول سے دفاع كو اعتدال كے لحاظ، تعصب اور افراط سے گریز اور غرور سے پرہیز میں ضم كردیا تھا اور مذاہب اسلامی كے افكار و عقائد كو ایك دوسرے سے نزیك كرنے كے سلسلہ میں قابل اہمیت خدمت انجام دی اور شیعہ و اہل سنت كے منصف مزاج علماء كے درمیان اپنے نام كو جاوداں بنا دیا ۔
علامہ سید محمد امین عاملی اس بارے میں لكھتے ہیں:” ان كی عظمت، فضیلت، علوم میں مہارت اور وثاقت ایسی باتیں ہیں جن كے بیان كی ضرورت نہیں ہے، اس دعوے كا بہترین گواہ موصوف كتاب مجمع البیان ہے ؛ یہ ایسی كتاب ہے جس میں مختلف علوم كو یكجا كردیا ھے تفسیر كے مختلف نظریوں كو بیان فرمایا اور ہر جگہ آیات قرآن كی تفسیر میں اھل بیت علیہم السلام كی احادیث كی طرف اشارہ كیا ہے ۔ انھوں نے اعتدال كو اپناتے ہوئے، بہترین اقوال كے انتخاب، ادب كی رعایت اور زبان كی احتیاط كے ساتھ فكری مخالفوں كے سامنے واضح اور قابل قبول دلائل كو جمع كیا ہے اس طرح كہ ان كے كلام میں ایسا كوئی جملہ دیكھنے میں نہیں آتا ہے جس سے كسی طرح كی مقابل سے نفرت كی بو آتی ہو یا ان كی برائی پر مشتمل ہو ۔ یہ خصوصیتیں اور امتیازات مولفین و مصنفین كی كتابوں میں بہت كم ہی نظر آتی ہیں ۔ اگر آپ جوامع الجامع كے مقدمہ میں ان كے كلام كو ملاحظہ كریں كہ كس حد تك صاحب كشاف كے علم و دانش كی تعظیم اور اس كی ثنا بجا لائے ہیں تو معلوم ہوگا كہ یہ كام ان كی عظمت انصاف اور نفس كی طہارت كے ساتھ تھا ۔ 49
زعیم سابق جامعۃالازھر شیخ محمود شلتوت، طبرسی اور ان كے آثار كو اس طرح بیان كرتے ہیں: اگرچہ طبرسی احكام و آراء كے اختلافی مسائل میں شیعوں سے مختص نظروں كو بیان كیا كرتے تھے اس طرح كہ بعض مقامات پر مذھبی جذبات كے آثار مشہود ہیں ۔ لیكن وہ ان جذبوں میں افراطی طریقہ نہیں اپناتے ہیں اور اپنے مذہب اور مخالفین پر حملہ آور نہیں ہوتے ۔ حقیقت میں جہاں تك مذاہب كے اصول اور ان كے اساسی مسائل كا مسئلہ ہے ہمیں اس انداز كو چشم پوشی كے ساتھ آرام نگاہوں سے دیكھنا چاہیے ۔ انھوں نے جتنا بھی ان كے پاس تھا یا جس قدر بھی شیخ الامت اور تفسیر میں ان كے عظیم مرجع یعنی امام طوسی مولف كتاب ” تبیان ” كے علم سے حاصل كیا تھا اس پر اكتفا نہ كی یہاں تك كہ جب جدید علوم سے آگاہ ہوئے تو اس كی طرف توجہ مبذول كرلی اور وہ صاحب كشاف كا علم تھا جس نئے علم كو شیخ طبرسی نے اپنی پرانی معلومات سے جوڑ دیا، ان كے درمیان كے اختلافات اس كام كی ركاوٹ نہ بن سكے، اسی طرح تعصب سے انجام پانے والے امور بھی اس امر سے مانع نہ ہوئے اور ہمعصری كا پردہ ان كے درمیان حائل نہ ہوسكا حالانكہ ہمعصری خود بھی ایك قسم كی ركاوٹ ہے ۔ 50
عرفہ كی شام میں غروب
امام المفسرین، امین الاسلام طبرسی اپنی انیاسی ۷۹ (یا اسّی ) سال كی بابركت اور سراپا اسلام و مسلمین كی خدمت كی زندگی گزارنے كے بعد نہم ذی الحجہ ۵۴۸ ھ شب عید الاضحی میں مغرب كے وقت شہر سبزوار میں دیار باقی كی طرف كوچ فرما گئے اور عالم اسلام كو اپنی عزا میں سیاہ پوش كركے مجلس غم برپا كراگئے ۔ 51 بعض اہل قلم حضرات نے شیخ طبرسی كو ” شہید كے عنوان سے یاد كیا ہے ۔ 52 كہ آپ كو زھر كے ذریعہ شہید كیا گیا ہے ۔ اس كے مقابل ایك گروہ نے فتنہ قبیلہ غز 53 كے زمانے میں ھی آپ كی رحلت كے واقع ہونے كو دیكھتے ہوئے آپ كی شہادت كو اس شورشی گروہ كے ذریعہ بتاتا ہے ۔ 54
علامہ كا پیكر اطہر سبزوار سے مشہد منتقل ہوا اور حرم امام رضا علیہ السلام كے قریں قتلگاہ نامی قبرستان میں دفن كیا گیا 55 آپ كی آرامگاہ خیابان طبرسی كی ابتداء میں واقع ہے اور شروع ہی سے مومنین كی زیارتگاہ بنی ہوئی ہے۱۳۷۰ش میں حرم كے مضافات میں وسعت بخشنے كے نقشہ كی بنا پر آپ كی قبر باغ رضوان میں منتقل كردی گئی ۔ 56
یادگاران
اس مقالہ كو ہم علامہ كے دو فرزندوں كو یاد كركے اختتام تك پہنچائیں گے:
1. ابو نصر حسن بن فضل بن حسن طبرسی: آپ فضائل و كمالات كے بلند مرتبہ پر فائز تھے ۔ محدث قمی نے فاضل كامل، عظیم محدث و فقیہ كے عنوان سے ان كا ذكر كیا ہے ۔ 57 انھیں كی درخوست پر والد علّام نے جوامع الجامع كی شكل عطا كی تھی ۔ ابو نصر كی اہم ترین تالیف جو باقی رہ گئی ہے ” مكارم الاخلاق ” نامی كتاب ہے ۔ 58
2. علی بن فضل طبرسی: آپ كے بارے میں كسی طرح كی معلومات سر دست حاصل نہیں ہو سكی ہیں ۔
منبع: گلشن ابرار؛ گروهی از نویسندگان / ج 1
1. طبرسی و مجمع البیان، حسین كریمان، ج۱، ص۲۰۷۔
2. مجالس المومنین، قاضی نور اللہ شوشتری، ص۲۰۲ ؛ امل الامل، حر عاملی، ج۲، ص۲۱۶۔
3. تاریخ بیہق، ابو الحسن علی بن زید بیہقی، ص۲۴۲۔
4. ریاض العلماء، میرزاعبد اللہ افندی، ج۴، ص۳۵۷؛ اعیان الشیعہ، محسن امین عاملی، ج۸، ص۳۹۸۔
5. دیكھئے: تاریخ بیہقی، تعلیقات احمد بہمنیار، ص۳۵۳؛ طبرسی و مجمع البیان، ج۱، ص۱۷۲۔
6. تاریخ بیہقی ۵۶۵ میں تاٴلیف ہوئی ہے ۔
7. تاریخ بیہقی، ص۲۴۲۔
8. البلدان، احمد بن ابی یعقوب یعقوبی، ص۳۸۔
9. روضات الجنات، میرزا محمد باقر خوانساری، ج۱، ص۶۴، مجلسی مرحوم كے شاگرد میرزا عبد اللہ افندی سے منقول ۔
10. نزھةالقلوب، حمد اللہ مستوفی، ص۶۸۔
11. تاریخ بیہق، ص۲۴۲۔
12. امین الدین و امین الاسلام فضل بن حسن طبرسی كے القاب میں سے ہیں ۔
13. ریاض العلماء ج۴، ص۳۵۷؛ مستدرك الوسائل، میرزا حسین نوری، ج۳، ص۴۸۷؛ طبرسی و مجمع البیان، ج۱، ص۳۰۰، مفاخر الاسلام، علی دوانی، ج۳، ص۴۱۲۔
14. تاریخ بیہق، ص۲۴۲؛بیہقی نے طبرسی كے ایك شعر كو بھی اپنی كتاب میں ذكر كیا ہے ۔
15. انباء الرواة، علی بن یوسف قفطی، ج۳، ص۷۔
16. تاریخ بیہق، ص۲۴۲۔
17. ایضاً۔
18. ریاض العلماء، ج۴، ص۳۴۱و۳۴۲، مقابس الانوار، شیخ اسد اللہ تستری، ص۱۴؛ روضات الجنات، ج۵، ص۳۵۷؛ طبرسی و مجمع البیان، ج۱، ص۳۱۳۔
19. معالم العلماء، ابن شہر آشوب، ص۳۱۵، امل الامل، ج۲، ص۲۱۶؛ بحار الانوار، علامہ مجلسی، ج۱، ص۳۰؛ كشف الظنون، حاجی خلیفہ، ج۲، ص۱۶۰۲؛ ایضاح المكنون، اسماعیل باشا بغدادی، ج۲، ص۴۳۳؛ الذریعہ، آقا بزرگ تہرانی، ج۲، ص۴۱؛ منتہی المقال، ابو علی حائری، ص۲۴۱؛ معجم المولفین، عمر رضا كحالہ، ج۸، ص۶۶؛ طبقات اعلام الشیعہ (قرن سادس)، آقا بزرگ تہرانی، ص۲۱۷؛ روضات الجنات، ج۵، ص۳۶۱۔
20. مجمع البیان، امین الاسلام طبرسی، ج۵، ص۱۰۔
21. ریاض العلماء، ج۲، ص۳۵۸؛ روضات الجنات، ج۵، ص۳۶۲؛ مستدرك الوسائل، ج۳، ص۴۸۷، ضمناً اسی طرح كے ایك واقعہ كی نسبت مصنف منہج الصادقین مولا فتح اللہ كاشانی متوفی ۹۸۸ كی طرف دی گئی ہے ۔ مراجعہ كریں روضات ۔
22. طبرسی و مجمع البیان، ج۲، ص۴۲، مصنف نے مذكورہ كتاب كے كچھ صفحات كو ان دونوں تفسیروں كے تقابل سے مختص كیے ہیں ۔
23. جوامع الجامع (بتصحیح ابو القاسم گرجی)، امین الاسلام طبرسی، ج۱، ص۲۔
24. منتہی المقال، ص۲۴؛ امل الامل، ج۲، ص۲۱۶؛ نقد الرجال، سید مصطفیٰ تفرشی، ص۲۶۶۔
25. الذریعہ، ج۵، ص۲۴۸؛ المستدرك علی معجم المولفین، عمر رضا كحالہ ۔ص۵۴۵۔
26. طبرسی و مجمع البیان، ج۱، ص۲۸۰۔
27. جوامع الجامع
28. روضات الجنات، ج۵، ص۳۵۷؛ مجالس المومنین، ج۱، ص۴۹۰۔
29. مسالك الافہام، شہید ثانی، ج۲، ص۳۲۱؛ الحدائق الناضرۃ، شیخ یوسف بحرانی، ج۱۰، ص۵۱۔
30. الحدائق الناضرۃ، ج۴، ص۲۴۴۔
31. ایضاً۔
32. ایضاًج۱۶، ص۱۵۷؛ج۱۷، ص۸، ۵۹، ۲۷۷، ۲۹۲و۳۰۴۔
33. جواہر الكلام، محمد حسن نجفی، ج۴۰، ص۴۲۲۔
34. كتاب الخمس، شیخ مرتضی انصاری، ص۷۴و ۲۹۷۔
35. الحدائق الناضرۃ، ج۲۰، ص۲۲۴۔
36. جواہر الكلام، ج۲۵، ص۳۲۱و۳۲۲۔
37. الحدائق الناضرۃ، ج۲۰، ص۱۶۴۔
38. مسالك الافہام، ج۲، ص۲۲۶۔
39. جواہر الكلام، ج۲۳، ص۲۹۸۔
40. الحدائق الناضرۃ، ج۲۴، ص۲۳۔
41. ایضاً، ج۲۲، ص۱۹۳و۱۹۵۔
42. ایضاً، ص۵۲۳۔
43. جواہر الكلام، ج۳۶، ص۱۴۲۔
44. ضوابط الرضاع، محقق داماد، ص۳۰؛ شرح لمعہ: شہید ثانی، ج۵، ص۱۶۵؛ كتاب النكاح، شیخ انصاری، ص۳۲۱و۳۳۹۔
45. الحدائق الناضرۃ، ج۲۶، ص۵۷۹و۶۰۵۔
46. ایضاً، ج۲۴، ص۶۲۵۔
47. سیاست نامہ، خواجہ نظام الملك طوسی، ص۲۱۵۔
48. تاریخ ادبیات ایران، ذبیح اللہ صفا، ج۲، ص۱۸۶۔
49. اعیا ن الشیعہ، ج۸، ص۳۹۸۔
50. مجلۂ مشكوة، ش۳۰، ص۲۵-۱۳، بنقل از مجلۂ رسالة الاسلام، ش۳، سال دہم ۔
51. تاریخ بیہق، ص۲۴۲؛ ریحانة الادب، ج۲۱؛ امل الامل، ج۲، ص۲۱۶۔
52. ریاض العلماء، ج۴، ص۳۴۰، روضات الجنات، ج۵، ص۳۵۷۔
53. غز قبیلہ ٔتركمن خانہ بدوشوں میں سے تھا جو بلخ اور ختلان كے مضافاتی علاقوں میں زندگی كرتا تھا ۔انھوں نے سلطان سنجر كے ساتھ جنگ میں اس كے سپاہیوں كو پسپا كردیا اور اس كے بعد خراسان كے تمام شہروں میں قتل و غارتگری كردی اور ظلم و جور اور خونریزی كو بڑھاوا دیتے گئے ۔ بہت سے كتابخانوں كو نذر آتش كرنا، مساجد كو منہدم كرنا، علمائے دین كا كشت و كشتار اس فتنہ كا نتیجہ ٹہرا ۔ مراجعہ كریں:الكامل فی التاریخ، ابن اثیر، ج۷، ص۹۹-۱۰۱ راحةالصدور، محمد ابن علی بن سلیمان راوندی، ص۱۶۷-۱۸۳۔
54. مكتب اسلام، ش ۱۰، سال اول، ص۶۷۔
55. تاریخ بیہق، ص۲۴۲؛ ریاض العلماء، ج۴، ص۳۴۵؛ قتلگاہ كو اسی مقام شہادت امام رضا كے طور پر جانا گیا ہے ۔ بعض مصنفین غسلگاہ (جہاں پر امام رضا علیہ السلام كو غسل دیا گیا تھا) كو طبرسی كا مدفن بتاتے ہیں ۔ البتہ چونكہ زمانہ قدیم میں قتلگاہ كو غسلگاہ كہا جانے لگا تھا اور بعد میں محاورہ كی زبان میں قتلگاہ سے بدل گیا اس كو حقیقت سے نزدیك سمجھا جاسكتا ہے اس لیے كہ حمید بن قحطبہ كا وہ باغ جہاں امام رضا علیہ السلام كو شہید كیا گیا تھا تفریباً ایك میل كی وسعت میں تھا اور احتمالاً امام كو اسی باغ كے كسی گوشہ میں غسل دیا گیا ہے جس كے بعد لوگ اس كو اسی نام سے ایك دوسرے سے نقل كرنے لگے ۔ مراجعہ كریں مراقدالمعارف، محمد حرزالدین، ج۱، ص۴۱۵؛ تاریخ آستان قدس رضوی، عزیز اللہ عطاردی، ج۱، ص۲۶۰۔
56. روزنامہ جمہوری اسلامی، شمارہ۳۶۶۰، ص۴۔
57. سفینة البحار،
58. الذریعہ، ج۲۲، ص۴۴۔