مہدى عج کے عدم قيام کی ادلہ
جس كا خلاصہ يہ ہے :نام : مہدى(عج) ، كنيت ، ابوالقاسم ہے والدہ : نرجس ، صيقل و سوسن نام كى كنيز تھيں _بنى ہاشم ميں سے اولاد فاطمہ زہراء ، نسل امام حسين (ع) سے امام حسن عسكرى كے بلا فصل فرزند ہيں سنہ 255 يا سنہ 256 ھ ميں شہر سامرہ ميں ولادت پائي ہے ، دو غيبت اختيار كريں گے _ ايك صغرى دوسرى كبرى _ دوسرى اتنى طويل ہوگى كہ بہت سے لوگ آپ كے اصل وجود ہى ميں شك كرنے لگيں گے _ آپ(ع) كى عمر بہت طويل ہوگى ظہور و دعوت كى مكہ سہ ابتداء كريں گے ، تلوا رو جنگ سے تحريك چلائيں گے اور سارے ظالم و مشركين كو تہ تيغ كريں گے _ تمام اہل كتاب اور مسلمان ان كے سراپا تسليم ہوجائيں گے ايك عالمى و اسلامى حكومت تشكيل ديں گے _ ظلم و بيدادگرى كا قلع و قمع كركے عالمى عدل و انصاف كى داغ بيل ڈاليں گے _ اسلام كو سركارى دين قرار ديں گے اور اس كى ترويج و توسيع ميں كوشاں رہيں گے … مسلمان ايسے مہدى(عج) كے ظہور كے منتظر ہيں _
پھر ھم ان معترضین سے یہ سوال کریں گے كہ جن لوگوں نے مہدويت كا دعوى كيا ہے _ كيا ان ميں سے كسى ميں آپ نے يہ اوصاف و علامات ديكھے ہيں تا كہ اس دعوے كے صدق كا احتمال ہو؟
مثلاً ايران كے ايك شہر ميں ايك شخص نے مہدويت كا دعوى كيا ليكن وہ امام حسن عسكرى كے فرزندہ نہ تھے، غيبت كبرى ميں نہيں رہے تھے ، طويل العمر بھى نہيں تھے پورى عمر ميں كوئي جنگ نہيں كى تھى _ ظالموں كا خون نہيں بہايا تھا ، عالمى اور اسلامى حكومت بھى نہيں بنائي تھى _ زمين كو صرف عدل و انصاف سے پرہى نہيں كيا تھا بلكہ چھوٹے سے ظلم سے بھى لوگوں كو نہيں بچا سكے تھے ، دين اسلام كو دنيا بھر ميں تو كيا پھيلاتے اس كے برعكس اسلام كے احكام و قوانين كو منسوخ كرديا تھا اور اس كى جگہ نيا آئين پيش كيا تھا ، كوئي خاص پڑھے لكھے نہ تھے ، خارق العادت كام بھى انجام نہيں ديا تھا ، با وجود اس كے كہ اپنے كئے پر پشيمان تھے ، شرمندگى كا اظہار كرتے تھے اور تختہ دار پر چڑھائے گئے _ (تلخيص تاريخ نبيل زرندى ص 135 تا ص 138)
كيا كوئي عاقل و باشعور يہ سوچ سكتا ہے كہ ايسا شخص مہدى(عج) موعود ہوگا؟
عجب بات يہ ہے كہ سيد على محمد شيرازى نے جس وقت اپنے قائم و مہدى ہونے كا دعوى نہيں كيا تھا اس وقت ‘ تفسير سورہ كوثر’ نامى كتاب لكھى تھى اور اس ميں مہدى(عج) موعود سے متعلق احاديث جمع كى تھيں كہ جن ميں سے ايك اس كے مدى ہونے كو ثابت نہيں كرتى _ بعدميں يہ كتاب اس كے اور اس كے ماننے والوں كيلئے دردسر بن گئي تھى اور بہت سے اعتراضات كھڑے ہوگئے تھے _
اس كتاب ميں لكھتے ہيں : موسى بن جعفر بغدادى روايت كرتے ہيں كہ ميں امام حسن (ع) عسكرى سے سنا كہ آپ (ع) نے فرمايا: گويا ميں ديكھ رہا ہوں كہ تم ميرے جانشين كے بارے ميں اختلاف كروگے ليكن جان لو كہ جو شخص رسول كے تمام ائمہ كى امامت كا قائل ہوگا اور صرف ميرے بيٹے كا منكر ہوگا تو اس كى اس شخص كى سى حالت ہوگى جو تمام انبياء كو تسليم كرتا ہے ليكن حضرت محمد كى نبوت كا منكر ہے اور جو شخص رسول خدا كى نبوت كا انكار كرتا ہے اس كى مثال اس شخص كى سى ہے جس نے سارے انبياء كا انكار كرديا ہے ، كيونكہ ہمارے آخرى فرد كى اطاعت بالكل ايسى ہى ہے جيسے پہلے فرد كى اطاعت كى اور ہمارے آخرى فرد كا انكار كرنا ايسا ہى ہے جيسے ہمارے اولين فرد كا انكار كرے جان لو ميرا بيٹا اتنى طويل غيبت اختيار كرے گا كہ تمام لوگوں ميں وہى شك ميں نہيں پڑے گا جس كى خدا حفاظت كرے گا _ (تفسير سورہ كوثر)
امام رضا (ع) نے دعبل سے فرمايا : ‘ ميرے بعد ميرا بيٹا محمد امام ہے اور محمد كے بعد ان كے بيٹے على (ع) امام ہيں اور على كے بعد ان كے بيٹے حسن امام ہيں اور حسن كے بعد ان كے بيٹے حجت و قائم امام ہيں كہ غيبت كے زمانہ ميں ان كا منتظر رہنا اور ظہور كے وقت انكى اطاعت كرنا چاہئے اگر دنيا كى عمر كا ايك ہى دن باقى بچے گا تو بھى خدا اسے اتنا طولانى كردے گا كہ قائم ظہور كركے دنيا كو عدل وانصاف سے پر كريں جيسا كہ وہ ظلم و جور سے بھر حكى تھى _ ليكن وہ كب خروج كريں گے _ اس سلسلہ ميں ميرے آباء و اجداد نے روايت كى ہے كہ رسول سے عرض كيا گيا _ اے اللہ كے رسول (ص) آپ كے بيٹے كب خروج كريں گے ؟ فرمايا: خروج قائم قيامت كے مثل ہے كہ جس كے وقت كو خدا كے علاوہ كوئي نہيں بتا سكتا كيونكہ وہ زمين ميں بہت گران ہے اچانك آجائے گى _ (تفسير كوثر)
ان دونوں حديثوں كو آپ نے ملاحظہ فرمايا: چند چيزوں كى تصريح كى گئي ہے اول يہ كہ قائم و مہدى(عج) موعود امام حسن عسكرى كے بلا فصل فرزند ہيں دوسرے غيبت كبرى ہے تيسرے ظاہر ہوكر زمين كو عدل و انصاف سے پر كرنا ہے چو تھے _ آپ كے ظہور كا وقت معين نہيں كيا جا سكتا _
سيد على محمد نے اپنى كتاب تفسير سورہ كوثر ميں متعدد جگہوں پر امام غائب كے وجود كا اعتراف كيا ہے اور اس كے آثار و علامات قلم بند كئے ہيں _
ايك جگہ لكھتے ہيں : امام غائب كے وجود ميں كوئي شك نہيں ہے كيونكہ اگر ان كا وجود نہ ہوگا تو پھر كسى چيز كا وجود نہ ہوگا _ آپ كا وجود روز روشن كى طرح واضح ہے كيونكہ ان كے وجود ميں شك كا لازمہ قدرت خدا كا انكار ہے اور اس كا منكر كا فر ہے _ يہاں تك لكھتے ہيں _ ہم فرقہ اثنا عشرى مسلمانوں و مومنوں كے نزديك ان كى ولادت ثابت ہوچكى ہے _ ميرى اور اس شخص كى روح آپ (ع) پر فدا جو ملكوت امر و خلق ميں موجود ہے _ غيبت صغرى ، اس زمانہ كے معجزات اور آپ كے نائبوں كے علامات بھى ثابت ہوچكے ہيں _
دوسرى جگہ لكھتے ہيں : وہ خلف صالح ہيں _ ان كى كنيت ابوالقاسم ہے ، وہ قائم بامر اللہ ہيں _ وہ دنيا پر خدا كى حجت ہيں _ وہ بقية اللہ ہيں _ آپ مہدى(عج) ہيں جو كہ خفيہ طور پر لوگوں كى ہدايت فرماتے ہيں _ ليكن ميں ان كا نام لينا مناسب نہيں سمجھتا ليكن اس طرح لونگا جس طرح امام نے ليا ہے يعنى م _ ح _ م _ د اس سلسلہ ميں آپ (ع) نے نص فرمايا ہے : خود امام نے توقيع شريف ميں فرمايا ہے جو شخص بھى مجمع عام ميں ميرا نام لے اس پر خدا كى لعنت_
اسى كتاب ميں دوسرى جگہ لكھتے ہيں : ولى عصر كى دو غيبتيں ہيں ، غيبت صغرى ميں آپ كى معتمد مقرب وكيل و نائب ہوئے ہيں ، غيبت صغرى كى مدت 74 سال ہے _ آپ كے نواب عثمان بن سعيد عمرى ، ان كے بيٹے محمد بن عثمان ، حسين بن روح اور على بن محمد سمرى ہيں _
دوسرى جگہ رقم طراز ہيں ، ايك روز ميں مسجد الحرام ميں ركن يمانى كے پاس نماز ميں مشغول تھا كہ ايك فربہ اور حسين و جميل جوان ديكھا كہ جو نہايت ہى خضوع سے طواف ميں مشغول تھا _ سرپر سفيد عمامہ اوردوش پراونى عباڈالے تھے _ ايسا لگتا تھا جيسے فارس كا كوئي تاجر ہو _ ميرے او ران كے درميان چند قدم سے زيادہ فاصلہ نہ تھا _ اچانك ميرے ذہن ميں يہ خيال پيدا ہوا كہ شائد يہ صاحب الامر ہيں _ ليكن ان كے پاس جاتے ہوئے شرم محسوس كررہا تھا _ نماز سے فارغ ہوا تو وہ جا چكے تھے ليكن مجھے يقين نہيں ہے كہ وہ صاحب الامر تھے _
ابوبصير كہتے ہيں : ميں نے امام صادق (ع) كى خدمت ميں عرض كى قربان جاؤن قائم كب خروج كريں گے ؟ فرمايا: اے ابومحمد اہل بيت ظہور كا وقت معين نہيں كرسكتے محمد نے فرمايا: ظہور كا وقت معين كرنے والا جھوٹا ہے _ (تفسير سورہ كوثر)
اس اور ايسى ہى دو سرى احاديث كا اقتضا يہ ہے كہ ائمہ اطہار (ع) نے ہرگز ظہور كا وقت معين نہيں كيا ہے بلكہ معين كرنے والوں كى تكذيب كى ہے ليكن سيد على محمد كے پيروكاروں نے اپنے پيشوا كى نص صريح كے خلاف ابو سبيد مخزومى كى ضعيف حديث تلاش كى اور فضول تاويلات سيد على محمد كے سنہ ظہور كا اس سے استنباط كيا ہے _
اس فرقہ كى رد ميں جو كتابيں لكھى گئي ہيں ان ميں ابوالبيد كى حديث پر بہت سے اشكالات وارد كئے گئے ہيں _ ابو بصير كى حديث كے مطابق جسے خود على محمد نے بھى صحيح تسليم كيا ہے اور اپنى كتاب ميں نقل كيا ، ہر وہ حديث ناقابل اعتبار ہے جو ظہور قائم كا سنہ معين كرتى ہے اور ايسى حديث سے تمسك جائز نہيں ہے خواہ وہ ابو سيد كى ہو يا كسى اور كى _
حديث ذيل بھى تفسير سورہ كوثر ميں نقل ہوئي ہے :
ايك طول حديث كے ضمن ميں امام صادق (ع) نے فرمايا: امت ہمارے قائم كا بھى انكار كرے گى _ ايك بغير علم كے كہے گا : امام پيدا ہى نہيں ہوئے ہيں _ دوسرا كہے گا : گيارہويں امام كے يہاں كوئي اولاد ہى نہيں تھى _ تيسرا اپنى باتوں سے تفرقہ ڈالے گا اور وہ بارہ ائمہ سے بھى آگے بڑھ جائے گا اور ان كى تيرہ يا دس سے زيادہ تعداد بتائيگا دوسرا خدا كا عصيان كرے گا اور كہے گا روح قائم دوسرے شخص كے بدن سے ہم كلام ہوتى ہے _
ان صريح باتوں كے باوجود جو كہ سيد على محمد نے اپنى كتاب تفسير سورہ كوثر ميں تحرير كى ہيں ، جن ميں سے بعض ہم نے بھى قلم بند كى ہيں _ ميں نہيں جانتا كہ اس كے پيروكاروں كا عقيد كيا ہے _ اگر اسے مہدى موعود و قائم سمجھتے ہيں تو علاوہ اس كے كہ يہ موضوع اہل بيت (ع) كى احاديث كے منافى ہے _ خود موصوف كى تصريحات كے بھى خلاف ہے كيونكہ اس نے امام زمانہ كو امام حسن عسكرى كا بلافصل فرزند لكھا ہے اور نام م _ ح _ م _ د اور كنيت ابوالقاسم لكھى ہے اور غيبت صغرى و كبرى كو آپ كيلئے ضرورى قرار ديا ہے _ آپ كے چاروں نائبوں كے نام بھى تحرير كئے ہيں اور مسجد الحرام كا وقاعہ بھى لكھا ہے _
اگر يہ كہتے ہيں كہ روح امام زمانہ سيد على محمد ميں حلول كرگئي تھى اور وہ مظہر امام ہيں تو يہ عقيدہ بھى باطل ہے كيونكہ اول تو يہ تناسخ و حلول ہے اور تناسخ و حلول كو علم كے ذريعہ باطل كيا جا چكا ہے _ دوسرے يہ عقيدہ ان احاديث كے منافى ہے جن كو خود سيد على محمد نے امام صادق سے نقل كيا ہے كيونكہ امام صادق (ع) نے فرمايا تھا : _ ايك گروہ عصيان كرے گا اور كہے گا روح قائم دوسرے شخص كے بدن سے كلام كرتى ہے _
اپنے پيغمبر ہونے كا انكار كيا
اگر اسے پيغمبر ياباب سمجھتے ہيں تو وہ اس كيلئے راضى نہيں تھے بلكہ اس كے قائلين كو كافر كہا ہے _ اپنى كتاب ‘ تفسير سورہ كوثر’ ميں لكھتے ہيں : ذكر اسم ربّك _ خودہي_ جو وحى اور قرآن كا دعوى كرتے ہيں وہ كافر ہيں ، جو ذكر اسم ربك كہتے ہيں وہ حضرت بقية اللہ كى بابيت كے قائل ہيں كافر ہيں _ اے خدا گواہ رہنا كہ جو شخص بھى خدائي يا ولايت كا دعوى كرے يا قرآن ووحى كا مدعى ہو يا تيرے دين ميں كم يا زيادتى كرے وہ كافر ہے اور ميں اس سے بيزار ہوں _ تو جانتا ہے كہ ميں نے ہرگز بابيت كا دعوى نہيں كيا ہے _ (تفسير سورہ كوثر)
جب سيد على محمد تفسير سورہ كوثر لكھ رہے تھے ، اس وقت ان كے دماغ ميں دعوے كا خناس نہيں تھا ، بس خود كو بہترين دانشور سمجھتے تھے _ جب انہوں نے خود كو خانہ نشين كرليا اور علما كو كام ميں مشغول ديكھتے تو افسوس كرتے تھے _
ايك جگہ لكھتے ہيں : خدا نے ميرے اوپر احسان كيا ، ميرے قلب كوروشن كرديا ميں چاہتا ہوں كہ دين خدا كو اسى طرح پہچنوا ؤں جس طرح قرآن ميں نازل ہوا اور جس پر اہل بيت (ع) كى احاديث دلالت كررہى ہيں _
اس كى طرف جن چيزوں كى نسبت دى جاتى تھى وہ اس سے رنجيدہ تھے اور ان سے بيزارى كا اظہار كرتے تھے _ ليكن بعد ميں ان پر يہ واضح ہوا كہ لوگوں كى حماقت حدسے بڑھ گئي ہے وہ صرف ميرى تمام باتوں ہى كو قبول نہيں كرتے ہيں بلكہ ان ميں اضافہ بھى كرديتے تھے _ اس وقت ان كے دماغ ميں اپنے قائم ہونے كى ہوس پيدا ہوئي اور اپنے قائم ہونے كا كھلم كھلا دعوى كرديا _
پھر يہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگران افراد كا دعوى جھوٹا تھا تو ان كے اتنے عقيدت مند و فداكار كيسے پيدا ہوئے ؟جواب میں عرض کریں گے کہ ايك گروہ كا كسى شخص كا عقيدت مند و گرويدہ ہونا اس كى حقانيت كى دليل نہيں ہے كيونكہ باطل مذاہب اور عقائد ہميشہ دنيا ميں تھے اور ہيں اور ان كے بھى سچے عقيدت مند تھے _ نادان گروہ كى استقامت و فداكارى كو ان كے پيشوا كى حقانيت كى دليل نہيں قرار ديا جا سكتا _ آپ تاريخ كا مطالعہ كيجئے تا كہ حقيقت روشن ہوجائے _ مثلاً اس زمانہ ميں بھى ، كہ جس كو علم و ارتقاء كا زمانہ كہا جاتا ہے ، ہندستان ميں ملينوں انسان ہيں جو حيوانات كى پرستش كرتے ہيں اور گائے كو عظيم المرتبت سمجھتے ہيں _ اس كا ذبخ كرنے يااس كے گوشت كھانے كو حرام سمجھتے ہيں _ اس كى بے حرمتى كو گناہ سمجھتے ہيں چنانچہ ہندو مسلم اختلافات كے اسباب ميں سے ايك گاؤكشى بھى ہے _ اسى طرح ہندو بندروں كا بھى احترام كرتے ہيں اور بندر آزادي كے ساتھ لوگوں كو پريشان كرتے ہيں اور كوئي انھيں كچھ نہيں كہہ سكتا _ چنانچہ حكومت كے آدمى انھيں احترام كے ساتھ شہر سے پكڑتے ہيں اور جنگلوں ميں چھوڑ آتے ہيں _
(انتخاب از آفتاب عدالت از علامہ امینی رہ)