عا لمی رسالت کا مفہو م

261

 یقینا ایک پیغمبر کے تمام لو گو ں کے لئے مبعوث نہ کئے جا نے کی مختلف وجہیں ہو سکتی ہیں :ایک دفعہ ممکن ہے تمام قو مو ں سے رابطہ بر قرار کر نے کے مروجہ وسا ئل اس کے پا س نہ ہو ں، یا پیغمبر کے اختیار میں اصو لی طور پر اس طرح کا فریضہ انجام دینے کے لئے مو قع نہ ہو ۔ سب جا نتے ہیں کہ گز شتہ زما نوں میں دور دراز علا قو ں سے رابطہ بر قرار کر نا آسان کام نہیں تھا اور بعض دور دراز ملکو ں کا سفر کر نا عام طور پر ایک غیر ممکن امر شمار کیا جا تا تھا ۔ظا ہر ہے ایسے حا لات میں جبکہ سفر کے وسائل بالکل ابتدا ئی تھے اور ایک شخص کے لئے پو ری دنیا سے رابطہ بر قرار کر نے کا امکان نہیں تھا ۔ممکن ہے کو ئی کہے اگر چہ گز شتہ زما نوں اور دور دراز علا قو ں سے عام طور پر رائج طریقو ں سے رابطہ بر قرار کر نا ممکن نہ رہا ہو لیکن الٰہی انبیاء علیہم السلام کے لئے کسی غیر معمو لی طریقے ، مثلاً معجزہ وغیرہ سے کام لیکر اس کام کا انجام دینا مسلم طور پر ممکن تھا ۔ ا س کے جوا ب میں اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ تا ریخی شو ا ہد کی روشنی میں انبیاء علیہم السلام کی روش یہ رہی ہے کہ اس طرح کے مو قعو ں پر وہ غیرمعمولی طریقے یعنی معجزے وغیرہ سے کام نہیں لیتے تھے۔ خدا کے پیغمبر مخصوص مقا مات پر ہی معجزہ دکھا نے کا اقدام کیا کر تے تھے اور یہ مقا مات بھی صرف ان کی رسالت اور دعوتِ تبلیغ کے الٰہی ہو نے کی تائید سے تعلق رکھتے ہیں دعوت تبلیغ میں آسانی کے لئے وہ اعجاز کا سہا را نہیںلیتے تھے ۔بہر حال یہ بات مسلّم ہے کہ تمام قو موں اور ملّتوں کے ساتھ رائج طریقہ سے رابطہ بر قرار کر نا تمام انبیا ء کے لئے ممکن نہیں تھا اور بظا ہر دنیوی وسائل سے ما فوق غیر معمو لی طریقوں سے استفا دہ کرنے پر وہ ما مور بھی نہیں تھے ۔ مذ کو رہ مفہو م کی بنیاد پر یہ ادّعا کیا جا سکتا ہے کہ صرف پیغمبر اسلا م ۖ کی رسالت پو ری دنیا کے لئے عا لمی رسالت تھی اور آپ اپنی دعوتِ تبلیغ میں غیر عرب اقوام تک الٰہی پیغام پہنچا نے کے لئے ما مور کئے گئے تھے لیکن بقیہ تمام انبیاء کی رسالت بظاہر عا لمی رسالت نہیں تھی ۔یہا ں ، چند با توں پر تو جہ ضر وری ہے :پہلی بات یہ کہ جن قو مو ں میں تبلیغ کے لئے پیغمبر بھیجے گئے تھے ان سے مراد قو مو ں کی ایک ایک فرد نہیں بلکہ جو کچھ ان سے توقع تھی نیز جو چیز پیغمبر کے فرا ئض میں شا مل تھی اپنا پیغام قو مو ں کے سردار تک پہنچا دینا رہا ہے ۔دوم یہ کہ تبلیغ رسالت کی ذمہ داری چا ہے پیغمبر اکرم ۖکے دور حیات میں پو ری ہو یا اُنکی وفا ت کے بعد آپ کی وفا ت کے بعد آپکے او صیاء یعنی ائمہ معصوم کے ذریعہ پو ری ہو دو نوں کو شا مل ہے۔سوم یہ کہ پیغمبر اکرم ۖ کا اپنی عمو می اور عالمی رسالت پر فا ئز ہو نا اس معنی میں نہیں ہے کہ اب اس کا م کی راہ میں حا ئل تمام عملی رکا وٹیں بر طرف ہو گئی ہیں بلکہ بہت سے مقا مات پر آپ کو تبلیغ میں رکاوٹوں کا سامنا کر نا پڑتا تھا اور ایسی صورت میں مسلمہ طور پر پیغمبر اکرم ۖ کے کا ندھو ںسے اس کی ذمہ داری اٹھا لی گئی ہے ۔
تمام الٰہی انبیاء علیہم السلام پر ایمان ضروری ہےہم عرض کر چکے ہیں کہ تا ریخی شوا ہد کے مطابق پیغمبر اکرم ۖ سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کی رسالت عا لمی نہیں تھی لیکن اس بات کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر ان انبیاء کی قو مو ں کے علا وہ کو ئی شخص ان کی دعوت سے آگا ہ ہو جا ئے تو اس کے لئے اس دعوت سے انکا ر جا ئز ہو ۔ جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ”راہ کی معر فت ”میں بحث کے آخری حصے میں عرض کیا تھا کہ نبو ت ایک الٰہی سلسلہ ہے اور ہر مو من کے لئے تمام انبیا ء علیہم السلام پر ایمان لا نا ضروری ہے اس با رے میں قر آ ن کریم فرماتا ہے :(ئَ ا مَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہِ وَالْمُؤْ مِنُوْ نَ کُُلّ ئَ ا مَنَ بِاﷲِ وَمَلٰئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہِ۔۔۔)(١)” رسول ان تمام با توں پر ایمان رکھتا ہے جو اس(خدا ) کی طرف نا زل کی گئی ہیں او رمو منین بھی سب اﷲ اور ملا ئکہ اور مر سلین پر ایمان رکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم رسو لوں کے درمیان تفر یق نہیں کر تے ۔۔۔”۔اس بناء پر اگر کوئی کسی کو کسی پیغمبر کی رسالت کا علم دے اوروہ اس پیغمبر کی رسالت پر ایمان نہ لائے توگویا اس نے تمام انبیاء علیہم السلام کی رسالت کا انکار کردیا ہے ۔یہ حکم اسی طرح ان افراد کے لئے بھی ہے جو کسی نبی کی قوم میں شمار نہیں ہوتے یعنی جس قوم کے درمیان پیغمبر مبعوث کیاگیا ہے ۔ان میں نہیں ہیں مثال کے طور پر چین میں زندگی بسر کرنے والا اگر اس بات سے باخبر ہوکہ مشرقی وسطیٰ میں اس علاقے کی قوموں کیلئے ایک پیغمبر مبعوث ہواہے تو اس پر اس پیغمبر اکرم ۖ کی دعوت کاقبول کرنا لازم ہے۔اب ممکن ہے یہ سوال پیدا ہوکہ مذکورہ اصول کے تحت ایک شخص جو دو پیغمبروں کے دور حیات میں زندگی بسر کررہا ہو اگر دونوں پیغمبروں کی رسالت سے آگاہ ہوجائے اور ان دونوں پیغمبروںکی شریعت کے بعض احکام میں اختلاف بھی پایا جاتاہو توایسے میںاس شخص کا کیا فریضہ ہے ؟اس سوال کے جواب میں کہناچاہیے کہ:اگر بالفرض دو ہم عصر انبیاء علیہم السلام کے درمیان اختلاف ہو تو یہ اختلاف صرف اسی صورت میں قابل تصور ہے کہ ان دونوں میں سے ایک پیغمبر کسی خاص گروہ کیلئے خاص احکام لیکر مبعوث ہواہو اس صورت میں اگر منظور نظر شخص مذکورہ گروہ سے الگ ہو(جیسا کہ کچھ خاص احکام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں صرف قوم یہود سے مخصوص تھے)تو اس پر ان مخصوص احکام کا بجالانا لازم نہ ہوگا مثال کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں کوئی غیر یہودی شخص اگر آنحضرت کی رسالت سے با خبر ہوجائے تواس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن اس شخص پر یہودی قوم سے مخصوص احکام پر عمل کرنا لازم نہیںہے جبکہ اس پر بقیہ تمام احکام وقوانین کی اطاعت لازم ہے ۔قرآن کریم کی آیات کے مطابق اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جنوںکا ایک گروہ حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیااور اسکے بعد حضرت رسول خدا ۖ کی رسالت کا علم ہوجانے کے بعد انھوں نے دین اسلام کو قبول کرلیا ۔ حالانکہ ہمارے پاس کوئی دلیل ایسی نہیں ہے جو اس چیز پر دلالت کرتی ہوکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جنوں کے لئے مبعوث نہیں کئے گئے تھے ان کا ایک گروہ توریت کے نازل ہونے کی خبر ملنے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام پرایمان…………..١۔سورئہ بقرہ آیت ٢٨٥۔لے آیا۔ قر آن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :(وَاِذْصَرَفْنَااِلَیْکَ نَفَراًمِنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرآنَ فَلَمّٰاحَضَرُوْہُ قَالُوْاأنْصِتُوافَلَمَّاقُضِیَ وَلَّوْااِلَیٰ قَوْمِھِمْ مُنْذِرِیْنَ٭قَالُوْایَٰقَوْمَنَااِنَّاسَمِعْنٰا کِتَاباً اُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسَیٰ مُصَدِّقاً لِمَابَیْنَ یَدَیْہ یَہدِیْ اِلیٰ الحَقِّ وَاِلَیٰ طَرِیقٍ مُسْتَقِیْمٍ)(١)”اور جب ہم نے جنات سے ایک گروہ کو آپ کی طرف متوجہ کیا کہ قرآن سنیں تو جب وہ حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے کہ خاموشی سے سنو پھر جب تلاوت تمام ہوگئی تو فوراً پلٹ کر اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر آگئے کہنے لگے کہ اے قوم والوہم نے ایک کتاب کو سنا ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے یہ اپنے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور حق و انصاف اور سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والی ہے ”۔جنوں نے یہ جو کہا ہے کہ:”مِنْ بَعْدِ مُوسَیٰ””موسیٰ کے بعد”اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا درمیان میں کوئی ذکر نہ کرنا بتاتا ہے کہ ابھی تک وہ (جن)حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی پیروی کررہے تھے اور قرآن سے آشنا ہوجانے کے بعد انھوں نے اپنی قوم کے پاس جاکران کو اسلام کی دعوت دی۔سورئہ مبارکہ جن میں بھی اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے:(قُلْ اُوحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَر مِنَ الجِنِّ فَقَالوُااِنّاسَمِعْنَاقُرْآناًعَجَباً۔یَہْدی اِلیَ الرُّشْدِ فَآمَنَّابِہِ۔۔۔)(٢)”پیغمبر اکرم آپ کہہ دیجئے کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر قرآن کو سنا توکہنے لگے کہ ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو نیکی کی ہدایت کرتا ہے پس ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں۔۔۔”۔بہر حال یہ آیتیں اس بات کی شاہد ہیں کہ اگر کوئی مکلّف کسی پیغمبر کی رسالت سے باخبر ہوجائے تو اس کو اسپیغمبر ۖکی رسالت قبول کرنا چاہئے چاہے وہ پیغمبر اس قوم کی طرف مبعوث نہ کیاگیا ہواور رسالت قبول نہ کرنے کے بعد اس پیغمبر کی تعلیمات کو بھی صحیح سمجھے اور اس کے عام احکام کی (جو کسی قوم یا گروہ سے مخصوص نہ ہوں ) اطاعت و پیروی کرلے ۔…………..١۔سورئہ احقاف آیت٢٩۔٣٠۔٢۔سورئہ جن آیت١۔٢۔البتہ الٰہی انبیاء کی رسالت کے پیغامات پر سرسری نظر ڈالنے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کسی قوم یا گروہ کے لئے مخصوص احکام انگلیوں پر گنے چنے ہی ملیں گے۔مجموعی طور پر انبیاء کی تعلیمات کی روح سبھی کے لئے مشترک احکام اور اصول پر استوار ہوتی تھی ۔مثال کے طور پر نماز اور زکوٰة کی مانند عبادتیں تمام ادیان میں تھیں اور ان میں زیادہ سے زیادہ اختلاف ان اعمال کی شکل و صورت میں رہاہے اسی طرح دوسرے احکام جیسے ظلم اور زیادتی کرنے کم تولنے،غیبت کرنے ،شراب پینے زنا کرنے وغیرہ کی ممانعت اور معاشرتی اور خاندانی تعلقات سے متعلق قوانین تمام دینوں میں بیان کئے گئے ہیں ۔بہر حال مندرجہ بالامطالب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ایک پیغمبر کی رسالت کے عالمی ہونے کا مسئلہ اور یہ کہ علم کی صورت میں ایک پیغمبر کی رسالت پر پوری دنیا کا ایمان لانا ضروری ہوتا یہ دو الگ الگ مسئلے ہیں اور ایک دوسرے سے جداہیں اس بناء پر بہت سے انبیاء کی رسالت کے عالمی رسالت نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عوام الناس ان کی تائید یا تکذیب کے سلسلے میں آزاد و خود مختار ہوںبلکہ اگر کسی پیغمبر ۖکی رسالت پر ایمان لاناہر مکلّف کا فریضہ ہے اور نبی کی تکذیب کی صورت میں اسکا عذر ہرگز قابل قبول نہیں ہے ۔ہم پہلے یہ بات عرض کرچکے ہیں کہ بعض علماء کے نزدیک بعض انبیاء علیہم السلام کے فرائض دو قسم کے تھے:پہلافریضہ: تو حید کی دعوت دیناتھا ۔دوسرا فریضہ :ان تمام اصول اور احکام کی دعوت دینا تھا جو کسی خاص قوم سے مخصوص ہوتے تھے ۔مذکورہ گز ارشات کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں ہے اس لئے کہ انبیاء کے تمام احکام و قوانین ان تمام افراد کے لئے لازم العمل ہیں جو ان کی رسالت سے آگاہ ہوجائیں قرآن کریم کے مطابق خدا کے پیغمبر جس طرح لوگوں کو خدا کی وحدانیت کی دعوت دیا کرتے تھے ان کو مطلق طور پر اپنی اطاعت اور پیروی کی دعوت بھی دیتے تھے قرآن کریم فرماتاہے :(وَمَااَرْسَلْنَامِنْ رَسُولٍ اِلّالِیُطَاعَ بِِذْنِ اﷲِ۔۔۔)(١)”اور ہم نے کسی بھی رسول کو نہیں بھیجا ہے مگر یہ کہ حکم خدا سے لوگ ان کی اطاعت کریں ۔۔۔”۔…………..١۔سورئہ نساء آیت٦٤۔قرآن کریم نے بہت سے انبیائے الٰہی کی زبانی اعلان کیا ہے :(فَاتَّقُوْا اﷲَ وَاَطِیْعُوْنِ)(١)”پس تم خدا سے ڈرواور میری اطاعت کرو ”۔اور ایک آیت میں ار شاد ہو تا ہے :(تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَیٰ عَبْدِہِ لِیَکوُنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً)(٢)”بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ سارے عالمین کے لئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والابن جائے ”۔اس بناء پر ایسا نہیں ہے کہ مثلاً مصر کے قبیلوں سے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت (چونکہ بنی اسرائیل کے ہم قوم نہیں تھے )اس بات میں محدودہوکہ وہ ان کو بھی بت پرستی چھوڑنے اور خدائے وحدہ لاشریک کی پرستش کرنے کی دعوت دیں لیکن ان کی اعتقادی یا عملی رخ سے اس منزل کی طرف رہنمائی سے پرہیز کریں ۔ ایسا نہیں ہے بلکہ (جیساکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں )اگر یہ تسلیم کرلیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام شروع میں صرف بنی اسرا ئیل کے لئے مبعوث کئے گئے تھے تو بھی آپ کی دعوت کے دائرے میں قبطیوں کے آجانے کے بعد موسیٰ علیہ السلام پر لازم ہوگیا تھاکہ ان کو بھی اپنی تعلیمات سے(تمام تفصیلات کے ساتھ)آگاہ کردیں اور خود ان (قبیلوں) کا بھی فریضہ تھاکہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو قبول کریں اور اسکے تمام احکام پر (سوائے ان قوانین کے جو یہودی قوم سے مخصوص تھے ) عمل کریں ۔…………..١۔یہ تعبیر متعدد آیتوں میں متعدد پیغمبروں کی زبانی نقل ہو ئی ہے ۔مثال کے طور پر ملا حظہ فر ما ئیں سورئہ آل عمران آیت٥٠ اور سورئہ شعراء آیت١١٠ ،١٤٤ ،١٦٣ ۔٢۔سورۂ فرقان آیت ١۔
انبیاء علیہم السلام کی رسالت کا عالمی ہوناگفتگو کے اس حصہ میں بیان کئے گئے مطالب سے صاف صاف یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ایک معنی کے لحاظ سے اگر رسالت کے عالمی ہونے کا جائزہ لیں تو بہت سے انبیاء علیہم السلام کو پوری دنیا کیلئے نہیں بھیجا گیاتھا لیکندوسرے معنی کے لحاظ سے تمام انبیاء علیہم السلام کی رسالت پوری دینا کیلئے تھی یعنی اگر رسالت کے عالمی ہونے کامطلب یہ ہو کہ پیغمبر کا فریضہ ہے وہ اپنی تعلیمات صرف اپنی قوم تک محدود نہ رکھے بلکہ دنیا کی تمام یا کم از کم اہم قوموں تک ضرور پہنچائے تو اس معنی میں بہت سے پیغمبر یہاں تک کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی رسالت بھی عالمی رسالت نہیں تھی لیکن اگر عالمی رسالت کا مطلب یہ ہو کہ متعلقہ تمام ”قوموں تک سابقے کی صورت میں اپنی رسالت کا پیغام پہنچانا نبی پر لازم ہے اور کسی نبی کی نبوت سے آگاہ ہونے کے بعد تمام مکلفین پر اس کی اطاعت و پیروی لازم ہے ”تو اس معنی میں تمام انبیاء کی رسالت عمومی اور عالمی رسالت تھی ۔
پیغمبر اسلام ۖکی رسالت کا عالمی ہونااگر چہ پیغمبر اسلام ۖکی عالمی رسالت پر گفتگو ۔ نبوت خا صہ کی بحث میں(پیغمبر اسلام ۖ سے متعلق بحث کے تحت ) کی جا تی تو زیادہ منا سب ہو تا مگر یہا ں مجمو عی طور پراس مسئلہ کا بیان کر دینا بھی شا ید بے جا نہ ہو گا ۔ بنیا دی سوال یہ ہے کہ ” کیا پیغمبر اسلام ۖ عالمی رسالت کے حا مل تھے ؟”ایسا محسو س ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ کی رسالت کا عا لمی ہو نا اسلام کے ضر وریات دین میں سے ہے ۔ پھر بھی منا سب معلوم ہو تا ہے (خا ص طور سے مخا لفین نے جو شبہات ایجا د کئے ہیں ) ان کو بر طرف کر نے کے لئے فر یقین کی دلیلو ں کا جا ئزہ لیں اور اپنا مد عا علمی دلا ئل سے ثا بت کریں ۔ اس بحث میں اُن آیات کا جو اسلام کی عالمی رسالت کو ثابت کر تی ہیں اور ان آیات کا جن سے مخا لفین نے استفا دہ کیا ہے تحقیقی جا ئزہ لینا ضر و ری ہے ۔قرآن کریم کی کچھ آیات با لکل واضح طور پر دعو ت اسلام کے عا لمی ہو نے پر دلالت کر تی ہیں ایک آیت میں ارشاد ہو تا ہے :(تَبَارَ کَ الَّذِ یْ نَزَّ لَ الْفُرْ قَا نَ عَلَیٰ عَبْدِ ہِ لِیَکُوْ نَ لِلْعَٰلَمِیْنَ نَذِ یْراً )(١)”وہ ذات (خدا )بہت با بر کت ہے جس نے اپنے بندے پر فر قان (یعنی حق کو با طل سے جدا کر نے والی کتاب )نا زل کی تا کہ تما م دنیا ؤ ں کے لئے ڈ را نے والا ہو ”۔یہ آیت صاف طور پر دلالت کر تی ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ تمام عالمین کے لئے ”نذ یر ” بنا کر مبعو ث کئے گئے ہیںاور انذار یعنی خبر دار کر نے کا فریضہ (جو آپ کی رسالت اور پیغمبری کا حصہ ہے ) کسی خاص قوم یا گروہ سے مخصوص نہیں ہے ایک اور مقام پر قرآن، نبی اسلا م ۖکی زبا نی کہتا ہے:…………..١۔سورئہ فر قان آیت١۔(۔۔۔وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ھَذَا الْقُرآنُُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمنْ بَلَغَ )(١)”۔۔۔اور یہ قرآن مجھ پر اس لئے وحی کیاگیاہے کہ میںتمھیںاورجس شخص تک اس کاپیغام پہنچے اس کے ذریعہ اسے ڈراؤں۔۔۔”۔جیسا کہ آپ نے ملا حظہ فر مایا کہ اس آیت میں ” مَنْ بَلَغَ ”ایک عمو می تعبیر ہے ”کہ جس تک بھی یہ پیغام پہنچے”یعنی اسلا می دعو ت کے تحت آنے وا لے تمام افراد چا ہے (وہ کسی بھی قوم و گروہ اور وہ کسی بھی جگہ اور زمانہ سے کیو ں نہ تعلق رکھتے ہو ں )سب شا مل ہیں ۔ قرآن ایک آیت میں فر ماتا ہے :(وَمَااَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَةًلِلْعَٰلَمِیْنَ)(٢)”اور (اے رسول )ہم نے آپ کو دنیا ؤں کے لو گو ں کیلئے سر ا پا رحمت بنا کر بھیجا ہے ”۔البتہ آخر ی آیت دلا لت کے لحا ظ سے پہلی دو آیتو ں کے ما نند نہیں ہے اس لئے کہ ”پیغمبر کا تمام دنیا ؤں کے لئے رحمت ہو نا ”صاف طو ر پر تمام دنیا ؤ ں کے لئے مبعوث ہو نے پر بھی دلالت نہیں کرتا لیکن اس کے با وجود آخری آیت سے بہ ظا ہر یہ مطلب بھی نکلتا ہے کیو نکہ پیغمبر اکرم ۖکے رحمت ہو نے میں یقینی طور پر وہ رحمت شا مل ہے جو را ہِ حق کی ہدا یت اور امت کی رہنما ئی کے ذریعہ ان کو نصیب ہو تی ہے ۔قر آ ن کریم کی بعض آیتیں اس چیز کو بیان کر تی ہیں کہ دینِ اسلام تمام ادیان پر غالب آجا ئے گا ۔ اور اس طرح کی آیا ت بھی اپنی جگہ پیغمبر اسلام ۖکی رسالت کے عا لمی ہو نے پر دلالت کر تی ہیں :(ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْ لَہُ بِالْھُدَیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَیٰ الدِّ یْنِ کُلِّہِ وَ کَفَیٰ بِاﷲِ شَھِیْداً)(٣)” وہ وہی توہے جس نے اپنے رسو ل کو ہدایت کے(قصد) سے سچادین دے کر بھیجا تا کہ اس کو تمام ادیا نِ عالم پر غالب بنا ئے اور گو اہی کے لئے توبس خدا ہی کا فی ہے ”۔…………..١۔سورئہ انعام آیت١٩۔٢۔ سورئہ انبیاء آیت١٠٧۔٣۔سو رئہ فتح آیت٢٨۔اسی مطلب کو قر آ ن حکیم کی دو آیتوں میں بھی بیان کیا گیا ہے خدا فر ماتا ہے:(ھُوَالَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْھُدَیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہُ عَلَیٰ الدِّیْنِ کُلِّہ ِوَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ)(١)”وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسو ل کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا ئے چا ہے مشر کین کو کتنا ہی نا گوا ر کیو ں نہ ہو ”۔یہ آیتیں صاف صاف اس چیز پر دلالت کر تی ہیں کہ دین اسلام دنیا کے تمام ادیان پر غالب و کا مران ہو گا اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گا یا کم سے کم دو سرے ادیان پر دین اسلام چھا جا ئیگا اور یہ حقیقت دین اسلام کے عالمی ہو نے کے علاوہ اور کچھ بیا ن نہیں کر تی ۔یہا ں یہ بات بھی لا ئق ذکر ہے کہ ”غلبہ ”کے مفہو م میں دو احتمال پا ئے جا تے ہیں :١۔غلبۂ تشر یعی ۔٢۔غلبۂ تکو ینی ۔پہلے مفہوم سے جو بات لا زم آتی ہے وہ ہما رے مد عا سے بہت قر یب ہے اس لئے کہ اس کا کو ئی مطلب ہی نہیں ہو گا کہ دین اسلام تو عا لمی نہ ہو لیکن اس کے اصو ل و قو انین دو سرے تمام ادیان کے اصو ل و قو انین پر حا کم ہوجا ئیں اور اگر دوسرے معنی بھی مرا د لئے جا ئیں تو آیت کا سیاق اس چیز کو بیان کر رہا ہے کہ یہ غلبہ وہ استحقاق ہے جو دین اسلام کی ذاتی صلا حیتو ں کا نتیجہ ہے اور تمام ادیان پر غلبہ کی صلا حیت صرف اسلام کی عا لمی دعو ت کے ساتھ ہی معقول ہو سکتی ہے ۔ بنا بر این اگر اسلام کے تمام ادیان پر غالب آجا نے سے مراد حتی اس کا تکو ینی غلبہ ہو تو یہ غلبہ بھی اسلامی احکام و شریعت کے دو سرے تمام احکام و قو انین پر غالب آجا نے کو فرض کئے بغیر قا بلِ تصو ر نہیں ہے ۔قر آ ن کی آیات کا دو سرا مجمو عہ وہ ہے جس میں پیغمبر اسلام کا ” ناس ”یعنی (انسانوں) کے درمیان مبعوث ہو نا اور قرآن کا ” ناس ”کے لئے نا زل ہو نا ذکر ہو ا ہے ۔ مثال کے طور پرسورئہ ابراہیم کا اس طرح آغاز ہو اہے 🙁 کِتَٰاب اَنْزَلْنا ہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِ جَ النّاسَ مِنَ الظُّلُمَٰتِ اِلَیٰ النُّوْرِبِاِ ذْنِ رَبِّھِمْ اِلَیٰ صِرَاطِ الْعَزِیْزِالْحَمِیْدِ)(٢)…………..١۔سورئہ صف آیت٩،اور سورئہ تو بہ آیت٣٣۔٢۔سورئہ ابرا ہیم آیت١۔” (اے رسول یہ قر آن وہ) کتا ب ہے جو ہم نے آپ کی طرف اس لئے نا زل کی ہے تا کہ آپ لو گو ں کو حکمِ خدا سے تا ریکیو ں سے نکا ل کر روشنی میںلا ئیںاس کی سیدھی راہ پر لا ئیں جو سب پر غالب اور سزا وا ر حمد ہے” ۔اسی طرح دوسری آیت میں بیان ہو ا ہے :(ھَٰذابَلَٰغ لِلنَّا سِ وَلیُنْذَرُوْا بِہِ)(١)”یہ قرآن لو گو ں کے لئے ایک پیغام ہے (تاکہ اسی کے ذریعہ ہدایت یا فتہ ہو جا ئیں ) اور اس کے ذریعہ (عذا ب خدا سے )ڈرتے رہیں ”۔کچھ دوسری آیتوں میں قر آن کریم کا ایک ایسی کتاب کے عنوان سے ذکر ہے جو سا ری دنیا کے لئے بھیجی گئی ہے :(اِنْ ھُوَ اِلَّاذِکْرلِلْعَٰا لَمِیْنَ )(٢)” اوریہ( قر آن) تو عا لمین کے لئے سوا ئے نصیحت کے (کچھ نہیں )ہے ”۔(وَمَا ھُوَ اِلَّا ذِکْر لِلْعَٰلَمِیْنَ )(٣)”اور حا لانکہ یہ( قرآن )تو سا رے جہان کے وا سطے سوا ئے نصیحت کے اور کچھ نہیں ہے ” ۔چو نکہ ” ناس” یعنی ”لوگ ” اور عا لمین ”یعنی تمام دنیا ئیں ”جیسے الفاظ صاف طور پر قر آ ن کریم اور پیغمبر کی رسالت کے مخا طبین کی عمو میت پر دلا لت کر تے ہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ آیات بھی رسالت اسلام کے مکمل طور پر عالمی ہو نے کی دلیل ہیں۔…………..١۔سورئہ ابرا ہیم آیت ٥٢۔٢۔سورئہ یو سف آیت١٠٤ ،سورئہ ص آیت٨٧اور سورئہ تکو یر آیت٢٧۔٣۔سورئہ قلم آیت٥٢۔
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.