آیت اللہ موسوی لاری ایک انتھک مبلغ
کہا جاتا ہے عالم کی موت عالم کی موت ہوتی ہے۔ گذشتہ دنوں ایک عظیم عالم دین نے اس دنیا کو الوداع کہا، آیت اللہ سید مجتبٰی موسوی لاری کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی ساری عمر حقیقی اسلام کی تبلیغ میں گذار دی۔ انہوں نے جوانوں کو درپیش سوالوں اور شبہات کا جواب دینے میں بڑی محنت سے کام لیا اور اپنی مفید کتابوں کے ذریعے انہیں شافی جواب فراہم کرنے کی کوشش کی۔ فی زمانہ اسلامی عقائد و تعلیمات پر کئے گئے اعتراضات کا نہایت مدلل اور شافی جواب دینے میں شاید ہی آپ کی نظیر مل سکے۔ اب تک بے شمار افراد آپ کی کتابیں پڑھ کر مسلمان ہوچکے ہیں۔ آیت اللہ سید مجتبٰی موسوی لاری متقی، پرہیزگار، شہرت پسندی سے دور، ایسے عالم دین تھے جنہوں نے ایک چھوٹے سے گھر سے ساری دنیا میں عشق اھل بیت (ع) کی روشنی پھیلائی اور اھل عالم کو مکتب اھل بیت (ع) سے آشنا کرکے ان کی سعادت و ھدایت کا سامان فراہم کیا، انہیں دین اسلام کی طرف مائل کیا۔ آیت اللہ موسوی لاری انیس سو پینتیس میں ایران کے جنوبی علاقے شیراز کے شہر لار میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے ملتا ہے۔ ماں باپ نے آپ کا نام مجتبٰی رکھا۔ آپ نے مومن اور دیندار والدین کے زیر سایہ زندگی کی شروعات کیں۔ آپ کے والد بھی معروف عالم دین تھے۔ متقی اور پرہیز گار والدین کی آغوش محبت آپ کی پہلی درسگاہ تھی۔ سید مجتبٰی نے لار ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور اسکے ساتھ ساتھ اپنے والد سے اسلامی تعلیم بھی لیتے رہے۔ انیس سو ترپن میں آپ اٹھارہ برس کی عمر میں اعلٰی دینی تعلیم کے لئے حوزہ علمیہ قم تشریف لے آئے۔ آیت اللہ موسوی لاری نے بزرگ علماء کے سامنے زانوے ادب تہ کرکے علمی مدارج طے کئے اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔
آیت اللہ مجتبٰی لاری جوانی میں معدے کی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے، لیکن بیماری اور درد انہیں کبھی بھی علمی جدوجہد سے نہیں روک سکے۔ انہوں نے جوانی میں ہی اپنے اساتذہ کی حوصلہ افزائی سے دینی رسالوں میں مقالات لکھنے شروع کئے۔ ان کے مقالات اس زمانے کے ایران کے معروف علمی مجلے “مکتب اسلام” میں بھی شایع ہوتے تھے، جن سے ان کے علمی معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یاد رہے “مکتب اسلام” میں بزرگ اساتذہ جیسے آيت اللہ ناصر مکارم شیرازی اور آيت اللہ شہید مطہری کے مقالے شایع ہوتے تھے۔ گرچہ آیت اللہ مجتبی موسوی لاری ابھی جوان تھے لیکن اخلاقی مسائل پر مضامین لکھ کر اس مجلے سے تعاون کرتے تھے۔ یہ مضامین کتابی صورت میں بھی شایع ہوئے ہیں، جس کا نام اخلاقی اور نفسیاتی مسائل ہے۔ آیت اللہ موسوی لاری نے علاج کے لئے انیس سو ترسٹھ میں جرمنی کا سفر کیا۔ علاج کے غرض سے ان کے دورہ یورپ سے ان کے لئے نئے نئے افق کھلے، انہوں نے بڑے قریب سے مغربی تہذیب کو دیکھا، اس کا جائزہ لیا اور اسے سمجھنے کی کوشش کی، لیکن اس کے ظاہری زرق و برق کے فریفتہ نہیں ہوئے اور نہ ہی اس کی چال میں آئے بلکہ انہوں نے اھل مشرق کو مغربی تہذیب و تمدن سے آشنا کرنے کے لئے ایک نہایت مفید کتاب لکھ ڈالی، جو اسلامی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی۔ آیت اللہ موسوی لاری نے اس کتاب میں اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کا موازنہ کیا ہے اور مدلل طریقے سے مغربی تہذیب پر اسلامی تہذیب کی برتری ثابت کی ہے۔ ایران میں اس کتاب کے طبع ہونے کے بعد برطانوی مستشرق پروفیسر گلدین نے اس کتاب کا ترجمہ کرنے میں دلچسپی ظاہر کی اور اس کا ترجمہ کر دیا۔
گلدین کا ترجمہ برطانیہ میں طبع ہوا اور میڈیا نے بھی اس پر توجہ کی اور اسکے بارے میں کئی مضامین لکھے گئے۔ آئی آر آئی بی کی انگریزی سروس نے پروفیسر گلدین سے انٹرویو کیا، جس میں انہوں نے اس کتاب کی افادیت پر مزید روشنی ڈالی۔ پروفیسر گلدین نے آیت اللہ لاری کے ایک رسالے خدا شناسی کا بھی ترجمہ کیا تھا، جس کے بعد اس رسالے کا آٹھ زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ اس کے بعد جرمنی کے ایک دانشور ڈاکٹر رولف سینگلر نے مغربی تہذیب کی ایک جھلک کا جرمن ترجمہ کیا۔ جرمنی میں اس کتاب کے شایع ہونے کےبعد اس ملک کی سوشیل ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما نے مترجم کو لکھا کہ اس کتاب نے مجھ پر گہرا اثر چھوڑا ہے، جس سے اسلام کے بارے میں میرے نظریات بدل گئے ہیں اور میں اپنے دوستوں کو اس کتاب کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔
اس کتاب کے جرمن ترجمے کے بعد ہندوستان کے بزرگ عالم دین شیخ روشن علی خان نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا۔ اردو میں ترجمہ ہونے کے بعد یہ کتاب ہندوستان اور پاکستان میں بےحد مقبول ہوئی اور اسکے کئی ایڈیشن طبع ہوئے۔ یہ کتاب امریکہ میں بھی بے حد مقبول ہوئی۔ مغربی تمدن کی ایک جھلک کا اردو، انگریزی، جرمن، فرانسیسی، جاپانی، عربی، ہسپانوی، تھائی لینڈی، روسی، مالایو، کردی، بوسنیائی، تاجیکی، آذری، ترکی اور اطالوی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ آیت اللہ مجتبٰی موسوی لاری اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل تمام تر ہوشیاری سے اسلام کے اقدار کا دفاع کرنے کے لئے اپنی علمی اور سیاسی توانائيوں سے کام لیتے تھے۔ وہ مذہبی مبلغین کو لار بلاتے، تاکہ یہ مبلغین جوانوں کو اسلامی اقدار سے آشنا کریں۔ مثال کے طور پر شیخ محسن قرائتی سے جو اس زمانے میں بھی نہایت فعال عالم دین تھے، لڑکے اور لڑکیوں کے ہائی اسکول، نیز کالجوں میں جاکر حجاب پر گفتگو کرنے کی درخواست کی۔ شاہ کی انٹلیجنس نے ان کے اس اقدام کا فوری نوٹس لیا، لیکن آیت اللہ موسوری لاری نے اپنی اسلامی سرگرمیوں سے ہاتھ نہيں کھینچا۔ آیت اللہ لاری نے انیس سو باسٹھ میں لار میں ایک دفتر قائم کیا، جس کا مقصد اسلامی تبلیغات کرنا اور غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنا تھا۔
اس دفتر سے طلباء کو مختلف دیہاتوں کی طرف بھیج کر دین کی تبلیع کرائی جاتی تھی اور دیہات کے لوگوں اور بچوں نیز جوانوں کو روزہ مرہ کے اسلامی مسائل سے آشنا کیا جاتا ہے۔ یہ دفتر ہزاروں طلباء کے لئے لکھنے پڑھنے کے وسائل جیسے کتاب، کاپیاں، پنسل اور قلم نیز لباس مہیا کرتا تھا۔ اسی دفتر نے متعدد امام بارگاہ اور مساجد نیز ڈسپنسریاں تعمیر کی ہیں۔ آیت اللہ موسوی لاری نے شہر لار میں ایک غیر اخلاقی مجلے کی فروخت پر پابندی لگوا دی تھی۔ یہ مغربی تہذیب کا نمائندہ مجلہ مغربی اقدار کی تشہیر کرکے جوانون کو گمراہ کرتا تھا۔ آیت اللہ موسوی لاری نے گاڑدن پارٹی نامی شو پر بھی پابندی لگا کر لار میں سے اس شو کو نکال باہر کیا۔ اس غیر اخلاقی شو کے خلاف آیت اللہ موسوی لاری کے سخت موقف سے شاہ کی انٹلیجنس وحشت میں پڑگئی اور شو کے اھلکاروں سے منت سماجت کی کہ وہ شو نہ کریں۔ آیت اللہ موسوی لاری نے مکتب اسلام نامی مجلے میں لکھنا جاری رکھا اور انیس سو چونسٹھ میں آپ نے اپنے ان مضامین کو کتابی شکل بھی دی اور اس کتاب کا نام انسان کے کمال میں اخلاق کا کردار رکھا۔ آیت اللہ موسوی لاری اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل علاج اور امریکہ میں مسلمانوں کی صورتحال سے آشنا ہونے کی غرض سے امریکہ گئے تھے، آپ کا یہ سفر امریکہ کے ایک اسلامی ادارے کی دعوت پر انجام پایا تھا۔ آپ نے امریکہ میں مسلمان اصحاب نظر اور ماہرین سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے مختلف زبانوں میں اسلامی معارف کی نشر و اشاعت پر تاکید کی۔ اسکے بعد آپ برطانیہ گئے اور پھر فرانس تشریف لے گئے۔ ان دوروں سے واپس آکر آپ ایک بار پھر مضامین لکھنے میں مشغول ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں اسلام میں اعتقادی اصول نامی کتاب سامنے آئی جو چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا بھی متعدد زبانوں مین ترجمہ ہوچکا ہے۔
آیت اللہ موسوی لاری نے انیس سو چھہتر میں بیرون ملک اسلامی تبلیغ کے لئے ایک دفتر قائم کیا جیسے بعد میں بیرون ملک اسلامی معارف کے نشر و طباعت کے دفتر کا نام دیا گيا۔ یہ مرکز آج تک اسلامی معارف کے نشر و اشاعت کا کام کر رہا ہے۔ اس مرکز سے اسلامی کتابیں بالخصوص آیت اللہ موسوی لاری کی ترجمہ شدہ کتابیں دنیا کے مختلف علاقوں میں بھیجی جاتی ہیں۔ ان کی کتابیں حاصل کرنے والوں میں ہزاروں اسکول، مدارس، اور اسلامی ادارے اور تنطیمیں ہیں۔ آیت اللہ موسوی لاری کے مرکز سے ساری کتابیں مفت میں بھیجی جاتی ہیں۔ آیت اللہ موسوی لاری کے مرکز نے روسی، انگریزی، فرانسیسی،اور ہسپانوی زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے کرواکر ان ملکوں میں بھیجے ہیں۔ آیت اللہ موسوری لاری کی خدمات کو دیکھتے ہوئے جمہوریہ آذربائجان کی علمی اکیڈمی نے آپ کو اعزازی ڈاکٹریت کی ڈگری دی۔ اس موقع پر باکو یونیورسٹی میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی۔ آیت اللہ موسوی لاری ایک مخلص اور خدا پرست انسان تھے، وہ کہتے ہیں کہ انہیں جو کامیابی ملی ہے وہ خدا کی توفیقات او اھل بیت علیھم السلام کی نظر کرم کا نتیجہ ہے۔ ان سے ملنے کے لئے ساری دنیا سے لوگ آتے ہیں، وہ گرچہ ہمیشہ بیمار رہتے تھے، لیکن انہوں نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے اپنے مہمانوں کی پذیرائی کی۔ ہر انسان ان سے مل کر خاص سکون اور اطمینان کا احساس کرتا تھا، وہ بڑی سادہ زندگی گذارتے تھے۔ خدا آیت اللہ موسوی لاری کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، کیونکہ انہوں نے حقیقی اسلام کی خدمت کرنے میں کوئي دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا تھا۔ آیت اللہ موسوی لاری نے ایک تین کمروں کے گھر سے تقریباً پوری دنیا میں اہلبیت (ع) کا پیغام پہنچایا، انکی زندگی کے عملی کام دیکھ کر انسان قران حکیم و مجید کی اس بات کا دل سے قائل ہو جاتا ہے کہ والذین جاھدو فینا لنھدینھم سبلناجو لوگ اللہ کی راہ میں کوشش کرتے ہیں، خدا ان کے لئے راستے کھول دیتا ہے۔