فضائل فاطمہ (س) قرآن کی زبانی

141

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا وہ عظیم خاتون ہیں جن کی حقیقی معرفت معصومین کے پاس ہے جس کا حصول فقط قرآنی آیات اور احادیث معصومین کے سایہ میں ہی ممکن ہے ۔ لہذا ایسی شخصیت کی حقیقی معرفت کا دعویٰ فقط انسان کامل ہی کر سکتا ہے ۔حضرت فاطمہ زہرا (س) عالم اسلام کی ایسی با عظمت خاتون ہیں جن کی فضیلت زندگی کے ہر شعبے میں آشکار ہے اور عظمتوں کے اس سمندر کی فضلیتوں کو قرآنی آیات اور معصومین (ع) کی روایات میں بار ہا ذکر کیا گیا ہے ۔حضرت زہرا (س) کے فضائل کے بیان میں بہت زیادہ روایتیں وارد ہوئی ہیں لیکن ہم فقط ان احادیث کو بیان کریں گے جو قرآنی آیات کی تفسیر کے طور پر وارد ہوئی ہیں یا آیت کے شان نزول کو بیان کرتی ہیں. جب کہ یہ روایات فقط فضائل کے چند گوشوں کو بیان کرتی ہیں ۔تفسیر فرات کوفی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ “انا انزلناہ فی لیلۃ القدر” میں “لیلۃ” سے مراد فاطمہ زہرا (س) کی ذات گرامی ہے اور “القدر” ذات خداوند متعال کی طرف اشارہ ہے ۔لہذا جسے بھی فاطمہ زہرا (س) کا حقیقی عرفان حاصل ہو گیا اس نے لیلۃ القدر کو درک کر لیا ، آپ کو فاطمہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لوگ آپ کی معرفت سے عاجز ہیں ۔
فضائل فاطمہ (س) قرآن کی زبانیفاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا وہ عظیم خاتون ہیں جن کی حقیقی معرفت معصومین کے پاس ہے جس کا حصول فقط قرآنی آیات اور احادیث معصومین کے سایہ میں ہی ممکن ہے ۔ لہذا ایسی شخصیت کی حقیقی معرفت کا دعویٰ فقط انسان کامل ہی کر سکتا ہے۔حضرت فاطمہ زہرا (س) عالم اسلام کی ایسی با عظمت خاتون ہیں جنکی فضیلت زندگی کے ہر شعبے میں آشکار ہے اور عظمتوں کے اس سمندر کی فضلیتوں کو قرآنی آیات اور معصومین (ع) کی روایات میں بارہا ذکر کیا گیا ہے ۔حضرت زہرا (س) کے فضائل کے بیان میں بہت زیادہ روایتیں وارد ہوئی ہیں لیکن ہم فقط ان احادیث کو بیان کریں گے جو قرآنی آیات کی تفسیر کے طور پر وارد ہوئی ہیں یا آیت کے شان نزول کو بیان کرتی ہیں جبکہ یہ روایات فقط فضائل کے چند گوشوں کو بیان کرتی ہیں ۔
فاطمہ زہرا (س)فاطمہ کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہےتفسیر فرات کوفی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ “انا انزلناہ فی لیلۃ القدر” میں “لیلۃ” سے مراد فاطمہ زہرا (س) کی ذات گرامی ہے اور “القدر” ذات خداوند متعال کی طرف اشارہ ہے ۔ لہذا جسے بھی فاطمہ زہرا (س) کا حقیقی عرفان حاصل ہو گیا اس نے لیلۃ القدر کو درک کر لیا ،آپ کو فاطمہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لوگ آپ کی معرفت سے عاجز ہیں ۔
مستحکم دینکتاب البرہان فی تفسیر القرآن تالیف سید ہاشم بحرانی میں سورۂ بینہ کی پانچویں آیت کی تفسیر میں امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس آیت میں دین قیم سے مراد فاطمہ (س) ہیں ۔شریعت کے سارے اعمال بغیر محمد و آل محمد (ع) کی ولایت کے باطل و بیکار ہیں اور روایات میں اس بات کی طرف بھی اشارہ پایا جاتاہے کہ دین کا استحکام فاطمہ(س) اور ان کی ذریت کی محبت سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دین قیم کی تفسیر آپ کی ذات گرامی سے کی گئی ہے ۔
آسمانی گھرعلامہ مجلسی (رہ) انس بن مالک اور بریدہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے سورہ نور کی ۳۷ویں آیت کی تلاوت فرمائی” فی بیوت اذن الله ان ترفع و یذکر اسمه یسبح له فیها بالغدو والاصال” تو ایک شخص کھڑا ہوا اور رسول خدا (ص) سے دریافت کیا : یا رسول اللہ یہ گھر کس کا ہے ؟فرمایا : انبیاء علیھم السلام کا گھر ہے، ابو بکر کھڑے ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام کے گھر کی جانب اشارہ کر کے پوچھا :کیا یہ گھر بھی انھیں گھروں جیسا ہے ؟حضرت نے فرمایا: بیشک! بلکہ ان میں سب سے برتر ہے ۔
عذاب و لعنت دشمنان زہرا (س) کا مقدرتفسیر قمی میں سورۂ احزاب کی ۵۷ویں آیت کے ذیل میں وارد ہوا ہے :” ان الذین یوذون الله و رسوله لعنهم الله فی الدنیا و الاخره و أعد لهم عذاباً مهینا” یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے “علی بن ابراھیم قمی (رہ) فرماتے ہیں کہ کہ یہ آیت علی و فاطمہ علیھما السلام کے حق کے غاصبوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے نیز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:جو بھی ہماری زندگی میں زہرا کو اذیت پہنچائے گویا میرے مرنے کے بعد بھی اس نے زہرا کو اذیت دی ہے اور جو بھی میری رحلت کے بعد زہرا کو اذیت دے گویا اس نے میری زندگی میں زہرا کو اذیت دی، اور جو بھی فاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ،جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی اور خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے : یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے ۔
امر الٰہی کی پیرویامام صادق علیہ السلام اپنے اجداد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت زہرا(س) نے فرمایا:جس وقت سورہ نور کی ۶۴ویں آیت” لاتجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً”جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو پیغمبر اکرم (ص) کو اس طرح سے مت آواز دو)نازل ہوئی ہم نے پیغمبر اکرم(ص) کو بابا کہنا چھوڑ دیا اور یا رسول اللہ کہہ کر خطاب کرنے لگی ، پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے فرمایا :بیٹی فاطمہ یہ آیت تمھارے اور تمھاری آنے والے نسلوں کے لئے نازل نہیں ہوئی ہے چونکہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ،بلکہ یہ آیت متکبر اورظالم قریش کے لئے نازل ہوئی ہے ۔ تم مجھے بابا کہہ کر پکارا کرو چونکہ یہ کلمہ میرے دل کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے اور اس سے خدا وند راضی ہوتا ہے ،یہ کہہ کر میرے چہرے کا بوسہ لیا ۔
اجرت رسالتسورہ شوریٰ کی ۲۳ویں آیت میں خداوند متعال فرماتا ہے :اے میرے رسول آپ امت سے “کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو” ابن عباس سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی پیغمبر سے سوال کیا گیا ،جن لوگوں سے محبت و مودت کا ہمیں حکم دیا گیا ہے وہ کون لوگ ہیں ؟ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو فرزند مراد ہیں ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.