قرآن اور امام مہدي علیہ السلام

120

پہلا راستہ: نام سے تعارف کروانا :پہلا راستہ يہ ہے کہ وہ مورد نظر شخصيت کا نام ذکر کر تاہے جيسے « وما محمد الا رسول »[1]يا «واذکر في الکتاب مريم»[2]
دوسرا راستہ: تعدادسے تعارف کروانا: قرآن کا دوسرا طريقہ خاص افراد کي تعداد بيان کرنا ہے جيسے قرآن نے نقبائے بني اسرائيل کو تعداد کے لحاظ سے بيان کيا اور فرمايا: “وبعثنا منھم اثني عشر نقيباً”[3] ان ميں سے ہم نے بارہ افراد کو منتخب کيا۔
تيسرا راستہ: صفات اور خصوصيات سے تعارف کروانا: صفات کے ذريعہ کسي شخص کي پہچان ،تعارف کا بہترين ذريعہ شمار ہوتاہے ٬ چونکہ اس سے خود غرض لوگوں کا راستہ بند ہوجاتاہے ۔ جعلي نام گھڑلينا آسان ہے ليکن ہر شخص کي صفات صرف اسي سے مخصوص ہوتي ہيں۔ قرآن ايسے افراد کا نام ذ کر کرتاہے کہ جو اگرچہ پيغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ کو نام سے جانتے تھے ليکن اس کے باوجود ان کے منکر تھے ۔ قرآن کريم نے آيات تطہير٬ مباہلہ٬ ولايت و….[4] ميں اہلبيت عليھم السلام کو اس تيسرے راستہ کے ذريعہ متعارف کرواياہے ۔ اورامام مہدي علیہ السلام بھي قرآن کريم ميں اسي اسلوب سے پہچانے گئے ہيں ۔ اب ہم آيات مہدويت ميں سے چند کا تذ کرہ کرتے ہيں:
پہلي آيت: کيا قرآن سے امام مہدي علیہ السلام کے زندہ ہونے پر دليل قائم کي جاسکتي ہے؟
بعض قرآني آيات سے زمين پرحجت اور امام کے وجود کو سمجھا جاسکتاہے انہي آيات ميں سے ايک آيت سورہ قدر کي چوتھي آيت ہے۔ “تنزل الملائکۃ والروح فيھا باذن ربھم من کل امر” شب قدر ميں فرشتے اور روح القدس پروردگار کي اجازت سے ہر امر کے لئےنازل ہو تے ہيں اس کي تفصيل يہ ہے کہ “تنزل” کا فعل مضارع ہے جو استمرار اور دوام پر دلالت کرتاہے پس ہر سال شب قدر آتي ہے اورشب قدر ميں فرشتے اور روح القدس کا نزول ہوتاہے اور دوسري طرف سے ہر انسان ميں فرشتوں بالخصوص روح القدس کي پذيرائي کي طاقت نہيں ہے پس کوئي ايساہونا چاہئے جو پيغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ کے مرتبہ پر ہوتا کہ يہ قابليت رکھتاہو۔
سوال: حال حاضر ميں شب قدر کو فرشتے اور روح القدوس کس پر نازل ہوتے ہيں؟ امير المؤمنين علي السلام نے ارشاد فرمايا : شب قدر ہر سال آتي ہے اور اس سال کے امور اس رات ميں نازل ہوتے ہيں اور اس امر کے لئے رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ کے بعد اولياء موجود ہيں۔ ابن عباس نے پوچھا وہ کون لوگ ہيں؟ آپ علیہ السلام نے فرمايا ميں اور ميري نسل سے گيارہ افراد۔[5]
دوسري آيت: اگر ہم عصر ظہور مہدي امت کي خصوصيات کو بہترين طريقہ سے بيان کرنا چاہيں تو ہميں سورہ نور کي آيت نمبر ۵۵ سے بہتر کوئي آيت نہ ملے گي جس ميں خداوند عالم نے صالح مؤمن کو وعدہ دياہے اور اس کا وعدہ حق اور سو فيصد درست ہے۔ [6] ليکن يہ وعدہ ہے کيا؟ آيت کو تلاوت کرے اس ميں بيان کيے گئے وعدہ الہي کو ديکھتے ہيں : “وعداللہ الذين آمنوا منکم وعملوا الصالحات ليستخلفنھم في الارض کما استخلف الذين من قبلھم وليمکنن لھم دينھم الذين ارتضي لھم وليبدلنھم من بعد خوفھم امنا يعبدوني لايشرکون بي شئياً ”
ترجمہ: “خداوند متعال نے تم ميں سے تمام ہيزگار مؤمنين سے و عدہ کياہے کہ انہيں زمين پر اپنا جانشين مقرر کرے گا جيسا کہ اس نے گذشتہ لوگوں ميں سے بھي جانشين مقرر کيا تھا اور جس دين کو اس نے پسند کيا اسے وسعت عطا فرمائي اور اس خوف کے بعد انہيں امن و امان عطا فرمائے گا تاکہ وہ ميري عبادت کريں اور کسي کو ميرا شريک قرار نہ ٹھہرائيں ۔”
خداوند متعال نے مؤمنين کو جو وعدے ديئے ان کي تفصيل مندرجہ ذيل ہے:
(۱)۔ تمام کرہ ارض کو ان کے اختيار ميں دے گا جيسا کہ اس نے گذشتہ صالحين کو حکومتيں ديں جيسے نوح٬داؤد ٬سليمان عليھم السلام ۔
(۲): ان کے دين کو تمام زمين پر برتري اور وسعت دے گا وہ دين جيسے خداوند متعال نے انسانوں کے لئے پسند فرماياہے ۔ يعني وہ اسلام جو ولايت اہلبيت عليھم السلام کے ہمراہ ہے کہ جس کي تائيد واقعہ غدير اور اس سے مربوط آيات سے ہوتي ہے ۔
(۳):وہ پرہيز گار مؤمنين کے لئے رعب و وحشت کي جگہ اطمينان و آسائش قرار دے گا البتہ کامل٬ آسائش اس وقت حاصل ہوگي کہ جب کرہ ارض متقي مؤمنين کے اختيار ميں ہوگا اور کوئي قابل اعتبار دشمن ان کے سامنے نہ ہوگا۔
(۴)۔ اس حکومت کا مقصد شرک و نفاق کا خاتمہ اور خدا کي عبادت کو عام کرنا ہے جس کے نتيجے ميں آسمان و زمين کي برکتيں ظاہر ہوجائيں گي اور آسائش و فراموشي تمام لوگوں کا مقصد بن جائے گي۔ رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ نے اس آيت کے ذيل ميں ارشاد فرمايا: “جب ہمارا قائم علیہ السلام قيام کرے گا تو زمين کو عدل و انصاف سے لبريز کردے گا جس طرح کہ وہ ظلم و جو ر سے پرہوچکي ہوگي “۔ پھر فرمايا: خوش خبري ہو ان افراد کے جو اس دوران غيبت ميں صبر کريں گے اور خوش خبري ان افراد کے جو اس کے قيام ميں اس کي نصرت کريں گے۔[7] اہم نکتہ يہ ہے کہ خدا کا وعدہ حق سے اور اس کي ہرگز مخالفت نہيں ہوسکتي ليکن خدا کا آئين ابھي تک عالمگير نہيں ہوا اس بناپر قرآن کے عظيم مفسر مرحوم طبرسي نے اس آيت کے ذيل ميں يہ تفسير بيان کي ہے :کہ آيت يہ کہہ رہي ہے گذشتہ زمانے سے آج تک کوئي آئين عالمگير نہ ہوا لہذا يقيني طور پرمستقل ميں ايساہوگا کيونکہ خداوند متعال نے دين ا سلام کے عالمگير ہونے کا وعدہ دياہے اور اس کا وعدہ حتمي اور يقيني ہے ۔” [8]
امام سجاد علیہ السلام نے مذکورہ آيت کي تلاوت کے بعد ارشاد فرمايا: “خدا کي قسم يہ ہمارے شيعہ ہيں ٬ خداوندمتعال ہم ميں سے ايک مرد کے ہاتھوں اس حق کے کام کو عملي جامہ پہنائے گا اور وہ مرد اس امت کا مہدي علیہ السلام ہے اور وہ وہي ہے جس کے متعلق پيغمبر اسلام صل اللہ علیہ وآلہ نے ارشاد فرمايا: اگر دنيا کي عمر ميں يہ صرف ايک دن باقي رہ جائے تو خداوند متعال اس دن کو اس قدر طولاني کرے گا تاکہ ميرے خاندان سے ايک شخص پوري دنيا کا عنان اقتدار اپنے ہاتھ لے لے وہ ميرا ہمنام ہے وہ زمين کو اس طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طر ح وہ ظلم و جور سے پر ہوچکي ہوگي۔”[9]
اسي طرح کے مطالب مذکورہ آيت کے بارے ميں امام باقر علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام سے بھي منقول ہيں باقي آيات پر بحث کو کسي تفصيلي بحث پر چھوڑتے ہوئے اتنا ضر ور لکھنا چاہيں گے کہ اہلسنت نے بھي کچھ آيات پيش کي ہيں جو حضرت امام مہدي علیہ السلام اور ان کي عالمگير حکومت پر دلالت کرتي ہيں۔ مثلاً فخر رازي نے سورہ بقرہ کي آيت نمبر ۳ کے ذيل ميں غيبت کے مصاديق ميں سے ايک مہدي آل محمدصل اللہ علیہ وآلہ کو قرار دياہے کہ جس پر ايمان لانا ضروري ہے۔[10]
اس مقالہ کو جن کتب سے اخذ کيا گيا ہے وہ مندرجہ ذيل ہيں:
۱): اصول کافي ٬ محمد بن يعقوب کليني٬ دار الاضوء لبنان ٬ ج۱ ٬ چاپ۱۴۵۰ ھ ق.
۲): بحارالانوار٬ محمد باقر مجلسي ٬ نشر اسلامي ٬ تہران٬ ج۱ ٬ ۱۳۸۴ ھ ق.
۳): تفسير الميزان٬ سيد محمد حسين طبا طبائي٬ اعلمي٬ لبنان ٬ ج۲ ٬ ۱۳۹۰ ھ ق.
۴): تفسير نمونہ ٬ مکارم شيرازي اسلاميہ ٬ تہران٬ ج۱۱ ٬ ۱۳۶۹ش.
۵): قيام و انقلاب اسلامي مہدي٬ مرتضي مطہري ٬ صدرا٬ تہران٬ ح۵ ٬ ۱۳۹۸ ھ ق.
۶): امام مہدي در قرآن ٬ مہدي يوسفيان ٬ بنياد فرہنگي حضرت مہدي ٬ تہران ٬ ج۱ ٬ ۱۳۸۴ ھ ش.
[1] ۔ آل عمران / ۱۴۴.
[2] ۔ مريم /۱۶.
[3] ۔ مائدہ /۲.
[4] ۔ احزاب ٬ ۳۲ ٬ آل عمران ٬ ۶۱۔۵۵.
[5] ۔ اصول کافي٬ ج۱ ٬ ص۵۳۱ حديث ۱۱.
[6] ۔ قرآن کي آيات سے زيادہ وعدہ خداوند اور ا سکے حتمي ہونے کي بحث آتي ہے۔
[7] ۔ بحارالانوار٬ ج۳۶ ٬ ص۳۰۴ باب ۴۱ ٬ ص۱۴۴.
[8] ۔ مجمع البيان٬ ج۷ ٬ ص ۱۵۲.
[9] ۔ ايضاً
[10] ۔ تفسير فخر رازي.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.