مسئلہ انتظار کی وضاحت
انتظار لا مذہب مکاتب فکر کی روشنی میں
انتظار کا تعلق فقط مذہبی مکاتب فکر سے نہیں ہے بلکہ انتظار کا دائرہ مارکسزم جیسے بے دین مکاتب فکر تک پھیلا ہوا ہے چنانچہ برٹرانڈراسل کا بیان ہے:”انتظارکا تعلق صرف مذاہب سے نہیں ہے بلکہ غیر مذہبی مکاتب فکربھی ایسی شخصیت کے منتظر میں جو عدل وانصاف کا پرچم لہرا کر دنیا کو نجات دے سکے ۔”
انتظار کے بارے میں راسل نے جوکہا ہے :انتظار کا وہی مفہوم عیسائیوں کے یہاں بھی پایا جا تا ہے اسی طرح”ٹولسٹائے”کے نزدیک بھی انتظار کا مفہوم وہی ہے جو عیسائیوں کے یہاں ہے البتہ اس روسی مفکر کے یہاں اس مسئلہ کو پیش کرنے کا انداز عیسائیوں سے قدرے مختلف ہے۔
انتظار کے بارے میں ما قبل اسلام موجود ادیان کا نظریہ
کتاب مقدس کے عہد قدیم میں ہمیں یہ ملتا ہے :”اشراراور ظالموں کی موجودگی سے آزردہ خاطر نہ ہو کیونکہ ظالموں کا سلسلہ عنقریب ہی ختم ہو جائے گا اور عدل الٰہی کے منتظر زمین کے وارث ومالک بن جائیں گے اور قابل لعنت افراد پراکندہ ہو جائیں گے اور نیک بندے ہی زمین کے مالک ہوں گے اور دنیا کے آخری دورتک وہی آبادرہیں گے۔”( کتاب مقدس،سفر مزامیر داوٴد مزمور/۳۷)
کتاب مقدس نے جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اسی کا تذکرہ قرآن مجید کی اس آیت میں ہے:( انبیاء/۱۰۵)”اور ہم نے زبور کے بعد ذکر میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے ۔”
انتظار اہل سنت کی نظر میں
صرف شیعوں کوہی دنیا کو ظلم وجور سے “نجات دینے والے مہدی”کاانتظار نہیں ہے بلکہ شیعی احادیث کی طرح اہل سنت کے یہاں بھی اس سلسلہ میں بکثرت اتنی صحیح احادیث موجود ہیں جن کے بعد کسی شک وشبہہ کا امکان باقی نہیں رہ جاتا ہے۔
آٹھویں صدی ہجری کے معروف سنی عالم اور کتاب “العِبَر”کے مقدمہ کے مولف عبد الرحمٰن بن خلدون کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیے:”یا د رکھو کہ ہر دور کے مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہوررہی ہے کہ آخری زمانہ میں اہل بیت کی ایک فرد کا ظہور ضروری ہے جودین کی حمایت کر ے گااور عدل وانصاف کو ظاہر کر ے گا ،مسلمان اس کی پیروی کریں گے ،تمام اسلامی ممالک کے اوپراس کا تسلط قائم ہوگا ،اس کا نام”مہدی”ہوگا۔اور دجال کا خروج یا قیامت کے دوسرے آثار جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور ان کے بعد حضرت عیسیٰ نازل ہوں گے اور وہ دجال کو قتل کر دیں گے یا یہ کہ حضرت عیسیٰ ان کے ساتھ نازل ہو کر دجال کو قتل کرنے میں ان کی مدد کریں گے اور پھر حضرت عیسیٰ حضرت مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔”( مقدمہٴ ابن خلدون،ص/۳۱۱)
مدینہ اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر شیخ عبد المحسن العباد کہتے ہیں:” حرم کے المناک واقعہ سے بہت سے سوالات پیدا ہو گئے ہیں انہیں سوالات کی وضاحت کے لئے بعض علما ء نے ریڈیو اور دیگرذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ رسول خدا سے منقول روایتیں صحیح ہیں ،ان علماء میں شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز (صدر ارادہٴ تعلیم وتبلیغ)نے اپنے بعض رسائل اور کتابچوں میں اس مسئلہ کو رسول اللہ کی صحیح اور مستفیض احادیث سے ثابت کیا ہے ، ان علماء میں مسجد نبوی کے امام شیخ عبد العزیز بن صالح بھی شامل ہیں۔ ”
اس کے بعد شیخ محسن العباد تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ رسالہ اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے تحریر کیا ہے کہ مہدی آخر الزمان کے خروج پر صحیح روایات دلالت کرتی ہیں اور شاذ ونادرافراد کے علاوہ تقریباً سبھی علمائے اہل سنت اس کے قائل ہیں۔”( رسالہٴ الجامعة الاسلامیہ شمارہ ،۴۵)
آیہٴ کریمہ 🙁 زخرف /۶۱) کے بارے میں ابن حجر الہیتمی نے یہ تحریر کیا ہے:کہ مقاتل اور ان کا اتباع کرنے والے مفسرین کا یہ بیان ہے کہ:”یہ آیت مہدی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔”آئندہ ایسی احادیث بیان کی جائیں گی جن میں یہ صراحت موجود ہے کہ مہدی” کا تعلق اہل بیت ٪ نبوت سے ہے۔اور اس بنا پر —— آیہٴ کریمہ نسل فاطمہ و علی رضی اللہ عنہما میں برکت پرصراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے اور یہ کہ خداوندعالم انہیں کثیر وطیب اولاد عطا کرے گا اور ان کی نسل کو حکمت کی کنجی اور رحمت کی معدن قرار دے گااور اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم نے جنا ب فاطمہ =اور ان کی ذریت کے لئے شیطان رجیم سے محفوظ رہنے کے لئے پناہ طلب کی تھی اور یہی دعا آپ نے حضرت علی کے لئے بھی کی تھی۔( صواعق محرقہ،ابن حجر،ج/۱،ص/۲۴۰)
عصر حاضر کے شیخ الحدیث اور عالم “شیخ ناصر الدین البانی””التمدن الاسلامی ” نامی رسالہ میں تحریر کرتے ہیں:
” جہاں تک مسئلہ مہدی کا سوال ہے تو یاد رکھو کہ ان کے ظہور کے بارے میں بکثرت معتبر احادیث پائی جاتی ہیں ان احادیث میں سے کثیر روایات کی سند صحیح ہے اور میں اس مقام پر ا ن کے چند نمونے پیش کر رہا ہوں ۔”پھر انہوں نے کچھ حدیثوں کا تذکرہ کیا ہے۔
( اقتباس از مصنف: آیة اللہ محمد مہدی آصفی مدظلہ العالی)