جناب عباس علمدار علیہ السلام

173

حضرت امام جعفرصادق ں کی زیارت کے فقرات سے وا ضح ھوتاھے ،کہ حضرت عباس علیہ السلام نے فقط بھائی ورشتہ داراورفرزندرسول سمجھ کرامام حسین کی نصرت نھیں کی بلکہ آپ امام حسین علیہ السلام کوحجت خدا اورامام علیہ السلام واجب الطاعة سمجھ رھے تھے ،اگرچہ کربلا کے ھر شھید نے دشت نینوا میں کسی طرح نصرت امام حسین علیہ السلام میں دریغ نھیں کیا،لیکن یہ سارے شھید اپنی ساری قربانیوں کے باوجودشھیدعلقمہ کے ھم مر تبہ نھیں ھوسکتے ،کیونکہ آپ کی بصیرت راسخ، آپ کاعلم وافر، آپ کاایمان محکم، آپ کاکردارمضبوط،اور آپ کامقصدعالی تھا،لہٰذاامام جعفرصادق ں نے مذکورہ بالاالفاظ میں آپ کومخاطب فرمایا،کہ یہ فضیلت قمربنی ھاشم سے مخصوص تھی جس میں کربلاکا کوئی دوسرا شھیدشریک نھیں تھا۔[i]
جناب عباس علیہ السلام کا ایک معجزہعلامہ جلیل شیخ عبدُالرحیم تستری -رحمۃ اللہ علیہ کہتے ھیں :”میں نے کربلامیں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی، زیارت کے بعدحرم حضرت عباس علیہ السلام میں پہنچاوھاں میں نے دیکھا کہ ایک بدّواپنے بیمار لڑکے کولیکر آیاجس کے پیروں کوفالج کااثرتھا،ضریح حضرت سے اس کوباندھ دیااورروروکردعائیں کرنے لگاتھوڑی دیر گزری تھی کہ بچہ صحیح وسالم ھوکر حرم میں با آوازبلند کہنے لگا:”عباس علمدار نے مجھ کوشفابخشی “لوگوں نے اس کوگھیر لیااور تبرک کے طور پراس کے کپڑے پھاڑ ڈالے،میں نے جس وقت یہ منظردیکھا ضریح کے قریب گیااورحضرت علیہ السلام سے درخواست کی ،کہ آپ نا آشنائے ادب کی دعاؤں کوسن لیتے ھیں اورھماری دعاؤں کوجبکہ ھمیں آپ کی معرفت بھی ھے مستجاب نھیں فرماتے،ٹھیک ھے اب میں آئندہ آپ کی زیارت کے لئے نھیں آؤنگا،بعدمیں مجھے یہ خیال ھواکہ میں نے گستاخی کی ھےخداسے اپنی غلطی کی معافی مانگتارھا،جب میں نجف پہنچا تو استاد بزرگوارشیخ مرتضیٰ انصاری رحمۃ اللہ علیہ میرے پاس تشریف لائے اورپیسوں کی دوتھیلیاں دیتے ھوئے فرمایا: “لویہ تمھارے پیسے ھیں جوتم نے حضرت عباس علیہ السلام سے طلب کئے تھے ،ایک سے اپنا مکان بنوالواورایک سے حج کرلو”میں نے بھی حضرت سے یھی دوسوال کئے تھے۔[ii]لہٰذااس مقام مقدس پراپنے لئے اورخصوصاََ ھرمومن کے لئے ،زائر کوجناب سکینہ علیھا السلام کا واسطہ دے کردعائیں مانگنی چاہئے۔
آسماں والوں سے پوچھو مرتبہ عباس کانام لیتے ھیں ادب سے انبیاء عباس کا
پوری ھوجاتی ھے ھاتھ اٹھنے سے پہلے ھر مرادمانگ لو دے کر خدا کوواسطہ عباس کا
(نیر جلال پوری)
آداب زیارت حضرت عباس علیہ السلامعلامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ھیں :حضرت عباس علیہ السلام کا زائر پہلے در سقیفہ کے پاس کھڑے ھواور داخلہٴ حرم کی دعا پڑھ کرحرم میں وارد ھو،پھر اپنے کوقبر پرگرادے،اورحضرت کی زیارت پڑھے،نمازودعاکے بعدپائے اطھر کی طرف جائے اوروھاں پراس زیارت کوپڑھے جس کی ابتداء ان الفاظ سے ھے” السلام علیک یااباالفضل العباس”زیارت علمدارکربلا علیہ السلام کے بعدزائردورکعت نمازاداکرے چونکہ روایت میں اس کی تاکید وارد ھوئی ھے.[iii]
حرم مطھرحضرت ابوالفضل العباس علیہ السلامبارگاہ مقدس بابُ الحوائج قمر بنی ھاشم سقائے سکینہ آقاابوالفضل العباس علیہ السلام کاحرم امام حسین علیہ السلام سے تقریباََ۳۵۰ میٹر کے فاصلہ پر واقع ھے۔خدا وندعالم نے حرم ابوالفضل العباس کی تعمیر کیلئے ھردورمیں کچھ افرد کو منتخب کیا، لہٰذا ھر دور میں حرم قمربنی ھاشم علیہ السلام کو بہتر سے بہتر تعمیر کیاگیااسی بنا پرھم بھی ذیل میں کچھ مثالےں تحریر کررھے ھیں ۔۱۔شاہ طھماسپ نے ۱۰۳۲ ھ۔ق۔ میں گنبد مطھرکی نقاشی اور بیل بوٹے بنوائے، اور صندوق قبر پر ضریح مبارک رکھی ،صحن وایوان تعمیرکرائے،پہلے دروازہ کے سامنے مھمان سرا تعمیرکرایا اور ھاتھ کے بنے ھوئے قالینوں سے فرش کومزین کیا۔۲ ۔ ۱۱۵۵ھ۔ق۔ میں نادرشاہ نے حرم مطھر کے لئے گران قیمت ہدیئے ارسال کئے اورحرم کی آئینہ کاری کرائی۔۳/ ۱۱۵۷ھ۔ق۔ میں نادرشاہ کاوزیرجب زیارت سے مشرف ھواتواس نے صندوق قبر کوتبدیل کرایااورایوان تعمیر کرائے،روشنی کے لئے شمع آویزاں کرائیں ،جس سے حرم بقعہ نور بن گیا۔۴۔ ۱۲۱۶ھ۔ق۔ میں جب وھابیوں نے کربلائے معلی کولوٹاتوحرم حسین علیہ السلام اورحرم حضرت عباس علیہ السلام میں جوکچھ تھااس کو بھی لے گئے،حرم کی جدید تعمیرکے لئے فتح علی شاہ نے کمر ھمت کسی،اور سونے کے ٹکڑوں سے حرم امام حسین علیہ السلام کے گنبدمبارک کومزین کیااورحضرت عباسعلیہ السلام کے حرم کو بیل بوٹوں کی نقاشی سے آراستہ کرایا،قبلہ کی طرف ایوان بنوائے اورنھایت نفیس لکڑی سے تعویذقبرامام حسین علیہ السلام بنوائی،اورچاندی کی ضریح نصب کی۔۵۔مجتہد اعظم شیخ مازندرانی کے حکم سے مرحوم حاج شکراللہ نے اپنی ساری ثروت خرچ کرکے حضرت عباس علیہ السلام کے حرم میں طلا کاری کرائی اورسونے کی تختی پرسونے کے حرف میں مغربی ایوان پراپنانام” شکراللہ” کتبہ کرایاجو آج تک موجود ھے یہ واقعہ ۱۳۰۹ ھ کاھے۔۶۔محمد شاہ ہندی حاکم لکھنوٴ نے پہلے دروازہ کے سامنے والے ایوان طلاکودرست کرایا ، اور سلطان عبدُالحمید کے حکم سے اس ایوان کا رواق بہترین لکڑی کی چھت کے ساتھ بنوایا گیا۔۷۔ایوان طلا کے مقابلہ میں چاندی کادر ھے، وہ خودحرم مطھرکے خادم مرحوم سید مرتضیٰرحمۃ اللہ علیہ نے ۱۳۵۵ ھ ق۔ میں بنوایاتھا۔ [iv]۸۔روضئہ اقدس میں جوجدید ضریح ھے وہ ۱۳۸۵ ھ۔ق۔ میں مزین کی گئی اس نفیس اورزیبا ضریح کو اصفھان (ایران)میں پہلے بنایا گیااورپھراسکواس وقت کے مرجع وقت حضرت علامہ آیةاللہ العظمٰی حاج سید محسن الحکیمرحمۃ اللہ علیہ کے مبارک ھاتھوں سے قبرمنورپررکھاگیا۔[v]
مقام دست راست(دایاں بازو)کربلائے معلی کی زیارتوں میں یہ وہ مبارک مقام ھے کہ جھاں روزعاشورسقائے اہل حرم علیہ السلام کادایاں بازوقطع کیا گیا تھا،اس کے بعد حضرت نے مشک کوبائیں بازومیں سنبھالاتاکہ کسی طرح مشک کوخیام حسینی تک پہنچاسکے۔
مقام دست چپ(بایاں بازو)حرم حضرت عباس علیہ السلام کے باب قبلہ سے چندقدم کے فاصلہ پریہ مقام واقع ھے، اوریھی وہ مقام ھے، جھاں سقائے سکینہ کا بایاں بازو کاٹا گیا تھا،اس کے بعد علمدار حسینی نے مشک کو اپنے دانتوں میں تھام لیااورخیموں کی طرف چلے تاکہ پانی کوخیموں تک پہنچادے،مگرظالموں نے تیروں کی بارش شروع کردی جس کی وجہ سے ایک تیرمشک سکینہ علیھا السلام پرلگااورتمام پانی بہہ گیا،اب غازی علیہ السلام کی ھمت جواب دے گئی،اس منظرکوپیام اعظمی نے اپنے ایک شعرمیں اس طرح بیان کیاھے:
قسمت نے جب امیدوں کے دامن جھٹک دئےبچوں نے اپنے ھاتھوں سے ساغرپٹک دئے
———————————[i] “صحیفہٴ وفا”ابوالفضل ،ائمہ طاہرین علیہ السلام کی نظر میں[ii] ۔”صحیفہٴ وفا”ابوالفضل ،ائمہ طاہرین علیہ السلام کی نظر میں[iii] ماخوذ از “صحیفہٴ وفا”ابوالفضل،ائمہ اطھار کی نظر میں[iv] مذکورہ عبارت کتاب “صحیفہٴ وفا”کے باب زیارت ابولفضل سے ماخوذ ھے۔[v] عتبات عالیات۔حرم حضرت ابولفضل العباس علیہ السلام
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.