حضرت معصومہ (س) کے مختصر حالات

123

باپ کی شہادت کے بعد آپ اپنے عزیز بھائی حضرت علی بن موسی الرضا (ع) کی آغوش تربیت میں آگئیں ۔
۲۰۰ ہجری میں مامون عباسی کے بے حداصرار اوردھمکیوں کی وجہ سے امام (ع) سفر کرنے پر مجبور ہوئے امام (ع) نے خراسان کے اس سفر میں اپنے عزیزوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے ہمراہ نہ لیا ۔امام کی ہجرت کے ایک سال بعد بھائی کے دیدار کے شوق میں اور رسالت زینبی اور پیام ولایت کی ادائیگی کے لئے آپ (س) نے بھی وطن کو الوداع کہااور اپنے کچھ بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ جانب خراسان روانہ ہوئیں۔ہر شہر اور ہرمحلے میں آپ کا والہانہ استقبال ہورہاتھا،یہی وہ وقت تھا کہ جب آپ اپنی پھوپھی حضرت زینب (س) کی سیرت پرعمل کرکے مظلومیت کے پیغام اور اپنے بھائی کی غربت مومنین اور مسلمانوں تک پہنچارہی تھیں اور اپنی و اہلبیت کی مخالفت کا اظہار بنی عباس کی فریبی حکومت سے کررہی تھیں ،یہی وجہ تھی کہ جب آپ کا قافلہ شہر ساوہ پہنچاتو کچھ دشمنان اہلبیت (ع) جن کے سروں پر حکومت کا ہاتھ تھا راستے میں حائل ہوگئے اور حضرت معصومہ (س) کے کاروان سے ان بد کرداروں نے جنگ شروع کردی ۔نتیجتاً کاروان کے تمام مردوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔یہاں تک کہ ایک روایت کے مطابق حضرت معصومہ (س) کو بھی زہر دیا گیا ۔بہر کیف حضرت معصومہ (س) اس عظیم غم کے اثر سے یا زہر جفا کی وجہ سے بیمار ہوگئیں اب حالت یہ تھی کہ خراسان کے سفرکو جاری و ساری رکھنا ناممکن ہوگیالہٰذا شہر ساوہ سے شہر قم کا قصد کیااور آپ نے پوچھا اس شہر (ساوہ)سے شہر قم کتنا فاصلہ ہے ۔اس دوری کو لوگوں نے آپ کو بتایا تو اس وقت آپ نے فرمایا :مجھے قم لے چلو اس لئے کہ میں نے اپنے والد محترم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا :شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوتے ہی بزرگان قم کے در میان ایک خوشی کی لہر ،سی دوڑ گئی اور وہ سب کے سب آپ کے استقبال میں دوڑپڑے۔موسی بن خزرج جو کہ اشعری خاندان کے بزرگ تھے انھوں نے آپ کی مہار ناقہ کو آگے بڑھ کر تھام لیا ۔اور بہت سے لوگ جو سوارہ اور پیادہ تھے پروانوں کی طرح اس کاروان کے ارد گرد چلنے لگے ۔۲۳ربیع الاول سال ۲۰۱ ہجری وہ عظیم الشان تاریخ تھی جب آپ کے مقدس قدم قم کی سرزمین پر آئے ۔پھر اس محلّے میں جسے آج کل میدان میر کے نام سے یاد کیاجاتاہے حضرت کی سواری موسی بن خزرج کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی نتیجتاً آپ کی میزبانی کا عظیم شرف موسی بن خزرج کو مل گیا۔اس عظیم ہستی نے صرف سترہ(۱۷)دن اس شہر میں زندگی گزاری اور ان ایام میں آپ اپنے خدا سے راز ونیاز کی باتیں کرتیں اور اس کی عبادت میں مشغول رہیں ۔معصومہ (س) کی جائے عبادت اور قیامگاہ مدرسہ ستیہ جو آج کل “بیت النور “کے نام سے مشہور ہے جو ،اب حضرت (س) کے عقیدتمندوں کی زیارتگاہ بنی ہوئی ہے ۔آخر کار روز دہم ربیع الثانی اور ایک قول کے مطابق(دوازدہم ربیع الثانی) ۲۰۱ ھ قبل اس کے آپ کی چشم مبارک برادر عزیز کے چہرہ منور کی زیارت کرتی ،غریب الوطنی میں بہت زیادہ غم اندوہ دیکھنے کے بعد بند ہوگئیں۔قم کی سر زمین آپ کے غم میں ماتم کدہ بن گئی ۔قم کے لوگوں نے کافی عزت واحترام کے ساتھ آپ کی تشییع جنازہ باغ بابلان جو کہ اس وقت شہر سے باہر تھاوہاںآپ کی قبر اطہر آمادہ کی گئی ۔اب جو سب سے بڑی مشکل اہل قم کے لئے تھی وہ یہ کہ ایسا کون باکمال شخص ہوسکتاہے جوآپ کے جسم اطہر کو سپرد لحد کرے ابھی اہل قم اس مشکل کاحل سوچ ہی رہے تھے کہ ناگاہ دوسوار جو نقاب پوش تھے قبلہ کی جانب سے نظر آنے لگے اور بہت بڑی سرعت کے ساتھ وہ مجمع کے قریب آئے نماز پڑھنے کے بعد ان میں سے ایک بزرگوار قبر میں اترے اور دوسرے بزرگوار نے جسم اطہر کو اٹھایا اور اس قبر میں اترے ہوئے بزرگوار کے حوالے کیا تا کہ اس نورانی پیکر کو سپرد خاک کریں۔یہ دو شخصیتیں جو ابھی کچھ دیر پہلے آئیں تھیں انھوں نے تمام مراسم بنحوِ احسن انجام دے کراور کسی سے کچھ کہے بغیر واپس روانہ ہوگئیں۔ یہ دو شخصیتیں حجت پروردگار تھیں یعنی امام رضا (ع) اور حضرت امام جواد (ع) تھے کیونکہ معصومہ (س) کی تجہیز وتکفین ایک معصوم ہی انجام دیتاہے، تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں مثلاً حضرت زہرا (س) کے جسم اطہرکی تجہیز وتدفین حضرت علی (ع) کے ہاتھوں انجام پائی، اسی طرح حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو حضرت عیسیٰ (ع) نے بنفس نفیس غسل دیا۔حضرت معصومہ (س) کے جسم اطہر کی تدفین کے بعد موسی بن خزرج نے ایک حصیری سائبان آپ کی قبر اطہر پر ڈال دیا۔اس کے بعد حضرت زینب جو امام جواد (ع) کی اولاد میں سے تھیں انھوں نے ۲۵۶ھ میں پہلا گنبد اپنی عظیم پھوپھی کی قبر اطہر کے لئے تعمیر کروایا ۔اسی علامت کی وجہ سے اس عظیم خاتون کی تربت پاک محبان اہلبیت (ع) کے لئے قبلہ ہوگئی جہاں نماز مودت ادا کرنے کے لئے محبان اہلبیت (ع) جوق در جوق آنے لگے ۔ عاشقان ولایت وامامت کے لئے یہ بارگاہ دار الشفاء ہوگئی جس میں مضطرب دلوں کو سکون ملنے لگا ۔ مشکل کشاء کی بیٹی ،لوگوں کی بڑی بڑی مشکلوں کی مشکل کشائی کرتی رہیں اور نا امیدوں کے لئے مرکز امید بن گئیں ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.