جناب ام کلثوم کی شادی عمر سے ایک افسانہ

198

ابن عبد البر نے کتاب استیعاب میں آپ کا ذکر کیا ہے اور سبط ابن جوزی نے اپنی کتاب “تذکرۃ الخواص” میں حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کی اولاد کا ذکراس ترتیب کے ساتھ کیا ہے حضرت امام حسن علیہ السلام حضرت امام حسین علیہ السلام ناب زینب اور جناب ام کلثوم ۔علامہ سید محسن عاملی مرحوم نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں ذکر کیا ہے کہ آپ کی شادی جناب عون ابن جعفر طیا ر کے ساتھ ہوئی تھی جب کہ استیعاب ،اصابہ،اسد الغابہ جیسی کتابوں میں خلیفہ عمر خطاب کے ساتھ آپ کی شادی کی روایتیں لائی گئی ہیں جو جعلی ہیں۔ جب کہ علامہ محسن عاملی نے تحقیق کے بعد اس بات کا یقین حاصل کیا ہے کہ سرے سے یہ واقعہ ہی وجود میں نہیں آیا اور اس شادی کی روایت من گڑھت ہے اور اسے خلیفہ عمر کے فضائل کے طور پر گڑھا گیا ہے جو صحیح نہیں ہے ۔اس سلسلے میں روایات واخبا رسے متعلق اس قدر اختلافات موجود ہیں جو خود اس واقعہ کی نفی پر دلالت کرتی ہیں ۔اور صاحب ریاحین الشریعہ نے بھی اس روایت سے مختلف اقوال و اخبار کو جمع کرنے کے بعد لکھا ہے کہ میں سرے سے اس عقیدے کا منکر ہوں اور اس پر عقیدہ نہیں رکھتا کہ یہ شادی واقع ہوئی ہو گی ۔ام کلثوم بنت علی علیہ السلام کی شادی عمر ابن خطاب سے ہوئی یہ روایت غلط ہے اورقابل قبول نہیں کیوں کہ یہ روایت زبیر ابن بکار سے نقل کی گئی ہے یہ شخص محققین کے نزدیک قابل وثوق اور مورد اطمینان نہیں ہے ۔ جو کچھ اس نے نقل کیا ہے وہ بر بنائے دشمنی اورتہمت ہے ۔زبیر ابن بکار حضرت علی علیہ السلام کا بہت بڑا دشمن تھا۔اس کا دل بنی ہاشم کے کینہ و دشمنی سے بھرا ہوا تھا اس وجہ سے اس کی کوئی بھی بات قابل قبول نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ اس نے جو روایتیں نقل کی ہیں اس میں بھی بہت زیادہ تضادپایا جاتا ہے ۔لہٰذا کبھی کہتا ہے کہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ام کلثوم کی شادی عمر ابن خطاب سے اپنی مرضی سے کی۔کبھی کہتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے چچا جناب عباس علیہ السلام نے ام کلثوم کی شادی اپنے ذمہ لے لی تھی۔کبھی کہتا ہے کہ: یہ شادی ڈرانے دھمکانے سے کی گئی یعنی عمر نے دھمکی دی تھی۔اور کبھی کہتا ہے کہ :یہ شادی ایثارواختیارسے وقوع پذیر ہوئی۔ان متضاد باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ عمر کی اہمیت بڑھانے کے لئے گڑھا گیا ہے۔اور یہ اختلافات حدیث کے بطلان پر دلالت کرتی ہے ۔لہٰذا اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے․ (۱)مرحوم شیخ مفید (رح)،ابو سہل نوبختی اور ابن شہر آشوب نے اس روایت سے انکار کیا ہے اس کے نفی میں شیخ محمد جواد بلاغی نے ایک مفصل رسالہ لکھا ہے ۔اور عبد الرزاق مقدم وناصر حسین لکھنوی نے شدت سے اس واقعہ سے انکار کیا ہے۔بہت سے اہل سنت بھی اس روایت کے منکر ہیں ۔اور ان کے انکار کرنے کی علت یہ ہے کہ انھوں نے اس طرح کی شادی عمر کے لئے تاریخ کی معتبرکتابوں نہیں دیکھاہے۔پس لوگوں کے ذہنوں میں اس شادی کے آنے کی علت کیا ہے؟؟شاید لوگوں کی ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو کہ اگر اس قسم کی کوئی روایت نہیں تو پھر کیوں لوگوں کے درمیان رائج ہے۔اور لوگوں کو وہم وگمان میں ڈال دیا ہے کہ شاید یہ شادی ہوئی ہو؟یہ روایت ابو محمد حسن ابن یحییٰ کی کتاب سے منتشر ہوئی ہے اور کچھ لوگوں نے اس روایت کے بارہ میں کہا ہے کہ اس کو ایک علوی نے بیان کیا ہے لہٰذا یہ روایت صحیح ہے ۔ جب کہ انھوں نے اس کو زبیر ابن بکار سے نقل کیا ہے ۔اس وہم وگمان کا منشا شاید یہ ہو کہ عمر کی ایک بیوی کا نام ام کلثوم تھا جو عبد اللہ ابن عمر کی ماں تھی ۔ام کلثوم جرول خزاعیہ کی لڑکی تھی۔چوں کہ حضرت علی علیہ السلام کی لڑکی کا نام بھی ام کلثوم تھا لہٰذا لوگوں نے اس بات کوام کلثوم بنت علی علیہ السلام سے مشہور کردیا ۔اور یہی سبب بنا کہ بعض لوگ جناب ام کلثوم کو عمر کی بیوی تصور کرنے لگے۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ ام کلثوم نام کی ابوبکر کی ایک لڑکی تھی جس کے بارہ میں لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حضرت علی علیہ السلام کی لڑکی ہے ۔جس کے لئے عمر نے خواستگاری کا پیغام بھیجا تھا۔یہ بات اور زیادہ روشن وواضح ہوجائے اس لئے اس کی طرف بھی اشارہ کردینا ضروری سمجھتاہوں۔ابو الفرج اصفہانی جوعلمائے اہل سنت میں شمار ہوتے ہیں اپنی کتاب “اغانی” جلد دو ص/۱۰۳ جو دار الفکر بیروت سے چھپی ہے میں روایت نقل کرتے ہیں :قریش کے ایک شخص نے عمر بن خطاب سے کہا: تم ام کلثوم دختر ابوبکر سے شادی کیوں نہیں کرلیتے تا کہ ابوبکر کے مرنے کے بعد تمھار ی دوستی ان کے خاندان سے محکم ہو جائے اور تم ان کے رشتہ داروں میں شامل ہو جاؤ۔عمر نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں۔میں چاہتاہوں کہ ایسا ہی کروں ۔ابھی فوراً تم عائشہ کے پاس جاوٴ اور اس رشتہ کا جوا ب تم میرے پاس لاوٴ۔ وہ شخص عائشہ کے پاس گیا، جو کچھ عمر نے اس سے کہا تھا اس نے عائشہ کے سامنے بیان کردیا ۔عائشہ نے ظاہراً خوشی خوشی اس رشتہ کو قبول کرلیا۔اس کے بعد مغیرہ ابن شعبہ عائشہ کے پاس گیا تو کیا دیکھا کہ عائشہ غمگین اور غصہ کی حالت میں ہیں اس نے پوچھا آخر تم کو کیا ہوا تم غمگین کیوں ہو؟عائشہ نے عمر کے پیغام کو مغیرہ سے بیان کیا اور کہا یہ نوجوان لڑکی ہے ہم چاہتے کہ اس کی زندگی خوش گوار ہونہیں چاہتے کہ ساری عمر تلخیوں میں گزارے کیوں کہ عمر غصہ ور اور خشن شخص ہے میں نہیں چاہتی کہ میری بہن اس کے ساتھ زندگی کزارے۔مغیرہ نے عائشہ سے کہا :یہ کام ہمارے ذمہ چھوڑدو تا کہ میں تمھارے اس مشکل کو حل کر دونگا اس کے بعد وہ عمر کے پاس گیا اور بولا کہ خوش رہو اور بچے زیادہ ہوں میں نے سنا ہے کہ تم ابوبکر کے خاندان سے وصلت کرنا چاہتے ہو،تم نے ابو بکر کی لڑکی ام کلثوم سے شادی کا پیغام بھیجا ہے ۔عمر نے کہا : ہاں ایسا ہی ہے ۔مغیرہ نے کہا یہ ٹھیک ہے لیکن تم اپنے خاندان میں سب سے زیادہ غصہ اور بد اخلاق ہو یہ لڑکی ابھی نئی نئی جوان ہوئی ہے پس تم ہمیشہ اس کے اوپر اعتراض کرو گے اور مارو پیٹو گے اور وہ فریاد کرے گی اور اپنے باپ کو یاد کرے گی ،عائشہ بھی تمھارے اس حرکت سے ناراض اوررنجیدہ ہوں گی۔اس وقت دونوں ابوبکر کو یاد کریں گی جس سے ان غم تازہ ہو جائے گا ۔ اور یہ بات برابر تکرار ہوتی رہے گی۔عمر نے مغیرہ سے پوچھا تم کس وقت عائشہ کے پاس گئے تھے جو اس قسم کی بات کر رہے ہو ؟۔عائشہ نے اپنی بہن کے لئے مجھے پسند کر لیا ہے !مغیرہ نے جواب دیا میں ابھی ابھی ان کے پاس گیا تھا ، اس وقت اسی کے پاس سے آرہا ہوں ۔عمر نے کہا :میں سمجھ گیا ، میں ان لوگوں کو پسند نہیں ہوں اور تونے ان سے ضمانت بھی لیا ہے اور قول بھی دیا ہے کہ تو مجھ کو اس کام سے منصرف کرے ۔پس معلوم ہونا چاہئے کہ یہ دو ام کلثوم ایک مادر عبداللہ ابن عمر اور دوسری ابو بکر کی لڑکی ان دونوں کا رابطہ عمر وسے سبب بنا کہ لوگ مشکوک ہو کر سمجھ بیٹھے کہ ام کلثوم بنت علی علیہ السلام عمر کی شادی عمر سے ہوئی جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ (۲)
واضح ہو!دوسری بات یہ کہ ام کلثوم کی شادی کا واقعہ نہ تو صحیح بخاری میں ہے اور نہ صحیح مسلم میں حتی کسی بھی صحاح ستہ میں نہیں ہے اور اہل سنت کی کسی بھی مشہور مسانید و معاجم میں بھی اس قسم کی کوئی اثر موجود نہیں ہے ۔یہاں پر جائے تعجب ہے کہاگر ایسا ہوتا تو عمر کی خلافت محکم کرنے کے لئے ضرور لکھتے۔اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا اہم واقعہ سے ان لوگوں نے غفلت کیا ہو؟ پس معلوم ہوا کہ اس طرح کے واقعہ کا کوئی بنیاد ی اساس نہیں ہے۔و الا اتنے آسانی سے اس واقعہ کو ہرگز نہ چھوڑتے اور اپنی کتابوں صحاح و مسانید میں ضرور تحریر فرماتے۔
خلاصہ کلام:مرحوم محقق شوشتری کی کتاب”ارشاد” سے استفادہ کرتے ہوئے میں یہاں پر بیان کرنا چاہتاہوں کہ حضرت علی علیہ السلام کی دو لڑکیوں کا نام ام کلثوم تھا۔ایک ام کلثوم کبریٰ جو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے تھیں اور دوسری ام کلثوم صغریٰ جو (ام ولد )کنیزکی لڑکی تھیں۔صاحب “ارشاد” لکھتے ہیں کہ زینب صغریٰ کی کنیت ام کلثوم تھی جو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد سے تھیں۔شاید اس کی وجہ یہی رہی ہوکہ مورخین نے اشتباہ کیا ہے کہ ام کلثوم کبریٰ کی شادی عمر بن خطاب سے ہوئی ۔کیوں کہ دونوں ام کلثوم باہم مل جانے کی وجہ سے یہ اشتباہات وجود میں آئے۔آیۃ اللہ مرعشی نجفی (رح) کی تحقیق یہ ہے کہ ام کلثوم ابوبکر کی بیوی اسماء بنت عمیس کی تھیں ۔ابوبکر کے مرنے کے بعد اسما بنت عمیس نے حضرت علی علیہ السلام سے شادی کرلی ۔ لہٰذا یہ بچی بھی محمد ابن ابوبکر کی طرح حضرت علی علیہ السلام کے گھر آئی اور حضرت علی علیہ السلام کی تربیت میں پلی بڑھی بعد میں عمر بن خطاب نے اس سے شادی کرلی ۔(خلاصہ واقعہ یہ تھا)جس کو لوگوں نے عمر کی اہمیت بڑھانے کے لئے ام کلثوم بنت علی علیہ السلام سے شہرت دے دی۔ (۳)——————————————————————————–(۱)۔ احمد رحمانی ہمدانی “فاطمہ زہر(ع)شادمانی دل پیامبر(ص)” ترجمہ افتخار زادہ ص/۸۷۵و۷۸۶(۲)۔ فرید سائل۔ افسانہ ازدواج (بررسی ازدواج حضرت ام کلثوم با عمر در مدرک شیعہ وسنی)ص/۲۰و۲۲(۳)۔ تاریخ تحلیل و سیاسی اسلام ج/۲،ص/۵۹۔ڈاکٹر علی اکبر محسنی
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.