شیخ مفید

223

آپ کا نام محمد بن محمد بن النعمان بن عبدالسلام بن جابر بن النعمان بن سعيد بن خبير بن وهب بن هلال بن اوس بن سعيد بن سنان بن عبدالدار بن الريان بن فطربن زيادبن الحارث بن مالك بن ربيعہ بن كعب بن الحرث بن كعب بن غلہ بن خالد بن ملك بن ادد بن زيد بن يشجب بن غريب بن زيد بن كهلان بن سبابن يشجب بن يعرب بن قطحان ہے ۔ گویا کہ آپ عدنان کی اولاد سے نہیں بلکہ قحطانی عرب ہیں ۔عرب ہونے کی وجہ سے آپ کو عربی کا لقب بھی دیا گیا ہے ۔ ۴۱۳ھ جمعہ کی رات ماہ رمضان کی تین راتیں گزر چکی تھیں تو آپ کی رحلت ہوئی۔ جبکہ ولادت ۱۱ ذی القعد ۳۳۶ ھ میں ہوئی ۔ (رجال النجاشی ‮ ‬؛‮ ص‮ ‬۳۰۲‮ چاپ‮: موسسہ‮ ‬النشر‮ ‬الاسلامی‮ ‬التابعہ‮ ‬لجماعہ‮ ‬المدرسین‮ ‬بقم‮ ‬المشرفہ‮ ایران‮ ‬۔) ۔آپ کا لقب المفید (رح) ، کنیت ابو عبداللہ جبکہ آپ ابن المعلم کے نام سے معروف تھے (امل الآمل للحر العاملی ج ۲ ص ۲۰۵۔)چونکہ آپ کے والد گرامی واسط میں معلم کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔ (لسان الميزان جـ 5ص ۳۶۵چاپ : دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان الطبعہ الاولی ۱۹۹۶ء۔) ۔آپ کے لقب “مفید”کے مشہور ہونے کی وجہ :ان کے استاد ابویاسر جن کے پاس آپ نے اپنی تعلیم شروع کی تھی ۔ انہوں نے آپ (رح) سے ایک دن کہا کہ آپ علی بن عیسی رمانی کے ہاں کلام کیوں نہیں پڑھتے ہو اور ان سے استفادہ کیوں نہیں کرتے ہو۔ تو اس پر آپ (رح) نے کہا :میں ان کو نہیں جانتا اور نہ ان سے زیادہ مانوس ہوں۔تو آپ کسی کو میرے ساتھ بھیجیں تاکہ وہ میری رہنمائی کر سکے ۔شیخ مفید (رح) فرماتے ہیں :کہ ابو یاسر نے ایسے ہی کیا اور ایک شخص کو میرے ساتھ بھیجا ۔ میں علی ابن عیسی کے پاس گیا ۔ تو اس کی مجلس اس کے شاگردوں سے بھری ہوئی تھی تو میں وہیں بیٹھ گیا ۔ جب مجلس ختم ہوئی اور لوگوں کا رش کم ہوا تو میں ان کے قریب گیا ۔اسی اثنا ء ایک شخص اندر آیا اور اس نے علی بن عیسی سے کہا کہ کوئی شخص باہر آیا ہے وہ آپ کی مجلس میں حاضر ہونا چاہتا ہے ۔ اور وہ بصرہ کا رہنے والا ہے ۔ علی بن عیسی نے پوچھا :کیا وہ اہل علم میں سے ہے؟اس شخص نے کہا :نوجوان ہے ۔مجھے نہیں معلوم لیکن آپ سے ملنے کا کہہ رہا ہے ۔علی بن عیسی نے اس کو آنے کی اجازت دی اور اس کا احترام واکرام کیا ۔ دونوں کے درمیان کافی لمبی گفتگو ہوئی ۔ اس بصری مرد نے علی بن عیسی سے کہا کہ یوم غدیر اور یوم غار (یعنی حضرت ابوبکر کا غار میں رسول کے ساتھ ہونا )کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے ؟ علی نے کہا: کہ خبر غار درایت ہے جبکہ خبر غدیر روایت ہے ۔ درایت سے جو استفادہ ہوتا وہ روایت سے نہیں ہوتا۔((یعنی درایت یقین کا فائدہ دیتی ہے چونکہ خبر غار قرآن میں اوراس لئے اس کا صادر ہونا یقینی اور قطعی ہے جبکہ خبر غار روایت (1) ۔ (2) ۔ (3) ۔ ہے پس یقینی نہیں ہے ۔ )) شیخ مفید (رح) کہتے ہیں : بصری کے پاس اس بات کاجواب نہیں تھا اور وہ وہاں سے چلا گیا ۔ شیخ کہتے ہیں :ایک دن میں آگے بڑھا اور کہا : اے شیخ !میں آپ سے مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں ۔ اس نے کہا:کہ اپنا مسئلہ بتاؤ۔تو فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں جو امام عادل کے خلاف جنگ لڑے ۔ ا س نے کہا:وہ کافرہے ۔ پھر اس نے اپنی غلطی کی اصلاح کی اور کہ نہ کافر نہیں بلکہ فاسق ہے ۔ تو پھر میں نے کہا :امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ کہا:آپ (ع) امام عادل ہیں ۔ میں نے کہا :جنگ جمل ، طلحہ ا ورزبیر کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ کہا : ان دونوں نے توبہ کرلی تھی ۔ میں نے موقع پا کر فوراً کہا : جنگ جمل درایت ہے جبکہ توبہ کی خبر روایت ہے۔ (چونکہ علی بن عیسی نے بصری کو جواب دیا تھا کہ درایت روایت سے زیادہ قوی ہے ۔ پس درایت (خبر غار ) کو لیں گے اور خبر غدیر چونکہ روایت ہے اس لیے اس کو نہیں لیں گے ۔ شیخ نے کہا کہ جنگ جمل درایت ہے پس اس کو قبول کریں گے جبکہ توبہ کی خبر روایت ہے اس کو نہیں لیں گے ۔)اس نے کہا :کیا تم اس وقت موجود تھے جب اس بصری نے مجھ سے سوال کیا تھا ۔ تو میں نے کہا: جی ہاں! میں موجود تھا پھر اس نے پوچھا :کہ تمہارا کیا نام ہے اور کس کے پاس پڑھتے ہو؟ تو میں نے کہا:میری پہچان ابن المعلم ہے اور میں ابو عبداللہ الجعلی کے پاس درس پڑھتا ہوں ۔ اس نے کہا :اپنی جگہ پر بیٹھو میں آتا ہوں پھر وہ اپنے گھر میں گیا اور جب واپس آیا تواس کے ہاتھ میں ایک رقعہ تھا جسے اس نے لکھا تھا اور اس کو کاغذ میں لپیٹ دیا تھا ۔ اور مجھے کہا: کہ یہ رقعہ ابو عبد اللہ تک پہنچادینا ۔ میں وہ رقعہ ابو عبد اللہ کے پاس لا یا اس نے اسے پڑھا ۔اور خود ہی ہنسنے لگا پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ اس کی مجلس میں تمہارے اور اس کے درمیان کیا ماجرا پیش آیا۔ چونکہ اس نے مجھے تمہارے بارے میں وصیت کی ہے ۔ اور تمہیں مفید کا لقب دیاہے۔ میں نے تمام قصہ ابو عبداللہ کو بتایا تو وہ مسکرا نے لگا۔ (مجموعة ورام ج ۲ ص۶۲۱ چاپ : دار الکتب الاسلامیہ بازار سلطانی طہران ایران ۔) ۔آپ کی ولادت :آپ کا خاندان اصل میں واسط کا رہنے والا تھا ۔پھر آپ کے والد نے بغداد سے پچپن کلو میٹر کے فاصلے پر موجود شہر عکبراء کی طرف ہجرت کی ۔ اس کے بعد بغداد کی طرف منتقل ہوئے ۔ آپ کے والد گرامی واسط میں معلم تھے۔ اسی مناسبت سے آپ (رح) کو ابن المعلم کہا جاتاتھا ۔ لیکن بعد میں اپنے والد گرامی کے ساتھ بغداد منتقل ہوگئے ۔آپ کی ولادت شہر عکبراء کے علاقے سویقہ بن البصری میں ۱۱ ذی القعد ۳۳۶ ہجری کو ہوئی ۔ جبکہ ایک قول کے مطابق ۳۳۸ ہجری میں ہوئی۔ (ترتیب‮ ‬خلاصۃ‮ ‬الاقوال‮ ‬فی‮ ‬معرفۃ‮ ‬الرجال‮ للعلامہ‮ ‬حلی‮ ۳۹۸؛‮ ‬چاپ‮:موسسہ‮ ‬الطبع‮ ‬التابعہ‮ ‬للآستانہ‮ ‬الرضویہ‮ ‬المقدسہ‮ ؛‮ ‬۱۴۲۳ھ۔) ابتدائی تعلیم اور نشوونما :آپ نے اپنی تعلیم کا آغاز ابو عبداللہ معروف بہ الجعلی کے ہاں کیا جو کہ درب ریاح میں پڑھاتے تھے جبکہ آپ (رح) کا گھر بھی اسی محلے میں تھا ۔ پھر اپنی تعلیم کو ابو یاسر جو کہ ابو الجیش کے غلام تھے کے ہاں جاری رکھا جو کہ باب خراسان میں درس دیا کرتے تھے ۔ابو عبداللہ یا ابویاسر نے آپ کی ذہانت اور علمی صلاحیتوں کو دیکھ کر آپ کو اپنے سے زیادہ ماہر علماء کے پاس پڑھنے کا مشورہ کیا ۔ علمی خدمات:محمد حسین نصار اپنی کتاب جھود الشیخ المفید الفقھیہ ومصادر استنباطہ کے مقدمے میں لکھتے ہیں :ہم شیخ مفید(رح) کے علمی مقام کا اندازہ ان کے علمی آثار اور کتب سے بخوبی لگا سکتے ہیں ، انہوں سب سے پہلے فقہ کو مرتب کیا اور اس کو علیحدہ علیحدہ ابواب میں بیان کیا ۔ احکام ، اوامر ونواہی کوجدا کیا۔ اور فقہ کو یکجا کیا جبکہ فقہ بکھری ہوئی اور غیر منظم تھی ۔ اور صرف روایات کی صورت میں تھی۔ اسی طرح علم اصول کےقواعد بھی متفرق اور بکھرے ہوئے تھے اور ہر فقہی مسئلہ کے ساتھ ہی اصولی قاعدہ موجود ہوتاتھا جب بھی کوئی فقیہ کوئی فقہی مسئلہ بیان کرتا اور اس کی دلیل ذکر کرتا تو اس مسئلہ سے مرتبط علم اصول کا قاعدہ بھی ذکر کردیتا تھا ۔ لیکن شیخ مفید (رح) وہ سب پہلی شخصیت ہیں جنہوں علم اصول کے قواعد کو علیحدہ ترتیب کے ساتھ مرتب کیا۔( جھود الشیخ المفید الفقھیہ ومصادر استنباطہ ؛ محمد حسین نصار ص ۱۵،۱۶) اسی طرح شیخ (رح) کو شیعہ کلام اور مناظرے کا مؤسس ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ جبکہ ادب اور شعر میں عالی مقام کے حامل تھے۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ ایک دن میں ایک مجلس میں گیا تو ابن جوزی درس اخلاق دے رہا تھا میں اس درس میں موجود تھا جبکہ کسی کو خبر نہ تھی کہ میں وہاں موجود ہوں تو ابن جوزی نے میرے شعر سے استشہاد کیا ور کہا کہ ابن المعلم نے کیا خوب شعر کہا ہے ۔ (1) ـ (2) ۔ (3) ۔ علمائے اہل سنت کی نظر میں شیخ مفید(رح) کاعلمی مقام ابن جوزی کہتے ہیں: (وكان لابن المعلم مجلس نظر بداره بدرب رياح يحضره كافة العلماء،)کہ ابن معلم (رح) کی ایک علمی اور مناظرے کی مجلس ہوا کرتی تھی جو بغداد کے محلے ریاح میں ان کے گھر پر ہوتی جس میں تمام علماء شرکت کرتے تھے۔ (المنتظم لابن جوزی فی ذکر سنہ اربعۃ عشر واربعماۃ ۔) ابن کثیر البدایۃ والنھایۃ میں ذکر کرتے ہیں : (كان مجلسه يحضره خلق كثير من العلماء من سائر الطوائف) تما م فرقوں اور مکاتب فکر سے علماء کی ایک بڑی تعداد ان کی مجلس علم میں حاضر ہوتی تھی ۔ ( البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر سنہ ثلاث عشرة وأربعمائة کے ذکر میں ۔)ابن الندیم اپنی کتاب الفھرست میں ذکر کرتے ہیں : (بن المعلم أبو عبد الله في عصرنا انتهت رياسة متكلمي الشيعة اليه مقدم في صناعة الكلام على مذهب اصحابه دقيق الفطنة ماضي الخاطر شاهدته فرأيته بارعا وله من الكتب ابن معلم ابو عبداللہ ہمارے زمانے کے ہیں ۔ اور شیعہ متکلمین کو رئاست ان پر آکر ختم ہوجاتی ہے ۔ اپنے مذہب کے علماء میں سے کلام کے فن میں سب سے آگے ، باریک بین ، بہت ذہین وفطین انسان تھے ۔ میں ان کے نزدیک سے دیکھا اور وہ مختلف علوم میں بہت ماہر تھے اور ان کے بہت سی کتب ہیں ۔)( الفھرست لابن الندیم ؛‮ ‬الفن‮ ‬الثانی‮ من‮ ‬المقالہ‮ ‬الخامسہ‮ ‬ص‮ ۲۲۶‮ ‬طبعہ‮ ‮: ‬طہران‮ ۔‮ ‬ایران‮ ‬۔سنہ‮ : ۱۳۹۱ھ۔)علمائے شیعہ کی نظر میں شیخ مفید (رح)سید بحر العلوم اپنی کتاب میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں :(واتفق الجميع على علمه وفضله وفقهه وعدالته وثقته وجلالته. وكان – رضي الله عنه – كثير المحاسن، جم المناقب، حديد الخاطر، دقيق الفطنة، حاضر الجواب، واسع الرواية، خبيرا بالرجال والاخبار والاشعار. وكان أوثق أهل زمانه في الحديث وأعرفهم بالفقه والكلام، وكل من تأخر عنه استفاد منه.)سید بحر العلوم اپنی کتاب ” الفوائد الرجالیہ” میں فرماتے ہیں : کہ تمام علماء ان کے علم ، فقہ ، فضل ، عدالت ، ثقاہت اور جلالت پر متفق ہیں ۔ آپ ؓ بہت سارے مناقب وفضائل کے حامل تھے ، باریک بین ، ذہین وفطین ، حاضر الجواب تھے ۔ احادیث وروایت کا وسیع علم رکھتے تھے اورشعر وادب ،علم رجال اورتاریخ کے ماہر تھے ۔ حدیث میں اپنے زمانے میں سب سے زیادہ بااعتماد اور فقہ اور کلام سے سب سے بڑے عالم تھے ۔ جو بھی ان کے بعد آیا اس ان سے استفادہ کیا ۔ (الفوائد الرجالیہ للسید بحر العلوم ج ۳ص ۳۱۲) (1) ۔ (2) ۔ (3) ۔ (4) ۔ علامہ حلی اپنی کتاب خلاصۃ الاقوال اور شیخ حر عاملی (رح) اپنی کتاب امل الآمل میں فرماتے ہیں : (وفضله اشهر من ان يوصف في الفقه والكلام والرواية، اوثق اهل زمانه واعلمهم) (1) فقہ ،کلام اور حدیث کے میدان میں ان فضیلت بیان کی محتاج نہیں ۔ آپ (رح) اپنے زمانے کے سب سے بااعتماد وثقہ اوردانا ترین انسان تھے ۔ آپ کے اساتذہ اور شاگرد:آپ کے شیوخ میں سے شیخین صدوقین یعنی ابو القاسم جعفر بن بابویہ اور ابو جعفر محمد بن علی بن بابویہ ، سید ، عالم، زاہد ابو محمد الحسن بن حمزہ العلوی ، فقیہ فاضل ِ مشہور ابو علی محمد بن احمد ابن الجنید ، محمد بن احمد ابن داود اور احمد بن محمد بن الحسن بن الولیدقابل ذکر ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے بزرگ علماء ان کے اساتذہ میں سے ہیں۔ جبکہ آپ کے شاگردوں میں عظیم المرتبت سید اوحد مرتضی علم الہدی ، ان کے برادر گرامی ، فخر شیعہ ،جامع نہج البلاغہ سید رضی ، شیخ الطائفہ،محافظِ فقہِ امامی ،موسسِ اولین حوزہء علمیہ شیخ ابو جعفر الطوسی (رح) ،ابویعلی محمد ابن الحسن ابن حمزہ الجعفری ، ابو یعلی سلار بن عبدالعزیز الدیلمی ، شیخ ، ثقۃ الجلیل اور بقیۃ السفراء ابو الفرج علی ابن الحسین الحمدانی شامل ہیں جبکہ ان کے علاوہ اور بہت سے بزرگ فقھاءء واجلاء ان کے شاگرد رہے ہیں ۔ (2) ابن ابی الحدید نے اپنی کتاب ” شرح نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے : انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا تشریف لائی ہیں ۔ ان کے ساتھ حسنین شریفین بھی ہیں ۔ آپ فرمایا رہی ہیں: اے شیخ! میر ےان دونوں بیٹوں کو فقہ پڑھاؤ۔ پھر صبح سید مرتضی (رح) اور سید رضی کی والدہ فاطمہ اپنے دونوں بیٹوں کو لائیں ۔اور فقہ کی تعلیم کے لئے سفارش کی ۔ آپ کی تصانیف :علماء نے ذکر کیا ہے کہ بہت بڑے مصنف تھے ۔ کئی رسالے ،کتابیں ، کئی کتابوں اور مسائل کارد اور جواب اور اس کے علاوہ امالی کو ملا کر آپ کی تقریبا دوسو سے زیادہ آثار بنتے ہیں ۔ محمد حسین نصار نے آپ کی کتابوں کی تعداد ۲۱۵ لکھی ہے جبکہ ان میں صرف ۴۱ ہم تک پہنچ پائی ہیں ۔ جبکہ باقی تاریخ کے حوادث کی نظر ہوگئیں ۔ ان موجود کتابوں میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں۔۱۔ الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد ۲۔اجوبۃ المسائل السرویۃ ۳۔اجوبۃ المسائل العکبریۃ ۴۔تصحیح الاعتقاد یا الرد علی ابی جعفر ابن قولویہ ۵۔ الآمالی للشیخ المفید(رح) (1) ۔ ترتیب‮ ‬خلاصۃ‮ ‬الاقوال‮ ‬فی‮ ‬معرفۃ‮ ‬الرجال‮ ‬للعلامہ‮ ‬حلی‮ ‬۳۹۸؛‮ ‬چاپ‮:‬موسسہ‮ ‬الطبع‮ ‬التابعہ‮ ‬للآستانہ‮ ‬الرضویہ‮ ‬المقدسہ‮ ‬؛‮ ‬۱۴۲۳ھ۔۔(2) ۔ جبکہ الموتمر العالمی لالفیہ الشیخ المفید (رح) نے شیخ مفید (رح) کی وفات کے ہزار سال گزرنے پر ایک انٹرنیشل کانفرنس بلائی اور شیخ مفید(رح) کی تصانیف کو یکجا کرکے چھاپنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اب چودہ جلدوں میں ان کی تصانیف چھپ چکی ہیں۔ (مصنفات الشیخ المفید؛ الناشر : الموتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید ؛ تحقیق : السید علی میر شریفی چاپ : ۱۴۱۳ھ ۔قم ایران ۔) آپ کے مناظرے :آپ کلام میں بہت مہارت رکھتے تھے اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ گاہے بگاہے مناظرے کرتے رہتے تھے ۔حاضر جوابی ، ذہانت اور علمی مقام کی وجہ سے ہمیشہ مخالف کو خاموش کرادیتے تھے ۔آپ کے اوصاف واخلاق اورزہد وتقوی :آپ کے تقوی اور پرہیز گاری کا چرچا نہ صرف اپنوں میں تھا بلکہ آپ کےزہد وخوف خدا کا اعتراف آپ کے سرسخت مخالف بھی کیا کرتے تھے ۔ جو لوگ آپ کو رافضی فرقے کے شیخ یا امام اور گمراہ اور ضال ومضل کہا کرتے تھے وہ بھی اس چیز کا اعتراف کرتے کہ آپ اخلاق وعبادت میں اپنی مثال آپ تھے ۔ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب لسان المیزان میں کہتے ہیں: شیخ مفید(رح) رات کو تھوڑی دیر کے لئے سوتے تھے پھر جاگ کر نماز ، مطالعہ ودرس یا تلاوت قرآن میں مصروف ہوجا یا کرتے تھے ۔ (لسان المیزان ابن حجر العسقلانی جـ 5ص ۳۶۵چاپ : دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان الطبعہ الاولی ۱۹۹۶ء۔)آپ کی عظمت :آپ بہت باعظمت عالم تھے ۔ ان کی عظمت کا اندازہ امام زمانہ کی توقیعات سے لگایاجاسکتا ہے۔ جو کہ ان کے نام لکھی گئی ہیں ۔جن میں ان کی قدر ومنزلت اوردین خدا کے لئے اخلاص کا واضح ذکر موجود ہے ۔ اس کے علاوہ علمائے نے ذکر کیاہے کہ آپ کی قبر مبارک پر اشعار مکتوب تھے ۔جوکہ امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کی طرف منسوب ہیں(لؤلؤةالبحرين صـ .356) ۔ یہ بھی ان کی منزلت ومقام کی دلیل ہے ۔ آپ کی وفات وجائے مدفن :۳ ماہ رمضان ۴۱۳ ہجری کو آپ(رح) نے وفات پائی۔ آپ کی نماز جنازہ بغداد کے بہت بڑے میدان “الاشنان ” میں ہوئی ۔ یہ میدان بہت بڑاتھا لیکن پھربھی یہ تنگ پڑگیا چونکہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان کے جنازے میں شرکت کی ۔ کہا جاتاکہ آپ کی تشییع جنازہ میں اسی ہزار لوگ شامل ہوئے۔ ان شرکت کرنے والوں میں صرف شیعہ عوام تھے بلکہ اہل سنت کے عوام وخواص بھی شامل ہوئے ۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے شاگرد بزرگوار سید مرتضی نے پڑھائی۔ جبکہ ان کی موت سب لوگوں کے ناقابل برداشت تھی اس لئے بہت سے لوگوں نے ان کی وفات پر مرثیہ پڑھے ۔ ان کو دو سال کی مدت کےلئے بغداد میں ان کے گھر میں دفن کیا گیا ۔ پھر کاظمیہ میں امام جواد(ع) کے پاؤں جانب اور ابوجعفر ابن قولویہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ ((1) ۔ ترتیب‮ ‬خلاصۃ‮ ‬الاقوال‮ ‬فی‮ ‬معرفۃ‮ ‬الرجال‮ ‬للعلامہ‮ ‬حلی‮ ‬۳۹۸؛‮ ‬چاپ‮:‬موسسہ‮ ‬الطبع‮ ‬التابعہ‮ ‬للآستانہ‮ ‬الرضویہ‮ ‬المقدسہ‮ ‬؛‮ ‬۱۴۲۳ھ۔ ) مصادر ومراجع : جہود الشیخ المفید الفقھیہ ومصادر استنباطہ ؛ لسان المیزان ؛ رجال العلامہ ؛ مجموعۃ ورام ؛ مصنفات الشیخ المفید (رح) ؛ البدایہ والنھایہ ؛ المنتظم لابن جوزی ؛ رجال الطوسی ؛ تاریخ بغداد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.