غیبت میں حکومت کی نفی کرنے والی حدیث پر تجزیہ وتحقیق

157

یہ روایت امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: ‘کل رایۃ ترفع قبل قیام القائم فصاحبھا طاغوت یعبد من دون اللہ‘‘(وسائل الشیعہ،ج۱۱،ص۳۷،ح۶.)حضرت قائم (عج) کے قیام سے پہلے جو پرچم بھی اٹھے گا اس کا اٹھانے والا طاغوت ہے کہ جو خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرتاہے۔‘‘
دوسری بات یہ کہ دینی تعلیمات اوراحکام کسی خاص زمانے سے مختص نہیں ہیں بلکہ یہ ہرزمانے کے لوگوں کے لئے قابل عمل ہیں، اسی لیے ہر زمانے کے لوگ اسلام کے قوانین اور فرامین کو نافذ کرنے کے ذمہ دار ہیں جیسے:” وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَۃٍ “( انفال،60) اور ان (کفار)کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو یا” وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓئکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ “( آل عمران ،104) اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو نیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔ یا”وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَھُمَا”( مائدہ،آیہ۳۸.)اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، ایسے قوانین کے نفاذ کے لئے حکومت کی تشکیل ضروری ہے، پس نتیجہ نکلا کہ اسلام کی نگاہ میں اسلامی حکومت کی تشکیل ضروری ہے اورایک اسلامی حاکم کو چاہئے کہ وہ معاشرہ کے نظام کواسلامی طریقہ پر اجراء کرے۔
اس تمہید کے پیش نظر ہم غیبت کے دور میں حکومت کے قیام کی نفی کرنے و الی روایت کے بارے میں بحث و گفتگو کرتے ہیں۔ یہ روایت امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: ‘کل رایۃ ترفع قبل قیام القائم فصاحبھا طاغوت یعبد من دون اللہ‘‘(وسائل الشیعہ،ج۱۱،ص۳۷،ح۶.)حضرت قائم (عج) کے قیام سے پہلے جو پرچم بھی اٹھے گا اس کا اٹھانے والا طاغوت ہے کہ جو خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرتاہے۔‘‘
اسی روایت کے مشابہہ ایک اور روایت بھی ہے کہ جو امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: امام مہدی (عج)کے قیام سے پہلے جو پرچم بھی اٹھاجائے گا اس کا اٹھانے والا طاغوت ہے۔ پہلی روایت کی سند معتبر ہے لیکن دوسری روایت کی سند معتبر نہیں ہے۔
روایت کو سمجھنے کے لئے دو نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
(۱)۔روایت کے الفاظ کس قسم کے مطلب کو بیان کررہے ہیں؟
(۲)۔کیا اس بارے میں اوربھی احادیث نقل ہوئی ہیں تاکہ ان روایات کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے اس حدیث کا صحیح معنی واضح ہوجائے یا کوئی اور حدیث نقل نہیں ہوئی ہے؟
‘رایۃ‘‘ کا معنی پرچم ہے اور پرچم کا اٹھانا موجودہ حاکم نظام کے خلاف اعلان جنگ سے کنایہ کے طور پر استعمال ہوتاہے ‘صاحب پرچم‘‘ اس قیام کا قائد اور لیڈر ہے جو لوگوں کو قیام کی دعوت دیتاہے۔ طاغوت یعنی ظالم اورخدا کی نافرمانی کرنے والا وہ شخص ہے،جو لوگوں کو اپنی طرف بلاتاہے کہ اس کی حاکمیت کو قبول کرلیں۔’قبل قیام القائم‘‘ سے مراد غیبت کا زمانہ ہے ۔
روایت کے الفاظ کے پیش نظر سمجھا جاسکتاہے کہ حضرت مہدی (عج) کے قیام سے پہلے کچھ لوگ انسانوں کی نجات کا نعرہ بلند کرکے لوگوں کو اپنی طرف بلائیں گے یہ وہ لوگ ہیں جن کا دین کے بارے میں عقیدہ صحیح نہیں ہے اور یہ لوگ حکومت کو خدا اور اس کے خلیفہ کاحق نہیں جانتے بلکہ یہ لوگ مختلف مکاتب کی بنیاد رکھ کر اپنے آپ اور اپنے خیالات و افکار کو بشریت کی نجات کا واحد راستہ جانتے ہیں کہ یہی لوگ طاغوت ہیں کہ جو لوگوں کو خدا کے راستے سے ہٹا کر اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
پس اگر ایک عادل اورپرہیزگار شخص کہ جس کی پوری زندگی نورایمان سے جھلک رہی ہو،اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو خدا کے دین اور آنحضرت (عج)کے ظہور کے لے اسباب فراہم کرنے کے لئے پکارے ،تو یہ مطلب سرے سے ہی روایت کے موضوع سے خارج ہے۔
اس بات کی تائید میں ایک اور روایت ہے کہ جو صحیح سند کے ساتھ امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: اگرہم (اہل بیت پیغمبر ﷺ میں سے ایک شخص آکر تمہیں قیام کرنے کی دعوت دے تو پہلے اچھی طرف غور و فکرکرو کہ اس کے قیام کا مقصد کیاہے (اسکے قیام کو صحیح رنگ دینے کے لئے) یہ نہ کہو کہ زید بن علی (امام سجاد علیہ السلام کے فرزند) نے بھی پہلے قیام کیا تھا۔ کیونکہ زید ایک دانشور اور سچے شخص تھے اوروہ تمہیں اپنی امامت کی طرف نہیں بلاتے تھے بلکہ وہ ایسے شخص کی طرف بلاتے تھے کہ جس سے اہل بیت علیہم السلام راضی تھے اوراگر وہ کامیاب ہوجاتے تو یقیناً وہ اپنے وعدے پرعمل کرتے اورحکومت کو اس کے اہل کے حوالے کرتے۔ زیدنے ظالم حکومت کے خلاف قیام کیا تاکہ اسے سرنگوں کرے۔
لیکن جو شخص آج قیام کررہاہے وہ تمہیں کس چیز کی طرف بلارہاہے؟ کیا وہ تمہیں ایسے شخص کی طرف بلارہا ہے جس سے آل محمد راضی ہیں؟نہیں ایسا نہیں ہے ہم آپ کو گواہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اس شخص کے قیام سے راضی نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ اب اقتدار حاصل نہیں کرسکاہے لہذا ہماری مخالف کرتاہے۔جب سے اقتدار مل جاتا اور وہ کامیاب ہوجاتا تو یقیناً ہماری اطاعت نہ کرتا۔‘‘( بحار، ج۵۲،ص۳۰۱، ح۶۷.)
اس روایت کے پیش نظر ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ قیام کرنے والا اگر اپنی طرف بلائے تو وہ طاغوت ہے، لیکن اگر اس کا مقصد اورہدف، لوگوں کو خدا اوراسکے نمائندے کی طرف بلانا ہو تو ایسا قیام نہ فقط غلط نہیں ہے بلکہ یہ قیام خداوند متعال کے ارادہ کے مطابق ہے کہ اس کا ارادہ یہ ہے کہ حاکم اسلامی کی حاکمیت میں قوانین الہی کا نفاذ ہونا چاہئے ،اسی وجہ سے ائمہ معصومین علیھم السلام نے لوگوں کو علماء کی طرف بلایا ہے اور انہیں تمام امور کی پناہ گاہ قرار دیاہے۔
امام صادق علیہ السلام نے فقیہ کی طرف رجوع کرنے کے بارے میں فرمایا:’فانی قد جعلتہ علیکم حاکماً‘‘ میں نے اسے تم پرحاکم قرار دیا ہے؛ اب سوال یہ ہے کہ ظالم حکومت کے ماتحت زندگی گزارنا خدا اور عقل کو پسندیدہ ہے یا عادل عالم کی حکومت کے تحت؟اور ان میں سے کون سی حکومت امام زمانہ (عج) کے ظہور کے اسباب کو فراہم کرنے کے لئے مدد کرتی ہے؟
مختصر یہ کہ اسلام کے سماجی اورسیاسی قوانین کے نفاذ کے لئے ہردور میں ایک اسلامی حکومت کی ضرورت ہے خواہ امام معصوم کے حضور کا زمانہ ہو خواہ ان کی غیبت کا زمانہ ہو ۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ‘احکام اوردینی تعلیمات کا نفاذ علماء کے ذمہ ہے ‘‘(تحف العقول، ص۲۴۲.)اور ہر مسلمان بالخصوص عالم دین کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ ظالم حکمران کی مخالفت کرے ۔
امام حسین علیہ السلام نے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: ‘جو شخص بھی کسی ظالم حکمران کو دیکھے کہ جو خداکی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال قرار دے اورخدا کے عہد کو توڑدے اورسنت پیغمبر (ص) کی مخالفت کرے اورخدا کے بندوں کے درمیان ظلم و ستم روا رکھے اوروہ شخص ایسے حاکم کے مد مقابل اپنی گفتار اورعمل سے مخالفت نہ کرے تو خداوند متعال پر ضروری ہے کہ اسے اس ظالم کے ٹھکانے (جہنم) میں داخل کرے۔‘‘( الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۴۸.)لہذا حق کے لئے قیام کرنا طاغوت نہیں ہے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.