حكمیت كے سلسلے میں خوارج كا عقیدہ

164

اصل حكمیت سے ناراضگی
خوارج كا سب سے بڑا اعتراض امام علی(ع) پر جسے ھمیشہ تكرار كرتے تھے، ایك بیجا اور خود ساختہ غلطی صفین میں حكمیت كے عنوان سے اكٹھے تھے۔ اور كھتے تھے كس طرح ممكن دو نمایندے اپنی فكر كو مسلمانوں اور ان كے رھنما و رھبر پر تھوپ سكتے ھیں ۔؟
وہ لوگ (خوارج) حكمیت كو صرف خدا كا حق جانتے تھے۔ اور حضرت علی(ع) اور معاویہ كو حكمیت كے قبول كرنے كی وجہ سے كافر سمجھتے تھے۔ 1
كبھی كھتے تھے حضرت علی(ع) نے جان كے ڈر سے حكمیت كو قبول كیا ھے۔ امام (ع) نے اس باطل اور بے بنیاد فكر كے جواب میں فرمایا: انا لم نُحكّم الرجال و انما حكّمنا القرآن…، 2 ھم نے اشخاص كو حكمیت كے لئے منتختب نھیں كیا ھے۔ بلكہ قرآن كریم كو فیصلہ كرنے كے لئے منتخب كیا ھے۔ اور قرآن ایسی تحریر ھے كہ جو دو جلدوں كے درمیان پوشیدہ ھے۔ اور قوت گویائی نھیں ركھتا بلكہ ضروری ھے دوسرے افراد اس كی آیتوں كا معنی كریں۔ اور اس كے سلسلے میں كلام كریں۔ جس وقت شام كے لوگوں نے ھم سے مطالبہ كیا كہ قرآن كریم ھمارے بیچ حاكم ھو۔ ھم اس گروہ میں سے نھیں تھے كہ خداوند عالم كی كتاب سے كنارہ كشی اختیار كرتے درحالیكہ خداوند عالم فرماتا ھے۔ (فان تنازعتم فی شیءٍ فردّوہ الی اللہ والی الرسول) 3
اگر كسی چیز كے بارے میں اختلاف كرو۔ اس كو خداوند عالم اور رسول كی طرف پلٹا دو۔ خداوند عالم كی طرف اختلاف كو پلٹانے كا مطلب یہ ھے كہ اس كی كتاب (قرآن) كو حاكم قرار دو۔ اور پیغمبر اكرم(ص) كی طرف رجوع كا مطلب یہ ھے كہ ان كی سنت و سیرت كو حاصل كر كے اس پر عمل كرو۔ پس اگر سچائی كے ساتھ خدا كی كتاب اور پیغمبر(ص) كی سنت فیصلہ كرنے كے لئے لوگوں كے درمیان طلب كی جائے تو سب سے زیادہ میں اس كا مستحق ھوں۔ اور حق ھمارے ساتھ رھا ھے۔ اور سب سے زیادہ ھم اس كی صلاحیت ركھتے ھیں ۔
امام علی كے اس فرمان كے مطابق كہ جو قرآن كی دلیل كے ھمراہ تھا۔ واضح ھوجاتا ھے كہ خوارج كا دعویٰ تحكیم كے متعلق ایك توھّم كے علاوہ كچھ نھیں تھا۔ كہ جو ان كی جھالت كا نتیجہ اور ان كی خود غرض كی دلیل ھے، اور اگر وہ لوگ سمجھدار اور عالم اور بے غرض ھوتے تو یقیناً انھیں اپنی غلطی كا احساس ھوتا۔ لیكن چونكہ جاھل لوگ اور سخت مزاج اور جھوٹ كی پیروی كرنے والے اور دوسری جانب سے فتنہ و فساد برپا كرنے والوں كے آلۂ كار، خود غرض اور منصب طلب افراد تھے۔ صحیح اورسیدھے راستے كو منتخب كرنے میں قدرت و طاقت نھیں ركھتے تھے۔ اور اسی طرح اپنی گمراھی میں ھاتھ پیر مار رھے تھے۔ اس وجہ سے امام علی(ع) كی واضح اور روشن ھدایت سے فائدہ نہ اٹھا سكے۔
دوسری جگہ بھی حضرت علی(ع) نے خوارج كے جواب میں فرمایا ھے: فاجمع رأی ملئكم علی ان اختاروا رجلین فاخذنا علیھم ان یجعجعا عند القرآن…4، تمھارے بزرگوں كا فیصلہ صفین میں اس بات پر تھا كہ دو نمائندے(ابو موسیٰ اشعری و عمرو عاص) كو منتخب كریں۔ اور ھم نے دونوں سے عھد و پیمان باندھا كہ قرآن كریم كے سامنے خاضع رھیں اور اس كی رأی كے مطابق تسلیم خاطر رھیں۔ اور اس سے منحرف نہ ھوں اور ان دونوں نمائندوں كی رأی قرآن كے مطابق ھو۔ اور ان كے دل خدا كے حكم كی پیروی كریں۔ لیكن ان دونوں نمائندوں نے قرآن كریم كے راستے سے انحراف كیا۔ حق كو واضح اور روشن دیكھا۔ لیكن اس كے باوجود اس كو قبول نہ كیا۔ اور بے جا حكم، خداوند عالم كے حكم كے خلاف جاری كر بیٹھے۔
مرحوم مجلسی(رح) فرماتے ھیں كہ امام علی(ع) نے مقام استدلال میں ابن كوّا سے فرمایا ھے: كیا میں نے نھیں كہا تھا كہ شام والے فریب اور دھوكہ دھڑی كے راستے سے داخل ھوئے ھیں۔ اور ھم كو چاھتے كہ ابن عباس كو حكمیت كے لئے معین كریں۔ لیكن تم لوگوں نے ابو موسیٰ اشعری كی نمائندگی پر اصرار كیا اور میں نے مجبورا اسے قبول كیا۔ اور تم لوگوں كے سامنے ان دونوں نمائندوں سے عہد لیا كہ قرآن كریم كے حكم كے مطابق حكم كریں گے۔
لیكن اس كے با وجود ان لوگوں نے مخالفت كی۔ لھٰذا اب مجھ سے كیا تعلق ھے؟ اس جگہ پر ابن كوّا نے امام(ع) كے قول كی تصدیق كی۔ اور دس آدمی كے ساتھ امام علی(ع) كے لشكر میں شامل ھوگیا۔ 5
ان دلیلوں كی بنیاد پر
اولاً: خود خوارج نے ان دونوں نمائندوں كو منتخب كیا۔ اور حضرت علی(ع) ان دونوں كی حكمیت كو قبول كرنے پر مجبور ھوئے۔
ثانیاً: امام علی(ع) نے ان دونوں نمائندوں سے عھد لیا كہ قرآن كریم كے بر خلاف حكم نہ كردیں۔ لیكن ان دونوں نے ظلم كے راستے كو انتخاب كیا۔ اور خیانت كی۔ اس لحاظ سے حضرت علی(ع) نے كسی قسم كی كوتاھی نھیں كی ھے۔ اور حضرت كا دامن تمام تھمتوں سے پاك ھے۔
ثالثاً: حكمیت كے مسئلے كو قبول كرنے كے بعد ھوشیار اور صالح اصحاب نمائندوں كے منتخب كرنے میں بھی سیدھے راستے سے منحرف ھو گئے۔
اور اس كے نتیجہ میں ان دونوں نمائندوں نے قرآن كریم اور سنت نبوی كی مخالفت كر كے عملی طور سے باطل كے راستے پر قدم ركھا۔
پس ان چیزوں كی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ھوتی ھے كہ جو لوگوں ھمیشہ امام علی(ع) كو صحیح راستے پر چلنے سے روكتے تھے۔ یعنی اس عمل كے ذمہ دار خوارج ھیں نہ امام(ع) ۔
گفتگو كے لئے زمان بندی پر اعتراض
خوارج نے امام علی(ع) پر اعتراض كیا كہ كیوں آپ نے حكمیت كے لئے وقت معین كیا۔ (كیونكہ صلحنامہ صفر كے مھینے میں ۳۸ روز میں انجام پایا اور سات مھینے كے بعد گفتگو كے لئے وقت معین ھوا) اور اسے فوراً انجام نہ دیا۔ اس تاخیر كا سبب كیا تھا؟
امام علی(ع) ان كے جواب میں فرماتے ھیں: (فانما فعلتُ ذلك لیتبین الجاھل و یثبت العالم…) 6 میں نے اس كام میں اس لئے تاخیر كی تاكہ اس مدت میں نہ جاننے والے آگاہ ھو جائیں۔ اور عقلمند افراد اپنے ارادے میں ثابت قدم ھو جائیں۔ اور شاید اس صلحنامہ كی مدت میں خداوند عالم امت كے كام كی اصلاح كر دے اور حق كے پھچاننے كا راستہ صاف ھو جائے۔
اس بنا پر امام علی(ع) نے دونوں نمائندوں كے درمیان موقع فراھم كر كے ایك بلند مقصد و ارادے كو نظر میں ركھتے تھے لیكن خوارج اس مقصد كو درك كرنے سے عاجز تھے۔
امام علی(ع) نے محكم اور ٹھوس دلیلوں سے كچھ خوارج كے دلوں پر اپنی حقانیت كا سكہ جما دیا تھا اس طرح كہ ان كے لئے كچھ كھنے كا موقع نہ تھا اس وجہ سے كچھ لوگ جن كے دلوں میں غرض اور كینہ نہ تھا۔ حضرت علی(ع) كے ساتھ ھو گئے۔ اور زیادہ تر لوگ جو كہ سوائے غرض ورزی اور كینہ و دشمنی كے كوئی دلیل اپنے مدعا كو قانع كرنے كے لئے نھیں ركھتے تھے، كٹ حجتی پر ڈٹے رھے۔ اور آخر كار جنگ نھروان میں اسلام كی طاقت و لشكر كے ہاتھوں قتل كر دئے گئے۔
گناہ كبیرہ كو انجام دینے والے كے متعلق خوارج كا نظریہ
اس زمانے كے سماج میں ایك اھم مسئلہ یہ تھا كہ كیا ایمان فقط ایك دلی اعتقادی چیز ھے یا عمل بھی اس كے ركن میں شمار ھوگا۔ اور ایمان اعتقاد اور عمل دونوں چیزوں سے كامل ھوگا؟ اگر كوئی مسلمان گناہ انجام دے اور عمل كی منزل میں اس كا پیر لغزش كر جائے۔ تو اس كا كیا حكم ھے؟
سخت اور افراطی عقیدہ ركھنے والے خوارج، ایمان كو عقیدہ و عمل كا مجموعہ جانتے تھے۔ دل كے عقیدے كو كافی نھیں جانتے تھے۔ بلكہ واجبات كو بجا لانے اور منكرات كے ترك كرنے كو ایمان كا جزو شمار كرتے تھے۔ اس لحاظ سے گناہ كبیرہ انجام دینے والے كو كافر اور اس كی جان و مال كو حلال سمجھتے تھے۔ اس كے بر عكس شیعہ اور اھل سنت كے كہ وہ گناہ كبیرہ انجام دینے والے كو فاسق مسلمان جانتے ھیں نہ كہ كافر۔
خوارج اس افراطی عقیدہ ركھنے كی بناء پر بھت سے مسلمانوں كو كافر فرض كرنے لگے۔ اور ان كے قتل میں مشغول ھو گئے۔ خوارج كے عقیدے كے مطابق كفر اور ایمان كے بیچ كسی قسم كا حد فاصل نھیں ھے۔ اور سب كے سب انسان یا كافر ھیں یا مسلمان… وہ لوگ افراط اور سخت مزاجی كی بنیاد پر اپنے عقیدے كے بر خلاف عقیدہ ركھنے والے لوگوں كی سر زمینوں كو (دار الكفر) كہتے تھے اور فقط اپنی حكومت كے قلم و علاقوں كو (دار السلام) كہتے تھے۔
اور اسی فكر كی بنیاد پر لوٹ مار كرتے اور مختلف بھانہ سے مسلمانوں كا قتل عام كرتے اور ھر وہ مسلام جو كہ ان كے عقیدے كے خلاف ھوتا اسے كافر سمجھتے تھے۔ نمونے كے طور پر، جس وقت عبداللہ بن خبّاب 7 ان لوگوں كے آمنے سامنے ھوئے اور فقط اس جرم میں كہ وہ ان لوگوں كے ھم عقیدہ نہ تھے اور كھا كہ علی بن ابی طالب(ع) خدا كے دین میں عام لوگوں سے زیادہ آگاھی اور معرفت ركھنے والے ھیں۔ ان كو اور ان كی زوجہ جو كہ حمل كی حالت میں تھی قتل كر دیا۔ اور زوجہ كے شكم كو چیر كر بچہ كے سر كو بدن سے الگ كر دیا۔ 8
تعجب ھے اس گروہ سے كہ جو اپنے مخالف مسلمانوں كو قتل كرنے میں كسی قسم كی تردید نھیں ركھتے۔ لیكن مسلمانوں كے علاوہ۔ جیسے یھودیوں اور نصرانیوں اور كافروں كے ساتھ نرمی اور مھربانی سے پیش آتے ھیں یھاں تك كہ ایك خوارج نے كسی كے كتّے كو قتل كر دیا۔ جس وقت اُسے یہ معلوم ھوا كہ یہ كتا كسی اھل ذمہ (یہودی یا نصرانی) كا ھے تو اس كو تلاش كر كے اس سے معافی اور رضا مندی طلب كی۔ 9
اور یہ بھی ملتا ھے كہ واصل ابن عطا اپنی قوم كے ساتھ خوارج كے پاس سے گزر رھا تھا كہ اس گروہ كے لوٹ مار كرنے والوں سے سامنا ھوا۔ واصل نے اپنے ساتھیوں سے كھا: تم لوگ خاموش رھنا میں ان لوگوں سے گفتگو كروں گا خوارج نے كھا تم لوگ كون ھو؟ واصل نے جواب دیا۔ ھم مشركوں كے ایك گروہ سے تعلق ركھتے ھیں تمھاری پناہ میں آئے ھیں تاكہ اللہ كے كلام كو سنیں خوارج نے واصل اور ان كے ساتھیوں كو خدا كے احكام كی تعلیم دی۔ اور ان لوگوں نے اسے قبول كیا۔ اس وقت خوارج نے كھا تم لوگ چلے جاؤ اس لئے كہ ھمارے بھائی ھو اس وقت واصل نے اس آیت كی تلاوت كی: (و ان احد من المشركین استجارك فاجرہ حتی یسمع كلام اللہ ثم ابلغہ مأ منہ) 10 جب كبھی كافروں میں سے كوئی ایك تمھاری پناہ میں آئے تو اس كو پناہ دو۔ تاكہ خدا كے كلام كو سنے پھر اس كو اس كے مقصد تك پھونچا دو۔ واصل نے خوارج سے درخواست كی كہ انھیں اپنی منزل تك پھونچائیں، لھٰذا خوارج نے اس كی دلیل كی خاطر ان لوگوں كو اپنی حمایت كے ساتھ مقصد تك پھونچایا۔ 11
بہر حال خوارج اپنے اسی افراطی فرعومات كی وجہ سے اپنے ھم خیال نہ ھونے والے مسلمانوں كو قتل كرتے تھے جبكہ یہودیوں اور عیسائیوں كو آزاد چھوڑ دیتے تھے اور كہا كرتے تھے كہ یہ لوگ اھل ذمہ ھیں اور پیغمبر نے بھی ان كے ساتھ ایسا ھی سلوك كیا ھے۔
وہ لوگ امام علی(ع) كو حكمیت كے قبول كرنے كی وجہ سے جو كہ ان كی نظر میں گناہ كبیرہ تھا۔ كافر سمجھتے تھے اور جو شخص بھی ان كے عقیدہ كے موافق تھا۔ اس كو بھی كافر كھتے تھے۔ اس موقع پر حضرت امام علی(ع) نے خوارج كے غیر منطقی عقیدے اور تفكر كے جواب میں فرمایا: (فان أبیتم الا ان تزعموا انی احطأت و ضللت، فلم تضللون عامّۃ امّۃ محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) بضلالی) 12 اگر تم لوگ یہ گمان كرتے ھو كہ میں نے غلطی كی ھے اور گمراہ ھوا ھوں پس كیوں میری گمراھی كی وجہ سے محمد(ص) كی ساری امت كو گمراہ جانتے ھو۔ میری وجہ سے ان لوگوں كو برا بھلا كھتے ھو۔ اور میرے گناہ كی وجہ سے ان لوگوں كو كافر سمجھتے ھو۔؟
حضرت علی(ع) اسی خطبہ میں پیغمبر اكرم(ص) كے طور طریقے كو ان كی گنھگار امت كے سلسلے میں فرماتے ھیں: رسول خدا(ص) زنا كرنے والے كو سنگسار اور قتل كرنے والے كو قصاص اور چوری كرنے والے كا ھاتھ كاٹتے تھے۔ لیكن میراث، شادی اور غنیمت كی تقسیم میں ان لوگوں كے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ كرتے تھے اور ان كے جنازے پر نماز پڑھتے تھے۔
پیغمبر(ص) كا اپنی گنھگار امت كے ساتھ یہ طور طریقہ اس بات كی دلیل ھے كہ مسلمان گناہ كبیرہ كو انجام دینے سے كافر نھیں ھوجاتا۔ بلكہ اس كے گناہ كے اعتبار سے خداوند عالم اسے سزا دے گا۔ اور یہی شیعوں كا صحیح نظریہ، گناہ كبیرہ انجام دینے والے كے متعلق ھے۔ اس كے با وجود خوارج اپنے مسلمان دشمنوں كا خون حلال سمجھتے تھے۔ اور عقیدہ ركھتے تھے كہ حقیقی مسلمان صرف ھم لوگ ھیں۔ اور لفظ (مسلمان) كو اپنے علاوہ كسی اور پر اطلاق نھیں كرتے تھے۔ 13
امامت كے مسئلے میں خوارج كا نظریہ
اسلامی فرقوں كے درمیان امامت كی بحث صدر اسلام سے آج تك ایك اھم موضوع رھا ھے۔ مذاھب اسلامی كے بھت سے علماء اور دانشمندوں نے اس موضوع پر كتابیں لكھی ھیں۔ اور اپنے اپنے نظریہ كو قلم بند كیا ھے۔
خوارج كا امام علی(ع) كے لشكر سے نكلنا، اصل میں امامت كے مسئلے كی بناء پر تھا۔ اور پھلے ھی مرحلہ میں جس وقت صفین میں ان كا بیج پڑا۔ (لا حكم الا اللہ) “خدا كے علاوہ كوئی حكم نھیں” كے نعرہ كے ذریعہ امامت كے موضوع سے انكار كیا۔ اسلامی معاشرہ اور سماج كو امام اور حاكم سے بے نیاز فرض كیا۔ اور حكم اور حاكمیت كو فقط خدا سے مخصوص سمجھ لیا۔
حضرت امیر المومنین علی(ع) خوارج كے اس نعرہ كے متعلق فرماتے ھیں: (كلمۃ حق یراد بھا الباطل انہ لا بُدّ للناس من امیر بَرٍ او فاجر) 14 یا طبری كی نقل كے مطابق (كلمۃ حق یلتمس بھا باطل) 15 بات حق ھے لیكن اس سے باطل كا ارادہ كیا گیا ھے، ھاں صحیح ھے كہ خدا كے علاوہ كسی كا فرمان، فرمان نھیں ھے لیكن یہ لوگ كھتے ھیں حكم نافذ كرنے كا حق بھی فقط خدا كے لئے ھے۔ جبكہ لوگوں كے لئے ایك امیر كا ھونا ضروری ھے چاھے عادل ھو یا فاجر۔ یھاں تك كہ مومن اس كی حكومت كے سایہ میں اپنے كام میں مشغول رھے اور كافر بھی اس سے فائدہ اٹھائے۔
خوارج نے بھت ھی جلدی یہ محسوس كر لیا كہ بغیر رھبر اور امیر كے كسی كام كو آگے نھیں بڑھایا جا سكتا۔ اسی غرض سے (حروراء) میں عبداللہ بن وھب راسبی كو اپنا امیر اور سردار منتخب كر لیا۔ اس كے ھاتھ پر بیعت كی۔ 16 باوجود اس كے كہ(لا حكم الا اللہ) كا نعرہ ان كی زبان پر جاری تھا۔ لیكن ان كا نظریہ اور عقیدہ عملی طور پر امامت اور حكومت كے سلسلے میں تبدیل ھو گیا۔
شھرستانی كھتا ھے: “خوارج كا عقیدہ ھے كہ ممكن ھے دنیا میں كوئی امام نہ ھو كیونكہ جس وقت امام كی ضرورت محسوس ھر شخص كو چاھئے كہ غلام ھو یا آزاد۔ نبطی ھو یا قریشی، اس كا انتخاب كر سكتا ھے اسی وجہ سے وہ لوگ امام كے لئے قریشی ھونے كی شرط كو ضروری نھیں جانتے” 17 جبكہ سارے مسلمانوں نے چاھے وہ شیعہ ھوں یا سنی، امام كے لئے قریشی ھونے كی شرط كو ضروری جانتے ھیں۔
توجہ كے قابل یہ ھے كہ ان لوگوں نے فقط عبد اللہ بن وھب كے امیر اور حاكم ھونے پر اكتفا نھیں كیا بلكہ (شبث بن ربعی) كو جنگ كا سپہ سالار اور عبداللہ بن كوّا كو اپنا امام جماعت منتخب كیا۔ 18 یھاں تك كہ اس سے بھی زیادہ تعجب خیز بات یہ ھے كہ بعض موقع پر عبداللہ بن وھب كو پانچواں خلیفۂ راشد سمجھتے تھے۔
خوارج كے حالات كی چھان بین كرنے سے واضح ھو جاتا ھے كہ اگرچہ یہ گروہ امامت كے مسئلے میں مساوات، اور برابری كا نعرہ بلند كرتا تھا یھاں تك كہ عرب كے علاوہ دوسرے لوگوں كے لئے بھی امامت كو جائز جانتا تھا۔ لیكن كبھی بھی مشاھدہ میں نہ آیا كہ غیر عرب كو امیر اور سردار منتخب كیا ھو۔ وہ لوگ سر زمین عجم جیسے ایران میں بھت زیادہ آتے جاتے تھے۔ ایك موقع پر (نجدات) كے خوارج نے ایك غیر عرب كے ہاتھ پر جس كا نام ثابت تمّار تھا بیعت كرلی۔ لیكن كچھ ھی دنوں كے بعد انھوں نے اپنی پوری سعی اور كوشش صرف كردی كہ ان كا رھبر اور پیشوا خالص عرب قبیلے سے تعلق ركھتا ھو۔ اس بناء پر ثابت كے ذمہ كر دیا كہ ایك صالح امیر عربوں میں سے تلاش كرے اور اس نے بھی ابو فدیك كو رھبری كے لئے منتخب كیا۔ 19
كچھ لوگوں كھنے كے مطابق غلاموں كی تعداد خوارج كے درمیان بھت كم تھی۔ اس كی وجہ یہ تھی كہ وہ لوگ اپنے قوم قبیلے كی خاطر متعصب تھے غلاموں كو حقارت كی نگاہ سے دیكھتے تھے۔ 20
چاروں خلفاء كے سلسلے میں خوارج كا عقیدہ
خوارج چار خلفاء كی جانشینی كے متعلق عقیدے ركتھے تھے۔ وہ لوگ ابوبكر اور عمر كی خلافت كو قبول كرتے ھوئے ان دونوں كو خلیفہ اور مسلمانوں كا بر حق امام جانتے تھے كہ وہ دونوں صحیح انتخاب كے ذریعہ خلافت كے عھدے پر فائز ھوئے ھیں۔ اور مسلمانوں كے صحیح راستے سے منحرف نھیں ھوئے اور كسی خلاف كام كے مرتكب نہیں ھوئے۔ وہ لوگ عثمان اور حضرت علی(ع) كے منتخب ھونے كو صحیح جانتے تھے۔ لیكن عقیدہ ركھتے تھے كہ عثمان نے خلافت كے چھٹے سال كے آخر میں اپنے راستے كو تبدیل كر دیا اور مسلمانوں كی مصلحت كو نظر انداز كر دیا۔ اس لحاظ سے خود بخود خلافت كے منصب سے برخاست ھو گئے۔ لیكن چونكہ خلافت كے عھدہ پر زبردستی باقی رھے لہٰذا وہ كافر ھو گئے اور واجب القتل ھو گئے ۔
امام علی(ع) كو بھی حكمیت كے مسئلے كو قبول كرنے سے پھلے صحیح راستے پر فرض كرتے تھے۔ لیكن بعد میں [حكمیت كے مسئلہ میں اپنی غلطی سے] توبہ نہ كی لہٰذا ان كو كافر اور واجب القتل فرض كرنے لگے اس وجہ سے خوارج نے عثمان كی خلافت كے ساتویں سال كی ابتداء میں اور حضرت علی(ع) كی خلافت سے حكمیت كے بعد بیزاری اور كنارہ گیری اختیار كی۔ 21
وہ لوگ ان چار خلفاء كے بعد آنے والے خلفاء سے بھی بیزاری اور ھمیشہ ان سے جنگ و جدال كرتے رھے۔ یھاں تك كہ جو لوگ حضرت علی(ع) كے كفر كے مخالف تھے وہ بھی عثمان كو كافر كھتے تھے اور معاویہ اور عمر و عاص كو بھی كافر سمجھتے تھے۔ 22
حضرت علی(ع) نے ان كے جواب میں فرمایا: (…أ بعد ایمانی باللہ و جھادی مع رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اشھد علی نفسی بالكفر! لقد ضللت اذاً و ما انا من المھتدین) 23 كیا خدا پر میرے ایمان ھونے اور رسول خدا(ص) كے ساتھ میرے جھاد كرنے كے بعد میں اپنے كفر كی گواھی دوں۔؟ اگر ایسا كروں تو میں گمراہ ھوا اور ھدایت پانے والوں میں میرا شمار نہ ھوگا۔
امام علی(ع) اپنے اس بیان میں ایمان كی سبقت اور خدا و رسول كی راہ میں جنگ كرنے كو ذكر كرتے ھیں، ایسے شخص كو كفر سے منسوب نھیں كیا جاسكتا لہٰذا خوارج كا نظریہ دلیل اور استدلال سے اس طرح خالی ھے۔ حضرت علی(ع) كے سلسلے میں حباب كا پانی كے اوپر حباب كے مترادف ھے جس كی كوئی حقیقت نھیں ھوتی اور اس فصل كے مطالب كی بنیاد پر ھم كہتے ھیں كہ خوارج مین اس طرح كی فكر اور نظریہ سبب ھوئے كہ وہ لوگ ھمیشہ سر كشی اور زیادتی كی طرف قدم اٹھائیں اور كبھی بھی اپنے كو كسی حكومت كا تابع فرض نہ كریں۔ اس لحاظ سے ان لوگوں نے عمر كا زیادہ حصہ حكومت وقت سے مقابلہ آرائی میں گزار دیا۔
منبع: خوارج تندیس فتنه/ ولی الله عیسی زاده؛ صص: 94 – 108
 
1. وقعۃ صفین، ص۵۱۳ ۔
2. نھج البلاغہ، خطبہ ۱۲۵۔
3. سورہ نساء، ۵۹ ۔
4. نھج البلاغہ، خطبہ ۱۷۷۔
5. بحارالانوار، ج۳۳، ص۳۹۵۔
6. نھج البلاغہ، خطبہ۱۲۵۔
7. عبداللہ بن خباب بن ارت) اسلام میں پیدا ھونے والے فرزندوں میں سے پھلے فرزند تھے اور پیغمبر(ص) كو بھی دیكھا تھا۔ آپ كے والد بزرگوار رسول اللہ (ص) كے صحابیوں میں سے تھے۔ اور اسلام لانے والوں میں سبقت كرنے والے تھے۔ اس وجہ سے آپ كو بہت زیادہ سختی اور عذاب مكہ كے كافروں كی طرف سے اٹھانا پڑا۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج۱، ص۵۹۱، وج۳، ص۱۱۸۔
8. الكامل فی التاریخ، ج۳، ص۲۱۸، تاریخ الامم والملوك، ج۴، ص۶۰ (الخوارج ھم انصارعلی، ص۱۷۵۔) (تعجب كا مقام ھے اس معتبر سند كے با وجود، سلیمان بن داود خوارج كے ھاتھوں ابن خباب كے قتل كی نفی كرتا ھے۔ اور عقیدہ ركھتا ھے كہ ایسا كام بڑے اور عظیم صحابہ سے سر زد نھیں ھو سكتا۔)
9. الكامل فی التاریخ، ج۳، ص۲۱۸، تاریخ الامم والملوك، ج۴، ص۶۰۔
10. سورہ توبہ، ۶۔
11. شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۲۸۱۔
12. نھج البلاغہ، خطبہ۱۲۷۔
13. تاریخ سیاسی صدر اسلام شیعہ وخوارج، ص۴۴۔
14. نھج البلاغہ، خطبہ۴۰۔
15. تاریخ الامم والملوك، ج۴، ص۵۳۔
16. تاریخ الامم والملوك، ج۴، ص۵۵؛ شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۳۰۸؛ انساب الاشراف، ج۲، ص۳۶۲۔
17. الملل والنحل، ج۱، ص۱۱۶۔
18. مقامات الاسلامیین، ج۱، ص۱۹۳؛ تلبیس ابلیس، ص۹۱۔
19. تاریخ سیاسی صدر اسلام شیعہ وخوارج، ص۸۴۔
20. فجرالاسلام، ص۲۶۲۔
21. الملل والنحل، ج۱، ص۱۱۸۔
22. مقامات الاسلامیین، ج۱، ص۱۹۳۔
23. نھج البلاغہ، خطبہ۵۸۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.