مستقبل میں نجات دینے والے کی آمد کا عقیدہ

189

یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو ہمیشہ سے اور ہرزمانے میں تمام اقوام اورملتوں میں رائج ہے۔ مذاہب سے مربوط کتابوں میں اسے مختلف ناموں اور القاب سے بیان کیا گیاہے مثال کے طور پر یہود ی مذہب میں اسے سرور میکائیلی، عزیز، منحاس، ساشیح کے نام سے لکھا گیا ہے ،اور عیسائیت میں اسے مھمید آخر، مسیح اورانسان کے بیٹے سے تعبیر کیا گیا ہے، مکتب زرتشت میں اسے سوشیانس کہا جاتاہے ہندؤوں کے مذہب میں اسے ویشو، منصور اورفرخندہ کے نام سے لکھا گیاہے اوربدھا مذھب میں اسے ماتیریا اورپانچواں بدھا اورمذہب اسلام میں اسے مہدی اورقائم کے نام سے بیان کیا گیاہے۔
اقوام اورامتوں کی تاریخ سے جو چیز ملتی ہے وہ یہ ہے کہ آخری زمانے میں منجی عالم بشریت کے نام سے ایک مصلح اورالہی نمائندے کے ظہور کا عقیدہ اتنا اساسی اورحقیقی ہے کہ جو تمام الہی ادیان اوردنیا کی تمام اقوام و ملتوں کے دلوں کی گہرائیوں میں پایاجاتاہے یہاں تک کہ بشریت کی پوری تاریخ میں،لوگ زندگی کے مختلف نشیب و فراز میں اس قسم کے طاقتور الہی نمائندے کے ظہور کو یاد کرکے اپنے آپ کو نا امیدی سے نجات دیا کرتے تھے اور اس دنیا کے اختتام پر اس مصلح اورمنجی عالم بشریت کے ظہور کے انتظار میں دن گن گن کرگزار رہے ہیں۔
اگرچہ ادیان میں منجی کو مختلف افراد پر اطلاق ہواہے لیکن ظہور کے وقت کی خصوصیات میں بہت زیادہ مشترکہ نکات پائے جاتے ہیں، مثلاً ظہور کے کے دوران لوگوں کا ایک آئین اور دین کے تحت جمع ہونا، عدل و انصاف کا قیام ، ظلم ومشرک کاخاتمہ، مکمل طور پر امن وسکون کا ہونا،تمام لوگوں کا حق کو قبول کرنا ،سب فقر وغربت کا خاتمہ یہ سب ایسے نکات ہیں جن پر تمام ادیان کا اتفاق ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.