حضرت ابوطالب(ع) اور حضرت خديجہ (س) كى رحلت
جناب رسول خدا (ص) اور اصحاب رسول (ص) كو شعب ابوطالب سے نجات ملى تو اس بات كى اميد تھى كہ مصائب وآلام كے بعد ان كے حالات سازگار ہوجائيں گے اور خوشى كے دن آئيں گے مگر ابھى دو سال بھى نہ گزرے تھے كہ دو ايسے تلخ اور جانكاہ صدمات سے دوچار ہوئے جن كے باعث رسول خدا(ص) اور اصحاب رسول (ص) پر گويا غم واندوہ كا پہاڑ ٹوٹ پڑا، رنج واندوہ كا سبب حضرت ابوطالب (ع) كى رحلت اور اس كے تين دن يا ايك ماہ بعد آپ (ص) كى جان نثار شريكہ حيات (حضرت خديجہ (ع) ) كى بھى اس جہان فانى سے رحلت تھى _(1)حضرت ابوطالب (ع) اور حضرت خديجہ (ع) كو ‘حجون’ نامى قريش كے قبرستان ميں سپرد خاك كيا گيا_حضرت ابوطالب اور حضرت خديجہ (ع) كى رحلت نے رسول خدا (ص) كو بہت مغموم و محزون كيا چنانچہ آپ (ص) نے اس غم والم كا اظہار ان الفاظ ميں فرمايا كہ ان چند دنوں ميں اس امت پر دو ايسى مصيبتيں نازل ہوئي ہيں كہ ميں نہيں جانتا كہ ان ميں سے كس نے مجھے زيادہ متاثر كيا ہے_(2)رسول خد ا(ص) پر اپنے واجب الاحترام چچا اور وفا شعار شريكہ حيات كى رحلت كا اس قدر صدمہ ہوا كہ آپ (ص) بہت ہى كم ، گھر سے باہر تشريف لاتے چونكہ يہ دونوں عظيم حادثات بعثت كے دسويں سال ميں واقع ہوئے تھے اسى لئے ان كى اہميت كو مد نظر ركھتے ہوئے اس سال كو ‘عام الحزن’ يعنى غم واندوہ كا سال كہاجانے لگا_(3)
حضرت ابوطالب (ع) كى مظلوميتحضرت ابوطالب (ع) كو چونكہ اپنے بھتيجے كے اوصاف حميدہ كا علم تھا اور اس امر سے بھى واقف تھے كہ آپ (ص) كو رسالت تفويض كى گئي ہے اسى لئے وہ آپ(ص) كى تنہائي كے وقت نہايت خاموشى سے آپ (ص) پر ايمان لے آئے تھے وہ رسول خدا (ص) كى بياليس سال سے زيادہ عرصہ تك حفاظت ونگرانى كرتے رہے (يعنى اس وقت سے جب كہ رسول خدا(ص) كاسن مبارك آٹھ سال تھا اس وقت تك جبكہ آپ(ص) كا سن شريف پچاس سال كو پہنچ گيا ) وہ چونكہ حفاظت و حمايت كو اپنى ذمہ دارى سمجھتے تھے اسى لئے وہ آپ (ص) كے پروانہ وار شيدائي تھے ، يہى وجہ تھى كہ انہوں نے رسول خدا (ص) كے آسمانى دين كى ترويج كى خاطر كبھى بھى جان ومال قربان كرنے سے دريغ نہيں كيا ، يہاں تك كہ انہوں نے اسى (80) سال سے زيادہ كى عمر ميں اس وقت انتقال كياجبكہ آپ (ع) كا دل خدا اور رسول (ص) پر ايمان سے منور تھا_حضرت ابوطالب (ع) كى رحلت كے بعد دشمنوں كے آستينوں ميں پوشيدہ ہاتھ بھى باہر نكل آئے اور وہ اس بات كو ثابت كرنے كى كوشش كرنے لگے كہ صدر اسلام كے اس مرد مجاہد كى موت بحالت كفر واقع ہوئي ہے تاكہ لوگوں پر يہ ظاہر كرسكيں كہ يہ ان كا قومى جذبہ تھا جس نے انہيں اس ايثار و قربانى پرمجبور كيا _حضرت ابوطالب(ع) كے ايمان كے متعلق شك و شبہ پيدا كرنے ميںجو محرك كار فرماتھا اس كا مذہبى عقيدے سے زيادہ سياسى پہلو تھا، بنى اميہ كى سياسى حكمت عملى كى بنياد چونكہ خاندان رسالت(ص) كے ساتھ دشمنى اور كينہ توزى پر قائم تھى اسى لئے انہوںنے بعض جعلى روايات پيغمبر اكرم (ص) سے منسوب كركے حضرت ابوطالب (ع) كو كافر مشہور كرنے ميںكوئي دقيقہ فروگذاشت نہ كيا وہ اس بات كو كہ وہ ايمان نہيں لائے تھے، فروغ ديكر لوگوں كو يہ باور كرانا چاہتے تھے كہ ان كے فرزند عزيز حضرت على (ع) كو عظمت و فضيلت كے اعتبار سے دوسروں پر كوئي فوقيت و برترى حاصل نہيں ہے اور اس طرح آپ (ع) كى شخصيت داغدار ہوسكے اگر حضرت ابوطالب (ع) حضرت على (ع) كے والد بزرگوار نہ ہوتے تو وہ ہرگز اس بات كا اتنا زيادہ چرچا نہ كرتے اور نہ ہى اس قدر نماياں طور پر اتنا جو ش وخروش دكھاتے_كوئي بھى ايسا انصاف پسند شخص جسے تاريخ اسلام سے معمولى واقفيت ہوگى اور پيغمبر اكرم (ص) كے اس عظيم حامى اور مددگاركى جدو جہد سے لبريز زندگى كے بارے ميں علم ركھتا ہوگا وہ اپنے دل ميں حضرت ابوطالب (ع) كے بارے ميں ذرا بھى شك وشبہ نہ لائے گا جس كى دو وجوہات ہيں:اول:_ ممكن ہے كوئي شخص قومى تعصب كى بناپر، كسى دوسرى شخص يا قبيلے كى حمايت و حفاظت كى خاطركچھ عرصے تك مرنے مارنے پر آمادہ ہوجائے ليكن يہ اس امر كا باعث نہيں ہوسكتا كہ وہ شخص چاليس سال تك نہ صرف حمايت وپشت پناہى كرے بلكہ اس شخص كا پروانہ وار شيفتہ بھى ہونيز اپنے جان سے بھى پيارے بيٹے كو اس پر قربان كردے_دوم:_ يہ كہ حضرت ابوطالب (ع) كے اقوال و اشعار ، پيغمبر (ص) اور آئمہ معصومين عليہم السلام كىاحاديث اور روايات اس وہم وگمان كى ترديد كرتے ہيں اور اس بات پر متفق ہيں كہ رسول خدا (ص) كى حمايت كا اصل محرك ان كا وہ راسخ عقيدہ اور محكم ايمان تھا جو انہيں رسول (ص) كى ذات بابركت پر تھا_چنانچہ امام زين العابدين عليہ السلام كى محفل ميں حضرت ابوطالب (ع) كا ذكر آگيا تو آپ (ع) نے فرمايا :’مجھے حےرت ہے كہ لوگوں كو حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان پر كيوں شك و تردد ہے كيونكہ كوئي ايسى عورت جس نے دين اسلام قبول كرنے كا شرف حاصل كرليا وہ اپنے كافر شوہر كے عقد ميں كيسے رہ سكتى ہے ، حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ عليہا ان اولين خواتين ميں سے تھيں جودين اسلام كى سعادت سے مشرف ہوئيں چنانچہ جب تك حضرت ابوطالب (ع) زندہ رہے وہ ان سے جدا نہ ہوئے’_حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان سے متعلق سوال كيا گيا تو آپ (ع) نے فرمايا :’اگر حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان كو ترازو كے ايك پلڑے ميں ركھاجائے اور دوسرے پلڑے ميں ديگر لوگوں كے ايمان كو ركھ كر تولاجائے تو يقينا حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان كا پلڑا بھارى رہے گا_ كيا آپ لوگوں كو اس بات كا علم نہيں كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے بعض لوگوں كو يہ حكم ديا تھا كہ وہ حضرت ابوطالب (ع) كى جانب سے فريضہ حج ادا كريں’_(4)حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے رسول خدا (ص) كى حديث بيان كرتے ہوئے فرمايا :’حضرت ابوطالب (ع) كا ايمان اصحاب كہف كے ايمان كى طرح تھا كہ وہ لوگ دل سےتوايمان لے آئے تھے مگر زبان سے اس كا اظہار نہيں كرتے تھے ان كے اس عمل كا خداوند تعالى انہيں دو گنا اجر دے گا’_دين اسلام كى ترويج و تبليغ كےلئے حضرت ابوطالب (ع) كى خدمات كے بارے ميں ابن ابى الحديد لكھتا ہے كہ :’كسى شخص نے حضرت ابوطالب (ع) كے ايمان سے متعلق كتاب لكھى اور مجھ سے كہا كہ اس كے بارے ميں اپنى رائے كا اظہار كروں اور اس پر اپنے ہاتھ سے كچھ لكھوں، ميں نے كچھ اشعار اس كتاب كى پشت پرلكھ ديئے جن كا مضمون يہ تھا:
وَ لَولَا اَبُوُطَالبٌ وَابنُہُلَمَا مُثّلَ الدّينُ شَخصَاً فَقَامافَذاك بمَكَّةَ آوَى وَحامىوَہذَا بيَثرَبَ جَسَّ الحماما
اگر ابوطالب (ع) اور ان كے فرزند حضرت على (ع) نہ ہوتے تو دين اسلام ہرگزقائم نہيں ہوسكتا تھا باپ نے مكے ميں پيغمبر (ص) كى حمايت كى اور بيٹا يثرب ميں دين كى حمايت ميں موت كى سر حد تك آگے بڑھ گيا_
حوالہ جات1_الصحيح من سيرة النبي(ص) ج 2 ص 128_2_تاريخ يعقوبى ج 2 ص 35_3_السيرة الحلبيہ ج 1 ص 347_4_شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 14 ص 68_70 والغدير ج 7 ص 380_