قرآن کا سائنسی مزاج اور الہامی تر تیب

211

سائنسی مزاج یا سائنسی رویہسائنس بنیادی طور پر ایک انداز فکر ہے۔ محدود معنوں میں ہم سائنس سے فزکس ، کیمسٹری ، بیالوجی و غیرہ مراد لیتے ہیں لیکن آفاقی مفہوم میں سائنسی کائنات کا علم ہے۔سائنسی رویہ انفرادی سوچ بچار (Individual Inquiry) ،منطقی طرز فکر (Logical Approach) ، جرحی سوالات کی جرات (Critical Question ing) ،شوق تجسس (Inquisitiveness) اور استدلالی صلاحیتوں (Argumentative capacity) پر مشتمل ہوتا ہے۔ نوجوان رواجی عقیدوں اور سائنسی نظریوں میں ہم آہنگی کی کوشش میں ایک عجیب انشراح (illumination) محسوس کرتے ہیں۔ اس میں ان کی مدد کرنی چاہئے تاکہ وہ دین کو صحیح طور پر سمجھ سکیں۔ بعض معاشروں میں مروجہ عقائد، فطرتی شق تجسس اور دریافت طلبی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا ۔ گلیلیو کی مثال سامنے ہے جس کو مروجہ عقائد کے خلاف نئے سائنسی انکشافات پیش کرنے پر موت کی سزا دی گئی۔ اس کے برعکس مسلمان سائنسدانوں نے قرآنی احکامات اور ارشادات کی روشنی میں بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔
قرآن کی فضیلت:بہ حیثیت کتاب قران کی بے شمار فضیلتیں ہیں۔ اس کے پڑھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی ہوا ہے۔ مختلف رسم الخط میں اس کو لکھا گیا بے شمار فنکاروں نے اس کی تزئین اور آرائش کی اور ایک سے ایک لا جواب شکل میں یہ ہمارے سامنے ہے لیکن اس کی سب سے بڑی فضیلت اس کے متن کی دائمیت ہے جس کو ابد تک انسانیت کی رہنمائی کرنا ہے۔ اس کے مطالب میں کشادگی اور بلندی کی ایسی صلاحیت موجود ہے کہ ہر دور کے انسان کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ دنیا میں موجود بے شمار تفسیریں اس بات کا ثبوت ہے کہ کس طرح ہر دور کا انسان اس کے مفہوم کو اپنے علم کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ قران کی سب بڑی فضلیت یہ ہے کہ یہ خدا کا کلام ہے اور اس کا موضوع بحث کا ئنات ہے جو خدا کا فعل اور تخلیق ہے لہٰذا خدا کے قول اور فعل میں ہم آہنگی ضروری ہے۔ اگر ہم اپنے ناقص علم سے یہ ہم آہنگی تلاش نہیں کرسکتے تو یہ ہمارا قصور ہے۔ ہماری مروجہ تقسیم علوم کے حوالہ سے یہ کسی شعبہ علم کی کتاب نہیں۔ اس کے باوجود اس میں تمام کائنات کا علم ہے۔ مختصراًیہ کے اس میں وہ صداقتیں ہیں جن کی بناء پر یہ نظام کائنات چل رہا ہے دوسرے وہ تاریخی اصول ہیں جن کے تحت قوموں کو عروج و زوال ہوتا ہے اور تیسرے وہ اخلاقی ضابطے ہیں جن سے معاشرہ اور فرد کی زندگی سنورتی ہے اور جن کے ترک کرنے سے فساد واقع ہوتا ہے یہ کتاب روشنی اور رہنمائی کی کتاب ہے اس میںکائنات کا علم ہے۔ قرآن سائنس کی درسی کتاب نہیں ہے لیکن اس کے باوجود مختلف اشاروں ، کنایوںاور اصولوں کا ذکر ہے جن کے ذریعہ قران فطرت کے بعض بنیادی اصولوں اور سائنسی حقیقتوں سے متعلق اپنے پڑھنے والوں کے لئے فکر کی راہ متعین کرتی ہے۔ قران کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو مضامین اور موضوعات کا تنوع(Diversity)کی فراوانی پر حیرت ہوتی ہے مثلاً تخلیق کائنات، قوموں کا کردار ، تمدنی اصول وغیرہ ، لیکن ان تمام موضوعات کی غرض و غایط ایک دینی مقصد ہے جس سے ایمان اور عقیدہ میں پختگی ہوتی ہے۔ خدا کی قدرت کا ملہ کے متعلق قران میں جو ارشادات ملتے ہیں انہیں پڑھ کر فکر انسان میں تخلیق کائنات پر غور اور فکر کرنے کی تحریک ہوتی ہے اور اس کی روشنی میں انسان کا ہر فعل قدرت کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے یہی دین کی بنیادی غرض ہے۔ قرآن کا مطالعہ ہمیں جا بجا فطرت کا مشاہدہ کرنے اور عوامل فطرت پر تحقیق و جستجو کی مسلسل دعوت دیتا ہے۔قرآن میں سب سے پہلے نازل ہونے والے سورہ اقراء کی آیت میں قلم کا ذکر شامل کر کے اس کو علم کی علامت (Symbol)قرار دیا گیا ہے۔
قرآن میں سائنی مزاج کے آثار و شواہد:وہ کیا آثار ہیں جن کا بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ قران کا مزاج سائنسی ہے؟ قران کے سائنسی مزاج کو سمجھنے کےلئے ہمیں پہلے سائنسی تحقیق کے بنیادی اصول جاننا چاہئے جو چھ عوامل پر مشتمل ہیں۔١۔ مشاہدہ Observation ٢۔مفروضہ Hypothesis ٣۔تجربہ EXperimentation 4۔ثبوت یا عدم ثوبتProve or Disprove ٥۔استخراج استنباط Induction /Deduction ٦۔مزید تجربات Further Experimentation ۔قران کریم میں حضرت ابراہیم ؑ اکا واقعہ اس مسلسل غور مشاہدہ ، مفروضہ کی بہترین مثال ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے چمکتے ستارے اور چاند اور سورج کے نکلنے، ڈوبنے اور جسامت کے لحاظ سے جن مفروضوں پر بظاہرہ تکیہ کیا اور بالآخر خدا کی طرف مائل ہوئے اس میں بین السطور انہی تحقیقی اصولوں کی جھلک نظرآتی ہے اور اس طریقہ ہدایت کو دلیل خلف کہتے ہیں سائنسی میں اس کے مماثل (Antithesis)ہے۔ ڈاکٹرغلام جیلانی برق نے قران کے سائنسی مزاج کی تشریح میں بڑا قابل قدر انکشاف کیا ہے۔ مندرجہ بالا سائنسی تحقیق کے بنیادی اصولوں کو انہوں نے قران میں تلاش کر کے ان کے مماثل معانی رکھنے والے قرانی الفاظ کے ایک ذخیرہ کی نشاندہی کی ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق قران میں حسب ذیل الفاظ اور ان کے مشتقات تحقیق و تجسس کی علامت قرار پاتے ہیں۔یراؤن۔را۔ دیکھنا۔ ٢٩٨ دفعہ (س٤ آیت ١٤٢) — ینظرون ۔نظر مشاہدہ کرنا۔ ١٣ دفعہ ( س ٧ آیت ١٩٥)یعقلون ۔ تعقل۔ سمجھنا ٥١ دفعہ ( س ٣ آیت ٧٥) — یتدبرون ۔ تدبر۔ سوچنا۔ ٤٤ دفعہ ( س ٤ آیت ٨٢)یفقہون۔ تفقہ، سمجھنا ۔ ٢٨ دفعہ ( س ٤ آیت ٨٦) — یتفکرون، تفکر۔ خیال کرنا۔ ١٨ دفعہ( س ٤ آیت ١٩١)(آیات کا حوالہ بشکر یہ سید ناصر عباس زیدی صاحب)اس کے علاوہ ڈاکٹر برق نے فطری مظاہرات سے متعلق آیات کی تعداد ٢٠٠ بتائی ہے اس طرح تقریباً ٧٧٠ مقامات پر قران کے اس سائنسی مزاج کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ریڈار ڈاکٹر محمد شریف خاں نے اپنے ایک حالیہ مقالہ میں لکھا ہے کہ قران کریم میں اگر ١٥٠ آیات احکامات مثلاً نماز ، روزہ، زکواۃ اور حج سے متعلق ہیں تو ٧٥٦ آیات مطالعہ کائنات سے متعلق ہیں۔ فطری مظاہرات اور مطالعہ کائنات سے متعلق ڈاکٹر برق اور ڈاکٹر شریف کے تلاش کردہ آیات کے تعداد میں تقریباً یکسانیت اس ضمن میں تحقیق کرنے والوں کے لئے ہمت افزا ہے۔سائنسی تحقیق کے متبادل مندرجہ بالا قرانی الفاظ کی تعداد کے حوالہ سے ایک اور دلچسپ انکشاف بھی قابل غور ہے۔ عام سائنسی طریقہ تحقیق میں مشاہدات اور تجربات میں صرف ہونے والے وقت اور پھر ان مشاہدت کی بناء پر غور و فکر اور نتائج اخذ کرنے میں تقریباً ٣ اور اکا تناسب ہوتا ہے۔ مشاہدے کے اور اس کے مماثل آیات کی تعداد ٤٢٨ ہے جبکہ باقی آیات جن کا تعلق سوچ بچار سے ہے ١٤١ ہیں یعنی تقریباً ٣ اور ١ کا تناسب جو قابل غور ہے۔
مسلمان سائنسدان اور قراناسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں نے قران کریم میں کائنات کے مظاہر کے واضح اور خفی اشارات کی مدد سے جو کامیابیاں حاصل کیں وہ موجودہ سائنس میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔ اسلام سے پہلے انسانیت پر شرک غلبہ تھا جو فطرت پر تحقیق کرنے میں مانع تھا۔ مشرک کے لئے فطرت کے مظاہر پوجنے اور عبادت کی چیزیں تھیں اور اس کا عقیدہ اس میں تجسس اور جرح کی اجازت نہیں دے سکتا تھا جبکہ قران ان مظاہر کی تسخیر کا حکم دیتا ہے۔ فطرت کے خزانے تخلیق کے روز اول ہی سے زمین کے اندر اور باہر اور کائنات میںموجود تھے اور انسانی ذہن کی صلاحتیں بھی روز اول ہی سے پائی جاتی ہیں مگریہ قرانی تعلیمات کا اثر تھا کہ مسلمان سائنسدانوں نے کائنات میں پوجنے کا تقدس ختم کیا اور اس کے وسائل کی ماہیت میں تحقیق اور استعمال کی طرح دالی جو بالا خر اہم علوم کا سر چشمہ بن گئی۔ اس سلسلہ میں جن مسلمان سائنسدانوں کا نام سر فہرست ہے ان میں سے چند یہ ہیں۔ جابر بن حیان ( کیمیا)، البیرونی( طبیعیات)، عمر خیام، الکندی (ریاضی) دمیری ( حیوانیات) ابن الہیشم (عکاسی) ،ابن سینا ( طب) اور زہراوی ( سرجری ) وغیرہ ۔ تقریباً ٦ صدیوں تک عربی زبان سائنسی دنیا کی زبان کے طور پر حاوی رہی جس کے مغرب پر دیرپا اثرات آج بھی الحیراً کی شکل میں قائم ہیں جو محمد ابن سوسی الخوارضی کی ایجاد ہے اور اس کے نام سے آج ریاضی اور کمپیوٹر میں مشتمل اصطلاح الگور یتھم Algorithm منسوب ہے۔ مصر کے مشہور مورخ سید حسین نصر نے اپنی اہم تصنیف میں مسلمان سائنسدانوں کی ایسی انکشافات کی نشاندہی کی ہے جو آگے چل کر بے شمار سائنسی ایجادات کا پیش خیمہ بنی۔٨٠٠ سال تک مسلمان سائنس کے علمبردار رہے۔ جب تک یہ مسلمانوں کے پاس تھی عقیدتاً خدا پرست رہی اور س سارے عرصہ میں مسلمانوں نے حکمت کو خدا کی امانت سمجھ کر خدا کی بتائی ہوئی حدود میں اس کی پرورش کی۔ مسلمان سائنسدنوں نے انسانیت کے فلاح وبہبود کے لئے بہت کام کیا جس کی کچھ تفصیل اوپر دی گئی ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ جب ان میں انحطاط آگیا تو اہل یورپ نے اس کو اپنی گود میں لے لیا اور اس طویل عرصہ میں اس کی اصل شناخت بھی ختم ہو گئی شاید اسی آنے والی کیفیت کی طرف آنحضرت نے اشارہ کیا تھا۔’ حکمت مومن کی گمشدہ دولت ہے۔ ‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرپرستی کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سائنس کے عقیدہ میں بھی تبدیلی آگئی۔ یعنی جب اس کی فطرت بدل گئی تو اس سے انسان کی نسل کشی کا بھی کام لیا گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب نے سائنس کو اقدار سے لا تعلق بنادیا جبکہ مسلمانوں کے نزدیک ہر کام میں سبب اور اثر کے ساتھ سزا اور جزا کا تصور بھی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج انسان کے پاس ایسے ہتھیار اور پروسس ہیں جو اگر بے دریغ استعمال کئے جائیں تو انسانیت کو کرہ ارض سے نیست و نابود کرسکتے ہیں۔ خددا ترسی ہی وہ جذبہ ہے جو احتساب کے خیال سے انسان کو محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔آج کا دور اپنے وسیع تر معنوں میں سائنسی دور ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ کا جو میلان سائنس نے دیا ہے وہ قرانی اصول ہے۔ قران اور سائنس کا ربط مخلوق کو خالق تک رسائی کا موقع دیتا ہے اور وہ بے اختیار کہتا ہے کہ اے خدا تو نے اس کائنات کو بغیر غایت نہیں پیدا کیا۔ ایسا سوچنا بطور خود ایک مثبت رویہ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ معرفت الہی کی پہلی منزل ہے خدا ہم کو قران فہمی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
قران کی الہامی تر تیب اور تسلسلاس مضمون میں اب تک ہم قران کی مزاج اور اس کے متن کی خصوصیات پر غور کر رہے تھے ظاہر ہے کہ اس کے لئے عربی اور دیگر زبانوں سے کماحقہ واقفیت اور ایک خاص ذہنی اپج (Approach) بھی ضروری ہے۔ آئیں اب قران کی ایک ایسی خصوصیات دیکھیں جو عام فہم بھی ہے اور سب کو نظر آسکتی ہے۔ اس میں نہ دلیل کی ضرورت ہے نہ منطق کی اور نہ ہی سائنسی تحقیق کے مزاج کی، بس آپ ہند سے اور گنتی سے واقف ہوں جس کو بچہ بچہ بھی جانتا ہے۔ قرآن کی ایک اہم خصوصیت اس کے متن کی ترتیب کا تسلسل اور ابدیت بنے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لفظ کسی آیت کے سیاق وسباق میں١٤سو سال پہلے جس ترتیب میں تھی آج یا آئندہ اس میں تبدیلی نا ممکن ہے یہی قرانی کی الہامی ترتیب کی کی دلیل ہے۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم کی چند خصوصیات:بسم اﷲ الرحمن الرحیم ہر سورہ کا سر نامہ ہے۔ اس آیت میں ١٩ حروف ہیں جن کو آپ انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ آپ یہ جانتے ہیں کہ قرن میں ١١٤ سورہ ہیں۔ تمام سورے بسم اﷲ الرحمن الرحیم سے شروع ہوتے ہیں سوائے سورہ توبہ (شمارہ ٩) لیکن جب ہم سور ہ نمل کی ٣٠ ویں آیت دیکھیں تو اس کے متن میںبھی بسم اﷲ الرحمن الرحیم موجود ہے ( ملکہ سبا کے نام حضرت سلیمن کا خط)اس طرح کل بسم اﷲ الرحمن الرحیم کی تعداد ١١٤ ہوتی ہے جو مساوی ہے ١٩ x ٦۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ ١٩ کا ہندسہ یا بالفاظ دیگر بسم اﷲ الرحمن الرحیم کا قران کی ترتیب میں بڑا عمل دخل ہے۔ یہ تمام مظاہر اس آسمانی کتاب کی منظم ترتیب اور الہامی خصوصیت کا ثبوت مہیا کرتے ہیں ۔کیا ١٩ کے ہندسہ کا قران کی ترتیب سے کوئی خاص ربط ہے؟ ہاں ہے۔ ١٩ کا ہندسہ قران کامحافظ ہے۔ سورہ مدثر (٧٤) کی ٣٠ ویں آیت میں دو زخ کے ١٩ داروغہ فرشتوں کا ذکر ہے۔ یہ ذکر قرانی آیات کو سحر اور جادو سے تعبیر کرنےو الوں کی تنبیہ میں ہے۔ یعنی ١٩ کا ہندسہ بالفاظ دیگر بسم اﷲ الرحمن الرحیم قران کے محافظ سے عبارت ہے۔ باء بسم اﷲ کے نکتہ دان کے لئے یہ باعث طمانیت ہے۔بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے ٤ حروف ہیں۔ ( بسم ۔ اﷲ۔الرحمن۔الرحیم)سارے قران میں یہ چار الفاظ جتنی مرتبہ آئے ہیں وہ ١٩ کا ضعف یا ١٩ پر قابل تقسیم ہیں۔ لفظ بسم ١٩ مرتبہ ( ١٩x١) لفظ اﷲ ٢٦٩٨ مرتبہ (١٩*١٤٢) الرحمن ٥٧ مرتبہ (١٩*٣) اور لفظ الرحیم ١١٤ مرتبہ یعنی (١٩*٦) یہ امر بھی قابل غور ہے کہ یہ چار الفاظ قران میں یونہی نہیں بکھرے ہوئے ہیں بلکہ وہ مختلف جملوں یعنی آیات کا جزو بنکر ایک خاص مفہوم ادا کرتے ہیں ۔ جس میں تبدیلی سے قرانی مفہوم بدل جائیگا۔
حروف مقطعات اور بسم اﷲ الرحمن الرحیم کا ربط:اوپر ہم نے قرآن کے چار الفاظ کی رتیب کا ذکر کیا ہے۔ اب چند حروف کی خصوصیات پر غور کریں۔ قران کی عجیب خصوصیت اس کے حروف مقطعات ہیں جو اس کو دوسرے صحیفوں سے ممتاز کرتی ہے۔ عربی کے ٢٨ حروف تہجی ہیں ان سے ١٤ حروف کو منتخب کر کے ان سے ١٤ حروف مقطعات بنائے گئے ہیں ( مثلا الم ، الر ص ، ق ، ن وغیرہ ) قران کے ٢٩ سورہ ایسے ہیں جن کی ابتداء ان حروف مقطعات سے ہوتی ہے۔ ان حروف مقطعات میں کیا معنی پنہاں ہیں کوئی نہیں جانتا ۔ البتہ کچھ قیاس آرائی سے ان کے مفہوم نکالنے کو کشش کرتے ہیں۔ لیکن ایک خصوصیات سے کسی کو انکار نہیں وہ ان کا ١٩ سے ربط۔ اب ذرا ١٤ +١٤+٢٩ کو جوڑیئے یعنی ٥٧ یہ دراصل حروف مقطعات کے ماخذ حروف، مقطعات کے مرکب اور مقطعات والے سوروں کا مجموعہ ہے جملہ ٥٧ یعنی ١٩*٣۔
حروف مقطعات بطور کلید قران :اب چند حروف مقطعات کی مخصوص کیفیات پر غور کریں۔ حرف ق بہ حیثیت حروف مقطع دو سوروں میں آیا ہے۔ سورہ ق (شمارہ ٥٠) اور سورہ شوریٰ (٤٢) میں حمعسق کے جزو کے طور پر ۔ ان ہر دو سورتوں میں حروف ق کی تعداد ٥٧ ہے یعنی ١١٤ جو کہ ١٩* ٦ ہے۔ لیکن ق کے سلسلہ میں ایک اور اہم خصوصیات قران کے الہامی ترتیب پر صداقت کی مہر ہے۔ سورہ کی آیات ١٢،١٣ اور ١٤ میں قوم عاد، قوم ثمود اور قوم لوط کا ذکر ہے، یہ ساری باغی اقوام ہیں۔ سارے قران میں قوم لوط کا ذکر ١٢ دفعہ ہے اور ہر جگہ اس کو تسلسل کے ساتھ قوم لوط سے مخاطب کیا ہے۔ لیکن سورہ ق کی ١٣ ویں آیت میں اس قوم لوط کو اخوان لوط لکھا ہے اگر یہاں پھر قوم لوط لکھا جاتا تو ایک ق کا اضافہ ہو جاتا یعنی ق کی تعداد ٥٨ ہو جاتی جوکہ ١٩ پر نا قابل تقسیم ہو کر قران کی اس حرفی ترتیب کے نظام کو متاثر کرتی۔حرف ص بھی حروف مقطعات میں شامل ہے۔ یہ حرف تین سوروں کی ابتداء میں ہے۔ سورہ ص ( ٣٨ واں) اعراف ( ٧ واں) اس میں المص کا جزو ہے اور سورہ مریم (١٩واں) میں کھیعص میں شامل ہے۔ ان تینوں میں ص کی تعداد ١٥٢ ہے ( ١٩*٨) جو سورہ ص کے ٣٨ ،اعراف کے ٩٥ اور مریم کے ١٩ کا مجموعہ ہے۔ لیکن اس میں بھی ایک استثناء کار فرماہے۔ سورہ اعراف کی ٦٩ ویں آیت میں جس میں ص شامل ہے ایک لفظ بصطہ ہے (وزاد کم فی الحلق بصطہ) اس لفظ کی ترکیب میں حرف ص استعمال ہوا ہے جبکہ عام طور پر یہ س سے لکھا جاتا ہے، ساری عربی زبان میں بصطہ کی ہجوں میں ص نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بتایا جاتا ہے کہ جب اس آیت کا نزول ہوا تو جبریل نے آنحضرت سے کہا کہ اپنے کاتب وحی کو حکم دیں کہ وہ اس لفظ کو ص سے لکھیں نہ کہ س سے یہ اس بات کا اہتمام تھا کہ اس سے حرف ص کی تعداد پوری ١٥٢ رہے اگر بصطہ سے لکھا جاتا تو ص کی تعداد ١٥١ ہوتی جو ١٩ پر ناقابل تقسیم رہتا۔ ان دو مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن میں ہر لفظ اور ہر حرف بطور نگینہ اپنی جگہ ثابت ہے یہی اس کی الہامی ترتیب کا ایک مظہر ہے۔حروف مقطعات جن میں ایک سے زائدہ حروف شامل ہیں مثلاً یٰس ، الم وغیرہ ایک اور خصوصیت کے حامل ہیں۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ تمام سوروں میں جن میں حروف مقطعات ہیں ان میں ان حروف کی تعداد کا مجموعہ ٤٩٣٨١ ہے جو ١٩ سے قابل تقسیم ہے یعنی ( ١٩* ١٥٩٩) ریاضی کی زبان میں کہا جائیگا کہ یہ ایک طرح آپس میں میں پیوست (Inetrlocked) کر دیا گیا ہے جو قران کے تسلسل پر دلالت کرتا ہے۔مقالہ کے ساتھ دیئے ہوئے جدول میں قران کے حروف مقطعات ، سورہ اور ان سوروں میں ان کی تعداد بتائی گئی ہے۔ اس کی ایک مثال حروف ط اور ھ میں دیکھئے۔ بطور حروف مقطعات یہ دو حروف سورہ طہ ( نمبر٢٠) میں ہیں اور ان کی تعداد ( ٢٨ +٣١٤) = ٣٤٢ ہے۔ ١٩*١٨ ہے۔ اس کے علاوہ حرف ط حرف مقطعت کے جزو کے طور پر تین اور سورں یعنی شعراء ( ٢٦) میں بطور طس، سورہ نمل (٢٧) میں بطور طس اور سورہ قصص (٢٨) میں بطور طسم وارد ہوا ہے۔ اسی طرح حرف ہ سورہ مریم ( ١٩) میں کھیعص کے ساتھ موجود ہے۔ اگر ان پانچوں سوروں میں ط ا ورھ کی تعداد جو ڑ لیں تو ٥٨٩ ہے جو ١٩*٣١ ہے۔ دیگر تفصیلات جدول میں دیکھ سکتے ہیں جس کے آخر میں تشریح بھی دی گئی ہے۔
تتمہ:تتمہ کلام میں یہ عرض کرنا ہے کہ قران کے متن کی سائنسی نوعیت اور بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے حروف کی تعداد اور حروف مقطعات میں ١٩ کی کارفرمائی انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے قران کی ترتیب الہامی ہے۔ مغرب والوں کا یہ الزام ہے کہ قران آنحضرت نے خود لکھا ہے بلکہ یہ کہنا کہ ( نعوذ باﷲ) ساتویں صدی عیسوی میں عرب کا ایک شخص جو یہ ظاہر امی کے لقب سے مشہور تھا اور جبکہ ہندسوں کے علم کی کوئی سہولت اس کے پاس موجود نہیں تھی اپنے آپ سے کہتا ہے کہ میں ٢٣ سال کے عرصہ میں ایک ایسی طویل کتاب لکھوں گا جو ہزاروں (٦٦٦٦) چھوٹے بڑے کلمات پر مشٹمل ہوگی اور اس کے پہلے جملہ کے ١٩ حروف اور ساری کتاب میں ایک مستقل ربط اور تعلق قائم رہے گا۔ آ پ خود غور کریں کہ یہ مفروضہ کس قدر لغو ہے۔ بالاخر ہمیں تسلیم کرنا پڑیگا کہ قران خالق کائنات کا ایک معجزہ ہے اور س کا ارشاد کہ’ ہم نے اس قران کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے’ لفظ بہ لفظ صحیح ہے۔ آج چودہ سو سال کے بعد بھی یہ ہمارے ہاتھوں میں ہے اور اپنے متن اور الہی تر تیب کی بدولت ساری انسانیت کے لئے ایک ہدایت ہے۔آج کا دورا اپنے وسیع تر معنوں میں سائنسی دور ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ کا جو میلان سائنس نے دیا ہے وہ قرانی اصول ہے، قران اور سائنس کا ربط مخلوق کو خالق تک رسائی کا موقعہ دیتا ہے۔ خدا ہم کو قران فہمی اور ا س پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
حوالہ جات:١۔ مورس بکائی: ‘بائبل، قران اور سائنس’ ناشر مجلس اتحاد المسلمین ۔ کراچی ۔ ١٩٧٩ئ٢۔ بین الاقوامی اسلامی مجلس مذاکرہ کی رپورٹ پنجاب یونیورسٹی، لاہور ١٩٥٧ئ٣۔ حبیب شطی: (سکرٹری جنرل۔ ‘سائنس اور ٹکنالوجی میں مسلمانوں کی خدمات’ سندھ ایجوکیشنل جرنل۔ سندھ ٹیکنیکل بورڈ، کراچیشمارہ ٣۔١٩٨٤ئ٤۔ مقالات : قران اور سائنس،بین الاقوامی سیمینار، کراچی ۔١٩٨٦ئ٥۔ ڈاکٹر محمود علی سڈنی: ‘فلسفہ سائنس اور کائنات’ ترقی اردو بیورو۔ نئی دہلی ۔ ١٩٩٣ئ٦۔ حیدر علی مولجی طہ: ( مترجم) ‘ قران اور جدید سائنس’ عباس بک ایجنسیز۔ درگاہ حضرت عباسؑ۔ رستم نگر، لکھنؤ۔١٩٩٤ئ٧۔ سید حسین نصر، جدید سائنسی ایجادات اور مسلمان سائنسدانوں کا حصہ۔ مصر ١٩٨٥ئ٨۔ بنیادی حوالہ: مضمون Quran;Attempt at Computerzationرسالہ العطش۔ کراچی شمارہ ٩۔حوالہIslamicproduction Tuesm, Arizona, USA ۔٩۔ سیارہ ڈائجسٹ۔ قران نمبر ۔ ١٩٨٨ئ
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.