امام زین العابدین علیہ السلام اور عبادت
آپ ؑ کی عبادت کسی کی تقلید کے طور پر نہیں تھی بلکہ اللہ پر عمیق ایمان کی وجہ سے تھی، جیسا کہ آپ نے اس کی معرفت کے سلسلہ میں فرمایا ہے، آپ نے نہ جنت کے لالچ اور نہ دوزخ کے خوف سے خدا کی عبادت کی ہے بلکہ آپ ؑ نے خدا کو عبادت کے لائق سمجھا تو اس کی عبادت کی۔
امام زین العابدین علیہ السلام اور عبادت
مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گذار اور سب سے زیادہ اللہ کی اطاعت کیا کرتے تھے۔ آپ ؑ کی عظیم عبادت و انابت کے مانند کوئی نہیں تھا ،متقین اور صالحین آپ کی عبادت کی وجہ سے متعجب تھے، تاریخ اسلام میں صرف آپ ؑ ہی کی وہ واحد شخصیت ہے جس کو زین العابدین اور سید الساجدین کا لقب دیا گیا ۔آپ ؑ کی عبادت کسی کی تقلید کے طور پر نہیں تھی بلکہ اللہ پر عمیق ایمان کی وجہ سے تھی، جیسا کہ آپ نے اس کی معرفت کے سلسلہ میں فرمایا ہے ،آپ نے نہ جنت کے لالچ اور نہ دوزخ کے خوف سے خداکی عبادت کی ہے بلکہ آپ ؑ نے خدا کو عبادت کے لائق سمجھا تو اس کی عبادت کی، آپ ؑ کی شان وہی ہے جوآپ ؑ کے دادا امیرالمو منین ؑ سید العارفین اور امام المتقین کی شان تھی جنھوں نے آزاد لوگوں کی طرح اللہ کی عبادت کی ،جس کی اقتدا آپ ؑ کے پوتے امام زین العابدین علیہ السلام نے کی ہے آپ ؑ اپنی عبادت میں عظیم اخلاص کا مظاہرہ فرماتے تھے جیساکہ آپ ؑ کا ہی فرمان ہے :’اِنِّيْ اَکْرَہُ اَنْ اَعْبُدَاللّٰہَ وَلَاغَرَضَ لِيْ اِلَّاثَوَابُہُ،فَاَکُوْنَ کَالْعَبْدِ الطَّامِعِ،اِنْ طَمِعَ عَمِلَ،وَاِلَّالَم یَعْمَلْ،وَاَکْرَہُ اَنْ اَعْبُدَہُ لِخَوْفِ عَذَابِہِ،فَاَکُوْنَ کَالْعَبْدِ السُّوْءِ اِنْ لَمْ یَخَفْ لَمْ یَعْمَلْ‘‘۔’میں اللہ کی اس عبادت کوپسند نہیں کرتا جس میں ثواب کے علاوہ کوئی اور غرض ہو ،اگر میں ایسے عبادت کروں گا تو لالچی بندہ ہوں گا ،اگر مجھے لالچ ہوگا تو عمل انجام دوں گا ورنہ انجام نہیں دوں گا،اور میں اس بات سے بھی کراہت کرتاہوں کہ میں اللہ کے عذاب کے ڈر سے اس کی عبادت کروں کیونکہ اگر میں اس کے عذاب کے خوف سے اس کی عبادت کروں تو میں برے بندے کی طرح ہوجاؤں گا کیونکہ اگرڈر نہ ہوتا تو اس کی عبادت نہ کرتا‘‘۔آپ ؑ کے پاس بعض بیٹھنے والوں نے سوال کیا :آپ اللہ کی عبادت کیوں کر تے ہیں ؟آپ ؑ نے اپنے خالص ایمان کے ذریعہ جواب میں فرمایا:’اَعْبُدُہُ لِمَاھُوَاَھْلُہُ بِاَیَادِیْہِ وَاِنْعَامِہِ ۔۔۔‘‘۔(۱)اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ آپ ؑ معرفت خدا کی بنا پر اس کی عبادت کر تے تھے ،نہ ہی آپ کو اس کا کو ئی لالچ تھا اور نہ ہی کسی قسم کا کو ئی خوف تھا ،آپ میں یہ حالت خدا پر عمیق ایمان کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی ،جیسا کہ عبادت کی اقسام کے متعلق آپ ؑ نے فرمایا ہے :’اِنَّ قَوْماًعَبَدُوْااللّٰہَ عَزّوَجَلَّ رَھْبَۃًفَتِلْکَ عِبَادَۃُ الْعَبِیْدِ وَآخَرِیْنَ عَبَدُوْارَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَۃُ التُّجَّاروَقَوْماعَبَدُوْااللّٰہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَۃُ الاحرارِ۔۔۔‘‘۔(۲)’جو لوگ کسی چیز (جنت )کی خواہش میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں ان کی عبادت تاجروں کی عبادت ہوتی ہے اور جو لوگ اللہ کی کسی چیز (جہنم )کے خوف سے عبادت کرتے ہیں ان کی عبادت غلاموں کی عبادت ہے اور جو لوگ شکر کے عنوان سے اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ آزاد لوگوں کی عبادت ہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے ‘‘۔یہ عبادت اور اطاعت کی قسمیں ہیں جو میزان کے اعتبار کے سب سے زیادہ بھاری ہیں،ان میں سے خداوند عالم آزاد لوگوں کی عبادت پسند کر تا ہے چونکہ اس میں منعم عظیم کے شکر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے نہ اس میں ثواب کا لالچ ہے اور نہ ہی اس کے عذاب کا خوف ہے ۔امام علیہ السلام نے ایک دو سری حدیث میں اسی عبادت احرار کی تاکید فرما ئی ہے :’عِبَادَۃُ الاحرارِ لَاتَکُوْنُ اِلَّاشُکْراًلِلّٰہِ،لَاخَوْفاًوَلَارَغْبَۃً ‘‘۔(۳)’احرار کی عبادت صرف اللہ کے شکر کیلئے ہو تی ہے اس میں نہ کو ئی خوف ہوتا ہے اور نہ لالچ ‘‘۔امام ؑ کے دل اور عواطف اللہ سے محبت سے مملو تھے یہ آپ کی فطرت میں بسی ہوئی تھی اور راویوں کا کہنا ہے :آپ ؑ ہر وقت اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں مشغول رہتے تھے ،آپ ؑ کی ایک کنیزسے آپ ؑ کی عبادت کے متعلق سوال کیاگیا تواس نے سوال کیا : اُطْنِبُ، اَوْ أَخْتَصِر۔ ۔۔؟ بل اختصری’تفصیل سے بیان کروں یا مختصر طور۔لوگوں نے کہا مختصر ۔تو اس نے بیان کرنا شروع کیا‘‘آپ دن میں کھانا نہیں کھاتے تھے اور رات میں ہر گز آپ کیلئے بستر نہیں بچھایاجاتا تھا۔۔۔۔(۴)امام ؑ پوری زندگی دن میں روزہ رکھتے اور رات میں نمازیں پڑھتے تھے ،کبھی آپ ؑ نماز میں مشغول رہتے اورکبھی مخفیانہ طور پر صدقہ دینے میں مشغول رہتے ۔۔۔یہ بات زور دے کر کہی جا سکتی ہے کہ مسلمین اور عابدوں کی تاریخ میں کو ئی بھی امام ؑ جیسا بااخلاص اور اللہ کا اطاعت گزار بندہ نہیں مل سکتا ہے ۔ہم آپ ؑ کی عبادات کے سلسلہ میں کچھ چیزیں پیش کر رہے ہیں: آپ ؑ کا وضوبیشک وضو نور ہے اور گناہوں سے طہارت اور نماز کا پہلا مقدمہ ہے ،امام ؑ ہمیشہ با طہارت رہتے ، راویوں نے آپ ؑ کے وضو میں اللہ کے لئے خشوع کے متعلق کہا ہے :جب امام ؑ وضوکا ارادہ فرماتے تو آپ کا رنگ زرد ہو جاتاتھا آپ ؑ کے اہل و عیال نے اس کے متعلق سوال کیا : وضو کے وقت آپ کی یہ حالت کیوں ہوجاتی ہے ؟ تو آپ ؑ نے اللہ سے خوف و خشیت سے ایسا ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوتے یوں جواب دیا:’اَتَدْرُوْنَ بَیْنَ یَدَيْ مَنْ اَقُوْمُ ؟‘‘۔(۵)’کیا تم جانتے ہو کہ میں کس کے سامنے کھڑاہونے کا ارادہ رکھتا ہوں ‘‘۔آپ ؑ وضو کا اتنا اہتمام فرماتے کہ کسی سے کو ئی مدد نہیں لیتے تھے آپ ؑ خود طہارت کیلئے پانی لاتے اور اس کو سونے سے پہلے ڈھانک کر رکھتے ،جب رات آجا تی تو آپ مسواک کرتے اس کے بعد وضو کرتے اور وضو سے فارغ ہو جانے کے بعد نماز میں مشغول ہو جاتے تھے ۔(۶)آپ ؑ کی نمازنماز مو من کی معراج ہے اور متقی کو اللہ سے قریب کر دیتی ہے (جیسا کہ حدیث میں آیاہے )ذاتی طور پر امام سب سے زیادہ نماز کو اہمیت دیتے تھے ،نماز کو معراج اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ نماز انسان کو اللہ تک پہنچا تی ہے اور خالق کائنات اور زندگی دینے والے سے متصل کر تی ہے جب آپ ؑ نماز شروع کرنے کا ارادہ فرماتے تو آپ کا جسم مبارک کانپ جا تا تھا ،آپ ؑ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ؑ نے فرمایا:’اَتَدْرُوْنَ بَیْنَ یَدَيْ مَن اَقُوْمُ،وَمَنْ أُنَاجيْ؟‘‘۔(۷)’کیا تم جانتے ہو کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں اور کس کو پکار رہا ہوں ‘‘۔ہم ذیل میں آپ ؑ کی نماز اورآپ ؑ کے ذریعہ نماز میں خوشبو لگانے کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کر رہے ہیں :نماز کے وقت آپ ؑ کا خوشبو لگاناامام ؑ جب نماز پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو آپ نے نماز پڑھنے کی جگہ جو خوشبو رکھی تھی اس کو لگاتے جس سے مسک کی خوشبو پھیل جا تی تھی ۔نماز کے وقت آپ ؑ کا لباسامام ؑ جب نماز کا ارادہ فرماتے تو صوف (اون) کا لباس پہنتے ،اور بہت موٹا(۸)لباس پہنتے تھے کیونکہ آپ ؑ خالق عظیم کے سامنے خود کو بہت ہی ذلیل و رسوا سمجھتے تھے ۔نماز کی حالت میں آپ ؑ کا خشوعنماز میں اما م ؑ صرف خدا ہی سے لو لگاتے ،عالم ما دیات سے خالی ہوتے ،اپنے اطراف میں کسی چیز کا احساس نہ کرتے ،بلکہ آپ ؑ بذات خود اپنے نفس کا بھی احساس نہیں کر تے تھے ،آپ ؑ اپنا دل اللہ سے لگا دیتے ،راویوں نے نماز کی حالت میں آپ ؑ کی صفت یوں بیان کی ہے :جب آپ ؑ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ ؑ کا رنگ متغیر ہو جاتا ،آپ ؑ کے اعضاء اللہ کے خوف سے کانپ جاتے ،آپ ؑ نماز میں اس طرح کھڑے ہوتے تھے جیسے ایک ذلیل بندہ بڑے بادشاہ کے سامنے کھڑا ہواور آپ ؑ نماز کو آخری نماز سمجھ کر بجالاتے تھے۔امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کے نماز میں خشوع کے سلسلہ میں یوں فرمایا ہے : ‘کَانَ عَلِیُّ ابْنُ الْحُسَیْنِ اِذَاقَامَ فِيْ الصَّلَاۃِ کَاَنَّہُ سَاقُ شَجَرَۃٍ لَایَتَحَرَّکُ مِنْہُ شَیْئا اِلَّا مَاحَرَّکَتِ الرِّیْحُ مِنْہُ ‘‘۔(۱۰)’علی بن الحسین ؑ نماز میں اس درخت کے تنے کے مانند کھڑے ہوتے جس کو اسی کی ہوا کے علاوہ کو ئی اور چیز ہلا نہیں سکتی ‘‘۔نماز میں آپ ؑ کا خشوع اتنا زیادہ تھا کہ آپ سجدہ میں سر رکھ کر اس وقت تک نہیں اٹھا تے تھے جب تک کہ آپ ؑ کوپسینہ نہ آجا ئے ،(۱۱)یاگویا کہ آپ ؑ اپنے آنسؤوں اور گریہ کی وجہ سے پا نی میں ڈوب گئے ہوں۔(۱۲(راویوں نے ابو حمزہ ثمالی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے امام ؑ کو نماز کی حالت میں دیکھا ہے کہ آپ ؑ کے کندھے سے آپ ؑ کی ردا ہٹ گئی تو آپ ؑ نے اس کو درست تک نہیں کیاابوحمزہ ثمالی نے جب امام ؑ سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا:’وَیْحَکْ،اَتَدْرِيْ بَیْنَ یَدَيْ مَنْ کُنْتُ؟اِنَّ الْعَبْدَ لَایُقْبَلُ مِنْ صَلَاتِہِ اِلَّامَااَقْبَلَ عَلَیْہِ مِنْھَابِقَلْبِہِ ‘‘۔(۱۳)’تم پر وائے ہو کیا تم جانتے ہو میں کس کے سامنے کھڑا ہوں ؟بندہ کی وہی نماز قبول ہو تی ہے جو دل سے ادا کی جاتی ہے ‘‘۔آپ ؑ نماز میں اللہ سے اس طرح لو لگاتے کہ ایک مرتبہ آپ ؑ کے فرزند ارجمند کنویں میں گرگئے تو اہل مدینہ نے شور مچایا کہ اس کو بچائیے امام ؑ محراب عبادت میں نماز میں مشغول تھے ، اس کی طرف بالکل متوجہ ہی نہیں ہوئے ،جب نماز تمام ہو گئی تو آپ ؑ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ؑ نے فرمایا:’مَاشَعَرْتُ،اِنِّيْ کُنْتُ اُنَاجِيْ رَبّاً عَظِیْماً‘‘۔(۱۴)’مجھے احساس تک نہیں ہوا،میں اپنے عظیم پروردگار سے مناجات کر رہا تھا ‘‘ایک مرتبہ آپ ؑ کے گھر میں آگ لگ گئی اور آپ ؑ نماز میں مشغو ل تھے اور آپ ؑ نے آگ بجھانے میں کو ئی مدد نہیں کی اور لوگوں نے آپ ؑ سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا:’أَلْھَتْنِیْ عَنْھَا النَّارُالْکُبْریٰ ‘‘۔(۱۵)’مجھے اس سے بڑی آگ نے اپنی طرف متوجہ کر رکھا تھا ‘‘۔عبد الکریم قشیری نے امام ؑ کے نماز میں اس تعجب خیز اظہار کی یوں تفسیر کی ہے کہ امام ؑ کی یہ حالت اس وجہ سے ہو تی تھی کہ آپ ؑ عبادت کے عالم میں جس چیز کی طرف متوجہ ہوتے تھے وہ آپ ؑ کودنیا اور ما فیہا سے غافل کر دیتی تھی یہاں تک کہ ثواب یا عذاب الٰہی کے تصور سے خود اپنے نفس پرمترتب ہونے والے حالات کی طرف آپ ؑ کا قلب متوجہ نہیں ہوتا تھا۔ (۱۶)ہزار رکعت نمازمورخین کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپ ؑ رات دن میں ایک ہزار رکعت(۱۷)نماز بجالاتے تھے آپ ؑ کے پانچ سو خرمے کے درخت تھے اور آپ ؑ ہر درخت کے نیچے دو رکعت (۱۸)نماز پڑھتے تھے ،آپ ؑ کی اتنی زیادہ نمازیں بجالانے کی وجہ سے ہی آپ ؑ کے اعضاء سجدہ پر اونٹ کے گھٹوں کی طرح گھٹے تھے ،جن کو ہر سال کا ٹا جاتا تھا، آپ ؑ ان کو ایک تھیلی میں جمع کرتے رہتے اور جب آپ کا انتقال ہو ا تو ان کو آپ ؑ کے ساتھ قبر میں دفن کر دیا گیا ۔(۱۹)مستحب نمازوں کی قضاآپ ؑ نے پوری زند گی میں کو ئی مستحب نماز نہیں چھوڑی،اگردن میں آپ ؑ کی کو ئی مستحبنماز چھوٹ جا تی تھی تو آپ ؑ رات میں اس کی قضا بجالاتے اور آپ ؑ نے اپنی اولاد کو اس کی وصیت کرتے ہوئے یوں فرمایا:’یَابُنَيَّ لَیْسَ ھٰذَاعَلَیْکُمْ بِوَاجِبٍ،وَلکِنْ أُحِبُّ لِمَنْ عَوَّدَ نَفْسَہُ مِنْکُمْ عَادَۃً مِنَ الخَیْرِأَنْ یَدُوْمَ عَلَیْھَا‘‘۔(۲۰)’میرے فرزند یہ تم پر واجب نہیں ہے لیکن میں یہ چاہتاہوں کہ تم اس کو پنی عادت بنالو، یہ اچھی عادت ہے اور ہمیشہ اس پرعمل کرتے رہو‘‘۔آپ ؑ کا زیادہ سجدے کرناحدیث کی رو سے انسان اپنے رب سے سجدہ کی حالت میں بہت زیادہ قریب ہو تا ہے اور امام زین العابدین علیہ السلام بہت زیادہ سجدے کرتے خضوع کرتے اور اللہ کے سامنے خود کو بہت زیادہ ذلیل سمجھتے تھے راویوں کا کہنا ہے :ایک مرتبہ آپ ؑ صحرا کی طرف تشریف لے گئے ایک شخص نے آپ کو تلاش کیا تو آپ ؑ کو ایک سخت پتھر پر سجدہ کر تے ہوئے دیکھا اس نے آپ ؑ کوہزار مرتبہ یہ کہتے سنا:’لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ حَقّاً حَقّاً،لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ تَعَبُّداً وَرِقّاًلَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ اِیْمَاناً وَصِدْقاً‘‘۔(۲۱)آپ ؑ سجدہ شکر میں سو مرتبہ کہتے :’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ شُکْراً ‘‘اس کے بعد کہتے :’یَاذَالْمَنِّ اَلَّذِیْ لَا یَنْقَطِعُ اَبَداً،وَلَایُحْصِیْہِ غَیْرَہُ عَدَداً،وَیَاذَاالْمَعْرُوْفِ اَلَّذِیْ لَایَنْفَدُ أبَداًْیَاکَرِیْمُ یَاکَرِیْمُ‘‘اس کے بعد گریہ و زاری کر تے اور اپنی حاجت طلب کرتے ۔(۲۲)کثرت تسبیحآپ ؑ ہمیشہ اللہ کے ذکر ،تسبیح اور اس کی حمد میں مشغول رہتے اور ان نورا نی کلمات میں اللہ کی تسبیح کرتے تھے : ‘سُبْحَانَ مَن اَشْرَقَ نُوْرُہُ کُلَّ ظُلْمَۃٍ،سُبْحَانَ مَنْ قَدَّرَبِقُدْرَتِہِ کُلَّ قُدْرَۃٍ سُبْحَانَ مَنْ احْتَجَبَ عَنِ الْعِبَادِبِطَرَاءِقِ نُفُوْسِھِمْ،فَلَا شَیْ ءَ یَحْجِبُہُ ،سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہِ‘‘۔(۲۳)’پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس کے نور نے ہر تا ریکی کو منور کر دیا ،پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے تمام قدرتوں کی حد محدود کر دی ،پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جو بندوں سے اُ ن کے نفوس کے خیالات میں مخفی ہوا ،اس سے کو ئی چیز مخفی نہیں ہے ،اللہ پاک و پاکیزہ ہے اور وہی حمد کا سزاوار ہے ‘‘۔نماز شب کا واجب قرار دیناامام زین العا بدین علیہ السلام کبھی بھی نماز شب سے غافل نہیں رہے آپ ؑ سفر اور حضر ہر جگہ نماز شب بجالاتے تھے یہاں تک کہ آپ اپنے رب حقیقی سے جا ملے ۔نماز شب کے بعد آپ کی دعاجب آپ ؑ نماز شب سے فارغ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے جو ائمہ اہل بیت ؑ کی تابناک دعا ہے:’اللَّھم یا ذالملک المتأبد۔۔۔’اے وہ پروردگار جس کا ملک ہمیشگی کے ساتھ ابدیت رکھنے والا ہے اور جس کی سلطنت بغیر کسی لشکر اور مدد گار کے محفوظ ہے ،زمانوں کے بدلتے رہنے ،برسوں کے بیت جانے ،ایام و ازمنہ کے گذر جانے کے باوجود اس کی عزت باقی رہنے والی ہے تیری سلطنت اس قدر عزیز ہے کہ اس کی عزت کی نہ کو ئی ابتدا ہے اور نہ انتہااور تیرا ملک اس قدر بلند ہے کہ تمام اشیاء اس کی انتہا تک پہنچنے سے پہلے ہی گر جا تی ہیں اور جن کمالات کو تونے اپنی ذات کیلئے مخصوص کیا ہے ان کی ادنیٰ منزل تک بھی تعریف کرنے والوں کی تعریف کی آخری منزل نہیں پہنچ سکتی ہے۔سارے صفات تیری بارگاہ میں گم ہو گئے ہیں اور تمام تعریفیں تیری جناب میں بکھر گئی ہیں اور دقیق ترین تصورات بھی تیری کبریائی کے سامنے حیران رہ گئے ہیں ۔یقیناً تو ایسا ہی ہے تو اپنی اولویت کے اعتبار سے اول ہے اور ایسا ہی ہمیشہ رہنے والا ہے ۔میں تیرا وہ بندہ ہوں جس کے اعمال ضعیف اور جس کیآرزوئیں عظیم ہیں ۔میرے ہاتھ سے تعلقات کے تمام اسباب نکل گئے ہیں علاوہ اس رشتہ کے جسے تیری رحمت نے قائم کیا ہے اور امیدوں کے تمام رشتے قطع ہو گئے ہیں علاوہ اُس معافی کے رشتہ کے جس کی پناہ میں ،میں زندگی گذار رہا ہوں ،میرے پاس تیری قابل اعتنااطاعت بہت کم ہے اور جن معصیتوں میں،میں زندگی گذار رہا ہوں وہ بہت زیادہ ہیں لیکن یہ طے ہے کہ بندہ کسی قدر بھی بد کردار کیوں نہ ہو جائے تیرے پاس معافی کی تنگیِ دامن نہیں ہے لہٰذا مجھے معاف کر سکتا ہے ‘‘۔دعا کے یہ جملے خداوند عالم کی عظمت اور اس کی وحدانیت پر دلالت کر تے ہیں،اور اس کے بعض دا ئمی صفات کا تذکر ہ موجودہے جن کی کو ئی ابتدا اور انتہا نہیں ہے ،وہ محکم و مضبوط سلطان قاہر جو اپنے ملک کی حمایت کے لئے لشکر اور مددگاروں کا محتاج نہیں ،کو ئی ایسی ذات اور کو ئی ایسی صفت نہیں ہے جس سے اس کی تو صیف کی جا سکے ،وہ ہر چیز سے بلند و برتر ہے ۔امام ؑ نے ہمیشہ خدا کی بارگاہ میں اپنے ذلیل ، خضوع اوراس کے بندے ہونے کا اظہار کیا ، آپ نے اپنی تمام آرزووں میں اسی سے لو لگا ئی ،اسی سے پناہ ما نگی ،اسی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ، اسی سے لو لگا ئی اور اب اسی دعاء کے دوسرے چند جملے ملا حظہ فرما ئیں :’اللَّھُمَّ وَقَدْ اَشْرَفَ۔۔۔’خدایا تیرا علم میرے مخفی اعمال پر بھی نگاہ رکھتا ہے اور تیری اطلاع کے سامنے ہر پوشیدہ عمل واضح ہے دقیق ترین چیز بھی تجھ سے پوشیدہ نہیں ہے اور غیبی اسرار بھی تیرے علم سے دور نہیں ہے ۔مجھ پر تیرے اس دشمن کا غلبہ ہو گیا ہے جس نے تجھ سے مجھے گمراہ کرنے کی مہلت مانگی تھی تو تو نے دیدی اور مجھے بہکانے کے لئے قیامت تک کا وقت مانگا تو تونے اسے آزاد چھوڑدیااور اب اس نے مجھے گمرا ہی میں ڈال دیاجبکہ میں اپنے مہلک گناہان صغیرہ اور تباہ کن گناہان کبیرہ سے بھاگ کر تیری بارگاہ میں آرہا تھا ۔حالت یہ ہے کہ جب میں نے تیری کو ئی نا فرما نی کی اور برے اعمال کی بنا پرتیری ناراضگی کا حقدار ہو گیا تو اس نے اپنے حیلہ کی باگ موڑ دی اور چل دیااور مجھے کلمۂ کفر میں مبتلا کرکے مجھ سے برائت کا اعلان کردیااور پیٹھ پھیر کر روانہ ہو گیا ۔مجھے تیرے غضب کے صحرا میں اکیلا چھوڑ دیا ،اور تیرے عذاب کے میدان تک ہنکا دیا کہ اب نہ کو ئی شفیع ہے جو سفارش کر سکے اور نہ کو ئی قلعہ ہے جو اپنے اندر چھپا سکے اور نہ کو ئی پناہ گاہ ہے جس کی پناہ لی جا سکے، اب تیرے سامنے وہ شخص کھڑا ہے جو تیری پناہ گاہ کا طلبگار ہے اور اپنے گناہوں کا اقرار کر رہا ہے لہٰذا تیرے فضل میں تنگی نہ ہونے پائے اور تیری بخشش میں کمی نہ آنے پائے ۔میں تیرے اُن بندوں میں نہ ہو جاؤں جو توبہ کرکے بھی ناکام ہو جاتے ہیں اور اُن امیدواروں میں نہ شامل ہوجاؤں جو مایوس ہوجاتے ہیں ۔میرے گناہوں کو بخش دے کہ تو بہترین بخشنے والا ہے ‘‘۔امام ؑ نے ان چند فقروں میں انسان کی خوا ہشات نفسانی کے سامنے کمزور ہونے کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے اور انسان اس شیطان رجیم کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا جس نے انسان کے نفس میں طمع ، حرص اور تکبر وغیرہ جیسی شرارت سے بھرے صفات کو برانگیختہ کرکے ان کے ذریعہ خدمت لینا چا ہی ،اس نے انسان کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ لی اور اس کے عواطف پر مسلط ہو گیا ،اس کو گناہوں اور ہلاکت کے میدانوں میں مسخر کرنا شروع کر دیا ،اس کو اللہ سے قریب کرنے والے راستوں سے دور کرنا شروع کر دیا ،اور امام ؑ نے اس دھوکہ دینے والے خبیث دشمن کے مقابلہ میں پروردگار عالم سے اپنی حمایت طلب فرما ئی ۔ ہم اس دعا کے دوسرے جملوں میں یوں پڑھتے ہیں :اللَّھُمَّ اِنَّکَ اَ مَرْتَنِیْ فَتَرَکْتُ۔۔۔’خدایا! تونے جس بات کا حکم دیا اسے میں نے چھوڑ دیا اور جس چیز سے منع کیا اس کا مرتکب ہوگیااور بُرے خیالات نے خطاؤں کو سنوار دیاتو میں نے کو تا ہی سے کام لیا ۔میں نہ اپنے دنوں کے لئے روزوں کو گواہ قرار دے رہا ہوں اور نہ راتوں کی شب بیداری کی پناہ لے رہا ہوں اور نہ کو ئی سنت حسنہ اپنے کو زندہ کر نے کی تعریف کر سکتی ہے علاوہ اُن فرائض کے جن کو ضائع کرنے والا ہلاک ہوجاتا ہے ۔میں تو کسی مستحب عمل کو بھی وسیلہ نہیں قرار دے سکتا ہوں جبکہ بہت سے واجبات و فرائض میں غفلت برت چکا ہوں اور تیرے مقرر کئے ہوئے حدود سے تجاوز کر چکا ہوں ۔کچھ حرمتوں کو برباد کیا اور کچھ گناہانِ کبیرہ کا مرتکب ہو گیا لیکن تیری عافیت نے ان کی رسوا ئی سے پردہ پوشی کر لی خدایا یہ اس شخص کی منزل ہے جو اپنے نفس کے بارے میں تجھ سے شرمندہ ہے اور اس سے ناراض ہو کر تجھ سے خوش بھی ہے اور اب تیرے سامنے اُس نفس کے ساتھ آیا ہے جوخاشع ہے اور اس گردن کے ساتھ حاضر ہوا ہے جو خاضع ہے اور اس کمر کے ساتھ جس پر خطاؤں کا بوجھ ہے ،اس کی منزل خوف اور امید کے درمیان ہے اور تو اس کی امیدوں کے لئے سب سے اولیٰ اور اس کے خوف و خشیت کے لئے سب سے زیادہ حقدار ہے لہٰذا مجھے وہ شئی عنایت فرمادے جس کا میں امیدوارہوں اور اس سے بچالے جس سے خوف زدہ ہوں اور اپنی رحمت کے انعامات سے نواز دے کہ تو ان سب سے زیادہ کریم ہے جن سے سوال کیا جاتا ہے ‘‘ ۔امام ؑ نے ان جملوں میں اہل بیت ؑ کے اللہ کے خضوع و خشوع کو پیش کیا ہے اور یہ مشاہدہ کیا کہ سب سے عظیم حسنات( نیکیاں)، رات بھر خدا کی عبادت کرتے رہنا ،دن میں روزہ رکھنا ،تمام نوافل اور مستحبات کا بجالانا ،اسلام کی سنتوں کو زندہ کرنا وغیرہ نیکیوں کی دو سری قسمیں جن کا احصا نہیں کیا جا سکتا ہے ، یہ خدا کے مقابلہ میں بہت کم ہے، اس توبہ کے علاوہ اللہ سے اور کو نسی تو بہ کی جا سکتی ہے؟ اور اس طرح اللہ سے لو لگانے کے مانندکو نسا لو لگانا ہو سکتا ہے ؟حقیقت میں یہ امام دنیاکے متقین اور صالحین میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں ۔۔۔ہم اس دعا کے کچھ اور جملے نقل کر تے ہیں :’اَللَّھُمَّ وَاِذْ سَتَرْتَنِيْ۔۔۔’خدایا !جب تونے اپنی بخشش کے ذریعہ پردہ پوشی کر دی ہے اور اپنے فضل سے اس فنا کے گھر میں ساتھیوں کے سامنے ڈھانپ لیا ہے تو اب دار البقاء میں بھی تمام ملائکہ مقربین اور مر سلین ،معصومین اور شہداء و صالحین کے سامنے رسوا ئی سے بچا لینا ۔اس پڑوسی کے حضور میں جس سے میں اپنی برائیوں کو چھپایا کرتا تھا اور اس قرابتدار کے سامنے جس سے میں اپنے مخفی معاملات میں شرماتا تھا ۔میں نے اس پردہ پوشی میں کسی پر بھروسہ نہیں کیا لیکن خدایا تیری مغفرت پر بھروسہ کیا ہے اور تو سب سے زیادہ بھروسہ کے قابل اور تمام اُن لوگوں سے زیادہ عطا کرنے والا ہے جن کی رغبت کی جا تی ہے اور اُن سب سے زیادہ مہربان ہے جن سے مہربانی طلب کی جا تی ہے لہٰذا مجھ پر رحم فرما ۔۔۔‘‘ ۔امام ؑ نے ان جملوں میں یہ بیان فر ما یا ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھو اس سے عفو بخشش ،لطف و کرم کی امید رکھو ،اس سے دار آخرت میں خوشنودی اور رضائے الٰہی طلب کرو ،خدا وند عالم نے اپنے گناہگار بندوں کے عیوب کی پردہ پوشی کی ہے جیسا اس سے مطالبہ کیا ہے کہ آخرت کی مصیبتوں سے نجات دے جہاں تمام ملائکہ، مرسلین ،شہداء اور تمام بندگانِ صالح موجود ہوں اور امام ؑ نے گناہگار مسلمانوں کو یہ درس دیا کہ وہ اللہ سے خلوص دل کے ساتھ توبہ کریں۔ہم اسی دعائے شریفہ کے کچھ اور جملوں پر روشنی ڈالتے ہیں :’اَللَّھُمَّ وَأَنْتَ ھَدَرْتَنِيْ۔۔۔’اے خدا ! تونے صلب کی ہڈیوں کے تنگ راستوں اور رحم مادر کی تنگ نالیوں سے ایک حقیر نطفہ کی شکل میں گذارا ہے تونے مختلف حجابات سے میری پردہ پوشی کی ہے اور مختلف حالات میں مجھے کروٹیں بدلوائی ہیںیہاں تک کہ جب میری صورت مکمل ہو گئی اور تونے میرے اعضاء و جوارح کو مستحکم بنادیا جس طرح تونے اپنی کتاب میں تو صیف کی ہے کہ نطفہ سے علقہ بنا ،اس کے بعد مضغہ بنا،پھر ہڈیاں پیدا ہوئیں،پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا گیا اور پھر ایک تازہ مخلوق بنا دیا گیااور پھر جب مجھے تیرے رزق کی ضرورت پڑی اور میں تیرے باران کرم سے بے نیاز نہ ہو سکا تو ،تو نے میری بہترین غذا بہترین ماکو لات و مشروبات کو بنا دیا ۔جسے تونے اپنی اس کنیز کے جسم میں دوڑایا جس کے شکم میں مجھے جگہ دی تھی اور مجھے اس کے مرکز رحم میں ودیعت کردیا تھا ۔حالانکہ اگر اس وقت مجھے میری طاقت کے حوالہ کر دیتا اور میری قوت کے سپر دکردیتا تو ہر تدبیر مجھ سے الگ ہو جا تی اور ہر قوت مجھ سے دور بھاگ جا تی تو نے اپنے فضل سے ایک مہربان کرم فرما کی طرح مجھے غذا عنایت کی اور مسلسل ایسا احساس کر تا رہا یہاں تک کہ میں اس منزل تک پہنچ گیا ۔نہ کبھی تیری نیکی سے محروم ہوا اور نہ تیرے بہترین سلوک میں کو ئی تاخیر ہو ئی لیکن پھر بھی میرا بھروسہ مستحکم نہ ہوا اور میں برابر زیادہ مفاد کے لئے مواقع نکالتا رہا ۔شیطان نے بد گما نی اور ضعفِ یقین کی بنا پر میری زمام کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ،لہٰذا میں اس کی بدترین ہمسا ئیگی اور اپنی طرف سے اس کی اطاعت کی فریاد کر رہا ہوں اور اس کے تسلط سے تیری حفاظت کا طلبگار ہوں اور اس بات کی بھی فریاد کر رہا ہوں تو میرے رزق کے راستہ کو آسان کردے ۔تیرا اس بات پر شکر ہے کہ تونے بلا مانگے ہی عظیم نعمتیں عطا فرما دی ہیں اور پھر اُن احسانات و انعامات پر شکر ادا کرنے کا الہام بھی کر دیا ہے لہٰذا اب محمد وآل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپررحمت نازل فرمااور میرے رزق کو آسان بنادے اور جو کچھ مقدر کیا ہے اُس پر قانع بنا دے اور میری قسمت کے حصہ پر مجھے راضی کردے اور میری زندگی اور میری جسمانی طاقت کا مصرف اپنی اطاعت کے راستہ کو قرار دیدے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے ۔یہ جملے خالق عظیم کے وجود پر مؤثق دلیلیں ہیں وہ خالق جس نے انسان کو ذلیل (گندے) پانی سے خلق کیا،تنگ رحم میں رکھا،اس کے بعد وہ یکے بعد دیگرے حالات میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ مکمل انسان بن گیااور انسان اللہ کی سب سے عظیم مخلوقات میں ہے جو فکر ، سمع و بصر وغیرہ جیسی عجیب چیزوں سے بنایا گیا ہے جو خالق حکیم کے وجود پر دلالت کر تی ہیں ،امام ؑ کی یہ حدیث قرآن کریم کی ان آیات کی تفسیر کر رہی ہے جس میں انسان کی تخلیق کو بیان کیا گیا ہے ،یہ بات شایان ذکر ہے کہ قرآن کریم نے دقیق طور پر جنین کی کیفیت بیان کی ہے اور انسان نے اسی حقیقت سے استفادہ کیا ہے ۔سید قطب کا کہنا ہے : انسان قرآن کریم کے جنین کے سلسلہ میں ان انکشافات کے سامنے حیران ہے وہ دقیق طور پر اس چیز کو نہیں جانتا تھا مگر علم کی پیشرفت و ترقی ہونے کے بعد ،ہڈیوں کے خلیے گوشت کے خلیوں کے علاوہ ہیں ،یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جنین میں پہلے ہڈیوں کے خلیے پیدا ہو تے ہیں اور گو شت کے خلیوں کا اس وقت مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا جب تک ہڈیوں کے خلیے اور جنین کے پورے ہڈیوں کے ڈھانچے کا مشاہدہ نہ کیا جائے یہ وہ حقیقت ہے جس کو قرآنی آیات نے ثابت کیا ہے ۔۔۔(۲۴)بہرحال ،امام ؑ اپنی ذات پر اللہ کی عظیم نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد اس کی بارگاہ میں گڑگڑائے کہ وہ آپ ؑ کو شیطان کے مکر و فریب اور اس کے کبرو غرور سے دور رکھے ،چونکہ شیطان انسان کا پہلا دشمن ہے ۔۔ ۔ہم ذیل میں دعا آخری جملے پیش کر رہے ہیں :’اللَّھُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُبِکَ ۔۔۔’خدایا !میں اس آگ سے تیری پناہ کا طلبگار ہوں جس کو تونے نافرمانوں کے لئے بھڑکایا ہے اور اس کے ذریعہ اپنی رضا سے انحراف کرنے والوں کو تنبیہ کی ہے ۔وہ آگ جس کی روشنی بھی تاریکی ہے اور جس کا معمولی حصہ بھی دردناک ہے اور جس کا دور والا حصہ بھی قریب ہے اور جس کا ایک حصہ دوسرے کو کھا رہا ہے اور اس پر حملہ آور ہورہا ہے ۔وہ آگ ہڈیوں کو ریزہ ریزہ بنا دیتی ہے اور اپنے باشندوں کوکھولتا پانی پلاتی ہے فریادی کو چھوڑتی نہیں ہے اور طالب رحم پر مہربانی نہیں کر تی ہے کو ئی فروتنی کا اظہار بھی کرے اور اس کے سپرد بھی ہو جائے تو اس کے حق میں کو ئی تخفیف نہیں کر تی ہے اپنے باشندوں سے دردناک عذاب اور سخت وبال کے گرم ترین مصائب کے ساتھ ملاقات کر تی ہے ۔اور خدایا میں تیری پناہ چا ہتا ہوں جہنم کے اُن بچھوؤں سے جو منھ پھیلائے ہوئے ہیں اور ان سانپوں سے جو اپنے دانت گا ڑرہے ہوں گے اور اس کھولتے ہوئے پانی سے جو اپنے باشندوں کے دل اور کلیجہ کو کاٹ ڈالے گا اور دل کو کھینچ کر پھینک دے گا ۔ اور تیری ہدایت کا طالب ہوں اُن امور کے لئے جو اُس آگ سے دور بنا دیں اور اسے پیچھے ہٹا دیں ۔خدایا محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرمااور مجھے اپنے فضل و رحمت سے اس کی اجرت دے ۔اپنی مہربانیوں سے میری لغزشوں کو معاف کردے اور اے بہترین پناہ دینے والے مجھے لا وارث نہ چھوڑدیناکہ تو ہر برائی سے بچا نے والا اور ہر نیکی کا عطا کر نے والا ہے اور جو چاہے وہ کر سکتا ہے ۔تو ہر شے پر قدرت رکھتا ہے ۔خدایا محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر رحمت نازل فرما اس وقت جب نیک کرداروں کا ذکر کیا جائے اور محمد وآل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر رحمت نازل فرما جب تک روز و شب کی آمد و رفت برقرار ہے ۔ایسی رحمت جس کا سلسلہ منقطع نہ ہو اور اس کے اعداد کا شمار نہ ہو سکے ۔وہ رحمت جو فضا کو معمور کردے اور آسمان و زمین کی وسعتوں کو بھر دے ۔اللہ اُن پر رحمت نازل کرے یہاں تک کہ وہ راضی ہوجائیں اور اس رضا کے بعد بھی ایسی رحمت نازل کرے جس کی کو ئی حد اور انتہا نہ ہو ۔اے بہترین رحم کرنے والے ‘‘۔ان فقروں میں اس جہنم کی آگ کی توصیف بیان کی گئی ہے جس کو اللہ نے اپنے بدکار ، ظالم اور سرکش بندوں کے لئے خلق کیا ہے وہ بندے جنھوں نے ظلم و جور اور فساد کو زمین پر پھیلایا ان کو جہنم کی آگ میں طرح طرح کا عذاب دیا جائیگا جس کے خوف و وحشت کی ہم توصیف نہیں کرسکتے ہیں جس سے ہم اللہ کی پناہ چا ہتے ہیں ۔اس مقام پر یہ دعائے شریفہ ختم ہو جا تی ہے جس کو امام ؑ نماز شب کے بعد پڑھا کر تے تھے ،یہ اہل بیت ؑ کی روشن و تا بناک دعاؤں میں سے ہے ۔اما م ؑ کے کثرت عبادت کی وجہ سے آپ کے اعزاء پر آپ ؑ کی وفات ہوجانے کا خوف ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جلیل القدرصحابی جابر بن عبداللہ انصاری کے پاس آکر یوں گو یا ہو ئے :اے رسول ؐ اللہ کے صحابی بیشک ہمارے تم پر حقوق ہیں اور ہمارا تم ایک حق یہ ہے کہ جب تم ہم میں سے کسی ایک کوخود کو ہلاک کر نے کی کو شش کرتا دیکھو تو اس کو اللہ کی یاد دلاؤ ،اس موقع پر اپنی جان کو باقی رکھنے کی دعوت دو ، اپنے والد بزرگوار کی یادگار علی بن الحسین ؑ ہیں جن کی عبادت کر نے کی وجہ سے ناک کی ہڈی چھد گئی ہے اور ان کے اعضاء سجدہ پر گھٹے پڑگئے ہیں ۔جناب جابر ،امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ محراب میں عبادت ،اللہ کی اطاعت میں مشغول ہیں ،جب امام ؑ نے جابر کو دیکھا تو ان کا استقبال کیا ،اپنے پہلو میں بٹھایااور ان کے حالات دریافت کئے، اس وقت جابر بڑے ہی ادب و احترام سے یوں گویا ہوئے :اے فرزند رسول ! آپ کو علم ہے کہ پروردگار عالم نے جنت کو آپ ؑ کے اور آپ ؑ سے محبت کر نے والے کے لئے خلق کیا ہے اور دوزخ کو آپ ؑ سے بغض اور دشمنی رکھنے والے کے لئے خلق فرمایا ہے تو پھر آپ ؑ خود کو اتنی مشقتوں میں کیوں ڈال رہے ہیں ؟امام ؑ نے ان کو بڑی ہی نرمی و محبت سے جواب دیا :اے صحا بی رسول ؐ،بیشک میرے جد رسول اللہ ؐ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کر دئے گئے تھے مگر پھر بھی آپ ؐ نے کو شش کر نا نہیں چھوڑا اور یوں عبادت کی (میرے ماں باپ آپ ؐ پر فدا ہوں ) کہ آپ کی پنڈلیوں اور قدموں پر ورم آگیا جب آپ ؐ سے کہا گیا : آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں جبکہ اللہ نے آپ کے گذشتہ اور آئندہ کے تمام گناہ بخش دئے ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘۔جب جابر نے دیکھا کہ گفتگو کے ذریعہ امام ؑ کو کثرت عبادت سے نہیں روکاجاسکتا تو یہ کہتے ہوئے آپ ؑ کو آرام کر نے کی خاطر خدا حافظ کہا :فرزند رسول ،آپ ؑ اپنے نفس کی حفاظت کیجئے کیونکہ آپ ؑ اس خاندان سے ہیں جن سے بلا ئیں دور کردی گئی ہیں اور جن کے ذریعہ آسمان سے بارش ہوتی ہے ۔امام ؑ نے جابرکو بڑی ہی خفی اور غمگین آواز میں جواب دیا :میں اپنے آباء و اجداد کے طریقے کو نہیں چھوڑ سکتا اور ان سے ملاقات کر نے تک ان کی پیروی کر تا رہونگا ‘‘۔جابر ہکّے بکے رہ گئے اور اپنے اطراف میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے یوں مخاطب ہوئے :ہم نے یوسف بن یعقوب کے علاوہ انبیاء ؑ کی اولاد میں علی بن الحسین جیسا نہیں دیکھا،خدا کی قسم امام حسین ؑ کی ذریت یوسف بن یعقوب کی ذریت سے افضل ہے، بیشک ان ہی کی ایک فر د کے ذریعہ عدل و انصاف سے دنیااسی طرح بھرجائے گی جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی ۔(۲۵(اللہ بزرگ و برتر ہے ،بیشک انبیاء علیہم السلام کی اولاد میں علی بن الحسین ؑ جیسا ان کے ورع، تقویٰ اور تمام بلند و بالا اخلاق و کر دار میں کو ئی نہیں ہے ۔جیسا کہ جابر نے کہا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی ذریت میں آپ ؑ کا ایک فرزند ہوگا جو ظلم و جور سے بھری ہو ئی دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہو گی ،اور وہ عظیم مصلح امام مہدی آل محمد ؐ ہیں جن کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بشارت دی ہے ۔ آپ ؑ کی بعض اولاد نے آپ کی کثرت عبادت کو دیکھ کر بڑی ہی نر می کے ساتھ آپ ؑ سے عرض کیا : اے والد بزرگوار آپ ؑ اتنی جا نفشانی کیوں کر رہے ہیں؟یعنی :اتنی زیادہ نمازیں کیوں پڑھ رہے ہیں ۔۔۔؟امام ؑ نے بڑی ہی نرمی کے ساتھ جواب میں فرمایا:میں اللہ کی نظر میں محبوب ہونا چا ہتا ہوں۔۔۔(۲۶)عبدا لملک بن مروان نے امام ؑ کی کثرت عبادت کی وجہ سے مہربانی کا اظہار کیااور جب آپ ؑ مسلمانوں کی ایک جماعت کی سفارش کے لئے اس کے پاس گئے اور جب عبدالملک نے امام ؑ کی دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی پر سجدوں کی وجہ سے گھٹوں کے نشانات دیکھے تو آپ ؑ سے یوں کہنے لگا :یہ ظاہر ہوگیا آپ ؑ بہت ہی جد و جہد کرنے والے ہیں ،جبکہ آپ ؑ پر خدا کے پہلے سے ہی بہت سے احسانات ہیں آپ بضعۃ رسول ہیں ،آپ ؑ نسب اور سبب دونوں ہی اعتبار سے اُن سے بہت قریب ہیں خدا نے آپ ؑ کو فضل ،علم ،دین اور تقویٰ عنایت کیا ہے جو آپ سے پہلے آپ ؑ کے آباء و اجداد کے علاو ہ کسی اور کو نہیں دیا۔امام ؑ اس کے بیان کو سنتے رہے جب وہ اپنی بات تمام کر چکا تو اس سے فرمایا :’جو کچھ تو نے اللہ کے فضل و کرم اس کی تا ئید و توفیق کا تذکرہ کیا ہے، تو کہاں اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کیا جا سکتا ہے ؟حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں اتنا کھڑے رہتے تھے کہ آ پ ؐ کے پیروں پر ورم آجاتاتھا ، روزہ میں اتنی پیاس کا احساس کرتے تھے کہ آپ ؑ کا دہن اقدس سوکھ جاتاتھا۔آپ ؐ کی خدمت اقدس میں عرض کیا گیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا اللہ نے آپ ؐ کے گذشتہ اور آئندہ کے گناہ معاف نہیں کردئے ہیں ؟آنحضرت ؐ نے فرمایا:کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنوں؟تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمارا امتحان لیا،وہی ابتدا اور آخرت میں حمدوستائش کا حقدار ہے ،خدا کی قسم اگر میرے اعضا و جوارح قطع کردئے جا ئیں اورمیرے آنسومیرے سینے پر بہہ جائیں تو بھی میں خدا وند عالم کی تمام نعمتوں میں سے ایک نعمت کے دسویں حصہ کا شکریہ ادا نہیں کرسکتاوہ نعمتیں جن کو شمار کرنے والے شمار نہیں کر سکتے اور تمام تعریف و تمجید کرنے والے اس کی ایک نعمت تک بھی نہیں پہنچ سکتے ،نہیں ،خدا کی قسم نہیں مگر یہ کہ خدا وند عالم مجھے اس حال میں دیکھے کہ مجھے کو ئی چیز رات دن میں اس کے شکر اور ذکر سے نہ روک سکے،نہ ظاہری طور پر اور نہ ہی مخفی طورپر،اور مجھ پر میرے اہل و عیال اور تمام خاص و عام کے حقوق ہیں اور ان کو ادا کرنے کیلئے میں اپنی طاقت و وسعت کے مطابق ہی کو شش کرتاہوں اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتاہوں ،اور میرا دل اللہ سے لولگائے گااور پھر میں اپنے دل اور نظر کو اس وقت تک نہیں ہٹا ؤں گا جب تک کہ خدا میرے نفس کا فیصلہ نہ کردے وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے ‘‘۔امام ؑ نے بہت زیادہ گریہ و بکا کیا جس کا عبدالملک سر کش پربہت زیادہ اثر ہوااور وہ یوں کہنے لگا : کتنا فرق ہے ان دونوں میں ،جس نے آخرت طلب کی اور اس کے لئے جدوجہد کی ،اور جس نے دنیا طلب کی اور وہ کیسے ہاتھ لگے گی اور اس کا آخرت میں کو ئی حصہ نہیں ہے ۔۔۔عبدالملک امام ؑ کی گفتگو سن کر شرمندہ ہوگیااور مسلمانوں کے سلسلہ میں اُن کی سفارش کو قبول کرلیا۔انبیاء کی روحا نیت کے لئے امام ؑ کی عبادت ایک مثال تھی جواللہ سے آپ ؑ کی توبہ ،اس کا تقویٰ اورآپ ؑ کے اللہ سے و ابستہ ہونے کی حکایت کرتی ہے ،آپ خدا سے محبت کر تے اور اس کی عبادت میں خلاص کے سب سے عظیم درجہ پر فا ئز تھے۔
حوالہ جات۱۔تفسیر العسکری صفحہ ۱۳۲۔۲۔صفوۃ الصفوۃ ،جلد ۲ ،صفحہ ۵۳۔شذرات الذھب ،جلد۱،صفحہ ۱۰۵۔الحلیۃ ،جلد ۳،صفحہ ۱۳۴۔البدایہ والنھایۃ ،جلد ۹، صفحہ ۱۰۵۔ دررالابکار جلد ۲،صفحہ ۱۳۹۔ ۳۔الکواکب الدریہ ،جلد ۲،صفحہ ۱۳۹۔۴۔الخصال صفحہ ۴۸۸۔۵۔دررالابکار صفحہ ۷۰۔نہایۃ الارب جلد ۲۱صفحہ ۳۲۶۔سیر اعلام النبلاء جلد ۴ صفحہ ۲۳۸۔الاتحاف بحب الاشراف صفحہ ۴۹۔اخبار الدول صفحہ ۱۰۹۔ ۶۔صفوۃ الصفوۃ جلد ۲صفحہ ۵۳۔۷۔وسیلۃ المآل، صفحہ ۲۰۷۔سیر اعلام النبلاء ،جلد ۴صفحہ ۳۸۔صفوۃ الصفوہ جلد ۲صفحہ ۵۲۔حلیۃ الاولیاء، جلد ۳،صفحہ ۱۳۲۔العقد الفرید،جلد ۳صفحہ ۱۰۳۸۔بحارالانوار ،جلد ۴۶ ،صفحہ ۵۸۔۹۔وسا ئل الشیعہ، جلد ۴، صفحہ ۶۸۵۔۱۰۔تہذیب الاحکام، جلد ۲،صفحہ ۲۸۶۔بحارالانوار ،جلد ۴۶،صفحہ ۷۹۔۱۱۔بحارالانوار، جلد ۴۶، صفحہ ۱۰۸۔۱۲۔علل الشرائع ،صفحہ ۸۸۔بحار الانوار، جلد ۴۶، صفحہ ۶۱۔وسا ئل الشیعہ ،جلد ۴،صفحہ ۶۸۸۔۱۳۔اخبار الدول ،صفحہ ۱۱۰۔بحارالانوار، جلد ۴۶،صفحہ ۹۹۔۱۴۔صفوۃ الصفوۃ ،جلد ۲،صفحہ ۵۲۔المنتظم، جلد ۶،صفحہ ۱۴۱۔نھایۃ الارب، جلد ۲۱، صفحہ ۳۲۵۔سیر اعلام النبلاء ،جلد ۴ ،صفحہ۲۳۸۔۱۵۔رسالۃ القشریہ ،جلد ۱صفحہ ۲۱۴۔۱۶۔تہذیب التہذیب، جلد ۷، صفحہ ۳۰۶۔نور الابصار ،صفحہ ۱۳۶۔الاتحاف بحب الاشراف ،صفحہ ۴۹۔تذکرۃ الحفاظ ،جلد ۱، صفحہ ۷۱۔شذرات الذہب ،جلد ۱ ،صفحہ ۱۰۴ ۔الفصول المھمۃ ،صفحہ ۱۸۸۔اخبار الدول ،صفحہ ۱۱۰۔تاریخ دمشق ،جلد ۳۶، صفحہ ۱۵۱۔الصراط السوی، صفحہ ۱۹۳۔اقامۃ الحجۃ ،صفحہ ۱۷۱۔العبر فی خبر من غبر جلد ۱،صفحہ ۱۱۱۔دائرۃ المعارف (البستانی )،جلد ۹، صفحہ ۳۵۵۔تاریخ یعقوبی جلد ۳ ،صفحہ ۴۵۔المنتظم ،جلد ۶، صفحہ ۱۴۳۔تاریخ الاسلام (الذھبی )۔ الکواکب الدریہ ،جلد ۲، صفحہ ۱۳۱ ۔ البدایہ والنھایہ جلد ۹، صفحہ ۱۰۵۔۱۷۔بحارالانوار ،جلد ۴۶، صفحہ ۶۱۔الخصال ،صفحہ ۴۸۷۔۱۸۔الخصال، صفحہ ۴۸۸۔۱۹۔صفوۃ الصفوۃ ،جلد ۲، صفحہ ۵۳۔۲۰۔ وسائل الشیعہ، جلد ۴، صفحہ ۹۸۱۔۲۱۔وسا ئل الشیعہ ،جلد ۴، صفحہ ۹۸۱۔۲۲۔دعوات قطب راوندی (خطی نسخہ )حکیم لا ئبریری۔۲۳۔فی ظلال القرآن، جلد ۱۷،صفحہ ۱۶۔۲۴۔ حیاۃ الامام علی بن الحسین ؑ ،جلد ۱ ،صفحہ ۲۰۰۔۲۰۱۔۲۵۔بحا رالانوار، جلد ۴۶،صفحہ ۹۱۔۲۶۔حیاۃ الامام زین العابدین ؑ ،جلد ۱،صفحہ ۲۰۱۔۲۰۲۔