ظہور حضرت مہدي (ع) کے متعلق ابن خلدون کا خيال

150

ظہور حضرت مہدي (ع) کے بارے ميں بھي ادھر ہمارے سنّي بھائيوں ميں سے کچھ مغرب زدہ احمد امين، عبدالحسيب طٰہٰ حميدہ جيسے افراد نے امام مہدي (ع) کے متعلق روايات نقل کرنے کے باوجود تشيع پر حملے کئے ہيں گويا ان کے خيال ميں يہ صرف شيعوں کا عقيدہ ہے يا کتاب و سنت، اقوال صحابہ و تابعين وغيرہ ميں اس کا کوئي مدرک و ماخذ نہيں ہے، بے سر پير کے اعتراضات کرکے يہ حضرات اپنے کو روشن فکر، مفکر اور جديد نظريات کا حامل سمجھتے ہيں،غالباً سب سے پہلے جس مغرب زدہ شخص نے ظہور مہدي (ع) سے متعلق روايات کو ضعيف قرار دينے کي ناکام و نامراد کوشش کي وہ ابن خلدون ہے، جس نے اسلامي مسائل کے بارے ميں ہميشہ بغض اہلبيت (ع) اور اموي افکار کے زير اثر بحث و گفتگو کي ہے-
‘عقاد ‘ کے بقول اندلس کي اموي حکومت نے مشرقي اسلام کي وہ تاريخ ايجاد کي ہے جو مشرقي مورخين نے ہرگز نہيں لکھي تھي اور اگر مشرقي مورخين لکھنا بھي چاہتے تو ايسي تاريخ بہر حال نہ لکھتے جيسي ابن خلدون نے لکھي ہے-
اندلس کي فضا ميں ايسے مورخين کي تربيت ہوتي تھي جو اموي افکار کي تنقيد و ترديد کي صلاحيت سے بے بہرہ تھے، ابن خلدون بھي انہيں افراد ميں سے ہے جو مخصوص سياسي فضا ميں تربيت پانے کے باعث ايسے مسائل ميں حقيقت بين نگاہ سے محروم ہو گئے تھے، فضائل اہلبيت (ع) سے انکار يا کسي نہ کسي انداز ميں توہين يا تضعيف اور بني اميہ کا دفاع اور ان کے مظالم کي ترديدسے ان کا قلبي ميلان ظاہر ہے- ابن خلدون معاويہ کو بھي ‘خلفائے راشدين’ ميں شمار کرتے ہيں-
انہوں نے مہدي (ع) اہل بيت (ع) کے ظہور کے مسئلہ کو بھي اہل بيت (ع) سے بغض و عناد کي عينک سے ديکھا ہے کيونکہ مہدي (ع) بہرحال اولاد فاطمہ (ص) ميں سے ہيں خانوادہ رسالت کا سب سے بڑا سرمايہء افتخار ہيں لہٰذا اموي نمک خوار کے حلق سے فرزند فاطمہ(ص) کي فضيلت کيسے اتر سکتي تھي چنانچہ روايات نقل کرنے کے باوجود ان کي تنقيد و تضعيف کي سعي لاحاصل کي اور جب کاميابي نہ مل سکي تو اسے ‘بعيد’ قرار دے ديا-
اہل سنت کے بعض محققين اور دانشوروں نے ابن خلدون اور اس کے ہم مشرب افراد کا دندان شکن جواب ديا ہے اور ايسے نام نہاد روشن فکر افراد کي غلطياں نماياں کي ہيں-
معروف معاصر عالم استاد احمد محمد شاکر مصري ‘مقاليد الکنوز’ ميں تحرير فرماتے ہيں ‘ابن خلدون نے علم کے بجائے ظن و گمان کي پيروي کرکے خود کو ہلاکت ميں ڈالا ہے- ابن خلدون پر سياسي مشاغل، حکومتي امور اور بادشاہوں، اميروں کي خدمت و چاپلوسي کا غلبہ اس قدر ہو گيا تھا کہ انہوں نے ظہور مہدي (ع)سے متعلق عقيدہ کو ‘شيعي عقيدہ’ قرار دے ديا- انہوں نے اپنے مقدمہ ميں طويل فصل لکھي ہے جس ميں عجيب تضاد بيان پايا جاتا ہے ابن خلدون بہت ہي فاش غلطيوں کے مرتکب ہوئے ہيں، پھر استاد شاکر نے ابن خلدون کي بعض غلطياں نقل کرنے کے بعد تحرير فرمايا: اس(ابن خلدون) نے مہدي (ع) سے متعلق روايات کو اس لئے ضعيف قرار ديا ہے کہ اس پر مخصوص سياسي فکر غالب تھي، پھر استاد شاکر مزيد تحرير کرتے ہيں کہ: ابن خلدون کي يہ فصل اسماء رجال، علل حديث کي بے شمار غلطيوں سے بھري ہوئي ہے کبھي کوئي بھي اس فصل پر اعتماد نہيں کرسکتا-‘
استاد احمد بن محمد صديق نے تو ابن خلدون کي رد ميں ايک مکمل کتاب تحرير کي ہے جس کا نام ‘ابراز الوہم المکنون عن کلام ابن خلدون’ ہے- اس کتاب ميں استاد صديق نے مہدويت سے متعلق ابن خلدون کي غلطيوں کي نشاندہي کرتے ہوئے ان کا مکمل جواب ديا ہے اور ابن خلدون کو بدعتي قرار ديا ہے-
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.