قرآن فہمی کے اصول
کيا قرآن ايک عام فہم کتاب ہے !ہم اگر خود پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي زندگي پرتاريخي نظر ڈاليں تو ديکھتے ہيں کہ اکثر ايسا ہوا ہے کہ کفار و مشرکين صرف قرآني آيات کي تلاوت سن کر اور ان کے ظاہري مفہوم کو سمجھ کر اتنا زيادہ متآثر ہوتے تھے کہ فوراً اسلام قبول کرليا کرتے تھے ۔اسي طرح جب بھي رسول اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم خدا کي طرف سے کوئي نيا پيغام پہنچاتے تھے تو مسلمانوں کے سامنے نازل شدہ آيات کي تلاوت فرماتے اوروہ لوگ اسے اپنا فريضہ سمجھ کر عمل پيرا ہو جاتے تھے ۔ اور يہ بات روز روشن سے بھي زيادہ واضح ہے کہ قرآن کي اکثر آيات عام فہم ہيں۔ اور اگر کسي کو ذرا بھي عربي زبان سے آشنائي ہو تو اس بات کو سمجھ سکتا ہے ،جيسا کہ خود قرآن نے متعدد مقامات پراس بات کو واضح کيا ہے اور تاريخي شواہد اور سيرت ائمہ عليہم السلام بھي اس بات کي گواہ ہے۔قرآن فہمي کے اصولقرآن عام فہم ہے:قرآن کا سب سے بڑا امتياز يہ کہ وہ اپنے زمانے کي رائج زبان (یعني عربي )ميں نازل ہوا،نہ ہي اس ميں کوئي پيچيدگي ہے اور نہ ہي کوئي غموض ، بلکہ قرآني آيات نے اس طرح لوگوں کو خطاب کيا ہے کہ جيسے کوئي کسي سے بات کررہا ہو،نہ تو جملوں ميں اصطلاحوں کي پيچيدگي ہے اور نہ ہي عبارتوں ميں پيچ و خم ۔ بلکہ قرآن کي عبارتيں سيدھي اور سلجھي ہوئي ہيںاور يہ صرف اس لئے کہ قرآن اپنے مخاطبين تک اپنے مفاہيم کو آساني سے پہنچا سکے۔قرآن فہمي کے لئے عربي زبان سے آشنائي ضروري :جيسا کہ واضح ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لئے پہلے اس کي زبان سے بخوبي آشنائي ضروري ہے۔ کيونکہ بغير عربي زبان کے جانے قرآن کا صحيح مطالعہ غير ممکن ہے۔دور حاضر کا سب سے بڑا الميہ يہ ہے کہ بعض افراد نے قرآن کا ترجمہ اور تھوڑي بہت عربي سيکھنے کے بعد قرآن ميں مفہوم تراشي کرنا شروع کردي ہے۔ البتہ ان ميں سے کچھ نيک دل اور روشن فکر افراد توجہ دلانے پر اپني اصلاح کرليتے ہيں۔
(ليکن کچھ لوگ ايسے بھي ہوتے ہيں جو اپنے علم کو وحي منزل سمجھ کر جمود کا شکار بن جاتے ہيں اور ايسے افراد کا خطرہ کہيں زيادہ ہے)عربي زبان پر تسلط کا مطلب يہ ہے کہ انسان کم ازکم ايک عرب زبان کي مانند قرآن کو سمجھ سکے اور اس کے لئے علم صرف و نحو اور علم لغت سے حد وافر ميں آشنائي ضروري ہے۔کيونکہ بسا اوقات ايک لفظ کے مختلف معاني ہوا کرتے ہيں اور قرآن فہمي کے لئے ان کے مختلف استعمال کا جاننا نہايت ضروري ہے۔زبان قرآن سے آگاہي:قرآن فہمي ميں دوسري اہم چيز يہ ہے کہ انسان پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے زمانے ميں رائج زبان سے بخوبي آشنا ہو ، کيونکہ جو لوگ علم زبان سے آگاہ ہيں وہ يہ اچھي طرح جانتے ہيں کہ زمانے کے ساتھ ساتھ زبان بھي بدل جاتي ہے۔ اور عربي ميں بھي ايسا کچھ، يعني اکثر ايسا ہوا ہے کہ اگر کوئي لفظ صدر اسلام کسي معني ميں استعمال ہوتاتھا آج کسي اور معني ميں استعمال ہوارہا ہے، يااگر پوري طرح اس کا معني نہ بھي بدلا ہو تواپنے حقيقي معني ميں استعمال کے ساتھ کسي دوسرے معنيٰ ميں بھي اسعمال ہورہا ہے ۔ لہذا اگر کوئي قرآني مفاہيم سے آشاناہوناچاہتاہے تو اسے چاہيے کہ پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے زمانے ميں رائج بول چال سے پہلے آگاہ ہو تاکہ اس کے لئے تمام جملوں اور الفاظ کا صحيح اور دقيق معنيٰ قابل ادراک ہو۔ اور اگر ايسا نہ کرے تو ممکن ہے دوران ترجمہ ايسے الفاظ درپيش ہوں کہ جن کا رسول اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے زمانے ميں معني کچھ اور ہو اور دور حاضر ميں کسي اور معني ميں استعمال ہوتا ہو، گر چہ وہ دوسرا معني ظاہري اعتبار سے بہت موضوع معلوم ہوتا ہو ليکن اگر ہم اس معني کے مطابق آيت کا ترجمہ کريںگے، تو نہ صرف يہ کہ آيت کے مفہوم پر ايک تحميل ہوگي بلکہ ہم قرآن ميں تفسير بالرّائي کے شکار ہوجائيں گے، مثال کے طور ہمارے دوستوں ميں سے ايک شخص نے قرآني مفاہيم ميں بالغ نظري کي اور اپني فکر کے مطابق قرآني آيا ت کي تفسير کرننا شروع کردي ليکن جب ميں ان کي ايک تحقيق ميرے سامنے کہ جس ميں انہوں نے طبيعت سے متعلق قرآني آيات کي جمع آوري اور ان کي وضاحت کي تھي ،تو ميں نے يہ محسوس کيا کہ اس تحقيق ميں خطاؤں کا سب سے اہم سب يہ تھا کہ وہ عصر پيغمبرصلي اللہ عليہ و آلہ و سلم زبان سے ناآگاہ تھے اور بغير اس کي تحقيق کے انہوں نے آيات کي تفسير کرنا شروع کردي تھي مثال کے طو ر قرآن ميں ايک مقام ارشاد ہورہا ہے ‘الم نجعل الارض کفاتاً ‘‘اور لغت ميں ‘ کفات‘‘ تيز پرواز پرندہ کو کہتے ہيں ،ا ور آيت کي تشريح کرتے وقت وہ لکھتے ہيں کہ گويا خدا نے زمين کو تيز پرواز پرندہ سے تشبيہ دي ہے ، يعني زمين بھي تيز پرواز پرندہ کي مانند متحرک اور حالت پرواز ميں ہے۔قابل ملاحظہ بات تو يہ ہے کہ انہوں نے صرف لفظ کے لغوي ترجمہ سے ايک مفہوم حاصل کيا اور آيت کي تشريح کر بيٹھے (در حلانکہ اس کے ماورائ حقيقت کا ايک سمندر ہے)۔ميں نے ان سے کہا: محترم! اس آيت کے ترجمے سے پہلے، آپ کو يہ ديکھ لينا چاہيے کہ عصر نزول ميں يہ لفظ کس معني ميں استعمال ہواکرتا تھا اور اس کے ساتھ کي آيت کو بھي ملاحظہ کرليتے کہ کيا تيز پرواز پرندہ کے ترجمہ اس ميں موزون ہے بھي يا نہيں ۔ کيونکہ عصرپيغمرصلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کا مطالعہ يہ بتاتا ہے کہ يہ لفظ اس زمانے ميں کسي اور معني ميں استعمال ہوا کرتا تھااور پھر بعد کي آيات ميں ‘احيائ ً ‘‘ و’ امواتاً ‘‘کا تذکرہ ہے ،اب اگرترجمے ميں تيز پرواز زندہ اور مردہ پرندے کہيں تو آيت بالکل بے معنيٰ ہوکر رہ جائے گي۔اور اس لفظ کا صحيح معني جو عصر پيغمبرصلي اللہ عليہ و آلہ و سلم ميں بھي رائج تھا وہ زمين ہے جس ميں مختلف چيزيں ہوں، اور آيت کااس معني کي روشني اگر ترجمہ کيا جائے تو اس کا مفہوم ما بعد کي آيات سے بھي سازگار رہے گا اور اس کے معني ميں کوئي خلل نہيں آئے گا پھراس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہوگا’کيا ہمنے زمين کو مختلف چيزوں سے آراستہ نہيں کياہے…‘‘اوربعد کے جملے ميں خدا ارشاد فرماتا ہے ‘ زندوں اور مردوں کے ليے‘‘ يعني ذي حيات مخلوقات بھي زمين ميں اپنا گھر بناتي ہيں اور ان کے مردے بھي زمين ہي ميں دفن ہوا کرتے ہيںاور انکي بھي آرامگاہ زمين ہي ہوا کرتي ہے۔اس آيت کو ايک دوسرے انداز ميں بھي آيت کا ترجمہ ممکن ہے کہ بعض اوقات سيلاب زمين پر پڑے مردار کو اپنے ساتھ بہا ليجاتا ہے اور پھر بعد ميں يہي مردار جامد چٹانوں کي شکل ميں ابھر آتے ہيں۔لہذا اگرکوئي لغت ميں لفظ’ کفات‘‘ کے رائج معني کو ديکھے اور اس آيت کا ترجمہ کرے اور اس سے زمين کي حرکت کو ثابت کرے تو يہ صحيح نہيں ہوگا بلکہ اسے چاہيے کہ يہ ديکھے کہ عصر پيغمبرصلي اللہ عليہ و آلہ و سلم ميں اس لفظ کا معني کيا تھا ،کيونکہ زمانے کے ساتھ الفاظ کے معني بھي بدلتے رہتے ہيں اورمثال کے طور پر وہ لفظ جو آج کسي معني ميں استعمال ہورہا ہے، ممکن ہے آج سے تين سو سال بعد کسي دوسرے معني ميں استعمال ہونے لگے، تو اب اگر اس دورميں کوئي شخص ميري باتوں کو اپنے زمانے ميں رائج معني کے مطابق تفسير کرے تو ارباب علم و عقل اس کو صحيح نہيں سمجھيں گے۔
لہذا قرآن کا ترجمہ کرتے وقت ہميں اس بات کا خيال رکھنا چاہيے کہ ہم اس کے الفاظ کو اس کے صحيح اور عصر نزول ميں رائج معني کے مطابق ترجمہ اور تفسير کريں ۔