قرآن اور امام زمانہ
بسم اللہ الرحمن الرحم
نوٹ: آیات کا ترجمہ علامہ ذیشان حیدر جوادی کے ترجمہ قرآن سے اخذ کیا گیا ہے۔
(۱) مومنین کی خوشی اور مسر ت کا دن۔۔۔یَومَئِذٍ یَّف رَحُ المُومِنُونَ بِنَصرِ اللّٰہِ۔۔۔(روم/ ۴،۵)ترجمہ:اس دن صاحبان ایمان اللہ کی مدد سے خوشی منائیں گے۔پیغام:امام جعفر صادق ؑ سے مروی ہے کہ آخری امامؑ کے ظہور کا دن وہ دن ہے جب مومنین اللہ کی نصرت و امداد کے سہارے خوشی منائیں گے۔
(۲) امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھیوَ مِن قَومِ مُوسٰٓی امَّةµ یَّھدُونَ بِالحَقِّ وَ بِہ یَعدِلُونَ۔(اعراف/ ۹۵۱)ترجمہ:اور موسیٰ کی قوم میں سے ایک ایسی جماعت بھی ہے جو حق کے ساتھ ہدایت کرتی ہے اور معاملات میں حق و انصاف کے ساتھ کام کرتی ہے۔پیغام:حضرت امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ جب قائم آل محمدؑ کعبہ سے ظہور کریں گے تو( ۷۲) افراد ان کے ساتھ ہوں گے جن میں سے (۵۱) کا تعلق قوم حضرت موسیٰؑ، (۷) افراد اصحاب کھف، یوشع جناب موسیٰ کے جانشین، سلمان، مقداد ومالک اشتر وغیرہ یہ سب کے سب حضرتؑ کے ساتھی اور آپؑ کی جانب سے فوج پر حُکّام ہوں گے۔
(۳) آئمہ کی معرفتمَن کَانَ یُرِیدُ حَرثَ الاٰخِرَةِ نَزِد لَہ‘ فِی حَرثِہ وَ مَن کَانَ یُرِیدُ حَرثَ الدُّنیَا ۔۔۔(شوریٰ /۰۲)ترجمہ:جو انسان آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لئے اضافہ کردیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی کا طلب گار ہے اسے اسی میں سے عطا کر دیتے ہیں۔پیغام:امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ “حرث الاخرة”سے مراد علیؑ اور باقی آئمہعلیہم السلام کی معرفت ہے۔ اور “حرث الدنیا” سے مراد اُن لوگوں کی تلاش اور کوشش جن کا حضرت بقیة اللہ کی حکومت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
(۴) حق کی کامیابی کا دن۔۔۔ وَ یَمحُ اللّٰہُ البَاطِلَ وَ یُحِقُّ الحَقَّ بِکَلِمٰتِہ۔(شوریٰ /۴۲)ترجمہ:اور خدا باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ ثابت اور پائیدار بنا دیتا ہے۔پیغام:امام صادقؑ سے منقول ہے کہ اس آیت میں کلمات سے مراد آئمہ علیہم السلام اور قائم آل محمد ؑہیں کہ جن کے ذریعہ خدا حق کو غلبہ عطا کرے گا۔
(۵) دین حقھُوَ الَّذِی ارسَلَ رَسُولَہ‘ بِالھُدٰی وَ دِینِ الحَقِّ لِیُظھِرَہ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ ۔۔۔(فتح /۸۲)ترجمہ:وہی وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اُسے تمام ادیان پر غالب بنائے۔پیغام:امام صادقؑ سے روایت ہے کہ غلبہ سے مراد امام زمانہ ؑکا ظہور ہے جو تمام ادیان پر غالب آکر زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینگے۔
(۶) اہل زمین کا دوبارہ زندہ ہونااِعلَمُوا اَنَّ اللّٰہَ یُحیِ الاَرضَ بَعدَ مَوتِھٰا۔۔۔(حدید/ ۷۱)ترجمہ:یاد رکھو کہ خدا ہی زمین کو اُس کے مرنے (ختم ہونے) کے بعد زندہ (آباد) کرتاہے۔پیغام:امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ زمین کے مردہ ہونے سے مراد اہل زمین کا کفر اختیار کرنا ہے۔ خداوند عالم حضرت حجة ابن الحسنؑ کے ذریعہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر کر زمین کو زندگی عطا کریگا۔
(۷) اللہ کا نوریُرِیدُونَ لِیُطفِئُوا نُورَ اللّٰہِ بِافوَاھِھِم وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُورِہ وَ لَوکَرِہَ الکٰفِرُونَ۔(صف/ ۸)ترجمہ:یہ لوگو چاہتے ہیں کہ نورِ خدا کو اپنے منہ سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔پیغام:امام صادقؑ سے منقول ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نورِ ولایت علیؑ کو بجھادیں لیکن خداوند عالم اُسے مکمل کرے گا اور حضرت حجة ابن الحسنؑ کے ظہور کے ذریعہ اُسے سارے جہاں پر غلبہ عطا کرے گا۔
(۸) امام زمانہ علیہ السلامالٓمّٓ ۔ ذٰلِکَ الکِتٰبُ لَارَیبَ فِیہِ ھُدًی لِّلمُتَّقِینَ۔ الَّذِینَ یُومِنُونَ بِالغَیبِ وَ۔۔۔(بقرہ /۲)ترجمہ:یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیز گار لوگوں کے لئے مجسمہ ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔پیغام:امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ صاحبان تقویٰ سے مراد حضرت علیؑ کے شیعہ اور غیب سے مراد امام زمانہؑ ہیں۔
(۹) اللہ کا گروہاُولٰٓئِکَ حِزبُ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ حِزبَ اللّٰہِ ھُمُ المُفلِحُونَ۔(مجادلہ/ ۲۲)ترجمہ:یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں اور آگاہ ہوجاوکہ اللہ کا گروہ ہی نجات پانے والا ہے۔پیغام:جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام نے فرمایا آخری امام حجة ابن الحسن العسکریؑ ہیں پھر فرمایا کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ان کی غیبت میں ثابت قدم ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں خدا فرماتا ہے: اُولٰئِکَ حِزبُ اللّٰہ۔۔۔
(۱۰) پیغمبرصلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین۔۔۔اَطِیعُوا اللّٰہَ اَطِیعُوا الرَّسُولَ وَ اُولِی الاَمرِ مِنکُم ۔۔۔(نسائ/ ۹۵)ترجمہ:اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں۔پیغام:جابر بن عبد اللہ انصاری فرماتے ہیں: میں نے رسالت مآب سے سوال کیا کہ اولی الامر سے مراد کون ہیں؟ رسالت مآب نے فرمایا: وہ میرے جانشین اور مسلمانوں کے پیشوا اور رہنما ہیں جن میں سے پہلے علی ابن ابی طالب ؑاور آخری حجة ابن الحسن العسکریؑ ہیں۔جابر نے کہا :یارسول اللہ! کیا شیعہ حضرت مہدیؑ کی غیبت کے زمانے میں اُن سے مستفید ہوسکے گے۔ رسالت مآب نے فرمایا: یقینا اُس ذات کی قسم جس نے مجھے نبوت عطا کی ہے، شیعہ مہدیؑ کے نورِ ولایت سے مکمل بہرہ مند ہونگے جس طرح لوگ سورج کے فوائد سے بہرہ مند ہوتے ہیں ، چاہے وہ بادلوں کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔
(۱۱) بے رُخی کی سزا۔۔۔ یَومَ یَاتِی بَعضُ اٰیٰتِ رَبِّکَ لَا یَنفَعُ نَفسًا اِیمَانُھَا لَم تَکُن اٰمَنَت مِن قَبلُ۔۔۔(انعام /۸۵۱)ترجمہ:جس دن اس کی (پروردگار کی) بعض نشانیاں آجائیں گی اس دن جو نفس پہلے سے ایمان نہیں لایا ہے ، اسکے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔پیغام:حضرت امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ وہ دن حضرت بقیة اللہؑ کے ظہور کا دن ہے۔
(۱۲) اولیٰاءخدااَلَآ اِنَّ اَولِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوفµ عَلَیھِم وَلَا ھُم یَحزَنُونَ۔(یونس/ ۲۶)ترجمہ:آگاہ ہو جاو کہ اولیاءخدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ محزون و رنجیدہ ہوتے ہیں۔پیغام:امام صادقؑ سے مروی ہے آپؑ نے ابو بصیر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ابو بصیر حضرت بقیة اللہ ؑکے شیعہ خوش نصیب ہیں جو آپؑ کی غیبت میں آپؑ کے مطیع اور آپؑ کے ظہور کے منتظر ہیں ۔ اس کے بعد آپؑ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ۔ الَا اِنَّ اولِیٰائَ اللّٰہ۔۔۔
(۱۳) اللہ کا وعدہوَعَدَ اللّٰہُ الَّذِینَ اٰمَنُوا مِنکُم وَ عَمِلُوا لصّٰلِحٰتِ لَیَستَخ لِفَنَّھُم فِی الاَرضِ۔۔۔(نور /۵۵)ترجمہ:اللہ نے تم میں سے صاحبانِ ایمان و عملِ صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں روئے زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا۔پیغام:امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ یہ آیت حضرت بقیة اللہؑ اور ان کے اصحاب کی شان میں ہے۔ جابر بن عبداللہ انصاری سے مروی ہے کہ پیامبر اسلام نے فرمایا: جناب موسیٰؑ کی طرح میرے بھی بارہ جانشین ہونگے۔ اس کے بعد آپؑ نے بارہ اماموں کے نام بتائے اور فرمایا کہ حسن(عسکریؑ) کے بیٹے غیبت میں چلے جائیں گے اس کے بعد آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ وَعَدَ اللّٰہ الَّذِینَ۔۔۔
(۱۴) ظالموں کا انجام۔۔۔وَ سَیَعلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوآ اَیَّ مُنقَلَبٍ یَّنقَلِبُونَ ۔(شعرائ/ ۷۲۲)ترجمہ:اور عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے۔پیغام:رسالت مآبسے منقول ہے جو میرے دین کا پیرو اور میری کشتی نجات میں سوار ہونا چاہتا ہے وہ علی ابن ابی طالب ؑسے وابستہ ہوجائے ۔ ان کے دشمن کو دشمن اور ان کے دوست کو دوست رکھے۔ اس کے بعد آپؑ نے اماموں کے نام بتائے اور فرمایا میری امت کے نو پیشوا حسین ؑ کی اولاد سے ہیں جن میں آخری قائم ؑ ہیں۔ پھر آپؑ نے اس آیت کی تلاوت کی۔ وَ سَیَعلَمُ الَّذِینَ۔۔۔
(۱۵) زمین کے وارثاَمَّن یُّجِیبُ المُضطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکشِفُ السُّوئَ وَ یَجعَلُکُم خُلَفَآئَ الاَرضِ ۔(نمل/ ۲۶)ترجمہ:بھلا وہ کون ہے جو مضطر کی فریاد کو سنتا ہے جب وہ اس کو آواز دیتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے اور تم لوگوں کو زمین کا وارث بناتا ہے۔پیغام:امام صادقؑ سے روایت ہے کہ یہ آیت قائم آل محمدؑ کی شان میں ہے۔ ظہور کے وقت آپ مقامِ ابراہیمؑ کے پاس نماز ادا کرتے ہوئے یہ مناجات کریںگے۔
(۱۶) لوگوں کے پیشواوَنُرِیدُ ان نَّمُنَّ عَلَی الَّذِینَ استُضعِفُوا فِی الاَرضِ وَ نَجعَلَھُم اَئِمَّةً وَّ نَجعَلَھُمُ الوٰرِثِینَ۔(قصص /۵)ترجمہ:اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ۔ ان پر احسان کریں اور انھیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں۔پیغام:پیغمبر اسلام سے منقول ہے آپ نے جناب سلمان فارسیؓ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے سلمانؓ! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہیں اپنے بارہ جانشینوں کے نام بتاوں اور اس کے بعد آپ نے بارہ اماموں کے نام بیان کئے۔ جناب سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان کے شوقِ دیدار میں بے انتہا گریہ کیا تو پیغمبر اسلام نے فرمایا: اے سلمانؓ !اُن کے ہونے سے اس آیت کی تکمیل ہوگی۔ وَنُرِیدُ ان نَمُنَّ۔۔۔
(۱۷) نماز کا قیاماَلَّذِینَ اِن مَّکَّنّٰھُم فِی الاَرضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَتُوا الزَّکٰوةَ وَ اَمَرُوا بِالمَعرُوفِ وَنَھَو عَنِ المُنکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَةُ الاُمُورِ۔(حج /۱۴)ترجمہ:یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انھوں نے نماز قائم کی اور زکات ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے۔پیغام:امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ یہ آیت مہدی آخر الزمانؑ اور ان کے اصحاب کی شان میں ہے جو مشرق و مغرب میں دین اسلام کا پرچم لہرا کر خرافات اور ظلم وجور کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے اور پھر فرمایا : ویَا مُرُونَ بالمعروف (نیکیوں کا حکم دینے)۔۔۔
(۱۸) ذخیرہ الٰہیبَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیر µ لَّکُم اِن کُنتُم مُّومِنِینَ۔۔۔(ھود/۶۸)ترجمہ:اللہ کی طرف کا ذخیرہ تمھارے لئے بہت بہتر ہے، اگر تم صاحبِ ایمان ہو۔پیغام:روایات میں امام عصرؑ کو ” بقیة اللہ ” کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ پروردگار عالم نے انہیں آخری انقلاب اور زمانہ کی واقعی اصلاح کے لیے بچا کر رکھا ہے۔ جب سر زمین مکّہ سے آپؑ کا ظہور ہوگا تو آپؑ اس آیت کی تلاوت فرما کر کہیں گے میں ہی وہ بقیة اللہ ہوں۔
(۱۹) صالحین کی حکومتوَلَقَد کَتَبنَا فِی الزَّبُورِ مِنم بَعدِ الذِّکرِ اَنَّ الاَرضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ۔(انبیاء/۵۰۱)ترجمہ:اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔پیغام:رسالت مآبسے روایت ہے: قیامت اُس وقت تک برپا نہیں ہوگی ، جب تک دنیا ظلم و جور سے نہ بھر جائے ۔ پھر میری ذرّیت میں سے ایک فرد قیام کرے گا اور دنیا کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ پہلے ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔
(۲۰) امام برحقفَوَ رَبِّ السَّمَآئِ وَ الاَرضِ اِنَّہ لَحَقّ µ مِّثلَ مَآ اَنَّکُم تَنطِقُونَ۔(ذاریات /۳۲)ترجمہ:آسمان اور زمین کے مالک کی قسم یہ قرآن بالکل برحق ہے جس طرح تم خود باتیں کر رہے ہو۔پیغام:امام سجادؑسے منقول ہے : اس آیت میں حق سے مراد حضرت حجة ابن الحسن العسکری ؑ کا ظہور ہے۔
(۲۱) زمین کا جگمگاناوَ اَشرَقَتِ الاَرضُ بِنُورِ رَبِّھَا۔(زمر /۹۶)ترجمہ:اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔پیغام:امام جعفر صادقؑ سے مروی ہے کہ جب قائمؑ کا ظہور ہوگا تو زمین نورِ پروردگار سے اس طرح جگمگا اٹھے گی کہ لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہوجائیں گے۔ دن رات ایک ہی معلوم ہوں گے اور لوگ ہزار سال تک صحیح و سالم زندگی گزاریں گے۔