قرآن مجید کے حاملین اور اس پر عمل کرنے والوں کا احترام
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایاہے:”اشراف امتی حملۃ القر آن و اصحاب اللّیل” (۱)”میری امت کے بزرگ وبرتر افراد قر آن مجید کے حامل(حافظ) اور شب زندہ دار ہیں”اس روایت میں قر آن مجید کے حاملین کے لئے ایک خاص شرافت ثابت ہوتی ہے، لیکن ابوذر کی حدیث کے اس حصہ میں، اصل شرافت کے اثبات کے علاوہ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ان کا احترام خدا کا احترام ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ قر آن مجید پر عمل کرنے والے ہوں او ر ان کی خصوصیت یہ ہے کہ قر آن مجید کے حامل اور اس پر عمل کرنے والے ظاہر و باطن ، گفتار و کردار میں ارادہ الٰہی کا جلوہ کلام الہی کے مظہر ہیں، انہوں نے قر آن مجید کے الفاظ اور حروف کو بھی حفظ کیا ہے اور ان کے ذہنوں میں قر آن کے مفاہیم بھی محفوظ ہیں اور اصطلاح میں ان کے قوہ متخیّلہ نے الفاظ کی صورت کو درک کیا ہے، ان کے قوہ عاقلہ نے اس کے مفاہیم کو اور قوہ عاملہ نے قر آن مجید کے حقائق کو عمل کی دنیا میں جلوہ گر کیا ہے، یعنی ان کا وجود سرتا پا خدائی اور قر آنی ہوچکاہے۔جب ہم ان کے حافظہ پر نظر ڈالتے ہیں کہ وہ حافظ قر آن مجید ہیں ، جب ان کے علوم پر نظر ڈالتے میں تو دیکھتے ہیں کہ وہ علوم قر آن مجید کے حامل او راس کے مفاہیم کو حاصل کرچکے ہیں او رجب ہم ان کے عمل پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ قر آن مجید کے مطابق عمل کرتے ہیں، اس لحاظ سے ان کا وجود قر آن مجید کا آئینہ ہے، یعنی ان کا وجود کمالِ خدا کا آئینہ ہے اور خداوند عالم نے اپنے کلام سے ان کے وجود میں ظہور کیا ہے، لہذا ان کا احترام خداوند عالم کا احترام ہے۔قر آن مجید کے بلند مقام کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں:”القر آن ہدی من الضلالۃ و تبیان من العمی و استقالۃ من العثرۃ و نور من الظلمۃ و ضیاءمن الاحداث و عثمۃ من الھلکۃ و رشد من الغوایۃ وبیان من الفتن و بلاغ من الدنیا الی ال آخرۃ و فیہ کمال دینکم و ما عدل احد عن القر آن الّا الی النار” (۲)” قر آن مجید گمراہی کے لئے ایک رہنمااور نابینا کے لئے بینائی اور نجات بخش ہے، لغزشوں کو بخشنے کا سبب او رہر تاریکی کے لئے نور اور روشنی ہے، حوادث میں نجات دلانے والا ہے، ہر ہلاکت سے بچانے والا اور ہر گمراہی میں رہنمائی کرنے والا ہے۔ ہرفتنہ وانحراف کو بیان کرنے والا او رانسان کو دنیا سے (پستی سے سعادت) آخرت کی طرف لے جانے والاہے اور اس میں تمہارے دین کا کمال ہے اور قر آن مجید سے کوئی شخص منہ نہیں موڑتا مگر یہ کہ اس نے جہنم کی طرف رخ کیا ہے”قر آن مجید پر توجہ کرنے ، اسے پہچاننے او راسے ایک سعادت او رنجات بخش کتاب کی حیثیت سے منتخب کرنے کی ضرورت کے بارے میںایک حدیث میں آیا ہے:”من اخذ دینہ من کتاب اللّٰہ و سنۃ نبیہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم زالت الجبال قبل ان یزول و من اخذ دینہ من افواہ الرجال ردّتہ الرّجال” (۳)” جو بھی اپنے دین کو خدا کی کتاب اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت سے حاصل کرتا ہے وہ پہاڑوں سے مستحکم تر او رجو اپنے دین کو لوگوں کی زبانوں سے حاصل کرتاہے، وہی لوگ اسے دین سے منحرف کردیں گے”ایک اور جگہ پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قر آن مجید اور اہلبیت علیہم السلام کے درمیان رابطہ کے بارے میں فرماتے ہیں:”انا اول رافد علی العزیز الجبّار یوم القیامۃ و کتابہ و اہل بیتی، ثم امّتی ثم اسالہم ما فعلتم بکتاب اللّٰہ و اہل بیتی” (۴)میں پہلا شخص ہوں جو قیامت کے دن خدائے جبار کے حضور قر آن مجید اور اپنے اہلبیت کے ساتھ حاضر ہوگا، اس کے بعد میری امت (حاضر ہوگی) ، اس کے بعد میں پوچھوں گا: تم لوگوں نے خدا کی کتاب او رمیرے اہل بیت (ع) کے ساتھ کیا سلوک کیا؟جو کچھ بیان ہوا، وہ اس لئے تھاکہ ہم جان لیں کہ قر آن مجید ، مادی و معنوی دونوں لحاظ سے، بابرکت رکھتا ہے او رانسان جس قدراس سے زیادہ بہرہ مند ہوگا۔ قر آن مجید کی فضیلت او رعظمت اتنی ہی زیادہ ہوگی اس مضمون کی ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ ایک شخص نے معصوم سے سوال کیا: دوسرے لوگوں پر آپ کی فضیلت او ربرتری کا سبب کیاہے؟ تو معصوم نے جواب میں فرمایا: دوسروں پر ہماری فضیلت اس لئے ہے کہ قر آن مجید کا علم ہمارے پاس ہے۔پس ہمیں ہمیشہ قر آن مجید کی تکریم و تقدیس کرنی چاہئے اور قر آن مجیدکو ہرگز دوسری کتابوں کی طرح نہیں دیکھنا چاہئے اور قر آن مجید کو دوسری تمام کتابوں پر فضیلت دینا صرف قلبی اعتقاد تک محدود نہ ہو، بلکہ قر آن مجید کے بارے میں ہماری رفتا ردوسری کتابوں کے مقابلہ میں متفاوت ہونی چاہئے۔ ہمیں قر آن مجید کی نسبت قلبی احترام کے علاوہ اس کا ظاہری احترام بھی کرنا چاہئے یعنی ہماری ظاہری رفتار ، قر آن مجید کے ساتھ ہماری قلبی رفتار کا مظہر ہونا چاہئے ۔بیشک قر آن مجید کے ساتھ ہماری یہی قابل تعظیم رفتار، ہمارے ایمان میں اضافہ کا سبب بنے گی۔بعض برزگان اس کمرے میں نہیں سوتے تھے، جس میں قر آن مجید ہوا کرتا تھا اور حتی اس کمرے میں قر آن مجید کے احترام میں پیر بھی نہیں پھیلا تے تھے۔ علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ اور شہید مطہری رحمۃ اللہ علیہ نے مرحوم شیخ محمد تقی آملی سے ایک داستان نقل کی ہے کہ مرحوم آملی نے ایک رات کو قر آن محید کی تلاوت کے دوران انتہائی تھکاوٹ کی وجہ سے تکیہ سے ٹیک لگایا۔ دوسرے دن حب وہ اپنے استاد مرحوم میرزا علی آقای قاضی کہ علامہ طباطبائی اور دیگر بزرگوں کے بھی استاد تھے ۔ کے پاس پہنچے تو استادنے بغیر کسی مقدمہ کے فرمایا: قر آن محید کی تلاوت کے وقت اچھا نہیں ہے کہ انسان تکیہ سے ٹیک لگائے!جی ہاں، قر آن مجید کی تعظیم کے لئے اور معاشرے میں قر آنی ثقافت کو وسعت دینے کے لئے قر آن مجید کے حاملین کا اکرام کرنا چاہئے اور اگر ہم خود قر آن محید کے حاملین میں ہوں تو دوسرے لوگ ہمارا بھی احترام کریں گے اور ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ چونکہ ہم خود قر آن مجید کے حامل ہیں، اس لئے قر آن مجید کے دوسرے حاملین کا احترام نہیں کرناچاہئے، کیونکہ ایک شخص حامل قر آن ہو اور دوسرے حاملان قر آن کا احترام کرے ، چنانچہ سادات اور اولاد رسول اللہ کا احترام تما م لوگوں من جملہ سادات پر واحب ہے۔ جب انسان ایک سید کودیکھتا ہے اسے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم یاد آتے ہیں، اس لحاظ سے اس کا احترام کرنا ضروری ہے، حتی اگر خود بھی سید ہو۔
۱۔بحا رالانوار ، ج ۸۷، ص ۱۳۸۲۔ اصول کافی ج ۴، ص ۴۱۳۔ اصول کافی ج ۴، ص ۴۱۴۔ مقدمہ اصول کافی ، ص ۷