قرآن مولا علیؑ کے کلام کی روشنی میں

347

خطبہ ۱۲۰ ‘ اور کتابِ خدا میرے ساتھ ہے اور جب سے میرا اسکا ساتھ ہوا ہے میں اس سے الگ نہیں ہوا‘‘
خطبہ-۱۵۶- میں فرمایا ‘ اللہ نے آپﷺ کو اس وقت رسول بنا کر بھیجا جبکہ رسولوں کا سلسلہ رُکا ہوا تھا اور امتیں مدت سے پڑی سو رہی تھیں اور دین کی مظبوط رسی کے بل کھل چکے تھے چناچہ آپﷺ ان کے پاس پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی کتاب اور ایک ایسا نور لےکر آئے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہےاور وہ قرآن ہے ، اس کتاب سے پوچھو لیکن یہ بولےگی نہیں البتّہ میں تمہیں اس کی طرف سے خبر دیتا ہوں کہ اس میں آئندہ کی معلومات، گذشتہ واقعات اور تمہاری بیماریوں کا چارہ اور تمہارے باہمی تعلقات کی شیرازہ بندی ہے‘‘۔
خطبہ -۱۹۶- میں امیر المومنینؑ فرماتے ہیں: ‘ پھرآپﷺ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو سراپا نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں۔ ایسا چراغ ہے جس کی لَو خاموش نہیں ہوتی ایسا دریا ہے جس کی تھاہ نہیں لگائی جا سکتی، ایسی شاہراہ ہے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی اور ایسی کرن ہے جس کی چھوٹ مدھم نہیں پڑتی۔ وہ ایسا حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی ایسا کھول کر بیان کرنے والا ہے جس کے ستون منہدم نہیں کیے جا سکتے۔ وہ سراسر شفا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے روحانی بیماریوں کا کھٹکا نہیں۔ وہ سر تا سر عزت و غلبہ ہے جس کے یار و مددگار شکست نہیں کھاتے، وہ سراپا حق ہے جس کے معین و معاون بے مدد چھوڑے نہیں جاتے اور وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے۔
اس سے علم کے چشمے پھوٹتے اور دریا بہتے ہیں۔ اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں وہ اسلام کا سنگِ بنیاد اور اس کی اساس ہے۔ حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے۔ وہ ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کر سکتے، وہ ایسا چشمہ ہے کہ پانی الچنے والے اسے خشک نہیں کر سکتے، وہ ایسا گھاٹ ہے کہ اس پر اترنے والوں سے اسکا پانی گھٹ نہیں سکتا اور ایسی منزل ہے کہ جس کی راہ میں کوئی راہ رو بھٹکتا نہیں۔
وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے، اللہ نے اسے عالموں کی تشنگی کی سیرابی، فقیہوں کے دلوں کے لیے بہار اور نیکوں کی راہ گزر کے لیے شاہراہ قرار دیا ہے، یہ ایسی دوا ہے کہ جس سے کوئی مرض نہیں رہتا اور ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں۔
ایسی رسی ہے جس کے حلقے مظبوط ہیں اور ایسی چوٹی ہے کہ جس کی پناہ گاہ محفوظ ہے۔
جو اس سے وابستہ ہوا اس کے لیے سرمایہ عزت ہے، جو اس کے حدود میں داخل ہوا اُس کے لیے پیغام صلح امن ہے جو اس کی پیروی کرے اس کے ہدایت ہےجو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کے لیے حجت ہے جو اس کی رُو سے بات کرےاس کے لیے دلیل و برہان ہے جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کے لیے گواہ ہے۔ جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کے لیے فتح و کامرانی ہے جو اس کا بار اُٹھائے یہ اس کا بوجھ ہٹانے والا ہے۔
جو اسے اپنا دستورالعمل بنائے اس کے لیے تیزگام مرکب و سواری ہے، یہ حقیقت شناس کے لیے ایک واضح نشان ہے جو ضلالت سے ٹکرانے کے لیے سلاح بند ہو اس کے لیے سپر ہے جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باندہ لےاس کے لیے علم و دانش ہے ، بیان کرنے والے کے لیے بہترین کلام اور فیصلہ کرنے والے کہ لیے قطعی حکم ہے‘‘۔
خطبہ -۱۷۶- میں امامؑ ارشاد فرماتے ہیں : ‘ یاد رکھوکہ یہ قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو فریب نہیں دیتا اور ایسا ہدایت کرنے والا ہے جو گمراہ نہیں کرتا اور ایسا بیان کرنے والا ہے جو جھوٹ نہیں بولتا جو بھی اس قرآن کا ہم نشین ہوا وہ ہدایت کو بڑھا کر اور ضلالت کو گھٹا کر اس سے الگ ہوا جان لو کہ کسی کو قرآن کے تعلیمات کے بعد کسی اور لائحہ عمل کہ لیے احتیاج نہیں رہتی اور نہ کوئی قرآن سے کچھ سیکھنے سے پہلے اس بے نیاز ہو سکتا ہے ۔ اس سے اپنی بیماریوں کی شفا چاہو اور اپنی مصیبتوں پر اس سے مدد مانگو اس میں کفر و نفاق اور ہلاکت و گمراہی جیسے بڑے بڑے مرضوں کی شفا پائی جاتی ہے اس کے وسیلہ سے اللہ سے مانگو اور اس کی دوستی کو لیے ہوئے اس کا رخ کرو اسے لوگوں سے مانگنے کا ذریعہ نہ بناؤ۔
یقیناً بندوں کے لیے اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا اس جیسا کوئی کوئی ذریعہ نہیں۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کے قرآن ایسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت مقبول اور ایسا کلام کرنے والا ہے جس کی ہر بات تصدیق شدہ ہے قیامت کے دن جس کی یہ شفاعت کریگا وہ اس کہ حق میں مانی جائے گی اور اس روز جس کے عیوب بتائے گا تو اس کہ بارے میں بھی اس کے قول کی تصدیق کی جائے گی، قیامت کے دن ایک ندا دینے والا پکار کر کہے گا دیکھو قرآن کی کھیتی بونے والوں کے علاوہ ہر بونے والا اپنی کھیتی اور اپنے اعمال کے نتیجہ میں مبتلا ہے۔ لہذا تم قرآن کی کھیتی بونے والے اور اس کے پیروکار بنو اور اپنے پروردگا تک پہنچنے کے لیے اسے دلیلِ راہ بناؤ اور اپنے نفسوں کے لیے اس سے پند و نصیحت چاہو اس کے مقابلہ میں اپنی خواہشوں کو غلط و فریب خوردہ سمجھو۔ عمل کرو اور عاقبت و انجام کو دیکھو‘‘۔
غربتِ قرآن کا دور
خطبہ [145] میں امیرالمومنینؑ ارشاد فرماتے ہیں ‘ میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں حق بہت پوشیدہ اور باطل بہت نمایاں ہوگا اور اللہ و رسولﷺ پر افترا پردازی کا زور ہوگا۔ اس زمانہ والوں کے نزدیک قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہ ہوگی جبکہ اسے ایسے پیش کیا جائگا جیسے پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں۔ اسوقت آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائگا اور انکے شہروں میں نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی نہیں ہوگی۔
چناچہ قرآن کا بار اٹھانے والے اسے پھینک کر الگ کرینگے اور حفظ کرنے والے اس کی تعلیم بھلا بیٹھیں گے اور قرآن والے (اہل بیت) بے گھر اور بے در ہونگے۔
اور ایک ہی راہ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہونگے انہیں کوئی پناہ دینے والا نہیں ہوگا وہ بظاہر لوگوں میں ہونگے مگر ان سے الگ تھلگ۔
لوگوں کے ساتھ ہونگے مگر بے تعلق اس لیے کہ گمراہی ہدایت سے سازگار نہیں ہو سکتی اگرچہ وہ یک جا ہوں، لوگوں نے تفرقہ پردازی پر اتفاق کر لیا ہے اور جماعت سے کٹ گئے ہیں ، گویا کہ وہ کتاب کے پیشوا ہیں کتاب انکی پیشوا نہیں ان کے پاس تو صرف قرآن کا نام رہ گیا ہے اور صرف اس کے خطوط اور نقوش کو پہچان سکتے ہیں‘‘۔
قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین
قرآن مجید کی اہمیت اور عظمت بتانے کہ ساتھ ساتھ امام ؑ نے قرآن مجید کے احکام پر عمل کرنے پر بھی بہت زور دیا میں یہاں فقط ایک مورد کے بیان پر اکتفا کر رہا ہوں امامؑ کو ضرب لگی ہوئی ہے اور موت امامؑ کے سامنے موجود ہے اس وقت امامؑ نے وصیت میں جن امور پر زور دیا ان میں سے ایک قرآن پر عمل تھا۔
خطبہ -۴۷- میں امیرالمومنینؑ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو ارشاد فرماتے ہیں میں آپ کو ، اپنی تمام اولاد کو ، اپنے کنبہ کو اور جن تک میرا یہ نوشتہ پہنچے سب کو وصیت کرتا ہوں کے۔۔۔ قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم سے سبقت لے جائیں‘‘۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.