بضعۃالرسول کے اسماء کی مختصر تشریح

683

معصومین کے اسماء او ر القاب تشریفاتی اورتعارفی نہیں ہیں:
کسی بھی معصومیں علیہم السلام کے القاب تعارفی نہیں ہیں جسطرح ہم لوگ ایک دوسرے کو دیتے ہیں بلکہ ان ذوات مقدسہ کے ہر لقب ان کے خاص صفت پر دلالت کرتے ہیں جو ان کے وجود مبارک میں پائے جاتے ہیں ۔
مثال کے طور پر حضرت کبریٰ فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں کہتے ہیں :
آپ ؑ کے کئی القاب اور اسم مبارکہ کے ہیں ۔ فاطمہ ، زھرا، زکیہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان اسماء مبارک کے معنیٰ رکھتے ہیں اس میں سے ہر اسم ایک حقیقت جو حجرت کے وجود مقدس میں نور افشانی کرتی ہے۔
ہمارے آپس میں جو اسم گزاری کرتے ہیں وہ تشریفاتی اور تعارفی ہیں ۔ مثلا ہم کہتے ہیں حجۃ الاسلام ،آیۃ اللہ، شریعت مدار ، نائب امام وغیرہ یہ القاب ہم بہ عنوان عزت و احترام کے طور پر دیئے جاتے ہیں ۔ لیکن ائمہ معصومین علیہم السلام کے القاب اور اسمای گرامی ایک حقیقت اور باسم بہ مسمیٰ ہیں ۔لقب اور کنیت میں فرق:
جی ہاں ! اسم ، لقب اور کنیت میں فرق کرتے ہیںکنیت:
کنیت وہ ہے جو کلمہ اب ( بمعنی باپ) یا ام(بمعنی ماں) یا ابن (بمعنی بیٹا) ہیں مثلا ابوالحسن ، ابن الرضا، ام سلمہ وغیرہ یہ کنیت ہیں ۔لقب :
وہ لفظ ہے جو کسی اچھی یا بُری صفت پر دلالت کرتا ہے ۔ مثلا فلان صاحب محمود ہے یعنی پسندیدہ شخص ۔
مثلا حضرت امیر المومنین کا اسم گرامی علی ہے آپ کا کنیت ابوالحسن، آپ کا القاب ، امیر المؤ منین ۔۔فاطمہ اطہر سلام اللہ علیہا کا نسب
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل کاا نتساب و اکتساب، و اضح سی بات ہے کہ ہر موجود شے کی قدر وقیمت اس شئ کے جوہر اور ذاتی کمال سے وابستہ ہے اور انتساب اورا کتساب اس کی ذاتیت میں اثر نہیں رکھتے لیکن ان دونوں کو شناخت و پہچان شرف اور قدرو قیمت میں اضافے کے سلسلے میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا خصوصاً جب کوئی چیز کمال کے اصل سرچشموں سے منسوب ہو یا ان سے فضیلت کسب کرے جیسے رسول اللہ، بیت اللہ اور کلام اللہ جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا:
میرے گھر کی طرف دل مائل ہیں اور باشرف لوگ اس کے قریب خاشع ہیں ۔ پس کعبہ اس کے باوجود کہ روئے زمین پر چندپہاڑوں کے درمیان چند پتھروں کی عمارت سے زیادہ کچھ نہیں ہے، حق سے منسوب ہوکر اور حق سے شناخت و پہچان حاصل کرکے صاحبِ فضیلت ہوگیا ہے یا قرآن کا دیگر کتابوں کے درمیان خاص احترام ہے اور اسے طہارت کے بغیر نہیں چھونا چاہئے۔
اب زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل کے انتساب و اکتساب اور جوہر و ماہیت پر نظر ڈالنا چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی کمالات کے علاوہ والد ، والدہ شوہر اور بیٹوں کی جانب سے دوسرں پر کیا فضیلت رکھتی ہیں۔ پس فاطمہ سلام اللہ علیہا پر وردگار کا تحفہ ، مولودِ رسالت، رحمت اور کمالات کا سرچشمہ ہیں۔بچپن اور تربیت
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ علیہا السّلامکا انتقال ہو گیا ماں کی اغوش سے جدائی کے بعد، ان کا گہوارہ تربیت صرف باپ کا سایہ رحمت تھا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا افتاب تھا جس کی شعاعیں براهِ راست اس بے نظیر گوہر کی اب وتاب میں اضافہ کررہی تھیں .
جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا ک و اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کے سن میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئ تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتین سامنے تھیں کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھرون سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی سنتی کے مشرکوں نے بابا کے س پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مدد گاربنی رہیںحضرت فاطمہ (س) کا اخلاق و کردار
حضرت فاطمہ زھرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جو دو سخا ، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی (ع) کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کو سوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضیٰ (ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گذارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گذرتا تھا ۔ فاطمہ (س) اس خاتون کا نام ھے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجودکے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔
فاطمہ زھرا (س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الھٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پھلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا ۔ وہ ایک ایسی مسن و سمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں اپنے اپنے گھر کے اموراور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رھتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوھر کے حق کا دفاع کرتی تھیںزہرا سلام اللہ علیہا کے اسمائے گرامی
تسمیہ اور نام رکھنا دلالت کا ایک سبب ہے کیونکہ کوئی بھی چیز نام کے بغیر پہچانی نہیں جاتی اور دنیا کی دیگر عورتوں سے زہرا سلام اللہ علیہا کاا یک امتیازیہ ہے کہ اس خاتون کاہر ایک نام مکمل اخلاقی او صاف کے معانی پر دلالت کرتا ہے یعنی غلبہ اور ارتجال کی وجہ سے نہیں ہے کہ کسی کے لئے اس کے معانی کا لحاظ کئے بغیر ہی استعمال کیا جائے بلکہ اس معظمہ کا ہر ایک نام معانی کی ایک دنیا کے ساتھ ان معانی کے ان کے وجودِ اقدس میں ہو نے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ مثلا اس خاتوں کو اگرمعظمہ کہتے ہیں تو اس بات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کہ یہ خاتون صدق کا سر چشمہ اور جو ہر ہیں اورنام خدا کا تجویز کردہ ہے اور خدا اپنے علمِ ذاتی سے جانتا ہے کہ اس نام کا محتویٰ زہرا سلام اللہ علیہا میں موجود ہے۔ او راگر پیغمبر ﷺ نے بھی ان کا کوئی نام رکھا تو وہ زبانِ وحی سے تھا اور زہرا سلام اللہ علیہا کا نام رکھنا خود ایک قسم کا معجزہ ہے کیونکہ اگر ظاہر میں بالفعل اس کے مصداق نہ ہوں تو بالقوّہ و ہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مستقبل میں وہ محتویٰ اس وجود سے مصداق پیدا کرلے گا ۔ مثلا زکیہ نام اس معظمہ پر دلالت کرتا ہے کہ بالفعل اور بالقوہ زہرا سلام اللہ علیہا حال اور مستقبل میں ہر نقص سے پاک و منزہ ہیںنام رکھنے کا حکم
اسلام کا ایک حکم یہ ہے کہ باپ اپنے بچے کا نیک نام رکھے کہ دنیا میں بھی بچہ کامیاب و سرفراز ہواور قیامت میں بھی کہ اسے اس کے نام سے پکارا جائے گا۔ یہ بچوں کا حق ہے۔ (جیسا کہ بہترین ارمغان میں لکھا گیا ہے) زہرا 236کے کثرتِ فضائل اور کمالات کے لحاظ سے متعدد نام ہیں اور ہر نام کسی صفت یا معنی پر دلیل ہے۔ یہاں اٹھارہ نام بیان کئے جارہے ہیں۔ خداوند متعال کے نام حیّ کے عدد کے مطابق، کیونکہ حیاتِ عالَم زہرا سلام اللہ علیہا کی برکت سے ہے:زہرا سلام اللہ علیہا کی کنیتیں :
یہ بات مخفی نہ رہے کہ عربوں میں کنیت یہ ہے کہ کسی کو ماں یا باپ سے پکارا جائے مثلا علی ۔کو ابو الحسن کے نام سے اور ام سلمہ ۔ اب جناب زہرا *کی کنیتیں بیان کی جاتی ہیں اور وہ دس ہیں ۔
ا۔ ام الحسن (جہانِ ہستی میں ہر نیکی کا سرچشمہ وہ ہیں اور اس اعتبار سے کہ ان کی تمام اولاد حسن کا سمندر تھی)۔
2۔ امّ الحسین ، امام حسین ۔کی والدہ کہ اس کا اطلاق تمام چھوٹی نیکیوں پر ہوتا ہے اور یہ کہنا چاہئے کہ بڑی نیکیاں عبادت یا یہ کہ بڑی نیکیاں واجب عبادتیں اور چھوٹی نیکیاں مستحبات ہوں۔
3۔ ام المحسن : (شہید محسن کی والدہ اور ہر نیکی کرنے والے کی بنیاد کیونکہ تمام نیکیوں کی بازگشت علم کی طرف ہے اور تمام علومِ نافعہ وحی کی کان سے باہر آئے ہیں۔
۴۔ اُمّ اَبِیھَا، اس کی تفصیل ہے ۔
امّ ابیھا (اپنے باپ کی ماں ) مقاتل الطالبین میں چھٹے امام ؑ سے روایت کی گئی ہے کہ اِنَّ النَّبِیَ کَانَ یُحِبُّھَا وَ یُکَنِّیْھَا بِاُمِّ اَبِیْھَا۔ بے شک پیغمبر ﷺ انہیں دوست رکھتے تھے اور ان کی کنیت امّ ابیھا رکھی (ام کا معنی ماں ، قصد ، آگے اور جگہ بیا ن کیاگیا ہے جیسے امّ الکتاب، ام القریٰ اور ام الدّماغ پس) ام ا بیھا یعنی باپ کا مقصد اور دوسری جہت یہ ہے کہ کیوں کہ ہر کوئی ماں کی حرمت کی زیادہ حفاظت کرتا ہے اور باپ کبھی اپنے بیٹے سے کہتا ہے کہ بیٹا اسی لئے رسول خدا ﷺ نے زہرا سلام اللہ علیہا کی یہ کنیت رکھی۔
ایک اور جہت اَلنَّبِیُّ اَولیٰ بِا الْمؤمِنِینَ مِنْ اَنْفُسِھِم وَاَزْوَاجُہُ اُمُّھَاتُکُم ۔ ( پیغمبر ﷺ مؤمنین پر ان کے نفس سے زیادہ حق رکھتا ہے۔ ) جب یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی اور فخر کائنات کی زوجات کو امّ المؤمنین کی کنیت سے نوازا گیا تو فاطمہ سلام اللہ علیہا آزردہ ہوگئیں ۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے انہیں اپنے سینے سے لگایا ان کا بوسہ لیااور انہیں سونگھا اور انہیںیہ کنیت عطا کی۔
وضاحت: اگر زوجات پیغمبر ﷺ آنحضرت ؐکی زوجیت میں آنے کے باعث ام المؤمنین کے نام سے پکاری جاتی ہیں بشرطیکہ وہ ان کے ولی،علیؑ اور ان کی اولاد کے بارے میں اُن کی مخالفت نہ کریں اور انکی حرمت کو باقی رکھیں اور آنحضرت ﷺ اور ان کی عزت کریں جن کی آنحضرت ؐ کرتے تھے۔
پس اگر وہ پیغمبر اکرم ﷺ کی زوجیت کی بنا پر ماں کے نام سے مومنین پر حرمت رکھیں تو زہرا* نبوت، امامت ، امت، ایمان اور ولایت کی ماں ہونے کی بنا پر تمام امت پر حرمت رکھتی ہیں۔(خصایہ۳۸)
۵۔ ام الائمہؑ (معصوم اماموں کی ماں) کیوں کہ گیارہ امام آپؑ کی اولاد ہیں۔ ۶
6۔ام السبطین (پیغمبر ﷺ کے دونواسوں کی ماں)
۷۔ ام النقباء (عظیم رہنماؤں کی ماں)
۸۔ ام النجباء( شریف لوگوں کی ماں)
۹۔ ام الفضائل (ہر فضیلت کی اساس و بنیاد کیونکہ دنیا میں کوئی بھی ایسی فضیلت نہیں ہے کہ جس کی اصل اور بنیاد زہرا میں نہ ہو۔
۱۰۔ام الہنا ء،کیونکہ ان کی محبت کے ساتھ ہی عبادت کا لطف اور مزہ ہے۔ مرحوم شیخ حر عاملی ؒ نے اپنی منظومہ میں کہا ہے:
وَ قَدْرَوَوْا کُنِیتُھَا اُمُّ الھَناء امُّ الْائمَّۃِ الھُداۃِ لاُمَنَاء
اُمُّ الْحُسَیْنِ الْمُجْتَبیٰ امُ الْحَسَن فَاسْمَعَ اِلیٰٰ جَمعٍ وَ تِعدادٍ حَسَن
اور ان کی یہ کنیت رکھی گئی کیوں کہ حضرت امیر المؤمنین ۔نے فرمایا: زہرا سلام اللہ علیہا جتنا عرصہ میرے گھر میں رہیں میں نے ان کی کوئی ناگوار بات نہیں دیکھی اور مجھے کبھی غصہ بھی نہیں آیازہرا سلام اللہ علیہا کے القاب کی تعداد
۱۔ فاطمہ ۲۔ صدیقۃ الکبریٰ ۳۔ المبارکہ ۴، الطاہرہ ۵۔ الزّکیہّ ۶۔ الراضیہ ۷۔ المرضیہ ۸۔ المحدثہ ۹۔الزہرا ۱۰۔ المنصورہ ۱۱۔ البتول ۱۲۔ نوریۃ السماویۃ ۱۳۔ عذراء ۱۴۔ حوراء انسیہ، رسول خدا ﷺ نے فرمایا: فاطمہ (علیہا السلام) حورآءُ انسِیَّۃُ فکُلَّما اِشْتَقْتُ الیٰ راءِحَۃِ الْجَنَّۃِ شَمَمْتُ رَائحَۃَ اِبنَتِی فَاطِمَۃَ۔ فاطمہ سلام اللہ علیہا حوراء انسیہ ہے میں جب بھی بہشت کی خوشبوکا اشتیاق رکھتا ہوں تو اپنی بیٹی فاطمہ ؑ کی خوشبو سونگھ لیتا ہوں۔ (بحار الانوار۴۳؍۴)
۱۵۔ خیرۃ اللہ ، عنقریب اس کے بارے میں پڑھیں گے۔ ۱۶۔ ولیۃ اللہ ۱۷۔ حجتہ اللہ اور ۱۸۔ مریم الکبریٰ
.1-فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نام کے بارے میں پانچ تفسیریں:
پہلی تفسیر: قَالَ النَّبِیّ لِفَاطِمَۃَ شَقَّ (اللہُ) لَکِ یا فَطِمَۃُ اِسماً مِنْ اَسْمٰاءِہِ فَھُوَ الفَاطِرُوَاَنتِ فَاطِمَۃُ۔
رسول اکرم ﷺ نے فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: خدانے تیرے لئے اپنے ناموں میں سے ایک نام جدا کیا پس وہ فاطر (پیدا کرنے والا ) ہے اور تو فاطمہ ہے (بحار الانوار ۴۳؍۱۵)اور حضرت علی ۔سے فرمایا؛ جانتے ہو اس کانام فاطمہ کیوں رکھا؟کہا کیوں یا رسول اللہ؟ فرمایا: لِاَنَّھَا فُطِمَتْ ھیَ وَ شِیْعَتُھَا مِنَ النَّارِ اس لئے کہ اسے اور اس کے شیعوں کو آگ سے الگ کیا گیا ۔ (گویا اس نام کے اندر آگ سے دور کرنے والی چیز پوشیدہ ہے۔)دوسری تفسیر :
عورتوں پر ان کی برتری
پانچویں امام ۔نے فرمایا: جب فاطمہ 236کی ولادت ہوئی تو خدائے عز وجلّ نے ایک فرشتے کو وحی کی کہ وہ محمد ﷺ سے کہے کہ وہ اس کا نام فاطمہ رکھیں اس کے بعد فرمایا: میں نے تجھے (جہالت سے دور کرکے) علم سے جوڑدیا علم کے( ساتھ دودھ سے علیحدہ کیا ) اور خون حیض سے جدا کیا۔ پھر امام محمد باقر ۔نے فرمایا: وَاللہِ لقَد فَطَمَھَا اللہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ بِالْعِلْمِ وَ عَنِ الطَّمثِ فِی الْمِیْثَاقِ خدا کی قسم خد اوند تبارک و تعالیٰ نے عالم میثاق میں انہیں دودھ اور خونِ حیض سے جدا کردیا (کافی ۲؍۳۵۸) اس کے بعد حضرت امام باقر ۔ نے فرمایا: خدا کی قسم خدا نے فاطمہ کو عہد و میثاق کے دن علم سے جوڑ دیا اور خون حیض سے الگ کر دیا ۔نام زہرا *میں تیسری تفسیر
(امالی صدوق ۲۸۱) یونس، ظبیان سے کہتا ہے چھٹے امام نے فرمایا : حق تعالیٰ کے نزدیک فاطمہؑ کے نو نام ہیں : فاطمہ ، صدیقہ، مبارکہ ، طاہرہ، زکیہ ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ اور زہرا ۔ اس کے بعد فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ فاطمہ ؑ کی تفسیر کیا ہے؟ یونس نے کہا: مجھے اس کے معنی سے آگاہ کیجئے ۔ حضرت ؑ نے فرمایا: فُطِمَت مِنَ الشَّر ۔ انہیں برائیوں سے الگ کیا گیا ، اس کے بعد فرمایا : لَولاَ اَنَّ اَمِیرَ المؤمِنِینَ تُزَوِّجُھَا لَمَا کَانَ لَھَا کُفوٌ الیٰ یَومِ القِیَامَۃِ عَلیٰ وَجْہِ الاَرْضِ آدَمَ فَمَنْ دُونَہُ۔ اگر امیر المؤمنین ۔ ان سے شادی نہ کرتے تو روزِ قیامت تک روئے زمین پر ان کا کوئی ہمسر نہ ہوتا ، آدم اور ان کے بعد جو بھی ہوتا۔
وضاحت: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ علی ۔خاتم الانبیاء کے سوا تمام انبیاء اور اوصیاء سے بالاتر ہیں اور زہرا *بھی کائنات میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔فاطمہ سلام اللہ علیہا نام کی چوتھی تفسیر
(بحار ؍۱۴) عبد اللہ بن حسن کہتا ہے حضرت موسیٰ بن جعفر ۔نے مجھ سے فرمایا: (جانتے ہو) فاطمہ کؑ وفاطمہ کیوں کہا گیا؟ میں نے کہا اس لئے کہ دوسرے ناموں سے مختلف ہو۔ فرمایا: فاطمہ بھی ناموں میں شمار ہوتا ہے لیکن زہرا ؑ کا نام فاطمہ رکھنے کا سبب یہ تھا چونکہ خدائے حکیم ہر چیز کی وضع کو اس کے وجو د میں آنے سے پہلے جانتا ہے او ر وہ جانتاتھا کہ جب پیغمبر اسلام ﷺ قبائل کی عورتوں سے شادی کریں گے تو وہ خلافت کا لالچ کریں گے لہذا جب فاطمہ ؑ کی ولادت ہوئی تو خداوند سبحان نے ان کا نام فاطمہ رکھا اور خلافت و امامت کو ان کی اولاد کے لئے مختص کردیا اور اس طرح ان افراد کو مایوس کر دیا جو خلافت کے خواہاں تھے۔رسول خدا سے شباہت
(جلاء العیون ۱۰۳) ام سلمہ سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا صورت خلقت اور سیرت میں رسول خدا ﷺ سے سب سے زیادہ شباہت فاطمہ سلام اللہ علیہا رکھتی تھیں۔تفسیر پنجم :
فاطمہ اپنے محبوں کو آگ سے بچائیں گی
محمد بن مسلم ثقفی کہتا ہے : پانچویں امام فرماتے تھے : فاطمہ 236جہنم کے دروازے پر توقف کریں گی جب قیامت کا دن ہوگا تو ہر مومن کی دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی پر قلم سے تحریر ہوگا پس وہ چاہنے والا کہ جس کے گناہ بہت زیادہ ہیں ، اسے آگ میں ڈالنے کا حکم دیا گیا ہوگا ۔ پس فاطمہ 236 اس کی پیشانی کو پڑھیں گی لکھا ہوگا یہ محب ہے تو وہ کہیں گی:
اِلٰھِی وَ سَیِّدی سَمَّیْتِنِی فَاطِمَۃَ وَ فَطَمْتَ بِی مَنْ تَوَلَّا نِی وَ تَوَلّٰی ذُرِّیَتِی مِنَ النَّارِ وَ وَعْدُکَ الْحقُّ وَ انْتَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ۔ فَیَقُولُ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ صَدَقْتِ یَافَاطِمَۃَ اِنِّی سَمَّیْتُکِ فَاطِمَۃُ وَ فَطَمْتُ بِکِ مَنْ اَحَبَّکِ و تَوَ لاَّکِ وَ ذُرِیَّتِکِِ وَ تَوَلاَّ ھُم مِنَ النَّارِ وَ وَعْدِیَ الحَقُّ وَ انَا لاَ اُخْلِفُ الْمیْعَادَ وَ اِنَّمَا اَمَرْتُ بِعَبْدِی ھَذَا الِی النَّارِ لِتَشْفَعِی فِیہِ فَاُشَفِّعُکِ وَ لَیَتَبَیَّنَ مَلاءِکَتِی وَ اَنْبِیآءِی وَ رُسُلِی وَ اَھْلُ الْمَوقِفِ مِنِّی مَکَانَکِ عِنْدِی فَمَنْ قَرَأْتِ بَیْنَ عَیْنَیْہِ مُؤْمِناً فَخُذِیْ بِیَدِہِ وَ ادْخُلِیْہِ الْجَنَّۃَ۔
ترجمہ: اے میرے معبود ، اے میرے آقا تو نے میرا نام فاطمہ رکھا اور میرے ذریعے سے اُسے جو مجھ سے اور میری اولاد سے محبت کرتا ہے ، آگ سے جدا کردیا اور تیرا وعدہ حق ہے اور تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔ پس خدا فرمائے گا اے فاطمہ تو نے سچ کہا ، میں نے تیرا نام فاطمہ رکھا اور تیری وجہ سے اسے ، جو تجھے دوست رکھتا ہے اور تجھ سے اور تیری اولاد سے محبت کرتا ہے، آگ سے علیحدہ کردیا اور میرا وعدہ حق ہے اور میں اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ میں نے اپنے اس عبد کو جہنم کی طرف جانے کا حکم دیا ہے تاکہ تو اس کی شفاعت کرے اور میں تیری شفاعت قبول کروں اورملائکہ انبیاء ، رُسل اور اہل محشر میرے نزدیک تیرے مقام و مرتبہ کوجان لیں پس جس کی پیشانی پر مومن لکھا ہواپڑھو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے جنت میں داخل کردو۔دوسرے ناموں پر اس نام کی برتری
خاتم الانبیاء ﷺکی دوسری منہ بولی بیٹیوں کے ناموں کے درمیان فاطمہ گویا بہت زیادہ برتری رکھتا ہے جیسا کہ عرش پر لکھا تھا: ھُم فَاطِمَۃُ وَ اَبُوھا وَ بعْلُھَا وَ بَنُوھَایا آدم کو تلقین کئے جانے والے کلمات میں تھا : یا فاَطِرَ السَّمٰوٰتِ بِحَقِّ فَاطِمَۃَ
(حقیر کہتا ہے پرورگارا میں گناہگار بندہ فاطمہ ؑ کا دوستدار ہوں مجھے اور فاطمہ کے دوستداروں کو زہرا کے صدقے میں دنیا و آخرت کے عذاب سے نجات دے۔)۲۔ صدیقۃ الکبریٰ کی تفسیر
ہم جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے اس اسم مبارک کی تشریح کرینگے جو بکثرت روایات معصومین میں وارد ہویی ہیں انہی میں سے ایک اسم مبارک “الصدیقہ یا الصدیقة الكبري ہے صدیقہ صیغہ مونث ہے. جو صدیق کے مقابلے میں اتا ہے. پس صدیقہ صدیق کا کفو ہے. لہذا اس امت میں اگر کویی صدیق اکبر ہے تو وہ علی ابن ابیطالب ہیں اور اگر کویی صدیقہ کبری ہیں تو وہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ ہیں .تبہی تو روایت میں مولایے کاینات نے فرمایا ( میں ہی صدیق اکبر ہوں .میرے علاوہ کافر کے سوا کویی اس کا دعوی نہ کرے گا) اب ہم اس لفظ کی کچہ لغوی وادبی پہلووں کو دیکہیں گے پہر اصطلاحی نکات پر کچہ نظر ڈالیں گے. دوستو! ” صدیقہ” صیغہ مبالغہ ہے جو اپنے حامل میں صفت کی شدت و کثرت کو دیگر کے مقابلے میں اسطرح بیان کرتا ہے کہ یہ صفت اس کے فاعل میں بہ نسبت دیگر کے زیادہ ہے. یہ ” صدق” سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں سچایی و راستگویی .اور جب یہ صیغہ مبالغہ میں لایا جاتا ہے تو “صدیق یا صدیقہ” بن جاتا ہے یعنی سچایی و راستگویی میں کمال و تمام کی اعلی منزل پر فایز سچی خاتون کو صدیقہ کبری کہتے ہیں. جناب مریم علیہا السلام کو قران نے صدیقہ کہا ہے (وامہ صدیقہ – مایدہ -75) ” اور عیسی کی ماں صدیقہ تہیں ” انہیں یہ مقام بلندی کردار و گفتار کی بناء پر ملا. پس مریم اگر صدیقہ تہیں تو جناب زہرا فخر مریم ہونے کے ناطے صدیقہ کبری ہیں. لہذا جو بہی صدیق یا صدیقہ ہو اس کے پاس عہدہ الہی میں سے کویی عہدہ یا منصب ہونا لازمی ہے. جناب مریم جب صدیقہ قرار پاییں تو جبرییل نے بصورت بشر اپ سے کلام کیا لہذا محدثہ ہوییں . طعام جنت سے اپکو نوازا گیا. اپکا ذکر خیر قران میں کیاگیا. اسیطرح جناب زہرا اپنی بلند ترین سیرت و کردار اور پاکیزگی حسب و نسب اور نو اماموں کی ماں اور ان عظیم حجتوں پر حجت خدا ہونیکی بناء پر صدیقہ کبری قرار پائیں. فرشتوں نے اپ سے کلام کیا. اپکا گہر فرشتوں کی اماجگاہ اور وحی و امامت کا منبع و مصدر اور اللہ کے رازوں کا محل قرار پایا. اپ کی پاکیزگی کا اعلان نہ صرف قران نے کیا بلکہ پوری رسالت الہیہ کی اجرت جناب زہرا کی مودت قرار دی گئی( سورہ شوری ایت نمبر 23) جو صدیقہ کبری کا مفہوم سمجہانے کیلیے کافی ہے. عزیزان گرامی! اللہ نے انبیاء کیلیے لفظ صدیق کا استعمال کیا ہے جو اس بات کیطرف اشارہ ہے کہ غیر معصوم صدیق نہی کہلا سکتا. جناب یوسف کو ان کے جیل کے ساتہیوں نے انکی بلندی کردار کی بناء پر صدیق کہا. بلاشبہ وہ صدیق تہے ( سورہ یوسف ایت 46) لیکن جناب زہرا کے کردار کی گواہی اللہ نے خود ایت تطہیر میں دی اسطرح اپ صدیقہ کبری قرار پائیں.( ایت تطہیر ایت نمبر 33 سورہ احزاب) جناب ابراہیم کو بہی اللہ نے صدیق کہا ہے ( انہ کان صدیقا نبیا .مریم -41 ) ” بلاشبہ وہ ایک صدیق نبی تہے” اخر سوچیں کہ ابراہیم نے کونسا عظیم سچ بولا اور کس عظیم شے کو سچ کر دکہایا تہا جس نے انہیں اللہ کی نگاہ میں صدیق ٹہرایا. قران کیمطابق ابراہیم نے اپنے خواب کو سچ کر دکہایا جب انہوں نے رضاے الہی میں جوان بیٹے کو پشت کے بل لٹادیا اور جب گلے پر چہری پہر گئی تو اواز ایی کہ” اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکہایا. بلاشبہ یہ امتحان عظیم تہا. لیکن ہم نیکو کاروں کو اسیطرح جزا دیتے ہیں” ( سورہ صافات ایت 103- 105) پس جناب ابراہیم علیہ السلام نے جب پٹی کہولی تو دیکہا کہ اسماعیل بچ گئے ہیں اور کہڑے مسکرا رہے ہیں جبکہ جنت سے دنبہ انکی جگہ ذبح شدہ پڑا تہا روایات کیمطابق ابراہیم اخری وقت تک یہی سمجہتے رہے کہ انہوں نے بیٹے کو ہی قربان کردیا ہے. یہ تو پٹی کہلنے کیبعد پتہ چلا کہ اسماعیل کی جگہ جنت سے ایا ہوا فدیہ قربان ہوا ہے. اس سے اپکی للہیت اور مقام صدیقیت کا اندازہ ہوجانا چاہیے . یقینا یہاں تک کی منزل دلوں کو لرزانے کیلیے کافی ہے. یہ باتیں کہنا اسان نہی تو کرنا تو دور کی بات ہے. لہذا امت کو چاہیے کہ ہر کس و ناکس کو صدیق نہ کہیں. وعدہ پورا کرنے والا اور قول کو نبہانے والا ہی اللہ کی نگاہ میں صدیق ہوتا ہے. پیٹہ میں چہری گہونپنے والا کذاب ہوتا ہے. تو عزیزو! مگر جناب زہرا صرف صدیقہ نہی ہیں بلکہ اپ صدیقہ کبری ہیں . پس انکی قربانیاں ابراہیم و اسماعیل کی قربانیوں سے سوا اور ممتاز ہونا چاہیے تاکہ صدیقہ کبری کی مصداق ٹہرائی جاسکیں. رب کعبہ کی قسم ایسا ہوا. جب کربلا کے میدان میں جگر گوشہ ہایے بتول ایک ایک کرکے کربلا میں بمع اصحاب باصفا قتل ہوے. لیکن انکی جگہ کویی گوسفند نہ ایا کیونکہ خلت کی منزل اور تہی .عشق کی منزلیں اور ہیں. گلے ایک تہے لیکن مرحلے الگ تہے اور تقاضے مختلف تہے. پس عزیزو جب سب شہید ہوچکے تو اخر میں فخر اسماعیل و ابراہیم و زینت رسول رب العالمین میوہ دل زہرا و علی برادر حسن سبز قبا .امید ثانی زہرا ابا عبد اللہ در خیمہ پر ایے بیبیوں کو سلام اخر کیا اور شہادت کی طرف چلے. کویی شخص موت کیطرف اسطرح نہ گیا ہوگا جیسے حسین چل کر گئے. اللہ اکبر اہ .حمید بن مسلم کہتا ہے خیمہ ہاے مخدرات عصمت سے گریہ کی ایسی اوازیں اتی تہیں کہ گویا کویی جنازہ نکل رہا ہو. میں کیسے اس منظر کو بتاوں کہ جب زین ذولجناح سے راکب دوش نبی .فضیلتوں کا اسمان. زمین کربلا کیطرف جہکا. حسین کے لب پر رضا بقضایہ وتسلیما لامرہ کا ورد جاری تہا. میری جان قربان ہوجایے . اسمان کے دروازے کہل گیے تہے .فرشتوں کے رونے کی اوازین ارہی تہین. سلام ہو اس پر جسکی مظلومیت پر حور العین نے جنت میں گریہ کیا. جنات نے ہوا میں ماتم کیا. مچہلیاں سمندر میں تڑپیں. رسول اللہ جنت الفردوس میں قرار نہ پاسکے اور اس حال میں کربلا وارد ہوے کہ پابرہنہ میرے منہ میں خاک سر مبارک پر خاک جمی ہویی تہی. اہ واویلا!! صدیقہ کبری ماں نے کربلا کے نشیب میں بیٹے کا استقبال کیا. سلام ہو اس پر کہ جسکا سینہ وقت اخر غم و اندوہ سے بہرا تہا. روایت میں ایا ہے کہ حسین اس حال میں بہی ایک نظر اسمان کیطرف دیکہتے تہے اور دوسری نظر خیمہ زینب پر ڈالتے تہے . اللہ کی قسم ! برحق زمین کربل کو زلزلہ ایا. واللہ کہ اے حسین کارے کردی. ادہر ہاتف غیبی سے نہ رہا گیا بیساختہ اواز دی ( اے نفس مطمئنہ پلٹ ا اپنے رب کی بارگاہ میں) اللہ کی قسم! صدیق ایسے ہوتے ہیں. اور ایسا صدیق صدیقہ کبری ہی کی اغوش میں پل سکتا ہے. اج فضا سوگوار ہے. بنت نبی کے غم میں دل خون کے انسو رویے بہی تو کم ہے. بس ایک جملہ کہوں کہ زہرا کی کمر مبارک اٹہارہ برس کی عین جوانی میں خم ہوگئی تہی. سر کے سارے بال سفید ہوچکے تہے. دن رات روتی تہیں . بابا کے پاس جنت میں پہنچیں تو وراثت سے محروم .پہلو شکستہ اور ملکوتی دل زخمی تہا. سینہ قدسی غم و الم سے بہرا تہا. لوگو! کیا اجر رسالت اسطرح دیا جاتا ہے ؟؟ ( وزہررااااااااہ. وا بنت نبی اللہ .وامحمداہ )۳۔ مبارکہ نام کی تفسیر
اسمائے جناب زہرا میں سے ایک اسم مبارک ” المبارکة” كي مختصر لغوی و اصطلاحی تشريح*** يوں تو کتب سیرت و تاریخ و روایات میں جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے ايک سو ستر سے زاید کنیت اور اٹہارہ معروف اسماء کا بیان ہوا ہے اور ان میں سے ہر نام و کنیت کی تشریح علماء نے بیان کی ہے اج ہم انہی ناموں میں سے اپکا ایک معروف نام ” المبارکہ” کی مختصر توضیح دین گے . تاکہ جناب زہرا کی معرفت کا ایک حصہ سامنے ایے. امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں ( کہ جس نے جناب زہرا کی معرفت درک کی اس نے شب قدر کو اس کے حقیقی مفہوم میں درک کرلیا) اپکی معرفت پر ہدایت ونجات کا دارو مدار ہے اب ہم موضوع پر اتے ہیں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں. ( ومن اسماء امنا فاطمہ المبارکہ- البحار فی سیرہ الزہراء) یعنی ہماری ماں فاطمہ کے ناموں میں سے ایک نام ” المبارکہ” ہے. عربی ادب و لغت کے لحاظ سے ” مبارکہ” بروزن ” مفاعلہ” ” برک” ثلاثی مجرد سے مشتق ہے. اس لفظ کے کئی معانی ہیں. عربی ادب کے طلباء جانتے ہیں کہ ثلاثی مجرد جب مزید فیہ بنتا ہے تو اکثر مبالغہ و تکثیر کا فایدہ دیتا ہے. پس لفظ برک جو ثلاثی مجرد ہے اسکو جب ہم مبارکہ یعنی ثلاثی مزید میں استعمال کرینگے تو اس کے معانی میں شدت و کثرت و تاکید پیدا ہوگی. مجہے دقیق گفتگو کرنے کی عادت نہی ہے لہذا اب ہم اس بارے میں اللہ کی مدد و توفیق سے کچہ گفتگو و تحقیق اپ کے سامنے رکہتے ہیں اور جناب سیدہ کی رضا کے خواہشمند ہیں 1- ( برک ) کا ایک معنی مسلسل بارش کے ہیں جب کہا جایے ( مثلا برک السماء ) ” یعنی موسلادہار بارش ہویی” پس جناب زہرا سلام اللہ علیہا کا فیض بہی کاینات میں مثل ابر باراں کے جاری وساری ہے کیونکہ وہ اپنے رحمت للعالمین لقب عظیم والد بزرگوار کا جزو لاینفک ہیں.جنکی رحمت للعالمینی کا ذکر قران میں بصراحت مذکور ہے .فاطمہ اسی رحمت عالمین کا اہم ترین حصہ ہیں پس اپکا فیض اپکے بابا کیساتہ مسلسل بارش کیطرح جاری ہے. 2- (برک ) جس سے مبارکہ مشتق ہے اسکا ایک اور معنی ثابت قدمی کے ہیں . یعنی گڑ جانا.مستقل و مضبوطی سے جمے رہنا. پس یہ معنی بہی ذات اقدس حضرت زہراء سلام اللہ علیہا میں بدرجہ اتم موجود ہے. اسکیطرف قران نے سورہ ابراہیم میں اشارہ کیا ہے ( الم تر کیف ضرب اللہ مثلا کلمة طيبة اصلها ثابت وفرعها في السما- ابراهيم ايت 24) . یعنی وہ مظبوط و مستحکم درخت جسکی جڑیں زمین میں گڑی ہویی اور شاخیں اسمان میں پہنچی ہویی ہیں. اس سے مراد اپ کی ذات ہے. ( بحواله روايت از امام باقر عليه السلام. مکمل روایت کو نقل کرنے سے طوالت کا خطرہ ہے ) يعني شجرة طيبة اهل البيت هيں اور شجرہ خبیثہ ان کے دشمن یعنی بنو امیہ اور انکے پیروکار ہیں 3- ( برک ) کا ایک اور معنی کوشش و سعی کے ہیں .یہ معنی بہی جناب زہرا میں بدرجہ اتم موجود ہے. جسطرح اپنے اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں پابندی اور ذمہ داری کیساتہ کوششیں کیں اللہ عزوجل نے ان کوششوں کو سراہا اور سورہ دہر میں ( وکان سعیکم شکورا – سور دہر 22) کہ کہکر اپکی کوششوں کا شکریہ اللہ نے ادا کیا. 4- (برک ) کا ایک اور معنی بابرکت ہونے کے ہیں پس یہ مفہوم بہی ذات جناب سیدہ میں بنص قران نمایاں نظر اتا ہے جب اللہ عزوجل نے نبی کو بشارت دی کہ ہم نے اپکو کوثر( خیر کثیر) عطا کیا ہے.( سورہ کوثر ) یعنی فاطمہ جیسی بابرکت بیٹی دی ہے جیسی بیٹی کسی نبی کو نہی دی اس سے اپکی نسل پہیلے گی اور اپ کا دشمن بے نام ہوگا. عزیزو! یہ اس مبارک لفظ کھ لغوی معانی تہے اس لفظ کے اب ہم ” مبارکہ” کے اصطلاحی و روایی معانی کیطرف مختصر نظر کرتے ہیں. قران نے ہر اس شے کو مبارک کہا ہے جس سے ہدایت ونجات حاصل ہو. مثلا قران اپنے متعلق کہتا ہے 5-( وہذا ذکر مبارک – الانبیاء 50 ) اور یہ قران ایک مبارک ذکر ہے. کیونکہ اس میں ہدایت شفا اور رحمت ہے.( البتہ ظالم اس سے استفادہ نہی کرسکتا ہے الاسراء 86) بلکل اسیطرح ذات جناب سیدہ سلام اللہ علیہا مبارکہ ہیں اپ بہی شفا و رحمت و ہدایت بشر کا بہترین وسیلہ ہیں. جسکیطرف کثیر روایات دلالت کرتی ہیں ان کے ذکر سے یہ مقالہ طویل ہوجاییگا . 6- قران نے خانہ کعبہ کو بہی مبارک کہا ہے. (ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مباركا – العمران 96 ) وه پہلا گہر جو بکہ نامی زمین پر لوگوں کی ہدایت کیلیے بنایا گیا وہ کعبہ ہے جو بابرکت ہے. ” پس ذات جناب سیدہ بہی مثل خانہ کعبہ پردے میں ملبوس ہونے کے باوجود ہدایت بشر کا وسیلہ ہیں اور کعبہ جسطرح پہلا گہر ہے جو اللہ کی خالص عبادت کیلیے بنایا گیا اسیطرح جناب زہرا اولین مخلوقات میں سے ہیں جنہیں اللہ نے بطور خاص اپنی اطاعت و عبادت کیلیے خلق کیا جنکو نور کے سایوں کی شکل میں جناب ادم نے اسوقت ملاحظہ کیا جب اپ جنت میں تہے اس روایت کو مفسر کبیر ایت اللہ طباطبایی نے تفسیر المیزان میں بیان کیا ہے. 7- اللہ نے انبیاء کو بہی مبارک کہا ہے جیسا کہ حضرت عیسی کیلیے ارشاد باری ہوا( وجعلنی مبارکا -مریم 31 ) اور میرے اللہ نے مجہے بابرکت بنایا ہے جہاں بہی رہوں . پس جناب عیسی کی برکت یہ ہے کہ اج تک زندہ ہیں اسیطرح اللہ نے جناب زہرا کے اندر ایک مخفی راز رکہا جسے وسر مستودع فیہا کہتے ہیں. اور علماء نے اس سر سے مراد ذات اقدس حضرت صاحب الزمان کو مراد لیا ہے جو جناب زہرا میں مخفی کیا گیا . اس عظیم سر کو اللہ نے عیسی علیہ السلام کی قیادت و امامت کیلیے باقی و محفوظ رکہا . پس جناب زہرا مرضیہ حق بجانب بدرجہ اولی مبارکہ ہوییں. اللہ کا اپ پر سلام ہو. ہم اس مقالے کو یہاں پر اپنی عاجزی کے اعتراف کیساتہ ختم کرتے ہیں اور اللہ سے اپ اور اپنی توفیقات میں اضافے کیلے دعا گو ہیں. اللہ جناب زہرا کے قاتلوں پر لعنت کرے اور ان کے محبوں کو انکی شفاعت عطا کرے امین۴۔ طاہرہ کی تفسیر
طاہرہ طہر سے نکلا ہے یعنی تمام چیزوں سے پاک ہونے والی اور یہ معظمہ ہر ناپاکی اور پلیدی سے پاک تھیں جیسا کہ امام صادق ۔ نے فرمایا:
حَرَّمَ اﷲُ النِّسَاءَ عَلٰی عَلِیٍ مَادَامَتْ فَاطِمَۃُ حَیَّۃً لِاَنّھَا طَاہِرَۃٌ لاََ تَحِیضُ
جب تک فاطمہ زندہ تھیں خدا نے عورتوں کو علی ۔پر حرام رکھا کیونکہ یہ معظمہ ہمیشہ سے پاک تھیں اور خون حیض نہیں دیکھا۔ موسی بن جعفر نے فر مایا: اِنَّ فَاطِمَۃَ عَلَیْھَاالسَّلام صِدِّیَقَۃٌ شَھِیدَۃٌ وَ اِنَّ بَنَاتِ الْاَنْبِیاءِ لاَ یَطْمِثْنَ بے شک فاطمہ 236 راستگو اور شہیدہ ہیں اور انبیاء کی بیٹیاں خون نہیں دیکھتی ہیں۔ ( اصول کافی ا۳۸)5-زکیہ کی تفسیر
یعنی پست صفات اور برے اخلاق سے پاک کی ہوئی ، تکبر و حسد سے پاک اور حرص، حبِ دنیا اور شہوت رانی سے پاک و منزہ ہے اور اس کا معنی زیادہ زکوٰۃ دینا بھی بتایا گیا ہے کیونک جناب زہرا کے پاس جو کچھ بھی ہوتا تھا راہ خدا میں خرچ کر دیتی تھیں۔
6-راضیہ کی تفسیر
راضیہ یعنی پر وردگار سے خوش ہونے والی اور قضا وقدر اور مصیبتوں پر راضی ہونا جیسا کہ کسی مخلوق نے بھی جناب سیدہ جتنے مصائب نہیں دیکھے اور کوئی خاندان بھی نسلِ زہرا کی مانند بلا ومصیبت میں گرفتار نہیں ہوا جبکہ وہ بلاؤں اور مصیبتوں پر راضی بھی تھی اور مقام رضا کمال کا اعلی ترین مقام اور خدائے ذوالجلا ل کی طرف تقرب کی انتہا ہے7-مرضیہ کی تفسیر
مرضیہ یعنی جس سے راضی ہوا جائے اور جسے پسند کیا جائے ۔ قیامت کے دن پروردگار کی جانب سے اتنی شفاعت کریں گی کہ دنیا میں لوگوں کے ہاتھوں تمام تر مصیبتیں اٹھانے کے باوجود راضی اور خوش ہو جائیں گی۔8محدثہ کی تفسیر
ناسخ التواریخ ۳۱۰) قَالَ اِنَّمَا سُمِّیتْ فَاطِمَۃُ مُحَدِّثَۃً لِاَ نَّ الْملَاءِکَۃَ کَانَتْ تَھْبِطُ مِنَ السَّمَاء، فَتُنَادِیھَا کَمَا تُنَادِی مَرْیَمْ بِنتِ عِمْرَانَ فَتَقُولُ یَا فَاطِمَۃُ اَنَّ اللہ اصْطَفٰیکِ وَ طَھَّرَکِ و اصْطَفٰیکِ عَلیٰ نِسآءِ الْعَالَمِینَ یَاْ فَاطِمَۃُ اقْنُتِی لِرَبِّکَ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِی مَعَ الرَّاکِعِینْ فَتُحدِّثُھُم وَ یُحَدِّثُونَھَا فَقَالَتْ لَھُم ذَاتَ لَیلَۃِ اَلَیْسَتْ مَرْیَمُ الْمُفَضّلَۃُ عَلیٰ نِسَآءِ الْعَلَمِینَ ، قالَت مَرْیَمُ کَانَتْ سَیِّدَۃُ نِسَآءِ عَالَمِھا و اَنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَکِ سَیَّدَۃَ نِسَآءِ عَالَمِکِ وَ سَیِّدَ ۃَ نِسَآءِ الاَوَّلِینَ وَالآخِریْنَ۔
چھٹے امام ؑ نے فرمایا: فاطمہ کا نام محدثہ رکھا گیا کیونکہ فرشتے آسمان سے اترتے تھے اور انہیں پکارتے تھے جیسا کہ مریم بنت عمران کو آواز دیتے تھے ۔ پس وہ کہتے تھے اے فاطمہ بے شک خدا نے آپ کو چنا ہے اور آپ کو پاک کیا ہے اور آپ کو تمام عالمین کی عورتوں پر فضیلت دی ہے اے فاطمہ اپنے پروردگار کی اطاعت و بندگی کیجئے اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کیساتھ رکوع اور سجدہ کیجئے۔ پھر وہ فاطمہ ان سے گفتگو کرتی تھیں اور وہ ان سے بات کرتے تھے ۔ ایک رات فاطمہ نے ان سے کہا : کیا مریم دنیا کی عورتوں پر زیادہ فضیلت نہیں رکھتیں؟ انہوں نے کہا بے شک مریم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں اور بے شک خداوند متعال عزو جل نے آپ کواپنے زمانے کی عورتوں کی سردار اور اولین و آخرین عورتوں یعنی کائنات کی تمام عورتوں کی سردار بنایا
ہے۔9-کتنی خواتین محدثہ تھیں؟
چھٹے امام ؑ نے فرمایا: جب محمدبن ابی بکر اس آیت کو پڑھتے تھے تو یو ں تلاوت کرتے تھے : (۲۲؍۵۲) وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبلِکَ مِنْ رَسُولٍ وَ لاَ نَبِیٍّ وَ لاَ مُحدَّثَۃٍ ۔ (اس کے باوجود کہ محدثہ لفظ قرآن کی آیت میں موجود نہیں ہے) راوی کہتا ہے میں نے کہا: کیافرشتے انبیاء کے سوا کسی سے بات کرتے تھے ؟ کہا مریم نبی نہیں تھیں لیکن فرشتے ان کے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور موسیٰ کی والدہ نبی نہیں تھیں لیکن فرشتے ان سے بات کرتے تھے وہ محدثہ تھیں اور اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ کی زوجہ سارہ نبوت کے مربتہ اورعہدہ پر فائزنہ تھیں لیکن انہوں نے فرشتوں کو دیکھا اور انہوں نے انہیں اسحاق کی ولادت اور اس کے بعد یعقوب کی بشارت اورخوش خبری دی ۔ فاطمہ ؑ بنت پیغمبر ؐ نبی نہیں تھیں لیکن فرشتے ان سے گفتگو کرتے تھے ۔
حقیر کہتا ہے آیت میں لفظ محدث اور محدثہ نہیں ہے لیکن حضرت امام جعفر صادق ۔کے استدلال سے پتہ چلتا ہے کہ محدثہ لفظ کو امیر المؤمنین ۔کی تفسیر سے اخذ کیا گیا ہوگا۔ شیخ صدوق ؒ نے فرمایا:
خداوند متعال نے ہمیں قرآن کریم کے ذریعے خبر دی ہے کہ ہم نے کسی بھی عورت کو رسول بنا کر لوگوں کی طرف نہیں بھیجا ، فرمایا:
(۲۱؍۷) وَمَا اَرْسَلْنَاقَبْلَکَ الاَّ رجَالاً نُوحِی اِلَیْھِمْ۔ تم سے پہلے ہم نے مردوں کے سوا کسی کو نہیں بھیجا اُ ن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔ یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے عورتوں کو بھیجا کیونکہ جن سے گفتگو ہوتی تھی وہ مقام رسالت و نبوت پر فائز نہیں تھیں (لیکن بات چیت ہوتی تھی)10منصورہآپ آسمان میں منصورہ ہیں اور یہ اللہ کے قول کے مطابق ہے کہ اس دن مومنین خوش ہوں گے اللہ کی نصرت سے کہ وہ جس کی چاہے گا نصرت فرمائے گا۔ (سورہ روم : آیت 3،4 ) یعنی فاطمہ ؑ کی نصرت اپنے محبت کرنے والوں کے لئے۔ معاني الأخبار ؛ النص ؛ ص396 اس حدیث کی سند موثق ہے۔ 11-بتول کی تفسیر
بتول یعنی جدا اور الگ ہونے والی (یاا لگ شدہ ) کیونکہ زہرا خدا کی جانب دنیا سے جدا اور الگ ہوئیں اور وہ معرفت ، قول و فعل گفتار و کردار اور اخلاق میں عورتوں سے ممتاز تھیں اور بری صفات سے الگ اور دور ہوئیں۔ ایک روایت میں رسول مکرم ﷺ سے سوال کیا گیا :
ہم آپ سے سنتے ہیں کہ مریم بتول ہے اور فاطمہ بتول، بتول یعنی کیا؟فرمایا:
اَلَّتِی لَمْ تَرَ حُمْرَۃً قَطُّ وَلَمْ تَحِضْ مَکْرُوہٌ فِی بَنَاتِ الاَنْبِیاءِ بتو ل وہ عورت ہے جس نے کبھی سرخی نہ دیکھی ہو اور نہ ہی وہ حائضہ ہوتی ہو کیونکہ حیض انبیاء کی بیٹیوں میں ایک بری چیز ہے اور عائشہ سے فرمایا: یا حُمَیْرُ اِنَّ فَاطِمَۃَ لَیْسَت کَنِسَآءِ الآدَمِیِّیِینَ لاَ تَعْتَلّ کَمَا تَعْتَلْنَ اے حمیرا بے شک فاطمہ دوسری عورتو ں کی مانند نہیں ہے وہ حائض نہیں ہوتیں جس طرح دوسری عورتیں حیض دیکھتی ہیں ۔(بحار الانوار ۴۳؍۱۶)تین حدیثوں سے استدلال
روایت میں ہے کہ مریم کا نام بتول رکھا گیا کیونکہ وہ مردوں سے الگ اور جدا ہوئیں اور فاطمہ کا نام بتول رکھا گیا کیونکہ وہ مثل اور مانند سے جدا ہوئیں (امالی صدوق ۱۸۲) انس بن مالک نے اپنی والدہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : فاطمہ 236نے نہ خونِ حیض دیکھا اورنہ ہی خون نَفَاس۔ حضرت امام محمد باقر ۔ سے معتبر سند سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمبر ؑ کی بیٹیاں حائضہ نہیں ہوتیں بلا شبہ حیض ایک سزا ہے جو عورتوں کے لئے آئی ہے اور نیک عورتوں میں سے جو سب سے پہلے حائضہ ہوئیں و ہ سارہ تھیں۔۱۲ ۔ نورِیَّۃُ السَّماءِ الْحانِیَۃ کا معنی
یہ انبیاء کی ملکہ کا ایک لقب ہے یعنی (شوہر اور بچوں ) آسمان کو مہر و محبت سے روشنی بخشنے والی
البتہ اولاد سے ان کی شفقت کا بیان بعد میں آے گا لیکن ان کے شوہرِ نامدار کے بارے میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ زدو کوب، پہلو شکستہ ہونے اور توہین سے لے کر فدک کے غصب و غیرہ تک تمام تر آزار و اذیتیں انہوں نے شوہر کی حمایت میں برداشت کیں یہاں تک اس دنیا سے شہید گئیں ۔ ان سب چیزوں سے بالاتر ، جب ان کی رحلت کا وقت قریب آیاتو (ان کا سرمبارک علی ۔کی گود میں تھا) اور وہ سخت گریہ کررہی تھیں امیرالمؤمنین ۔نے فرمایا: اے میری سیدہ ، کس لئے گریہ کررہی ہو فرمایا: اُن مصائب کیلئے جو میرے بعد آپ دیکھیں گے فرمایا: میرے لئے گریہ نہ کرو ، خدا کی قسم میں ان مصائب کو خدا کی رضا کے راستے میں چھوٹا سمجھتا ہوں ۔(بیتن۲۳)
خَجِلاًمِنْ نُورِ بَھْجَتِھَا تَتَواری الشّمسُ فِی الاُفُقِ
وَحَیَاءُ مِنْ شَمَائلِھَا یَتَغَطِّی الْغُصنَ مِنْ وَرَقِ۱۳۔ عذراء کی تفسیر
عذراء اکبر اور کبریٰ کی مانند افعل التفضیل ہے یا الف ممدودہ کے ساتھ اسم ہے اور اس کے دو معنی ہیں یعنی کسی کی دوسرے پر نیکی کی صفت میں برتری اور یہ مؤنث آیا ہے۔
اور عذراء عین پر زبر کے ساتھ اسم ہو تو اس کے کئی معانی ہیں ، پاک دامن ، دوشیزہ اور مروارید ناسفتہ (ان بندھا موتی، وہ ریت جس پر کسی کے پاؤں نہ پڑے ہوں ، برجِ سنبلہ اور جوزا، مدینۃ الرسول اور کنواری با حیا اور عیب و نقص سے پاک لڑکی کو بھی کہا جاتا ہے۔ دو خواتین کو عذراء کہا جا تا ہے ایک مریم مادر عیسیٰ اور دوسری شافعہ محشر ام الا ئمہ زہرا سلام اللہ علیھا یعنی با عصمت و باعفت اور حقائق و معارف حقہ کی عالم و عارف دوشیزہ پس نامِ عذرا ء کے بارے میں مدینۃ الرسول ؐ حقیقت رکھتا ہے۔14-چودہواں نام حوراء انسیہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْمُتَوَكِّلِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْحِمْيَرِيُّ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَجَّاجِ عَنْ سَدِيرٍ الصَّيْرَفِيِّ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص‏ خُلِقَ نُورُ فَاطِمَةَ ع قَبْلَ أَنْ تُخْلَقَ الْأَرْضُ وَ السَّمَاءُ فَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَلَيْسَتْ هِيَ إِنْسِيَّةً فَقَالَ ص فَاطِمَةُ حَوْرَاءُ إِنْسِيَّةٌ قَالَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَ كَيْفَ هِيَ حَوْرَاءُ إِنْسِيَّةٌ قَالَ خَلَقَهَا اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ نُورِهِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ إِذْ كَانَتِ الْأَرْوَاحُ فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ آدَمَ عُرِضَتْ عَلَى آدَمَ قِيلَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَ أَيْنَ كَانَتْ فَاطِمَةُ قَالَ كَانَتْ فِي حُقَّةٍ تَحْتَ سَاقِ الْعَرْشِ قَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَمَا كَانَ طَعَامُهَا قَالَ التَّسْبِيحُ وَ التَّهْلِيلُ وَ التَّحْمِيدُ فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ آدَمَ وَ أَخْرَجَنِي مِنْ صُلْبِهِ أَحَبَّ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ يُخْرِجَهَا مِنْ صُلْبِي جَعَلَهَا تُفَّاحَةً فِي الْجَنَّةِ وَ أَتَانِي بِهَا جَبْرَئِيلُ ع فَقَالَ لِي السَّلَامُ عَلَيْكَ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ يَا مُحَمَّدُ قُلْتُ وَ عَلَيْكَ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اللَّهُ حَبِيبِي جَبْرَئِيلُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَبَّكَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ قُلْتُ مِنْهُ السَّلَامُ وَ إِلَيْهِ يَعُودُ السَّلَامُ قَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّ هَذِهِ تُفَّاحَةٌ أَهْدَاهَا اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيْكَ مِنَ الْجَنَّةِ فَأَخَذْتُهَا وَ ضَمَمْتُهَا إِلَى صَدْرِي قَالَ يَا مُحَمَّدُ يَقُولُ اللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ كُلْهَا فَفَلَقْتُهَا فَرَأَيْتُ نُوراً سَاطِعاً فَفَزِعْتُ مِنْهُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ مَا لَكَ لَا تَأْكُلُ، كُلْهَا وَ لَا تَخَفْ فَإِنَّ ذَلِكَ النُّورَ الْمَنْصُورَةُ فِي السَّمَاءِ وَ هِيَ فِي الْأَرْضِ فَاطِمَةُ قُلْتُ حَبِيبِي جَبْرَئِيلُ وَ لِمَ سُمِّيَتْ فِي السَّمَاءِ الْمَنْصُورَةَ وَ فِي الْأَرْضِ فَاطِمَةَ قَالَ سُمِّيَتْ فِي الْأَرْضِ فَاطِمَةَ لِأَنَّهَا فَطَمَتْ شِيعَتَهَا مِنَ النَّارِ وَ فُطِمَ أَعْدَاؤُهَا عَنْ حُبِّهَا وَ هِيَ فِي السَّمَاءِ الْمَنْصُورَةُ وَ ذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ‏ عَزَّ وَ جَلَّ- يَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ. بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشاءُ يَعْنِي نَصْرَ فَاطِمَةَ لِمُحِبِّيهَا
ھم سے بیان محمد بن متوکل رضی اللہ عنہ نے انھوں نے کہا کہ ھم سے بیان عبداللہ بن جعفر حمیری نے انھوں نے یعقوب بن یزید سے انھوں نے کہا کی ھم سے بیان کیا حسن بن علی بن فضال سے انھوں نے عبد الرحمن بن حجاج سے انھوں نے
سدیر صبرفی سے انہوں نے الصادق جعفر بن محمد علیہم السلام سے ، آپؑ نے اپنے پدر بزرگوار علیہ السلام سے ، آپ ؑ نے اپنے جد امجد علیہ السلام سےکہ فرمایا رسول خدا ﷺ نے فرمایا : فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نور کو زمین اور آسمان کی تخلیق سے پہلے خلق کیا گیا۔ بعض لوگوں نے کہا : یا نبی اللہ تو کیا وہ انسانی جنس نہیں ہیں ؟ آپ ؐ نے فرمایا : فاطمہؑ حوراء انسانی جنس میں سے ہیں۔ اس نے کہا یا نبی اللہ پھر کیسے وہ انسانی جنس ہیں آپ ؐ نے فرمایا : اللہ نے ان کو اپنے نور سے آدمؑ کی تخلیق سے پہلے خلق فرمایا جب روحین (ہی) تھیں تو جب اللہ نے آدمؑ کو خلق فرمایا تو اس کے نور کو آدمؑ کے سامنے عارض کیا۔ کہا گیا۔ یا نبی اللہ تو اس وقت فاطمہ ؑ کہاں تھیں ؟ آپ ؐ نے فرمایا ان کا نور گوشہ عرش کے نیچے چھوٹے ظرف میں تھا۔ لوگوں نے کہا یا نبی اللہ تو وہاں آپ سلام اللہ علیہا کا کھانا کیا تھا ؟
آپ ؐ نے فرمایا تسبیح (سبحان اللہ) تہلیل (لا الہ الاللہ ) اور تحمید (الحمدُللہ) تو جب اللہ نے آدم کو خلق فرمایا تو مجھے ان کے صلب سے نکالا تو اللہ نے پسند کیا کہ فاطمہ ؑکو میرے صلب سے خارج کرے تو اس جنت میں ایک سیب قرار دیا اور اسے جبرائیل میرے پاس لے آئے اور مجھے کہا۔ اسلام علیک و رحمت اللہ و برکاتہ یا محمدﷺ۔ میں نے کہا وعلیک السلام ورحمتہ اللہ میرے دوست جبرائیل ۔ اس نے کہا یا محمدﷺ بیشک آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے۔ میں نے کہا اُسی سے سلام و سلامتی ہے اور اسی کی جانب سلام و سلامتی پلٹتی ہے۔ اس نے کہا یا محمدﷺ یہ سیب ہے کہ اللہ نے آُپ ؑ کی جانب جنت سے تحفہ کے طور پر بھیجاہے۔ تو میں نے اسے لے لیا اوراس کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ جبرائیل نے کہا یا محمدؐ اللہ فرماتا ہے آپ سے کھائیں تو میں نے اسے شگافتہ کیا تو دیکھا کہ ایک چمکتا نور ہے تو میں نے اس سے گھبراہٹ کا اظہار کیا تو جبرائیل نے کہا یا محمدﷺ آپ کو کیا ہوا ہے کہ آپ ؐ نہیں کھا رہے ہیں ؟ اسے کھائیں اور خوف نہ کریں۔ بے شک یہ ایسا نور ہے جو آسمان میں منصورہ ہے اور یہ زمین میں فاطمہؑ ہے۔ میں نے کہا میرے دوست جبرائیل ، کیوں اس کا نام آسمان میں منصورہ اور زمین میں فاطمہؑ رکھا گیا ؟ جبرائیل نے کہا زمین میں فاطمہ ؑ اس لیے رکھا گیا کیونکہ یہ اپنےشیعوں کو( جہنم کی آگ) سے نجات دلائیں گی اور ان کے دشمن ان کی محبت سے محروم ہو جائیں گے اور یہ آسمان میں منصورہ ہیں اور یہ اللہ کے قول کے مطابق ہے کہ اس دن مومنین خوش ہوں گے اللہ کی نصرت سے کہ وہ جس کی چاہے گا نصرت فرمائے گا۔ (سورہ روم : آیت 3،4 ) یعنی فاطمہ ؑ کی نصرت اپنے محبت کرنے والوں کے لئے۔معاني الأخبار ؛ النص ؛ ص396اس حدیث کی سند موثق ہے۱۵۔ فاطمہ سلام اللہ علیہا خیرۃ اللہ ہیں۔
حافظ عاصمی زین الفتن میں رقمطراز ہیں، حدیث میںآیا ہے کہ پیغمبر ﷺنے امیرالمؤمنین ۔ سے فرمایا: بے شک خداوند عزوجل دنیا پر حاکم اور نگران ہوا پس اس نے مجھے اس میں سے دنیا کے لوگوں پر چنا پھر دوبارہ مطلع ہوا تو تمہیں اوصیاء میں سے چنا تیسری مرتبہ مطلع ہوا تودنیا کے لوگوں پر تیری اولاد میں سے امام منتخب کئے پھر چوتھی بار مطلع ہوا تو دنیا کی عورتوں پر فاطمہ ؑ کو چنا۔
ثُمّ اطّلعَ الرَّابِعَۃ فَاخْتَارَ فَاطِمَۃَ عَلٰی نِسَاءِ العَالَمِینَ۔
حضر ت صادق ۔ سے سوال کیا گیا دنیا کی عورتوں سے مراد کیا ہے ؟ کیا ان کے زمانے کی عورتیں مراد ہیں یا تمام عورتیں ؟ فرمایا: مریم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن فاطمہ ؑ اولین و آخرین دنیا کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔
خدانے ان کا نام رکھا، خوارزمی نے مناقب میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا: شبِ معراج مجھے آسمان کی طرف لے گئے میں نے دیکھا یہ الفاظ بہشت کے دروازے پر لکھے ہوئے تھے : لاَ اِلٰہَ الاَّ اللہُ مُحمَّدٌ رَسُولُ اللہ عَلیٌّ حَبِیبُ اللہِ اَلْحَسنُ وَالحُسَینُ صفْوَۃُ اللہِ فَاطِمَۃُ خِیَرَۃُ اللہِ عَلیٰ مُبْغِضِیْھِمْ لَعْنَۃُ اللہ۔
خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے محمد ؐاللہ کے رسول ہیں علی ؑ ، حسن ؑ اور حسین خدا کے برگزیدہ بندے ہیں ۔ فاطمہ ؑ خدا کی برگزیدہ ہیں ان کے دشمنوں پر خد اکی لعنت ہے۔ (پس جناب فاطمہ کا نام خیرۃُ اللہ ہے۔)16-خیرۃ اللہ کی تفسیر
فاطمہ سلام اللہ علیہا) لَمَّا خََلَقَ اللہُ تَعَالیٰ آدَمَ وَ عَطَسَ فَاسْتَویٰ جَالِساًقَالتِ الْمَلاَئکَۃُ یَرْحَمُکَ اللہُ یَا اَبَا مُحَمَّدٍ فَرَفَعَ رَأسَہُ فَاِذاً ھُوَ مَکْتُوبٌ عَلیٰ سَاقِ الْعَرْشِ لاَ اِلٰہَ الاَّ اللہُ مُحمَّدٌ رَسُولُ اللہ عَلیٌّ حَبِیبُ اللہِ اَلْحَسنُ وَالحُسَینُ صفْوَۃُ اللہِ فَاطِمَۃُ خِیَرَۃُ اللہِ ۔
رسول خدا ﷺسے نقل کیا گیا ہے کہ فرمایا: جب خدا تعالیٰ نے آدم کو خلق کیا (جیسا کہ راہنمائے بہشت کی جلد دوئم صفحہ ۱۰۰)پر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے) خلق ہونے کے بعد وہ بیٹھے تو فرشتوں نے ان سے کہا اے ابو محمد خدا تم پر رحمت کرے (پھر حدیث جاری رہی) حضرت آدم نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے پائے پر یہ الفاظ لکھے ہوئے دیکھے ، خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے محمدؐ اللہ کے رسول ہیں علیؑ اللہ کے حبیب ہیں حسن ؑ ، حسین ؑ اور فاطمہ ؑ خدا کے برگزیدہ ہیں اور خیرۃ اللہ کی تفسیر پہلے باب میں بیان کی جا چکی ہے۔۱7۔ و لیۃ اللہ العظمیٰ
اہم موضوع یہ ہے کہ حضرت زہرا 236مقامِ ولایت میں امیر المؤمنین ۔ اور حسنین 228کے ساتھ
شریک اور زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ جنگ و صلح اور دشمنی و دوستی، علی اور حسنین کے ساتھ جنگ اور دوستی کی مانند ہے۔ زید بن ارقم کہتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے ان سے فرمایا: اَنا سِلمٌ لِمَن سَالَمتُمْ وَ حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبْتُمْ ۔ میری اس سے دوستی و آشتی ہے جس کی تم سے آشتی ہو اور اس سے جنگ ہے جو تم سے جنگ کرتا ہے اس موضوع کا اثبات چھتیسویں باب میں آئے گا۔۱8۔ حجۃ اللہ۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا ایک نام حجۃ اللہ ہے کہ تمام دنیا والوں پر حجت ہیں۔ حضرت امام حسن عسکری ۔ نے فرمایا: نَحْنُ حُجَجُ اللہِ عَلیٰ خَلقِہِ وَ جَدَّتُنَا فَاطِمۃَ حجۃ اللہِ عَلَینَا۔
ہم خدا کی حجت ہیں اس کی مخلوق پر اور ہماری جدہ (دادی) ہم پر خدا کی حجت ہیں۔ (اللہ اکبر یہ عظیم اور بلند مقام و مرتبہ)
(طیب البیان۱۳؍۲۲۵) ۱۸۔ مریم الکبریٰ کہ ان کے مقابل جناب مریم صغریٰ ہے( مؤلف کہتا ہے کہ یہ اٹھارہ نام خدا کے نام حیّ کے عد دکے مطابق ہیں کیونکہ دونوں جہانوں کو جناب زہرا ے زندہ کیا ہے۔)
نوٹ
بعض علماء نے اپ کے ایک سو ستر اسماء کا ذکر کیا ہے. اور ان سب ناموں کی تشریح مختصرا بہی کی جایے تو ضخیم کتب اپکی ذات اقدس پر مہیا ہوسکتی ہیں اور کیسے ایسا نہ ہو جو باعث سرور قلب مصطفی ہو اللہ کا جن پر صبح و شام درود وسلام ہو. بابی وامی
ألقاب فاطمة الزهراء (عليها السلام )
:أنسية – حوراء – عذراء – نورية – حانية – كريمة – رحيمة – شهيدة – عفيفة – قانعة – رشيدة – شريفة – حبيبة – محترمة – صابرة – سليمة – مكرمة – صفية – عالمة – عليمة – معصومة – مغصوبة – مظلومة – ميمونة – منصورة – محتشمة – جميلة – جليلة – معظمة – حاملة البلوى – الشاكية – حليفة العبادة – التقية – حبيبة الله – بنت الصفوة – ركن الهدى – آية النبوة – شفيعة العصاة – أم الخيرة – تفاحة الجنة – المطهرة – سيدة النساء – بنت المصطفى – صفوة ربها – موطن الهدى – قرة عين المصطفى – حكيمة – فهيمة – عقيلة – محزونة – مكروبة – عليلة – عابدة – زاهدة – قوامة – باكية – صابرة – صوامة – عطوفة – رؤوفة – حنانة – البارة – الشفيقة – أم السبطين – دوحة النبي – نور سماوي – زوجة الوصي – بدر التمام – درة بيضاء – بحر الشرف – ولية الله – سر الله – أمينة الوحي – عين الله – مكسورة الضلع – رضيض الصدر – مغصوبة الحق – حفي القبر. ومن أسماؤها:الزهراء – البتول – الصديقة – الطاهرة – المحدثة – المباركة – الرضية – المرضية – أم أبيها، أم الحسنين، أم الأئمة.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.