حضرت غازی عباس ع کی وفا، ایک لازوال مثال
تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کرتے وقت میں سوچتا ہوں کہ جب خاتون جنت بنت پیغمبر حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیھا نے وقت آخر اپنے شوہر نامدار امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کو الوداع کہا تھا تو دوسر ے دلنشیں سخن بھی سپرد قلبِ علی ع کئے تھے، وہی سخن اور وہی عبارت بعد میں وصیّت فاطمہ س بنی تھی کہ جس میں سیدہ زہرا س نے ایک بشارت عیاں کی تھی جس کا تعلق قبیلہ بنی اسد سے تھا، پاک بی بی نے امیرالمومنین ع کو وصیت فرمائی تھی کہ میری رحلت کے بعد قبیلہ بنی اسد میں شادی کریں کیونکہ وہ خاندان ہر لحاظ سے امیرالمومنین ع جیسی شخصیت کے شایان شان ہے۔ ہماری نگاہ عقیدت اس وصیت کو اس انداز سے دیکھتی ہے کہ سیدہ فاطمہ س یقیناً اس قبیلے سے کسی ایسے وارث اور جوان کی توقع میں تھیں جو اپنی صورت و سیرت میں علی ع کا ثانی اور متبادل ہو، ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ اس قبیلے سے فاطمہ س کو عباس ع ہی چاہیے تھا، کیونکہ بی بی زہرا س کو معلوم تھا کہ یہ عباس ع ہی تُو امام حسن ع و امام حسین ع و سیدہ زینب س کے پاک سر پر وفا و ایثار کا اک ایسا فلک بنے گا کہ سات افلاک جھک کے اس کو سپاس دیں گے۔
یہی ثبوت بھی کافی و شافی ہے کہ ہم اگر حضرت عباس علمدار ع کی مختصر زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دنیائے خشک و تر میں حیات کے جتنے دن گذارے وہ سب کے سب حامل وفا تھے، وہ سب کے سب حاصل وفا تھے۔ اسی وجہ سے حضرت امام حسن ع کو آپ پر جتنا گھمنڈ تھا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؟ پھر امام حسین ع آپ پر آپ کے پیدا ہونے سے لے کر کربلا کے آخری لمحے تک کتنے نازاں تھے؟ اس کا اندازہ ایک معمولی حد تک تاریخ کربلا کا جائزہ لینے سے لگایا جا سکتا ہے۔ اور اگر ہم سیدہ زینب س کی حضرت عباس علمدار کے ساتھ الفت، محبت، وابستگی اور پیار کا اندازہ لگانا چاہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سیدہ زینب س حضرت عباس ع کے حفاظتی حصار کی اتنی عادی ہیں کہ اپنے بابا اور بھائی کے جاں نثار و باوفا اصحاب کی تلاوت کی صدا بھی جس پر گراں ہوئی تھی تو غازی عباس سے کہا تھا کہ بھائی ہمارے اور اصحاب کے خیموں میں فاصلہ کرا دیں۔
ان لمحات میں سیدہ زینب س کو یقیں تھا کہ جب تلک وہ زمیں کی مسند پہ جلوہ گر ہیں تب تک غازی عباس ع کے حصار وفا میں چین سے ہی رہا کریں گی۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میانِ کرب و بلا وہ لمحہ بھی آن پہنچا کہ عباس ع باوفا نے جس دن وفاؤں کو انتہائیں بخشیں کہ اس سے پہلے وفا کے آخری اور حتمی مفہومِ سے سبھی سخنور ناآشنا تھے، اس سے پہلے وفا تو لفظوں میں کھوچکی تھی، فقط کتابوں میں ہی اس کے تذکرے جا بجا پڑے تھے۔ غازی عباس ع نے پیاس کے بحر بیکراں سے وفا کو زندہ کر دیا تھا۔ وہ عباس ع ہی تھے کہ جن کے بازؤوں نے کٹ کے وہ دائرہ بنایا کہ آج تک سب وفائیں، تمام ایثار، ہر مروّت اس سے باہر نہیں نکل پائی، میں دیکھتا ہوں عباس ع کی زندگی، آپ کی وفائیں، آپ کی شہادت، فقط امام حسین ع اور سیدہ زینب س کی ذات قدسیہ سے منسلک نہ تھی، کبھی بھی نہیں تھی، البتہ فکرِ محدود سامنے رکھ کے عباس ع کو دیکھیں تو پھر یقیناً یہی لگے گا کہ ایک بھائی نے اپنے بھائی پہ جان دے دی یا اپنے خاندان کے بچوں کی تشنگی کے عظیم غم نے اسے شہادت تلک پہنچایا،مگر نہیں ایسا تو نہیں ہے۔
ہم عباس علمدار ع کی ساری اطاعتوں کا امیرالمومنین حضرت علی ع کی حیات مبارکہ سے لے کر امام حسین ع کے ساتھ کربلا میں آنے تک تجزیہ کریں تو یہی نتیجہ ملے گا کہ اس کی وفاؤں کا دائرہ تو خدا تلک تھا، آپ کی وفا خدا کی خاطر تھی، آپ کی وفا محمد مصطفے ص کی خاطر تھی۔ آپ کی وفا علی مرتضی ع کی خاطر تھی، آپ کی وفا حسن مجتبٰی ع کی خاطر تھی۔ آپ نے اطاعت کا جو انداز اختیار کیا وہ تو دیں ہی دیں تھا، آپ نے محبت کا جو انداز اپنایا وہ تو عین قرآں تھا۔ آپ کی شجاعت کسی انسان یا قبیلے یا گروہ یا خاندان کے لیے نہیں بلکہ آپکی شجاعت برائے یزداں تھی۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت امام حسین ع کو ایک بھائی سے بڑھ کے اپنا امام اور راہبر و رہنماء سمجھا اور اسی عقیدے کے تحت امام کے ہر ایک فیصلے کو یقین اور صدق دل سے مانا۔ آج جو کلمہء لا الہ کی صدائیں دنیا میں گونجتی ہیں، وہ عباس ع کی وفا کے طفیل سے ہیں۔ حضرت امام حسین ع کی ساری محنتوں میں عباس علمدار ع کا ہی تذکرہ سب سے بالا ہے۔ آپ کی وفا اور ایثار کا نتیجہ ہی ہے کہ دین کے گرد آج تک آپ کے کٹے ہوئے بازؤوں کا ہالا موجود ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ میری صدی میں غازی عباس ع کی وفا کے کتنے زیادہ علم لگے ہیں، غازی کی وفا پر نثار ہونے کے دعوے بھی ہر طرف سے جاری ہیں۔ عباس کا علم جو نشانِ اسلام بن چکا تھا، عباس کا علم جو بقائے اسلام بن چکا تھا، عباس کا علم جو تعارفِ مصطفٰے ص بنا تھا، عباس کا علم جو تعارفِ کربلا بنا تھا، عباس کا علم جو علی ع کے پرچم کی اک شکل تھا، عباس کا علم جو حسین ع کے مشن امن کو دنیا میں نشر کرنے کا اک سبب تھا، عباس کا علم جو حسین ع و زینب س کی داستانوں کا ترجماں تھا، عباس کا علم تو معیار حق بن کے جلوہ گر تھا، مگر یہ کیوں ہے؟؟ کہ عباس ع کے محبوں نے آج آپ کے علم کو اک نمائش بنا دیا ہے۔ وفا سے عاری، حیا سے عاجز، علم کشوں نے علم بنانے، علم سجانے، علم اٹھانے کے ایسے ایسے مقابلے منعقد کئے ہیں کہ عام جھنڈے بھی آج عباس کے عظیم پرچم پہ ہنس رہے ہیں۔ ہم ان حالات میں غازی عباس ع کی خدمت اقدس میں دست بستہ عرض کریں گے کہ اے میرے عباس ع، اے میرے غازی، اے میرے نمازی، ذرا اپنے حرم مبارک سے نکل کر اک دن اپنے ان محبوں کو بھی بتا ہی دیجئے۔ ان کو اپنی وفا کا تعارف کرا ہی دیتے۔ حقیقت پرچمِ حسینی ع انہیں بتا ہی دیتے۔ اگر آپ کے موالی، آپ کے حلالی، جو آج آپ کے علم کی ساری حقیقتوں کی شناس رکھتے تو ہر طرف کربلائیں نہ ہوتیں، نہ چار سُو یہ جفائیں ہوتیں۔ نہ خونِ مومن تمام دنیا میں ہر جگہ رزق ارض ہوتا۔ یا عباس ع انہیں ہی بتا دیجئے، انہیں جگا ہی دیجئے کہ آپ کا نبوی، قرآنی، علوی، حسینی پرچم بلند کرنے سے پہلے اپنے ضمیر کا جائزہ ہی لے لیں، اور اپنے روز و شب کا حساب کر لیں۔ حسینی اور زینبی فکر پر عمل ہی کر لیں، تو آپ کا پرچم تمام دنیا پہ ایسے سایہ فگن رہے گا کہ اس علم کو امام دوراں بلند کریں گے اور یہی علم لوائے حمد کی شکل اختیار کر کے قیامت کے دن عاصیوں، خاطیوں اور کمزوروں کے لیے سایہ فراہم کرے گا۔