رجعت امام حسین علیہ السلام، قرآن و حدیث کی روشنی میں

290

رجعت سے مراد “امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے بعد اور قیامت کے قریب انتہائی مخلص مومنین پر مشتمل ایک گروہ اور انتہائی شریر کفار اور باغیوں کی واپسی” ہے۔ [تفسیر نمونہ، جلد 15، صفحہ 555]۔ رجعت مذہب تشیع کے مخصوص اعتقادات میں سے شمار ہوتا ہے جس کے بارے میں ائمہ معصومین علیھم السلام اور بزرگان اہل تشیع کی جانب سے بہت تاکید کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بقول رجعت پر ایمان نہ رکھنا ائمہ معصومین علیھم السلام کے انکار کے مترادف ہے اور جو افراد رجعت پر عقیدہ نہیں رکھتے انہیں امامت اور ولایت اہلبیت علیھم السلام کے دائرے سے خارج قرار دیا گیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: “جو شخص رجعت پر ایمان نہیں رکھتا وہ ہم میں سے نہیں”۔ [علامہ مجلسی، حق الیقین، جلد 2، صفحہ 2]۔ رجعت کا مفہوم اگرچہ ہمارے لئے، جو مادیات کے حصار میں قید ہیں، ایک حد تک عجیب و غریب دکھائی دیتا ہے اور اسی وجہ سے بعض افراد اس میں شک و تردید کا شکار ہو جاتے ہیں اور حتی اسکا انکار کر بیٹھتے ہیں، لیکن اگر نفسانی خواہشات اور مادی پردوں سے عاری عقل کے ذریعے اسکے بارے میں تھوڑا سوچا جائے تو معلوم ہو گا کہ رجعت کئی عقلی دلائل اور قرآن و روایات کی روشنی میں کوئی عجیب و غریب مفہوم نہیں۔ اگر ہم قرآنی آیات میں تھوڑا غور و خوض کریں تو جان جائیں گے کہ اس آسمانی کتاب میں دسیوں ایسی آیات موجود ہیں جو ایک طرح سے رجعت کو ثابت کرتی ہیں۔ آیات قرآنی کے علاوہ ایسی احادیث اور روایات کی بڑی تعداد بھی معتبر حدیثی کتب میں موجود ہے جو رجعت کے موضوع پر تاکید کرتی نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ رجعت کی بیان کردہ تعریف سے ظاہر ہوتا ہے، رجعت کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایسے “انتہائی مخلص مومنین” اور “انتہائی ظالم اور کافر افراد” کے واپس اس دنیا میں پلٹ آنے کا معتقد ہو جائے جو اپنی زندگی میں ایمان کا کفر کے اعلی سطحی رہنما اور لیڈر تصور کئے جاتے تھے۔ لہذا رجعت کا مفہوم تمام انسانوں سے متعلق نہیں بلکہ محدود تعداد میں انسانوں سے متعلق ہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث شریف میں بیان ہوا ہے رجعت کا مفہوم عمومی نہیں بلکہ صرف ایسے گروہوں کی واپسی پر دلالت کرتا ہے جو خالص ایمان یا خالص شرک کے حامل ہیں۔ [تفسیر نمونہ، جلد 15، صفحہ 560] اس حدیث کی روشنی میں جو افراد رجعت کے ذریعے اس دنیا میں واپس آئیں گے وہ خالص ترین ایمان کے حامل ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اپنی زندگی میں مومنین کے امام، صالحین کے مولا اور پرہیزگاروں کے قائد رہ چکے ہوں گے۔ انہیں میں سے ایک سید الشھداء سرور آزادگان حضرت اباعبداللہ الحسین علیہ السلام بھی ہیں۔ قرآن کریم کی بعض آیات اور بڑی تعداد میں روایات اور احادیث میں امام حسین علیہ السلام کی رجعت کو اشارتا یا واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور اسے حتمی اور یقینی واقعہ قرار دیا گیا ہے۔ ہم اس مضمون میں بعض آیات اور روایات کو بیان کریں گے۔ 1۔ رجعت امام حسین علیہ السلام اور قرآن کریم: قرآن کریم میں رجعت کے موضوع اور امام حسین علیہ السلام کی رجعت کے بارے میں کئی آیات موجود ہیں۔ بعض محققین کی نظر میں قرآن کریم میں 18 آیات ایسی ہیں جو واضح طور پر رجعت کے موضوع کو ثابت کرتی ہیں۔ [حسین عماد زادہ، منتقم حقیقی، صفحہ 481]۔ سورہ مبارکہ نازعات کی آیت 6 اور 7 بھی اسی زمرے میں شمار ہوتی ہیں: “یوم ترجف الراجفة تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ” “جس دن خوفناک زلزلے ہر چیز کو ہلا کر رکھ دیں گے، اور اسکے بعد دوسرا حادثہ [صور محشر] رونما ہو گا”۔ یہ دو آیات قیامت سے پہلے رونما ہونے والے دو واقعات کی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔ ان میں سے پہلا واقعہ وہ خوفناک زلزلہ ہے جو ہر چیز کو ہلا کر رکھ دے گا اور نظام دنیا کو درھم برھم کر دے گا۔ اور دوسرا واقعہ رجعت کا ہے۔ “سب سے پہلا انسان جس کی قبر پھٹ جائے گی اور وہ باہر آکر اپنا سر جھٹک کر مٹی کو اپنے سے دور کریں گے حسین ابن علی علیہ السلام ہوں گے”۔ [عباس عزیزی، فضایل و سیرہ امام حسین علیہ السلام در کلام بزرگان، صفحہ 69]۔ اسی طرح سورہ اسراء کی آیت 6 میں خداوند متعال فرماتا ہے: “ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَیهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِیرًا”۔ “پھر تم لوگوں کو انکے مقابلے میں لا کر ان پر غلبہ دلائیں گے اور مال اور بیٹوں کے ذریعے تمہاری مدد کریں گے اور تمہاری تعداد میں اضافہ کر دیں گے”۔ یہ آیہ کریمہ بھی امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل شدہ حدیث کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کی رجعت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ “پہلا شخص جو دنیا میں واپس لوٹے گا وہ حضرت امام حسین علیہ السلام اور انکے ساتھی اور یزید اور اسکے ساتھی ہوں گے۔ پس وہ تمام یزیدیوں کو قتل کر دیں گے ایسا ہی جیسا کہ اس سے پہلے یزیدی انہیں قتل کر چکے تھے، جیسا کہ خداوند متعال نے فرمایا ہے: ثم رددنا لکم۔۔۔”۔ [حق الیقین، جلد 2، صفحہ 12]۔ اسی طرح اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک اور حدیث یہ ہے: “ثم رددنا لکم الکرۃ علیھم۔۔۔۔ امام حسین علیہ السلام کے قیام کی طرف اشارہ ہے جو وہ اپنے ستر ساتھیوں کے ہمراہ انجام دیں گے اور لوگ کہیں گے کہ یہ حسین علیہ السلام ہے جو باہر آیا ہے، مومنین انکے بارے میں ذرہ بھر شک نہیں کریں گے اور مطمئن ہوں گے کہ وہ دجال یا شیطان نہیں، اور حضرت قائم علیہ السلام بھی اس وقت موجود ہوں گے۔۔۔”۔ [حق الیقین، جلد 2، صفحہ 16]۔ مذکورہ بالا دو آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رجعت کا موضوع اور اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی رجعت قرآن کریم کی روشنی میں ایک ممکن امر ہے لہذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ 2۔ رجعت امام حسین علیہ السلام اور روایات و احادیث: ہماری معتبر حدیثی کتابوں میں رجعت اور اس سے مربوط واقعات کے بارے میں بڑی تعداد میں احادیث اور روایات موجود ہیں۔ شیخ حر عاملی نے اپنی کتاب “الایقاظ من الھجعۃ بالبرھان علی الرجعۃ” میں اس بارے میں 600 احادیث نقل کی ہیں۔ [حسین عماد زادہ، منتقم حقیقی، صفحہ 482]۔ چونکہ ہمارا موضوع امام حسین علیہ السلام کی رجعت کے بارے میں ہے لہذا ہم ان میں سے ایسی چند ایک احادیث کو بیان کریں گے جن میں واضح طور پر یہ مطلب بیان ہوا ہے۔ حدیث ۱: قطب راوندی اور دوسرے افراد جابر اور وہ امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے صحرای کربلا میں اپنی شہادت سے قبل فرمایا: “میں وہ پہلا شخص ہوں گا جو زمین کے پھٹنے کے بعد اس میں سے باہر آوں گا، میرا باہر آنا امیرالمومنین علیہ السلام کے باہر آنے اور قائم کے قیام سے ہمراہ ہو گا”۔ [علامہ مجلسی، حق الیقین، جلد 2، صفحہ 7]۔ اس حدیث کو علامہ مجلسی نے بھی اپنی کتاب “حق الیقین” میں بیان کیا ہے اور اسکی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ رجعت کے وقت پلٹنے والا شخص امام حسین علیہ السلام ہیں اور اس بارے میں بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں جن کی مثال اس سے قبل سورہ مبارکہ نازعات کی تفسیر میں بیان ہوئی ہے۔ حدیث ۲: عیاشی امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ: “پہلا شخص جو دنیا میں واپس آئے گا حضرت امام حسین علیہ السلام اور انکے ساتھی اور یزید اور اسکے ساتھی ہیں۔ پس وہ ان سب کو قتل کر دیں گے جیسا کہ اس سے قبل اس نے انہیں شہید کیا”۔ [حق الیقین، جلد 2، صفحہ 11]۔ اس حدیث میں امام حسین علیہ السلام کی سب سے پہلے رجعت کے علاوہ انکے اصحاب اور ساتھیوں اور اسی طرح انکے مخالفین اور دشمنوں کی رجعت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ رجعت کے بعد واقعہ عاشورہ دوبارہ دہرایا جائے گا اور یزید کے لشکر اور امام حسین علیہ السلام میں دوبارہ جنگ ہو گی لیکن اس بار اسکا نتیجہ امام حسین علیہ السلام کے لشکر کی کامیابی کی صورت میں نکلے گا۔ یہ درحقیقت یزیدیوں سے عاشورہ کے دن انجام پانے والے ظلم و ستم کا بدلہ اور انتقام ہو گا۔ البتہ یہ انتقام صرف عاشورا کے واقعے تک محدود نہیں بلکہ امام محمد کاظم علیہ السلام سے نقل شدہ روایت کی روشنی میں رجعت کے وقت مومنین کی بڑی تعداد اپنے دشمنوں سے اپنے پامال کئے گئے حقوق کا مطالبہ کریں گے اور ان سے بدلہ لیں گے۔ مومنین اور انکے دشمنوں کی ارواح اپنے بدن میں واپس آئیں گی تاکہ مومنین اپنے دشمنوں سے اپنے اوپر کئے گئے ظلم و ستم کا بدلہ لے سکیں۔ [حق الیقین، جلد 2 صفحہ 7]۔ حدیث ۳: حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ: “وہ شخص جو رجعت کے وقت سب سے پہلے واپس آئے گا حضرت امام حسین علیہ السلام ہوں گے اور وہ اتنا عرصہ حکومت کریں گے کہ انکے انکے ابرو کے بال بڑھاپے کی وجہ سے انکی آنکھوں پر آ جائیں گے”۔ [حق الیقین، جلد 2]۔ دوسری احادیث کی مانند اس حدیث میں بھی ائمہ معصومین علیھم السلام کی رجعت کے بارے میں آیا ہے اور یہ کہ ائمہ معصومین علیھم السلام رجعت کے بعد دنیا پر حکومت کریں گے۔ اسی طرح بیان ہوا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا دوران حکومت بہت طویل ہو گا۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولیعصر امام زمانہ عج کے ظہور اور اسکے بعد رجعت اور اسکے بعد قیامت کے درمیان طویل مدت کا وقت فاصلہ ہو گا اور اس دوران اولیاء الہی حکومت کریں گے اور دنیا پر امن و دوستی کی فضا حکمفرما ہو گی۔ اس دوران ظلم و ستم کا نام و نشان مٹ جائے گا اور “نیک افراد ائمہ معصومین علیھم السلام کی حکومت کو دیکھ کر انتہائی خوشحال ہوں گے اور انکی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں گی”۔ [حق الیقین، جلد 2، صفحہ 10]۔ جو کچھ بیان ہوا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اولا رجعت یقینی اور حتمی امر ہے اور دوما یہ کہ رجعت صرف محدود تعداد میں نیک اور بدکردار افراد سے مخصوص ہے۔ انہیں نیک افراد میں سے ایک امام حسین علیہ السلام بھی ہیں جو دنیا کی طرف رجعت کرنے والے پہلے شخص ہوں گے۔ وہ یزید اور اسکے ساتھیوں سے اپنا انتقام لینے کے بعد لمبے عرصے کیلئے دنیا پر حکومت کریں گے اور دنیا پر امن و دوستی کی فضا کو حکمفرما کریں گے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.