بہارِانقلاب سے انقلابِ مہدی (عج ) تک

256

موت ہے وہ زندگی جسمیں نہ ہو انقلابکشمکشِ انقلاب روحِ امم کی حیات (علامہ اقبال) اس تیز رفتار اور ہنگامہ خیز دور میں جمادات کو بھی جمود زیب نہیں دیتا ہے۔ چہ جائے کہ انسان اور اس کی زندگی کے مختلف نظام۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں جمود نے سر اٹھایا وہاں موت نے اپنا ڈھیرا جمایا۔ مردہ انسانوں اور نظاموں کی لاشوں کو ظلم و جبر کے سرد خانوں میں ٹھونس کر ان کے تئیں یہ باور کرانا سراسر خودفریبی ہے۔ کہ یہ ابھی صحیح و سالم ہیں لیکن جب عوام میں جوشِ انقلاب انگڑائیاں لینے لگے تو یہ سرد خانے اس کی زد میں آنے سے نہیں بچ پاتے ہیں۔ نتیجتاً ان لاشوں کی حقیقت طشت از بام ہو جاتی ہے اور ان کی عفونت سے پوری دنیا الامان و الحفیظ کہتی ہے۔ جس کی تازہ مثال مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کے بہار انقلاب کی صورت میں دیکھنے کو ملتی ہے۔
بدقسمتی سے مسلم دنیا کے بیشتر ممالک بالخصوص عرب دنیا میں ضمیر فروش، خائن، بدکردار، جابر و ظالم، بے ایمان اور گمراہ حکمرانوں نے سالہا سال سے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے اور وہ جمود کو متاع حیات جان کر ہر قسم کے تغیر اور ارتقا کو اپنی موت تصور کرتے ہیں۔ لہٰذا مدت سے اسی فراق میں ہیں کہ عوام پر غفلت و بےخبری کا عالم طاری رہے۔ اس جمود کو برقرار رکھنے کیلئے ان جارح حاکموں نے ہر طرح کے جتن کئے۔ انہوں نے اپنے فرسودہ نظام کو دوام بخشنے کی خاطر کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ کوئی ایسا ہتھکنڈہ نہیں ہے جس کو انہوں نے استعمال میں نہ لایا ہو۔ کوئی ایسی منافقانہ چال نہیں جس سے انہوں نے استفادہ نہ کیا ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ مغرب بالخصوص استعماری طاقتوں کی غلامی کے پھندے کو انہوں نے کسی اعزازی میڈل سے کم تر نہیں جانا۔ حرمِ پاک کے قرب و جوار میں رہنے والے ان حاکم نما استعماری غلاموں نے وائٹ ہاوس کو ہی مرکز امید گردانا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ماسوائے اپنی ذات اور مٹھی بھر پیروکاروں کے تمام مسلمانوں کو بت پرست اور مشرک تصور کرتے ہیں۔ بقول کسے بت پرستی کے (ظاہراً)زبردست مخالف مگر ‘بش پرستی‘‘ اور ‘اوباما نوازی‘‘ میں ان کا کوئی ثانی نہیں ؂خدا سے ناامیدی بتوں سے امید یہ کافری نہیں تو پھر کیا ہے
قرآنِ مجید میں ایک مومن کیلئے جو Code of Conduct محبت و نفرت کے تعلق سے مقرر ہوا ہے اس کے مطابق ایک مومن ہرگز ہرگز دوسرے مومن سے دشمنی کرکے استعمار سے رشتہ نہیں جوڑ سکتا ہے اگر اس نے ایسا کیا تو جان لینا چاہیئے خدا کے ساتھ اسے کوئی رغبت نہیں ہے۔ لیکن استعمار کے ان کاسہ برداروں کی دوستی و دشمنی کا معیار قرآنی ہدایات کے بالکل برعکس ہے۔ انہیں حماس اور حزب اللہ جیسی تحریکوں کے ساتھ خدا واسطے کا بیر ہے۔ انقلابِ اسلامی ان کی آنکھوں میں گذشتہ تین دہائیوں سے کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے ۔یہ اسی آگ میں جلے بُھنے جا رہے ہیں کہ اگر ان تحریکوں کا جذبہ ان کی ریاستوں میں بھی نفوذ کرجائے تو ان کے اقتدار کی خیر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اسرائیل کو ہی اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔ اور امریکی چھترچھایا کو اپنے تئیں واحد محفوظ پناہگاہ سمجھتے ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کو کیا معلوم کہ حق و حقیقت بالآخر ظاہر ہو کر ہی رہتا ہے۔ اس کے اثر و نفوذ کو روکنے کیلئے جس قدر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔ اُسی قدر اُس میں اضافہ ہوا جاتا ہے۔ غالبؔ نے بھی اسی کلیہ کی جانب بڑے ہی بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے ؂پاتے نہیں جب راہ تو، تو چڑھ جاتے ہیں نالےرُکتی ہے میری طبع، تو ہوتی ہے رواں اور
اگر ان کی آنکھوں کو حقیقت بینی ذرّہ برابر بھی راس آ جاتی تو یہ طولِ تاریخ نیز معاصر عالمی منظر نامے میں اس بات کا ضرور مطالعہ اور مشاہدہ کرپاتے کہ حق پرستوں کی جماعت بڑی سخت جان ہوا کرتی ہے۔ یہ موت کی پیٹھ پر سوار ہو کر اپنی منزلِ مقصود پر خیمہ زن ہو جاتی ہے۔ جتنا اسے دبایا جائے اتنا ہی ابھرتی ہے۔ ہر چند عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے حکمران بھی ظلم و تعدی پر اُتر آئیں۔ اس جماعت سے وابستہ جیالے کبھی پست ہمت اور بد دل نہیں ہوتے۔
دنیائے عرب کے حکمرانوں کی جمود زدگی، زراندوزی، سامراج پرستی اور حق دشمنی کا تلخ ترین پہلو یہ ہے کہ بیشتر مذہبی رہنماء اس حوالے سے یا تو سکوت میں ہی اپنی عافیت جانتے ہیں یا ان ظالم و جابر ڈکٹیٹروں کی ہمنوائی میں اپنے مفادات کی تکمیل پاتے ہیں۔ کسی قوم و ملت کے لیے اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ارباب دین و مذہب اربابِ اقتدار کی پسند و ناپسند کے پیش نظر فتوے صادر کرتے ہوں۔ عالمِ اسلام سے تعلق رکھنے والے ارباب دانش نہ جانے کس طرح یہ زہریلے گھونٹ پی کر اُف تک نہیں کر پاتے ہیں کہ حرمِ پاک کے خرچے پر پلنے والے مفتیانِ عظام وقتاً فوقتاً قبلۂ اول کے غصبی قابض کی سلامتی کا اہتمام اپنے فتؤوں کے ذریعے کرتے ہیں۔ واضح رہے ایسے فتوے بارہا ارضِ مقدس مکہ سے صادر ہوئے ہیں۔ جن کے مطابق اسرائیل کے دشمن نمبر ایک کے حق میں خیر کی دعا کرنا حرام قرار پاتا ہے۔ جس کا بالواسطہ مقصد اور کیا ہو سکتا ہے کہ اسرائیل سلامت رہے پائندہ رہے۔ قبلۂ اول پر اس کا قبضہ برقرار رہے۔ اور فلسطینیوں اور لبنانیوں سے خون کی ہولی کھیلتا رہے۔ ان مفتیوں کو تیونس، لیبیا، یمن، مصر بحرین میں کلمہ گو مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی اور اسکے ردِ عمل میں عوامی خروج کی بھنک بھی جیسے نہیں پڑی ہے۔
بہرکیف دنیائے عرب کے عام انسان نے اپنے عیاش طبیعت حکمرانوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا ہے۔ انقلاب کے فلک شگاف نعروں سے قصر ہائے امارات لرزہ براندام ہو گئے ہیں۔ تیونس کے زین العابدین اور یمن کے علی عبداللہ صالح ڈکٹیٹر شپ کے مبداء سے جا ملے ہیں۔ حسنی مبارک کی بدانجامی دیکھ کر اسی قماش کے دیگر عرب حکمراں سکتے میں آ گئے ہیں اور انہیں اپنے انجام کی فکر ستا رہی ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین کے رہنما نے صدارتی الیکشن کا میدان مار لیا ہے اس انقلابی صورتِ حال کے متعلق یہ کہنا کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ جوانانِ عرب اتفاقاً اسی انداز سے اٹھ کھڑے ہوئے جیسے کوئی شخص گہری نیند سے اپنے آپ ہی جاگ جائے۔ اس طرح کے تجزیے دراصل صہیونیت زدہ عالمی میڈیا کی ریشہ دوانیوں کا حصّہ ہیں جس کا ہمیشہ سے اولین کاز یہی رہا ہے کہ دینِ محمدی ص کی تحریکی و انقلابی قوتوں کی مقبولیت اور کارناموں پر پردہ ڈال دیا جائے۔ تاکہ امریکی اسلام کے شجر کو برگ و بار ملے۔
اس کلیہ کو تسلیم کرنے میں شاید ہی کوئی صاحبِ فہم و فراست پس و پیش کرے کہ کسی بھی انقلاب کے پیچھے برسوں کی محنت شاقہ کارفرما ہوتی ہے۔ جہاں تک عرب میں عوامی بیداری کے ماخذ و مبداء کا تعلق ہے اس کے نشانات مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کی تاریخی اور عصری حالات میں بآسانی مل سکتے ہیں لیکن ایک منطقی طریقہ کار اپنا کر ہم اس کے مآخذ کی نشاندہی مزید آسان تر ہوگی اس منطقی طریقہ کار کے تحت یہ دیکھنا ہوگا کہ عرب عوام کے انقلابی ریلے کاہدف کیا تھا؟ کون سے عوامل و محرکات تھے جن سے دبے کچلے عام لوگوں کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا؟ یہ ریلا بنیادی طور عربی آمریت، اسرائیل صہیونیت اور امریکی سامراجیت پر مبنی غیر فطری تثلیث کے خلاف فطری ردِ عمل ہے کیونکہ اس تثلیث نے سالہاسال سے ان کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ اس تثلیث کے خفیہ و آشکار منصوبے جب ہی طشت از بام ہوئے، جب سالہا سال سے اسلامی انقلاب، تحریک انتفاضہ فلسطین، اور حزب اللہ لبنان پر مبنی باطل مخالف مثلث، مذکورہ تثلیث کے خلاف ڈٹا رہا۔ یہ مثلث ہی ہے جس نے وقتاً فوقتاً اسرائیل صیہونیت، امریکی سامراجیت، اور عرب کی آمریت کی روبائی کا صدِ باب کیا۔ اس طرح کے تجزیہ و تحلیل کی روشنی میں بلا خوف تردید ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی بیداری کا مظاہرہ ایک لہلہاتی فصل ہے جس کی تخم ریزی تیس سال قبل ایک مردِ بزرگ خمینی رہ نے کی تھی نیز اس فصل کی نگہبانی گذشتہ تین دہائیوں سے ایران کی اعلیٰ روحانی قیادت کر رہی ہے اور اس وقت بھی عربی انقلاب کو صحیح سمت دینے کے لئے کوشاں ہے۔
مسلم دنیا علی الخصوص عرب ریاستوں میں یہ سیاسی تغیر ملتِ اسلامیہ کے لئے کسی نیک شگون سے کم نہیں۔ البتہ جو بات ہر صاحب فکر مسلمان کو اس سلسلے میں بےچین کئے دیتی ہے وہ یہ ہے کہ عوامی سطح پر تو اسلامی بیداری کا جو مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ اُس میں قیادت کا فقدان صاف طور دکھائی دیتا ہے۔ دراصل ان سرکش آمروں نے تمام اسلام پسندوں اور جمہوریت نوازوں پر ایسا شکنجہ کسا تھا کہ ان کے بدون متبادل قیادت پنپ نہ سکی۔ عوام کا جذبۂ قربانی اور جوشِ انقلاب اپنی جگہ اس طرح کی تحریکیں قد آور قائدوں پر بھی صد فیصد نہ سہی بہت حد تک انحصار رکھتی ہیں۔
جذبۂ حریت کے تئیں عوام کا لہو اُس صورت میں رائیگاں ہو سکتا ہے اگر اس بہتے خون کو کوئی دیدہ ور رہنماء قصرِ ظلم وجود کی طرف رخ نہ پھیر دے ۔قیادت کی عدمِ موجودگی اور مسلم امت کا ‘آمادۂ پیکار بہ باطل‘‘ ہونا اس امر کی صریح نشاندہی ہے کہ اس طرح کی تمام تحریکیں ولی الامر کی طرف راجع ہونی چاہیئیں۔ تاکہ صاحبِ امر کے ظہور کی راہیں ہموار ہوں۔ کلمۂ لااِلہ کے جھنڈے تلے جتنی بھی صالح تحریکیں معاصر دنیا میں ابھریں ہیں۔ ان تحریکوں کا مدعا و مقصد یہی ہے کہ ضمیر انسانیت سے مہدئ موعود کی تحریک کا نقش محو نہ ہو نے پائے۔ صدرِ اسلام کے بعد جتنے بھی انقلابات، اسلامی اصول و افکار کے احیاء کی خاطر وقوع پذیر ہوئے، انہیں انقلابِ مہدی عج کی تمہید کہا جا سکتا ہے۔ ان تمام صالح انقلابات کی تکمیل اسی وقت ہو گی جب حضرت ولی عصر اپنی تجلی سے عالمِ وجو دو امکان کا نقشہ بدل کر رکھ دیں گے، نہ صرف نظامِ جہاں بانی کی ظاہری ہیئت کی کایا پلٹ ہو گی بلکہ ضمیر و وجدان بھی اس انقلاب سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔ ہر مثبت انقلاب بجائے خود اسی نعرے کی ترویج ہے ؂ دنیاء کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورتہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.