تقدس کے پھول

316

چند سال قبل میری نظر سے ایک دانشور کا جملہ گزرا، جس نے میری فکر پر کافی اثرات مرتب کئے، حتی آج تک میں اس جملے کے بارے میں غور کرتا ہوں اور معاشرے میں اس کے اثرات کا تجزیہ کرتا رہتا ہوں۔ اس جملے کو پڑھنے کے بعد کلام، خواہ تحریر کی شکل میں ہو یا تقریر کی صورت میں، کی ارزش پر میرا ایمان پختہ ہوگیا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ کوئی بھی بات خواہ لکھی جائے یا کہی جائے، اپنے اثرات رکھتی ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ بات جن سامعین کو مدنظر رکھ کر کہی گئی ہے وہی اس سے مستفید ہوں، بلکہ عین ممکن ہے کہ فکر انسانی سے نکلا ہوا لفظوں کا تیر کئی نسلوں بعد کے کسی انسان کی زندگی میں تغیر پیدا کر دے اور اس کی فکر کے زاویوں کو ایک نئی جہت بخشے۔ مجھے یقین ہے کہ اس پیرے کا مطالعہ کرنے والوں کے ذہن میں ضرور یہ سوال ابھر رہا ہوگا کہ وہ کونسے جملے ہیں، جنھوں نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر آمادہ کیا۔ میں اس جملے کو ایک امانت سمجھ کر اپنے قارئین کے سپرد کرتا ہوں اور ان سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ بھی اس جملے کی گہرائیوں میں اتریں گے اور معانی کے جواہر ڈھونڈ نکالیں گے۔ “اگر کسی مفکر کو تقدس کے وزنی پھولوں سے ڈھانپ دیا جائے تو اس کی فکر کی مہک عالم میں پریشان ہونے سے رہ جاتی ہے اور لوگوں کی قوت شامہ کا مختلف اور متعدد ہونا، جس طرح اس کی معنویت کو محسوس اور بیان کرسکتا ہے، کے اظہار سے محروم رہتا ہے۔”
ڈاکٹر محسن نقوی نے یہ جملہ علامہ اقبال کے بطور شاعر مشرق تقدس اور ان کی افکار سے بے اعتنائی کے لیے لکھا۔ میں نے اس جملے پر جتنا غور کیا مجھے اس کی گہرائی کا اندازہ ہوتا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اگرچہ یہ بات مفکرین کی افکار سے مخصوص کی ہے، تاہم میری نظر میں اس کا دائرہ کار اس سے بہت وسیع ہے اور ہر اس چیز پر حاوی ہے جو تقدس کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ افکار، ادارے، شخصیات، تنظیمیں غرضیکہ ہر وہ شے جو مقدس گردانی جاتی ہے اور جس سے عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے، کی حقیقت تک پہنچنا کس قدر کٹھن ہے، اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے، جسے بہت سی خوشبوں میں تمیز کا تجربہ ہوا ہو۔
حقیقت یہ ہے مسئلہ اس تمیز سے ہی مخصوص نہیں، معاشرے میں مقدسات کا تنوع اور اختلاف کئی دیگر حقائق کی جانب بھی متوجہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر محسن نقوی نے جس خوبصورت پیرائے میں اس معاشرتی مسئلے کو بیان کیا ہے، واقعاً حیران کن ہے۔ تقدس اور پھول کیا خوبصورت تشبیہ ہے۔ تقدس واقعی خوشبو دار پھولوں کی مانند ہوتا ہے۔ جب انسان کسی شے کے احترام کا قائل ہو جاتا ہے تو اپنی محبتیں پھولوں کی مانند اپنے مقدسات پر نچھاور کرنے لگتا ہے۔ یوں کسی بھی تقدس مآب شے یا وجود کی حقیقت اظہار سے رہ جاتی ہے۔
میں اس ادعا کی بہت سی مثالیں اپنے معاشرے سے پیش کرسکتا ہوں۔ قرآن کریم کو ہی لے لیجیے۔ یہ کتاب مسلمانوں کے مابین ایک مقدس مقام کی حامل ہے، علماء کرام، کم پڑھے لکھے اور ان پڑھ مسلمان بلاتخصیص اس کتاب کے تقدس کے قائل ہیں، لیکن اس تقدس میں ہم نے اس “کتاب حق” کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی کسی سے پنہاں نہیں۔ کتاب حیات آفرین، اکثر جنازوں اور قبروں پر ثواب کی غرض سے پڑھی جاتی ہے۔ وہ کتاب جسے دستور حیات ہونا چاہیے، ہفتوں الماریوں، طاقوں اور ارفع مقامات سے نیچے نہیں اتاری جاتی کہ مبادا بے ادبی نہ ہوجائے۔
قرآن کے تقدس کی اس رائج روش نے بجائے کتاب کی اہمیت و افادیت میں اضافہ کرنے کے ایک ایسی ذہنی ساخت کو جنم دیا ہے جس میں غور و فکر کا شائبہ تک نہیں۔ ہم نے قرآن کریم کے بہت سے تراجم لکھے اور کئی زاویوں سے تفاسیر کیں، لیکن کبھی اس کتاب میں موجود سماجی، معاشرتی، معاشی، وراثتی، سیاسی، حکومتی، سائنسی معلومات میں تخصص کی کوئی راہ نہ نکالی۔ اسلامی ممالک میں شاذ ہی کوئی ایسا ادارہ ہو، جو قرانی علوم کی تخصصی تعلیم دیتا ہو۔ شخصیات کا معاملہ بھی اس سے جدا نہیں۔ وہ نام جنھیں ہم چومتے چومتے نہیں تھکتے کی حقیقی تعلیمات ہمارے قریب سے نہیں گزرتیں، بلکہ اکثر ہماری روش ان تعلیمات کے منافی ہوتی ہے۔ میری مندرجہ بالا معروضات سے ہرگز یہ پیغام نہ جائے کہ میں مقدسات کا قائل نہیں ہوں۔
کسی حکیم کا قول ہے کہ ہر وہ شے جو خالق کائنات سے مربوط ہے یا اس سے صادر ہوئی ہے قابل احترام اور لائق تقدس ہے۔ اسی لیے شریعت، انبیاء، فرشتے، بیت اللہ، حجر اسود، کتاب اور بذات خود انسان سب مقدس ہیں۔ اسی طرح سچ، عدالت، انصاف، آزادی نیز ہر وہ صفت جس کا تعلق کمال انسانی سے ہے مقدس ہے۔ جو بھی شے ان مقدسات سے جس قدر متمسک ہوگی یا جس وجود میں بھی ان مقدسات کا جتنا جتنا پرتو نظر آئے گا، وہ شے یا وجود مقام تقدس میں اتنے ہی ارفع ہوں گے۔ تو معلوم ہوا کہ ہمارا نظریہ تقدس عقلی دلائل اور معرفت کی بنیاد پر ہے، یعنی تقدس سے مراد کہیں بھی عقل کا معطل ہو جانا مطرح نہیں ہوتا۔ تقدس کا تعلق کسی صورت بھی جہل یا تعصب سے نہیں ہے۔ کتاب مقدس میں جابجا اس جانب اشارہ کیا گیا ہے:”تم غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟ تم تدبر کیوں نہیں کرتے؟ تم متوجہ کیوں نہیں ہوتے؟ تم عقل استعمال کیو ں نہیں کرتے؟”
سیرت رسول اکرم (ص) اور آئمہ اطہار (ع) میں بھی ہمیں بار بار چیزوں پر غور کرنے اور اندھا دھند اعتقاد سے روکا گیا ہے۔ احادیث کی حقیقت کو پرکھنے کے لیے فرمایا کہ وہ احادیث جو قرآن سے مطابقت نہ رکھتی ہوں، کو (قول معصوم سمجھ کر مقدس مت جانو بلکہ) دیوار پر دے مارو۔ پس ضروری ہے کہ آج بھی مقدسات کو عقل کی بنیاد پر پرکھا جائے اور دلیل و معرفت کے ساتھ ان پر ایمان لایا جائے۔ میں اپنے پہلے پیش کردہ جملے کو دوبارہ دہراﺅں گا کہ تقدس کی بنیاد عقلی دلائل اور معرفت ہے، اس کا تعلق جہالت اور تعصب سے نہیں۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.