خواتين سے متعلق فعاليت و جدوجہد کے اغراض و مقاصد

168

اسلامي انقلاب کي کاميابي ميں خواتين کا کرداراسلامي انقلاب کي کاميابي کے بعد خواتين کے حقوق کے دفاع ميں بہت زيادہ تيزي آئي ہے۔ حقيقت تو يہ ہے کہ انقلاب کے بعد ہي ايراني عورت کي تکريم و تجليل کي گئي ہے اور اِس تجليل اورعظمت کي بيان کرنے والي سب سے پہلي ہستي حضرت امام خميني۲ کي تھي کہ جو اپنے پورے وجود کے ساتھ مسلمان اور ايراني خواتين کي اہميت و احترام کے قائل تھے۔ اُن کے اِس تفکر اور اورنگاہ کي وجہ سے ملک کي خواتين کو اسلامي انقلاب ميں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ درحقيقت اگر خواتين ايراني قوم کي اس انقلابي تحريک ميں شامل نہيں ہوتيں تو اِس بات کا زيادہ احتمال تھا کہ يہ انقلاب اِس شکل ميں کاميابي سے ہمکنار نہيں ہوتا يا سرے سے ہي کامياب نہيں ہوتا، يا پھر اُسے بڑي بڑي مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اِس بنائ پر خواتين نے انقلاب کيلئے مشکل کشائي کا کام انجام ديا ہے۔ جنگ ميں بھي خواتين نے يہي کردار ادا کيا اورانقلاب کے ديگر مسائل ميں بھي ابھي تک اِسي طرح ہوتا رہا ہے۔ بنابرايں،حقوق نسواں کيلئے بہت زيادہ کوششيں کي گئي ہيں ليکن اس کے باوجود خواتين کے مسائل کے حل ، حقوق کے اثبات، اُن پر ہونے والے ظلم کے خاتمے اور اُن کي فعاليت کي زمين ہموار کرنے کيلئے لازمي ہے کہ وسيع پيمانے پر ثقافتي کام انجام پانے چاہئيں۔ ميں آج اس نيت سے يہ گفتگو کررہا ہوں تاکہ اس ثقافتي ماحول اور فضا کو وجود ميں لانے ميں مدد ہوسکے۔ اگر معاشرے کي ثقافتي فضا خواتين کے مسائل کے بارے ميں شفاف ہوجائے اور اسلامي احکام اورقرآني تعليمات اِس بارے ميں واضح ہوجائيں تو يہ راستہ ہموار ہوجائے گا اوريوں ہماري خواتين ايک عورت کے شايستہ مقام اور اپني غايت تک پہنچ سکيں گي۔ اگرچہ کہ يہ بحث و گفتگو ہے، سخن ہے، ايک بات اپنے کہے جانے کے مراحل سے گزر رہي ہے ليکن در حقيقت اپنے اِسي مرحلے ميں عمل بھي ہے۔ اس ليے کہ يہ بحث و گفتگو معاشرے کي ثقافتي فضا کو شفاف اوراذہان کو روشن کردے گي۔
حقوقِ نسواں سے متعلق چند اہم ترين سوالاتہم ان گزشتہ چند سالوں ميں خواتين کے مسائل کے بارے ميں ملک کي فکري اورثقافتي فضا ميں قابل ستائش کاموں اور جدوجہد کا مشاہدہ کررہے ہيں۔ ليکن يہاں ايک بنيادي نکتے کي طرف اشارہ ضروري ہے اور وہ يہ ہے کہ جب ہم خواتين کے حقوق يا اُن کے کمال و ترقي، اُن سے ظلم کے خاتمے اور خود خواتين کے بارے ميں بحث کرتے ہيں تو ان تمام گفتگو سے ہمارا کيا ہدف ومقصد ہوتا ہے؟ يہ ايک ايسا سوال ہے کہ جس کا جواب ہر صورت ميں ديا جانا چاہيے۔دوسرا سوال يہ ہے کہ معاشرے ميںخواتين کو اُن کے حقيقي مقام و منزلت دلانے کيلئے ہميں کون سے شعار اور نعروں سے استفادہ کرنا چاہيے اوراس ہدف تک رسائي کيلئے ہم کون سے وسائل کو بروئے کار لائيں؟ چونکہ آج مغربي ممالک اور اسي طرح اُن ممالک ميں جو مغربي ثقافت زدہ ہيں يا اُنہي کي بتائي ہوئي ثقافتي راہ پر گامزن اور اُس کے زير سايہ زندگي بسر کررہے ہيں، حقوق نسواںنامي تحريک وجود رکھتي ہے اور وہاں بھي خواتين کي باتيں، فيمين ازم (Feminism) اور حقوق زن کے دفاع کي نيت سے ايک بحث وگفتگو کا سلسلہ جاري ہے۔ کيا آج جو ہم ايران ميں بيان کررہے ہيں يہ سب وہي ہے ؟ کيا اُس جيسا ہے يا اُس سے بالکل مختلف ہے؟چنانچہ اس مسئلے کيلئے اس سنجيدہ سوال کو بيان کيا جانا چاہيے نيز لازمي ہے کہ اُس کا جواب بھي اُسي طرح سنجيدگي سے ديا جائے۔ ميں آج اِس سلسلے ميں تھوڑي بہت گفتگو کروں گا اوراس بارے ميں اسلام کي نظر کو بطور خلاصہ آپ کي خدمت ميں عرض کروں گا۔خواتين کے اپنے نقطہ مطلوب تک پہنچنے کيلئے ثقافتي اورخواتين کے حقوق کي جدوجہد کيلئے اجتماعي اورانفرادي لحاظ سے دو ہدف تصور کيے جاسکتے ہيں۔
١۔ ہدف، انساني اوراسلامي کمال تک عورت کي رسائي ہوالف: پہلا ہدفايک ہدف يہ ہے کہ ہم عورت کے اُس کے کمال تک پہنچنے کيلئے خود اپنے وجود کو بروئے کار لائيں، جدوجہد کريں، موانع سے مقابلہ کريں، قلم اٹھائيں اور گفتگو کريں۔ يعني عورت معاشرے ميں اولاً اپنے انساني اور حقيقي حق کو پائے، ثانياً اُس کي استعداد و صلاحيتيں پروان چڑھيں، وہ اپنے حقيقي اور انساني رشدکو حاصل کرے، نتيجے ميں اپنے انساني کمال تک پہنچے اور معاشرے ميں ايک انسان کامل کي صورت ميں ظاہر ہو۔ايک ايسا انسان جو اپنے معاشرے اور عالم بشريت کي ترقي و بہبود کيلئے قدم اٹھائے اوراپني محدود توانائي کو بروئے کار لاتے ہوئے اپني اس دنيا کو خوبصورت جنت اور بہشت بريں ميں تبديل کردے۔
ب: دوسرا ہدفدوسرا ہدف يہ ہے کہ ہم اپني اس گفتگو ، جدوجہد اور اس مقابلہ کرنے کي وجہ سے چاہيں کہ ان دوجنس ، مرد و عورت کے درميان جدائي ، رقابت اورنزاع کي حالت ميں پيدا کريں اور رقابت و دشمني کي بنا پر ايک نئي دنيا کي بنياد رکھيں۔ گويا اس انساني معاشرے ميں مرد ايک طرف ہيں اور خواتين ان کے مد مقابل اور يہ دونوں کسي نہ کسي مقام تک پہنچنے کيلئے آپس ميں لڑرہے ہيں اورخواتين يہ چاہتي ہيں کہ وہ يہاں مردوں پر غالب آجائيں ۔ کيا ہمارا ہدف يہ ہے؟پس اس جدوجہد ، حرکت يا پھر اس تحريک کے ہدف کے بارے ميں دو قسم کے نظريات تصور کئے جاسکتے ہيں۔ ايک ہدف کا نظريہ اسلامي ہے جبکہ دوسرا ہدف ، ناقص نظر سے متعلق ہے۔ مغربي ممالک ميں ہونے والي اکثر کوششيں سب سے زيادہ اِسي دوسرے ہدف کا نتيجہ ہوتي ہيں۔ اپني گفتگو کے دوران ہم اِس بارے ميں مزيد وضاحت کريں گے۔ ليکن ايک سوال کاجواب ضرور واضح ہونا چاہيے کہ خواتين کے حقوق يا اُن کے مسائل کيلئے کي جانے والي کوششوں کا ہدف کيا ہے؟
٢۔ روش اور شعار کو اسلامي ہونا چاہيےدوسرا سوال کہ جس کي اہميت بھي پہلے سوال کي مانند بہت زيادہ ہے، يہ ہے کہ جب ہم عورت کے نام سے سخن کا آغاز اور اُس کا دفاع کرتے ہيں تو کون سے نعرے اور شعار لگاتے ہيں، کس چيز کا مطالبہ کرتے ہيں اور کس ہدف تک رسائي کيلئے کوشش کرتے ہيں؟ يہ بہت اہم بات ہے يہاں پر بھي اسلامي روش يعني وہ چيز جو عورت کے بارے ميں اسلامي تعريف، احکامات اور تعليمات سے سمجھي جاسکتي ہے، اُس چيز سے بہت تفاوت رکھتي ہے کہ جوآج مغرب ميں موجود ہے۔
مغرب ميں آزادي کا غلط مفہومآج جو چيز مغرب ميں ايک شعارو نعرے کي حيثيت سے موجود ہے اُس ميں خواتين کي آزادي سرفہرست ہے۔ آزادي کا لفظ بہت وسيع مفہوم رکھتا ہے اور مختلف معاني کو اپنے دامن ميں سميٹے ہوئے ہے، قيد سے آزادي ، اخلاق سے آزادي کيونکہ اخلاق بھي ايک قسم کي قيد وبندہے، مرد کے سوئ استفادہ سے آزادي کہ جہاں مرد ايک عورت کو کم تنخواہ کيلئے کارخانے ميں کام کرنے پر مجبور کرتا ہے، اِ س آزادي ميں ان قوانين سے آزادي بھي شامل ہے کہ جو ايک بيوي کو شوہر کے مقابلے ميں پابند بناتے ہيں غرضيکہ آزادي ميں يہ تمام معاني شامل ہيں۔ خواتين سے متعلق اِن شعار ميں بہت سے ايسے مطالب اور مطالبات بھي شامل ہيں جو مکمل طور پر ايک دوسرے سے تضاد رکھتي ہيں۔ بالآخر آزادي کا معني کيا ہے؟افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب ميں اس آزادي سے جومعني سمجھا گيا ہے وہ غلط اور نقصان دہ ہے يعني يہي خاندان ( کي ظاہري) قيد وبند ١ سے آزادي ، مرد کے مطلق نفوذ سے آزادي حتيٰ شادي ، خاندان کي تشکيل اور اوراولاد کي تربيت کي قيد سے آزادي۔ جہاں بھي يہ امور شہوت راني و جنسي خواہشات کي آزادنہ تکميل کے مقابلے ميںسامنے آتے ہيں تو اپني شہوت پرستي کو آزادي کا نام دے ديا جاتا ہے نہ کہ آزادي کا صحيح معني ان کے پيش نظر ہو۔ لہٰذا آپ ملاحظہ کيجئے کہ مغرب ميں کي جانے والي آزادي کي گفتگو ميں اسقاط حمل کي آزادي بھي شامل ہے۔ يہ بہت ہي اہم نکتہ ہے جو ظاہر ميں بہت ہي سادہ ليکن در حقيقت بہت ہي خطرناک اور بہت زيادہ قابل ِ اہميت ہے۔ اسقاط حمل کي آزادي کا نعرہ و مطالبہ آج مغرب ميں بہت عام ہے لہٰذا اس مسئلے کو آزادي نسواں کي تحريک کے زمرے ميں بيان کيا جاتا ہے۔١ مغربي خانداني نظام زندگي ميں جہاں مياں بيوي اپني جنسي اور ديگر خواہشات کي تکميل کيلئے ايک دوسرے پر اکتفا نہيں کرتے تو ايک مياں يا بيوي پر اکتفا کرنا يا ديگر خانداني قوانين کي پابندي کرنا خود اہل مغرب کيلئے ايک قسم کي قيدوبند ہے کہ جس سے چھٹکارے کانام وہاں آزادي رکھا گيا ہے۔ (مترجم)ايک صحيح نظام، ايک (غلط چيزسے) صحيح مقابلے اور ايک صحيح مطالبے ميں يہ غير ممکن ہے کہ اُس کا ہدف اتنا وسيع ہو اور اُس کا ايک حصہ قطعي طور پر اتنا مضر ہو اگرچہ ممکن ہے کہ کچھ اور حصے مفيد ہوں لہٰذا اس سے بہتر مناسب ، تر اورصحيح شعار کي تلاش ميں نکلنا چاہيے۔ميري گفتگو کا اصلي محور آپ محترم خواتين مخصوصاً جوان لڑکياں ہيں کہ آپ اس دنيا ميں لمبي زندگي گزاريں گي لہٰذا آپ کو چاہيے کہ اس دنيا ميں خداوند عالم نے انساني کمال کيلئے جو امکانات رکھے ہيں اُن سے صحيح استفادہ کريں، اُن کي صحيح شناخت حاصل کريں اور ان کے صحيح راستے سے آشنا ہوں۔ اِس کيلئے آپ کو فکر کرنے کي ضرورت ہے۔ اگر آپ کيلئے خواتين سے ظلم کے خاتمے کا مسئلہ بيان کيا جائے گا تو آپ کو جاننا چاہيے کہ جو کچھ بيان کيا جارہا ہے وہ کيا ہے اور جو چيز آپ کيلئے لازمي ہے وہ کيا ہے؟اور جو آپ کيلئے نقصان دہ ہے وہ کيا امور ہيں؟ لہٰذايہ نکتہ آپ کيلئے بہت اہميت کا حامل ہے۔
٣۔ جدوجہد ، تقليدي اور کسي سے متاثر نہ ہوہر اجتماعي تحريک اُس وقت صحيح کہلائے جانے کي مستحق ہے اور اُس وقت صحيح نتائج کو حاصل کرے گي کہ جب وہ عقل وخرد، غوروفکر، تشخص کي قوت،مصلحت شناسي اور عقل و منطقي اصولوں پر قائم ہو۔حقوق زن کے اثبات ونفاذ کيلئے چلائي جانے والي ہر تحريک ميں انہي مطالب کو مدنظر رکھنا چاہيے، يعني ہر قسم کي تحريک کو عاقلانہ بنيادوں اور عالم ہستي کے حقائق کے مطابق يعني مرد و عورت کي جداگانہ طبيعت و مزاج اور فطرت سے آشنائي،مرد اورخواتين کي اپني اپني خاص ذمہ داريوں اور مشاغل کي پہچان اور ہر اُس چيز کي شناخت کے ہمراہ ہو جو اُن کے درميان مشترک ہوسکتي ہے، انجام پانا چاہيے اور يہ کوشش اور جدوجہد کسي سے متاثر ا ورتقليدي نہ ہو۔ اگرکوئي تحريک کسي دوسري تحريک سے متاثر ہو اوراندھي تقليد پر اُس کي بنياد رکھي جائے تو وہ نقصان دہ ثابت ہوگي۔اگر کچھ لوگ ہمارے ملک و معاشرے ميں خواتين اور ان کے حقوق کي اس لئے بات کريں کہ مغربي مجلات يا مغرب کے سياسي افراد کي رپورٹ ميں ايران پر اِس بات کا الزام لگايا جاتا ہے کہ ايران حقوق نسواں کا خيال نہيں رکھتا ہے ، تو اس مقصد کے ساتھ کام کرنا سراسر غلطي ہے۔ اس ہدف کے ساتھ اس ميدان ميں قدم نہيں رکھنا چاہيے کيونکہ يہ راستہ انحراف وغلطي پر ہي ختم ہوگا۔ اگرہم اس ہدف کے ساتھ خواتين کے دفاع کے ميدان ميں قدم رکھيں کہ ہم کہيں مغرب سے پيچھے نہ رہ جائيں تو يہ غلطي ہے يا اگر اس قصد سے وارد ميدان ہوں کہ وہ ہم پر بري اور منفي نظر نہ ڈاليں يا اس تصور وخيال سے حقو ق نسواں کيلئے اقدامات کريں کہ مغرب و يورپ نے اس سلسلے ميں بالکل صحيح راستے کا انتخاب کيا ہے تو يہ بھي ہماري بہت بڑي غلطي ہے۔ ان تمام اہداف اور نيت کے ساتھ ميدان عمل ميں قدم رکھنا سراسر غلطي ہے۔افسوسناک بات يہ ہے کہ آج ہم کچھ ايسے مقالات کا مشاہدہ کررہے ہيں جو خواتين کے دفاع ميں تحرير کيے جاتے ہيں اور خواتين کے حقوق کے اثبات کيلئے مختلف قسم کي سخن و گفتگو زبا ن پر جاري ہوتي ہيں ليکن يہ سب (مغربي ثقافت ومعاشرے ميں خواتين کيلئے کي جانے والي فعاليت کا) ردّ عمل ہے اور اُن سے مرعوب و متاثر بھي ہے۔ ان سب کي وجہ يہ ہے کہ چونکہ اہل مغرب فلاں بات کہتے ہيں، اہل يورپ نے اس طرح لکھا ہے اور ہماري طرف فلاں بات کي اس طرح نسبت دي ہے (تو ہم ان کي بات کے مقابلے ميں اس طرح لکھيں گے يا تحرير کريں گے)۔ اگر ہم حقوق نسواں کے بارے ميں اپنے دفاع کيلئے ايسي کوئي بات کريں يا کوئي قدم اٹھائيں تو يہ ہمارا اقدام مکمل طور پر ہميں ہمارے صحيح ہدف سے منحرف کردے گا۔ ہميں تو يہ ديکھنا چاہيے کہ عالم ہستي ميں جو حقائق ہيں وہ کيا ہيں؟ کيونکہ يہ حقائق سب سے زيادہ اسلامي تعليمات ميں موجود ہيں۔
٤۔ جدوجہد کو اسلامي آئيڈيل کے مطابق ہونا چاہيےاسلام، انساني کمال اورارتقا کا طرفدار ہے اور اس بارے ميں اسلام مرد وعورت کے درميان کسي قسم کے فرق کا قائل نہيں ہے۔ اسلام کي نظر ميں مرد يا عورت ہو نا اہم نہيں بلکہ ان کا روحاني ارتقا اورکمال اُس کے پيش نظر ہے۔ ايک جگہ مرد کے متعلق بات کي جاتي ہے تو دوسري جگہ خواتين کے بارے ميں، ايک جگہ خواتين کي عظمت و بزرگي کو بيان کيا جاتا ہے تو دوسرے مقام پر مرد کوسراہا جاتا ہے چونکہ دونوں پيکر بشريت کے حصے ہيں اور وجود بشري کي تکميل دونوں کے وجود سے ہے۔ يہ دونوں موجود اپنے بشري اور خدائي جہت کے لحاظ سے آپس ميں کوئي فرق نہيں رکھتے۔ يہي وجہ ہے کہ جب خداوند عالم اچھے يا برے انسانوں کيلئے مثال بيان کرنا چاہتا ہے تو عورت کي مثال پيش کرتاہے۔ ”ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً لِلَّذِينَ کَفَرُوا امرَآَتَ نُوحٍ وَّ امرَآَتَ لُوطٍ‘‘ اور جب اہل ايمان کيلئے مثال بيان کرتا ہے تو ”امرَآَتَ فِرعَونَ‘‘ کو پيش کرتا ہے ۔ دونوں جگہ خداوند عالم نے ا چھي اور بري راہوں کي مثال ميں عورت کو ذکر کيا ہے۔
مرد وعورت ہونا اہم نہيں بلکہ وظيفے کي ادائيگي اہم ہےاسلام کيلئے مرد يا عورت ہونا اہم نہيں ہے (بلکہ اصل چيز ذمے داري اور وظيفے کي ادائيگي ہے)۔ اسلام کے نزديک اہم چيز بشري ارتقا ، اخلاق اوراستعداد وصلاحيت کا پروان چڑھنا ہے او وہ وظائف اور ذمے دارياں ہيں جو ان دونوں جنس سے مربوط ہيں، اسلام کے نزديک يہ امور اہميت رکھتے ہيں اور اِس کيلئے دونوں کي طبيعت و مزاج اورفطرت کے تقاضوں کو سمجھنے کي اشدضرورت ہے۔ يہ اسلام ہي ہے جو مرد و عورت کي طبيعت ومزاج سے اچھي طرح واقف ہے۔ جو چيز اسلام کے پيش نظر ہے وہ توازن اورعدالت ہے يعني تمام انسانوں سميت مرد وعورت کے درميان عدالت کي رعايت کرنا۔ اسلام مردو عورت کے درميان حقوق کي برابري کو بيان کرتا ہے ليکن بعض مقامات پر ممکن ہے کہ مردوں کے احکامات ، خواتين سے فرق رکھتے ہوں جيسا کہ مرد وعورت کي طبيعت ومزاج، بعض عادات وخصوصيات ميں ايک دوسرے سے مختلف ہيں۔ بنابرايں ، مرد و عورت کے مابين سب سے زيادہ حقائق اور فطري مسلمات اورخاص بشري عادات و خصوصيات سے متعلق احکامات صرف اسلامي تعليمات ميں ہي موجود ہيں۔
حقوق نسواں کے دفاع کي لازمي شرائطاگر ہم آج ملک کي خواتين کے بارے ميں ايک حقيقي تحريک شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں تاکہ خواتين اپنے مطلوب مقام تک پہنچ سکيں تو ہميں چاہيے کہ اسلامي احکامات کو ہرصورت ميں مدنظر رکھيں اور انہي کو اپنا مرکز و محور قرار ديں۔ ہماري روش اورطريقہ عمل کو اسلامي احکامات ہي معين کرتے ہيں۔ اسلام ہر اُس روش اور طريقہ کار کو پسنديدگي کي نگاہ سے ديکھتا اور قبول کرتا ہے جو عقل و خرد کے اصولوں کے عين مطابق ہو۔ اگر کسي جگہ سے کوئي تجربہ ملے تو وہ اسلام کو قبول ہے ليکن اندھي تقليد کسي بھي صورت ميں اسلام کو قبول نہيں ہے، يعني دوسروں کے تجربات اور عاقلانہ اور خردمندانہ اطوار و روش درست ہے ليکن اندھي تقليد منع ہے۔ لہٰذا آج جو افراد ہمارے ملک ميں حقوق نسواں اور خواتين کے رشد اور اُن کي استعداد و صلاحيتوں کو پروان چڑھانے کي جدوجہد ميں مصروف ہيں انہيں چاہيے کہ وہ يہ ديکھيں کہ وہ کس ہدف کے حصول کيلئے سر گرم عمل ہيں اور انہيں اس ہدف تک رسائي کيلئے کن شعاروں ،نعروں اورمنصوبوں کو بيان کرنا چاہيے۔
ہدف و مقصد صرف اسلامي ہوجي ہاں! اسلامي معاشرے اور ہمارے سماج ميںخواتين کے حقوق کے اثبات ونفاذ کيلئے حتماً کوششيں کي جاني چاہئيں ليکن اسلامي افکار وتعليمات کے ساتھ اور اسلامي ہدف کے حصول کي خاطر۔ کچھ افراد يہ نہ کہيں کہ يہ کون سي (اسلامي) تحريک اور جدوجہد ہے،کيا ہمارے سماج ميں عورت کو کسي چيز کي کوئي کمي ہے؟ اگر بعض افراد ايسي فکر کے حامل ہوں تو يہ قابل افسوس بات ہے اور يہ صرف ظاہري صورت حال کو مدنظر رکھنے کے مترادف ہے۔ عورت ہمارے معاشرے سميت دنيا کے تمام معاشروں ميں ظلم و ستم کا نشانہ بني ہے اور وہ ہميشہ اپنے حقوق کے لحاظ سے کمي کا شکار رہي ہے اور يہ سب اُس پر تھونپي جانے والي چيزوں کا نتيجہ ہے۔ ليکن اُس کے حقوق کي ادائيگي ميں يہ کمي و کوتاہي بے بند وباري اورہر قسم کي قيد وشرط سے آزادي کي طرف سے ہونے والي کمي و کوتاہي نہيں ہے بلکہ يہ مختلف شعبہ ہائے زندگي اور علم و معرفت ، تربيت و اخلاق اور صلاحيتوں کو پروان چڑھانے کيلئے وقت و لمحات سے صحيح استفادہ نہ کرنے کي کمي اور کوتاہي ہے ۔ لہٰذا اِس کمي اور کوتاہي کو برطرف کرنے اور اس کا ازالہ کرنے کيلئے کوشش کرني چاہيے اور يہ وہي چيز ہے کہ جس پر اسلام بہت زيادہ تاکيد کرتا ہے۔اگر اسلامي معاشرہ، خواتين کي اسلامي آئيڈيل شخصيات يعني حضرت زہر علیھا السلام ، حضرت زينب علیھا السلام اور باعظمت خواتين جو دنيا اور تاريخ کو متاثر کرسکيں ،کے زير سايہ تربيت کرسکے تو اس وقت عورت اپنے حقيقي بلند مقام کو حاصل کرلے گي۔ اگر عورت معاشرے ميں علم و معرفت ،معنوي کمالات اور اخلاق کے عالي ترين درجات کو حاصل کرے جو خداوند عالم نے تمام انسانوں کيلئے خواہ وہ مرد ہوں يا عورت، ايک آئين کي صورت ميں مدنظر رکھا ہے تو نتيجے ميں اولاد کي بہترين تربيت ہوگي، گھر کا ماحول پہلے کي نسبت زيادہ محبّت و چاہت والا ہوگا، انساني معاشرے کيلئے پہلے کي نسبت ترقي کي راہيں زيادہ کھليں گي اور زندگي کي مشکلات زيادہ آساني سے حل ہوجائيں گي يعني مرد و عورت دونوں خوشبختي سے ہمکنار ہوں گے۔ ان اہداف کے حصول کيلئے کوشش کرني چاہيے کيونکہ ہدف يہي ہے۔ اس تمام تحريک و فعاليت کا مقصد صنف نازک کے مقابلے ميں صف آرائي اور مرد و عورت کے درميان عداوت و رقابت ايجاد کرنا نہيں ہے بلکہ ہدف يہ ہے کہ خواتين و لڑکياں وہي کام انجام ديںسکيں کہ جس کے مطابق مردوں نے جب بھي قدم اٹھايا وہ عظيم انسان بنے تو خواتين بھي اسي راہ کے ذريعے عظيم انسان بن سکيں۔ يہ عين ممکن ہے اور اسلام ميں يہ بات تجربہ شدہ ہے۔
آمنہ بنت الہديٰ ، ايک جليل القدرخاتون!ميري بہنو!ميري بيٹيو اور اسلامي ملک کي خواتين ! آپ جان ليجئے کہ ہر زمانے ، ہر ماحول اور ہر گھرانے ميں عورت نے اس طرح کي تربيت کے ساتھ رشد کيا ہے اور اپني عظمت کو پايا ہے ۔ يہ بات صدراسلام کي خواتين ہي سے مخصوص نہيں تھي بلکہ کفر اور ظلم و تشدد کے سياہ ترين دور ميں بھي يہ سب ممکن ہے ۔ اگر ايک گھرانے نے اپني بيٹي کي اچھي طرح تربيت کي ہے تو يہ بيٹي ايک عظيم انسان بني ہے۔ اس کي زندہ مثاليں ايران، ايران سے باہر اور خود ہمارے زمانے ميں موجود تھيں۔ ہمارے اسي زمانے ميں (اسلامي انقلاب کي کاميابي سے قبل) ايک جوان، شجاع ،عالمہ ، مفکر اور ہنرمند خاتون ”بنت الہديٰ‘‘ (آيت اللہ سيد محمد باقر شہيد ۲ کي خواہر) نے پوري تاريخ کو ہلا کر رکھ ديا، وہ مظلوم عراق ميں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے ميں کامياب ہوئيں اور درجہ شہادت کو حاصل کيا۔ بنت الہديٰ جيسي خاتون کي عظمت و شجاعت ، عظيم مردوں ميں سے کسي ايک سے بھي کم نہيں ہے۔ اُن کي فعاليت ايک زنانہ فعاليت تھي اور ان کے برادر کي جدوجہد و فعاليت ايک مردانہ کوشش تھي ليکن دونوں کي جدوجہد و فعاليت دراصل کمال کے حصول اوران دونوں انسانوں کي ذات اور شخصيت کے جوہر و عظمت کي عکاسي کرتي تھي۔ اس قسم کي خواتين کي تربيت و پرورش کرني چاہيے۔خود ہمارے معاشرے ميں بھي ان جيسي خواتين کي تعداد بہت زيادہ ہے۔ شاہي ظلم کے زمانے ميں کم و بيش ايسي مثا ليں ہمارے پاس موجود ہيں۔ شاہي حکومت سے مقابلے اور اسلامي نظام کے قيام کے زمانے ميں بہت سي عظيم خواتين تھيں۔ ان عظيم القدر خواتين نے اپنے دامن ميں شہدا کي پرورش کي ، انہوں نے اپنے شوہروں يا فرزندوں کو فداکار انسانوں کي صورت ميں معاشرے کو تحويل ديا تاکہ وہ اپنے وطن و انقلاب اور اپني قوم اور اُس کي عزت وآبرو کا دفاع کرسکيں۔ يہ سب ان عظيم خواتين کا صلہ ہے اور يہ خواتين بڑے اور عظيم کاموں کو انجام دينے ميں کامياب ہوئي ہيں کہ جن کي ايک کثير تعداد سے ميں خود آشنا ہوں۔
حقوق نسواں کي طرف مغرب کے مجددانہ رجوع کي وجہآج ان لوگوں کي کثير تعداد جو سينے پر حقوق نسواں کا تمغہ لگائے پھرتے ہيں دراصل وہ مغرب کي دي ہوئي آزادي اورہر قسم کي قيد و شرط سے آزاد زندگي کا تمغہ لگائے ہوئے ہيںوہ درحقيقت اہل مغرب کي تقليد کررہے ہيں۔ يہي افراد ہيں جو کبھي قلم اٹھا کر کچھ لکھ ديتے ہيں۔ انقلاب کي کاميابي کے اٹھارہ سال ١ بعدخواتين کي ظاہر ہونے والي عظمت و بزرگي ميں ان افراد کا کوئي کردار اور حصہ نہيں ہے۔ ان افر اد کي کثير تعداد صرف اپني جيب کي فکر، درآمد کے حصول،اپنے راحت و آسائش اوراپني زينت و آرائش کے وسائل کي جمع آوري ميں مصروف تھي۔ ان افراد کو کوئي فضيلت وبزرگي حاصل نہيں ہے اور ان کا استعمال شدہ (مغربي) نسخہ غلط تھا۔ اگر خواتين کے بارے ميں مغربي نسخہ صحيح ہوتا تو مغرب مجبور نہ ہوتا کہ ستر، اسي ، سو سال بعد ايک دفعہ پھر حقوق زن کي تحريک کو از سر نو شروع کرے کہ ابھي کچھ سالوں اورکچھ دہائيوں قبل انہوں نے يہ تحريک شروع کي ہے۔ابھي دس ،بيس سال ہي ہوئے ہيں کہ انہوں نے خواتين کے حقوق اور اُن کي آزادي کے عنوان سے کچھ اور تحريکيں دوبارہ شروع کي ہيں۔سوال يہ ہے کہ آخر کيوں؟ اگر مغرب کي دي ہوئي آزادي،کامياب اور مکمل آزادي ہوتي اوراگرخواتين کے حقوق کا دفاع، ايک سچا اور حقيقي دفاع ہوتا تو پھر اس کي کيا ضرورت تھي کہ سو سال بعدکچھ افراد آئيں اورتحريک دوبارہ شروع کريں اور شور وغوغا برپا کريں۔ پس معلوم ہوا کہ اُن کا وہ نسخہ بھي غلط تھا اور يہ نسخہ بھي غلط ہے اور اس کا نتيجہ سوائے مرد و عورت بالخصوص عورت کيلئے بدبختي اور مشکلات کھڑي کرنے کے علاوہ کسي اور صورت ميں سامنے نہيں آئے گا۔———–١ يہ خطاب ١٩٩٧ کا ہے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.