مفهوم و منطوق

766

اقسام مفهوم :
مفهوم کی دو قسمیں هیں ۔اگر حکم مفهوم و منطوق میں ایک دوسرے کے موافق هوں هون تو اسے مفهوم موافق کهاجاتا هے اور اس کی دو قسمیں هیں ،کبھی لفظ مفهوم بر پر اولویت کے ذریعے دلالت کرے تو اسے مفهوم اولویت کهتے هیں جیسے قرآن میں آیا هے:”*فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ” * 1اس آیهء کریمه میں ماں باپ کو برابھلا کهنا حرام قرار دیا گیاهے کیونکه جب آیت کا منطوق یه هے که ماں باپ سے ایسی بات نه کرنا جو ان کی ناراضگی کا سبب هو تو اس کا مفهوم یه هے که ان کو برابھلا کهنا او رانهیں ر ان سے گالی گلوج کرنا او رانهیں مارنا پیٹنا به درجه ء اولیٰ حرام هوگا ۔اور کبھی منطوق و مفهوم بطور مساوی ایک دوسرے پر دلالت کرتے هیں جیسے قیاس منصوص العله-2 کے موارد جیسے یه کها جائے :””لاتشرب الخمر لانه مسکر “” انگور کی شراب مت پیو که اس سے نشه چڑھتا هے ، اس کا مفهوم یه هے که جو شراب مستی آور هو حرام هے .اگر مفهوم کا حکم منطوق کے حکم کے مخالف هو تو اس مفهوم کو مفهوم مخالف کهتے هیں اور مفهوم مخالف کی جمله چھ قسمیں هیں ۔1- مفهوم شرط جسیے بیوی کے نفقه کی مثال جو اوپر بیان هوچکی ۔2- مفهوم وصف ۔3- مفهوم غایت ۔4- مفهوم حصر ۔5- مفهوم عد د ۔6- مفهوم لقب ۔حجیت مفاهیم کی بحث د رحقیقت میں وجود مفهوم کی بحث هے یعنی بحث اس میں هے که کیا شرط مفهوم رکھتا هے که یا نهیں تا که اس سے حکم شرعی کو استنباط کیا جاسکے-3یا مفهوم نهیں رکھتامفهوم موافق کی حجیت میں کوئی تردید نهیں ، انواع قیاس کی بحث میں اس بات کی توضیح آئے گی لیکن مفهوم مخالف اور اس کی تمام اقسام کے سلسلے میں مفصل مباحث هیں اور ان میں سے بعض اقسام کے حجت هونے یا نه هونے پر دلائل پیش کئے گئے هیں که جسے اصول کی مفصل کتابوں میں مطالعه کیا جاسکتاهے ۔ 4
ناسخ و منسوخ :نسخ یعنی گذشت زمانے کے ساتھ حکم کا اٹھا لینا اسلام میں وقوع نسخ پر تمام مسلمانوں کا تفاق هے سوره بقرۂ میں صریحا حکم قبله کے نسخ هونے اور اس کا رخ بیت المقدس سے کعبه کی جانب موڑدیے جانے کے خبردی گئی هے ، قرآن کی دیگر آیات میں بھی وقع نسخ کی تائید ملتی هے جیسے یه آیت ،5″ * مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا”*” ہم جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا دلوں سے محو کردیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس کی جیسی آیت ضرور لے آتے ہیں “۔قرآن میں قرآن کے ذریعه کتنے موارد نسخ کے موارد هے اسکے سلسلے میں اختلاف هے بعض فقهاء ومفسرین نے اس کا دائره اتنا وسیع کردیا که تمام تقیید و تخصیص کے موارد کو نسخ قرار دیا هے اور کسی نے اتنا محدود کردیا که فقط آیهء نجویٰ کے -6ایک مورد کو مصداق نسخ قرآن به قرآن شمار کیا هے -7۔
خبر واحد کے ذریعے نسخ کرنا ممکن نهیں :اکثر علمائے اسلام کانظریه خبر متواتر کے ذریعے نسخ کرنا جائز هے شافعی علماء او راکثر علمائے اهل ظاهر اسے جائز نهیں مانتے-8 اور خبر واحد کے ذریعے حکم قرآن کو نسخ کرنا شیعه اور اهل سنت دونوں کے نزدیک ممنوع هے. کیونکه نسخ ایک اهم او رنادر مسئله هے اگر نسخ متحقق هو تو لازم کے هےکه یه نسخ تواتر اور قرائن قطعیه کے ساتھ هو بر خلاف تخصیص و تقید کے بر خلاف که ایک امر رائج هے فقط ایک گروه هے جس نے ایک صورت کو مستثنیٰ کی هے اور کها هے که خبر واحد کے ذریعے حکم قرآن کا نسخ کرنا صرف حیات پیغمبر(ص)میں جائز هے-9 ۔علامه حلی Sنے منتهی میں کها هے که :دلیل قطعی ( چاهے وه قرآن هو یا سنت متواتر ) کو خبر واحد کے ذریعے نسخ کرنا جائز نهیں هےکیونکه دلیل قطعی خبر واحد سے اقوی هے پس خبر واحد اور دلیل قطعی کے تعارض کی صورت میں دلیل قطعی پر عمل کرنامشخص هے ۔ 10
حدیث کے ذریعه قرآن کی تخصیص و تقیید کا امکان :اصولاً قرآن حامل کلیات مسائل وذریعه احکام کے کلی مسائل کا حامل هےاس لئے جزئیات و شرائط شرائط، قیود و احکام کےلئے رسول(ص)خدا کی جانب سے بیان کرده تفسیر کی جانب رجوع کرنا لازمی هے مثلا نماز کے بارے میں جو کچھ بیان کیا هے وه کچھ اس طرح هے که :” *11وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ-12 * ” *وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ” 13* “*حَافِظُواْ عَلَى الصَّلَوَاتِ” *لیکن اس نماز کے انجام دینے کی کیفیت اور اس کے شرائط اس کے اجزاء و موانع اور مستحبات و مکروهات اسی طرح مقدمات او رهزار فروع دیگر که جیسے آیات کے ذریعے حاصل نهیں کیا جاسکتا اگرچه بعض جزئیات کا ذکر ملتاهے جیسے ۔”*إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ”*”جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوںکو دھوؤ اور اپنے سر اور گٹّے تک پیروں کا مسح کرو -14 ۔اسی طرح اور بھی آیات که جس میں بعض جزئیات نماز کا ذکر ملتاهے لیکن اس کل کے باوجود وضو اور نماز کے کئی جزئی مسائل هیں که جسے صرف روایات کی مدد کی روسے هی حل کیا جاسکتاهے ۔اسی بنیاد پر یه بحث پیش کی جاتی هے که کیا خبر واحد کے ذریعه قرآن کے عموم واطلاق و تخصیص یا تقیید لگائی جاسکتی هے ۔ اگثر فقهائے اسلام نے خبر واحد کے ذریعه تخصیص و تقیید کو ممکن جاناهے صرف اهل سنت کے ایک مختصر گروه نے اسے ممنوع قرار دیاهے ، قاضی ابوبکر باقلانی نے اس مسئله میں توقف کیا اور بعض تفصیل کے قائل هیں جن میں عیسی ابن ابات نے کها: اگر قرآن کا حکم عام دلیل قطعی ( یعنی قرآن خبر متواتر اور دلیل عقلی قطعی وغیره ) کےذریعه تخصیص پاچکا هو تو ایسے حکم کو خبر واحد کے ذریعے تخصیص دینا جائز هے و رنه جائر جائز نهیں هے،-15 که خبر واحد کے ذریعه تخصیص و تقید قرآن کے جواز کے بارے میں کها جاسکتاهے که :بعض آیات میں پیغمبر (ص)کو مبین قرآن م سےتعارف کرایا گیا هے جیساکه ارشاد هے :”*وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ “*” آپ کی طرف بھی ذکرکو(قرآن)نازل کیا ہے”-16یه آیات قرآنی کی تبین و تفسیر میں سخن پیغمبر(ص)کی حجیت پر دلیل هے چاهے سخن پیغمبر خبر متوا تر کی صورت میں هو با خبر واحد کی صورت میں چاهے آپ کیا سخن قرآن کے متشابهات قرآن کی تفسیر هو یا ظواهر قرآن کی تفسیر یں، هرصورت میں آپ کا قول حجت هے آپ کی جانب سے لگائی گئی تخصیص و تقیید بھی ایک طرح کی تبیین و تفسیر هے ۔. اهل بیت کا بیان اور آپ حضرات تفسیر و تبیین پیغمبر سے ملحق او رمعتبر هیںے ۔ اس الحاق و اعتبار کی دلیل حدیث ثقلین اور دیگر احادیث هیں اس کے علاوه خود اهل بیت علیهم السلام نے صریحاً کها هے که هم جوکچھ بھی کهتے هیں پیغمبر کی جانب سے کهتے هیں-17 اصحاب پیغمبر کی سیرت اور سیرۂمسلمین اس لئے حجت هے که وه احکام کی جزئیات اور تفصیلات کو ان موثق افراد سے لیتے تھے که جسے پیغمبر سے نقل کیا گیا هو یهاں پر دو سوال اٹھتے هیں ۔1- قرآن حجت قطعی هے اور بدون تردید خدا کی جانب سے نازل هوا هے ۔. لیکن خبرو احد تو حجت قطعی هے اور دلیل قطعی کو غیر قطعی دلیل کے ذریعے مقاائسه کرنا عقلاً جائز نهیں هے اسی لئے خبر واحد کی وجه سے قرآن کے اطلاقات و عمومات سے هاتھ اٹھا لینا صحیح نهیں هے ۔
جواب :اس سوال کا جواب یه هے که قرآن صدور کے لحاظ سے قطعی هے لیکن دلالت کے لحاظ سے اس کے عمومات و اطلاقات قطعی نهیں هیں او راس کی حجیت صرف اس وقت هے جب حجیت ظواهر کے خلاف کوئی قرینه موجود نه هو ۔2- یه بات پهلے گذرچکی که ( عرض حدیث بر کتاب )والی روایات اقتضا کرتی هیں جوکچھ قرآن کے خلاف هو اسے دور هٹادیاجائے پس اگر خبر واحد عموم قرآن کو تخصیص دیتی هے یه تخصیص قرآن کے خلاف هے پس ایسی خبرواحد کو چھوڑدیاجانا چاهیے ۔
جواب:یه هے که عرف عقلامیں دلیل خاص کو ، دلیل عام کےلئے مخالف و معارض نهیں شمار کیا جاتا بلکه ایسی دلیل کو مبین قرآن اور قرینه شمار کیاجاتاهے . اسی لئے جهاں کهیں بھی دو دلیلوں کے در میان عموم و خصوص کی نسبت هو وهاں پر باب تعارض کے قواعد کو اجرا نهیں کیا جاتا کیونکه ان دلائل کو ایک دوسرے کا معارض شمار نهیں کیا جاتا ۔————–1 . اسراء ، 23 .2 .اللباب فی اصول الفقه ، ص 160/159 .3 .انوار الاصول ، ج2 فص 20 .4 . کفایة الاصول، ج1 ،ص300 ، انوار الاصول ،ج2 .5 .بقره ، 142.6 .مجادله ، 12/13 .7 . البیان ، آیة الله خویی، ص 403/306 .8 . الاحکام ، فی الاصول الاحکام ،ج2،ص138 .9 . روضة الناظر ابن قدامه ،ج1 ،ص228 .10 . منتهی المطلب ،ج2 ص228 .11 .بقره ، 43 .12 . بقره ، 45 .13 . بقره ، 238 .14 . مائده ، 6 .15 . الاحکام ، فی اصول الاحکام ،ج1 ،ص525 .16 . نحل ، 44 .17 . کافی ،ج1 ،ص53 .
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.