سماجی زندگی میں اسلام کی خدمات

694

افراد کے منافع کاتحفظ اوررفع اختلافالبتہ ایک انسان کی فطری آرزو یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنی زندگی میں حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ جسم وروح کے لحاظ سے سالم ہو اور اس کے شایان شان روٹی، کپڑا، مکان اس کے پاس ہو۔ اوروہ خاندان کو تشکیل دے کر اپنی جوانی اور بوڑھاپے کی آرزئوں کو پا سکے ،اور امن وامان کے ماحول میں آرام کی زندگی گزارے ،اس طرح انسانیت کی شا ہراہ پرکسی مزاحمت اور روکاوٹ کے بغیر اپنی تلاش وکوشش کو جاری رکھے اور تکامل تک پہنچ جائے۔ایک انسانی معاشرہ بھی اپنے افرادکے لئے ،اس سے بڑھ کر آرزو نہیں رکھتا ہے اسلام نے اس انفرادی اور اجتماعی آرزو کو عملی جامہ پہنایا ہے ،کیونکہ اس نے معاشرے کوایک ایسا نہج دے دیا ہے کہ اگر اس کو حقیقت بینی کی روشنی میں قبول کیا جائے تو انسان کی زندگی کے مفادات محفوظ رہیں گے اور ان کے اختلافات دور ہوجائیں گے ۔
اسلام کا طریقہ کار اور اس کی بنیاداسلام نے اپنی پہلی توجہ انسان کی حقیقت پسندی کے نہج پر مرکوز ہے ،کیونکہ یہ مقدس نہج انسان کی تر بیت کرناچاہتا ہے اور ایسے بے زبان حیوان نہیں پالنا چاہتا کہ جس کا مقصد پیٹ بھرنا اورجنسی خواہشات کوپورا کرنا ہو۔انسان ایک ایسی زندہ مخلوق ہے ،جو جذبات اورہمدردیوں کے علاوہ عقل اور حقیقت پسندی کی توانائی سے بھی مسلح ہے۔انسان اپنی فطرت،یعنی اپنی خالص حقیقت پسندانہ فطرت کے مطابق ،درک کرتا ہے کہ وہ عالم ہستی کا ایک جزو ہے اور عالم ہستی کے دیگر اجزاء کے مانند ماورائے طبیعت ،یعنی ایک لامتناہی زندگی،قدرت اور علم سے وابستہ ہے ،عقل بھی اسی (خدا) کی مخلوق ہے۔ اسی لئے اسلام نے اپنی روش کو”توحید”کی بنیاد پر استوار کیا ہے اور جوشخص خداپرست نہ ہو ،وہ اسے انسان نہیں جانتا۔یہاں پر ”توحید”سے مرادخدا کی یکتائی پرعقیدہ رکھنا ہے،جو اپنے دین کے ذریعہ انسان کو سعادت کی دعوت دیتا ہے اور ایک دن اسکے اعمال کاحساب لیکر اسے مناسب جزادے گا ۔خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتا ہے :”یہ سب(یعنی توحیدسے بے خبر لوگ)جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ گمراہ ہیں ”۔(١)توحیدکے جو معنی بیان کئے گئے ہیں ان کے مطابق وہ اسلام کی پہلی اصل اور اس کابنیادی ستون ہے۔اسلام کا دوسراستون ”پسندیدہ اخلاق” ہے ،جو توحید پر استوار ہے ،کیونکہ اگراانسان توحید کے مطابق اخلاق نہ رکھتا ہو ،تواس کامقدس ایمان محفوظ نہیں رہے گا ۔اور اسی طرح،جیسا کہ بیان کیا گیا ،قوانین اورضوابط خواہ کتنے ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہوں، ہرگز ایک ایسے معاشرے کونہیں چلاسکتے جس میں اخلاقی انحطاط پایا جاتا ہو۔اس لحاظ سے ،اسلام میں عقیدئہ توحید کے مطابق اخلاقیات کا ایک طویل سلسلہ جیسے:انسان دوستی،رحم دلی،عفت اور عدالت کے جیسے دوسرے امورانسانی معاشرے کے لئے مرتب کئے گئے ہیں جو توحید کے عقیدہ کے نفاذ کے ضامن اور قوانین وضوابط کے محافظ ہیں ۔معاشرے کی سعادت میں مفید و مؤثرہونے کی وجہ سے اخلاق کادوسرا درجہ ہے،چوں کہ توحیدپہلے درجہ پر ہے ۔توحید اور اخلاق کے اصولوں کو مستحکم اور استوار کرنے کے بعداسلام نے قوانین کا ایک طویل سلسلہ وضع کیا ہے ،جن کا تعلق اخلاق سے رابطہ ہے ،یعنی مذکورہ قوانین کا سر چشمہ پسندیدہ اخلاق ہے اور پسندیدہ اخلاق بھی اپنے قوانین کے ذریعہ مستحکم ہوتا ہے۔اور یہی…………..١۔(۔۔۔ان ہم الا کا لانعام بل ہم اضل سبیلا) (فرقان٤٤)قوانین و ضوابط ہیں جو معاشرے کے حیات بخش مفاد کا تحفظ کرتے ہیں اور لوگوں کے اختلافات کو دور کرتے ہیں۔
سماجی اختلافاتانسان کے اختلافات ،جو اتحاد واتفاق کے رشتہ کوتودیتے ہیں اور اجتماعی نظام کو درہم برہم کر دیتے ہیں ،دوقسم کے ہیں :١۔وہ اختلافات جو اتفاقی طور پر دوافراد کی ذاتی چپقلش کے نتیجہ میں رونما ہوتے ہیں، جیسے دوافراد کے درمیان کسی موضوع پر ہونے والا جھگڑا اور ایسے اختلافات کو عدلیہ رفع کرتی ہے ۔٢۔وہ اختلافات جو طبیعی طور پر معاشرے کو دو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیتے ہیں ،اور اجتماعی انصاف کی طرف کسی قسم کی توجہ کئے بغیر ،ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر مسلط کیا جا تا ہے اور کمزورطبقہ کی سعی و کوشش کے ماحصل کو طاقتور گروہ کے نام مخصوص کیا جاتا ہے، جیسے:حاکم ومحکوم ،دولت مند و فقیر ،عورت و مرداور ملازم وافسرکے طبقے ترقی یافتہ اور بے دین معاشروں میں اسی صورت میں زندگی کرتے ہیں اور ہمیشہ طاقتور لوگ کمزوروں اور اپنے ماتحتوں کا استحصال کرتے ہیں ۔منافع کی حفاظت اوررفع اختلافات کے بارے میں اسلام کا عام نظریہ اسلام کلی طور پر،معاشرے کی سعادت، جو کہ لوگوں کے مفاد کی حفاظت اور ان کے اختلافات کے سدِّ باب کی مر ہون منت ہے ،کودو چیزوں کے ذریعہ فراہم کرتا ہے :١۔طبقاقی امتیاز کو کلی طور پر لغو کر کے اس کی اہمیت کو ختم کردیتاہے ،اس معنی میں کہ اسلامی معاشرے میں لوگ آپس میں بھائی بھائی ہیںاور کسی کو ہر گز یہ حق نہیں ہے کہ دولت یا اجتماعی طاقت کے بل بوتے پر دوسروں پر برتری جتائے او رانھیں حقیر و خوار سمجھے اور ان سے فروتنی اختیار کرنے او رتسلیم ہونے کا تقاضا کرے، یا اپنے مخصوص عہدہ کی بناپر خود کو بعض اجتماعی ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دے یا کسی جرم کے مرتکب ہونے پرخود کو معاف اور سزا سے بری سمجھے۔ قوانین و ضوابط کے نفاذ میں معاشرے کے سرپرست کا حکم نافذ ہے اور سب کواس کے سامنے سر تسلیم خم کرناچاہئے اور اس کا احترام کرناچاہئے، لیکن اس کو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد میں یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ دوسرے لوگ اس کے سامنے سر تسلیم خم کریں یا جو کچھ وہ انجام دے اس کے بارے میں انھیں اعتراض و تنقید کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ وہ معاشرے کا فرمانروا ہے، اس لئے اسے بعض عام اور سماجی ذمہ داریوں او رفرائض سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ اسی طرح ایک دولت مند شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی دولت کو اپنے لئے فخر و مباہات کا سبب قرار دیکر غریبوں، محتاجوں اور اپنے ما تحتوں کی سرکوبی کرے۔ اس کے علاوہ معاشرے کے فرمانرواؤں کو یہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ لوگ ان کی اطاعت کرتے ہوئے ان کی ہرفضول بات کو معاشرہ کے پسماندہ اورناداروںکے مسلم حق کے مقابلہ میں فوقیت دیں۔نیز اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتاہے کہ کسی بھی طبقہ میں ایک طاقتورلوگ ناحق کمزوروں پر مطلق حکمرانی کریں۔ خدائے متعال اپنے کلام میں فرماتاہے:”اسلام کے پیرو آپس میں بھائی او رمساوی ہیں ‘ ‘۔(١)…………..١۔ (انّما المؤمنون اخوہ…)(حجرات / ١٠)۔نیز فرماتاہے:”خدا کا دین تمہاری (اہل کتاب اور مسلمان )آرزئوں اور خواہشوں کا تابع نہیں ہے ،جو بھی برا کام انجا م دے گا ،اسے سزا ملے گی ”۔(١)البتہ دین اسلام میں کچھ خصوصیات ، جیسے : دین کے پیشواؤں کی اطاعت اور والدین کا احترام، ہیں کہ اس میں مساوات نہیں ہے بلکہ صرف ایک طبقہ کے لئے دوسرے طبقہ کی نسبت کچھ فرائض ہیں، لیکن اس سلسلہ میں بھی جس کے حق میں یہ حکم ہے، وہ دوسروں پر برتری نہیں جتلا سکتا ، یعنی وہ دوسروں کے مقابلہ میں اپنے مقام پر فخر نہیں کرسکتا ہے۔جی ہاں، چونکہ انسان فطر ی طور پر امتیاز و فضیلت طلبی کی جبلّت رکھتا ہے ، اسلام نے اس کی اس فطری جبلّت کو سر کوب کئے بغیر اس کے لئے ایک عمل معین فرمایا ہے اور وہ ”تقویٰ ”ہے۔اسلام میں حقیقی قدر و قیمت پرہیزگاری کے لئے ہے اور چونکہ تقویٰ کا حساب چکانے والا خدائے متعال ہے ، اس لئے یہ امتیاز جس قدر زیادہ ہوجائے ،کوئی رکاوٹ ایجاد نہیں کرتا، اس کے برعکس طبقاتی امتیاز معاشرے میں فسادپھیلانے کا سب سے بڑا سبب اور افراد کے آپس میں ایک دوسرے کے لئے رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔اسلام کی نظر میں ،ایک پر ہیزگارفقیر، بے تقوی ٰسرمایہ داروں کے ایک گروہ پر فضیلت رکھتا ہے اور ایک پر ہیز گا عورت سیکڑوں لا ابالی مردوں سے بہتر ہے۔…………..١۔(لیس باما نیکم ولا امانی اہل الکتاب من یعمل سو ء ایجز بہ۔۔۔)(نساء ١٢٢)۔خدائے متعال فرماتا ہے :”انسانو!ہم نے تم کو ایک مرد اورعورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شا خیں اور قبیلے قرار دئیے ہیں تاکہ آ پس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو ،بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پر ہیز گار ہے ۔”(١)نیز فرماتا ہے :”میں تم میں سے کسی بھی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا ،چاہے وہ مردہو یاعورت ،سب ایک نوع سے ہیں اور انسان ہیں ۔”(٢)٢۔چوں کہ تمام افراد، انسانیت اور معاشرے کے رکن ہونے کے لحاظ سے شریک ہیں اور تمام لوگوں کا کام اوران کی کوشش محترم ہے،لہذاکچھ قوانین بنائے گئے ہیں تاکہ ان کی روشنی میں ہر فرد کے مفادات کا تعین ہوسکے اور اجتماعی تجاوز اور کشمکش کا راستہ خود بخود بند ہو جائے۔ابتدائی اصول کومدنظر رکھتے ہوئے یہ قوانین کچھ اس طرح بنائے گئے ہیں کہ معاشرے کے مختلف طبقاتی فاصلے بالکل ختم ہو جائیں ،دوریوں کو نزدیکیوں میں بدل دیا جائے۔ ان بیانات کی روشنی میںمفادات کے تحفظ اور معاشرے کے اختلافات کودور کرنے کے سلسلہ میں اسلام کا خاص طریقہ اجمالی طور پر واضح ہوجاتا ہے۔…………..١۔(یاایّہا النّاس انّا خلقنکم من ذکرٍ و انثی وجعلنکم شعوباً وقبائل لتعارفوا انّ اکرمکم عنداللّہ اتقٰکم ۔۔۔)(حجرات ١٣)۔٢۔(۔۔۔انّی لااضیع عمل عاملٍ منکم من ذکرٍاو انثی بعضکم من بعض۔۔۔)(العمران ١٩٥)۔
عداوت و اختلاف سے اسلام کا مقا بلہمعاشرے کے مختلف طبقات میں طبیعی طورپر پیدا ہونے والے اختلافات،جیسے رعایا اورحاکم کا طبقہ ،غلام و ما لک ا ورکام لینے والے و مزدور کے درمیان اختلا فات دو طریقوں سے وجود میں آتے ہیں :١۔ایک شخص کا دوسرے شخص کے حقوق پر تجاوز کر نے سے:مثلا کام لینے والا، مزدورکی مزدوری ادانہ کرے ،ایک مالک اپنے نوکر کی پوری اجرت نہ دے اس کے حق میں ظلم اور ناانصافی کرے یاحاکم اپنی رعایامیں سے کسی کے حق میں ظالمانہ حکم جاری کرے۔اسلام نے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے بہت سے قوانین مقرر کئے ہیں،کہ ان کو نافذ کرنے سے ہرایک کے حقوق محفوظ رہ سکتے ہیں اور ہر شخض اپنے کھوئے ہوئے حقوق کو پاسکتا ہے ۔اسلام نے اس کام کے لئے معاشرے کی ہرفرد کو اجازت دی ہے کہ اگرکوئی شخض اس کے ساتھ ظلم کرے (چاہے وہ حاکم وقت ہی کیوں نہ ہو)توقاضی کے پاس شکایت کرنی چاہئے۔امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے زمانہ میں ایک مسلمان کاحضرت کے ساتھ کچھ اختلاف ہوگیا،اس نے قاضی کے پاس جاکر استغاثہ کیا۔حضرت ایک عام شخض کی طرح اس قاضی (جسے خودآپ نے منصوب فرمایاتھا)کے پاس حاضر ہوئے اور فیصلہ ہوا۔ تعجب کا مقام یہ ہے کہ حضرت نے قاضی سے فرمایا کہ شکایت کرنے والے اورمیرے درمیان برتاؤ میں کسی قسم کا فرق نہ کرے۔٢ ۔ ایک طاقتور شخص کا کمزور اور اپنے ماتحت کے اوپر دھونس جمانااور اس کے ساتھ زیادتی کرنا ، جیسے ایک کام لینے والا اپنے مزدوروں کو ذلیل و خوار سمجھے ،کوئی مالک اپنے سامنے کھڑار کھے ، اور اسے اپنے سامنے جھک کر تعظیم کرنے پر مجبور کرے یا حاکم اپنی رعایا سے اعتراض اور استغاثہ کا حق چھین لے، کیونکہ اس قسم کے برتاؤ میںغیر خدا کی پرستش کا پہلو پایاجاتاہے، اس لئے اسلام نے ان چیزوں سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ اسلام میں کوئی بھی شخص اپنے ما تحت سے انجام فریضہ کے علاوہ کسی قسم کی توقع نہیں رکھ سکتا ہے اور ان پر اپنی بزرگی و عظمت کا مظاہرہ نہیں کرسکتا ہے۔ اسلام میں بہت سے ایسے اخلاقی احکام موجود ہیں جو لوگوں کو سچائی، انصاف اور حسن اخلاق کی دعوت دیتے ہیں اور عہد و پیمان کی رعایت کرتے ہیں، نیکی اور خدمت کرنے والوں کی تشویق کرتے ہیں اور ، بد کرداروں ، نا اہلوں او ر برے لوگوں کو سزا دیتے ہیں۔یہ ایسے پسندیدہ اخلاق ہیں کہ اگر معاشرے میں یہ نہ ہوں تو معاشرہ بدبختی سے دوچار ہوجائے گا اور دنیا و آخرت میں ناکامی و بدبختی میںمبتلا ہوگا۔ممکن ہے کہ کسی کو ان قوانین سے بے اعتنائی اور ان پر عمل نہ کرنا اس کے لئے بظاہر معمولی فائدہ ہو، لیکن دوسری طرف یہ ایک ناپاک او رخطرناک ماحول کو پیدا کرتاہے کہ جو اس کو اس معمولی فائدہ سے محروم کرنے کے علاوہ اور بھی بہت سے فائدوں سے اس کو محروم کرتاہے اور اس شخص کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو ایک عمارت کے سنگ بنیاد کو باہرنکال کر اس پر ایک نئی عمارت تعمیر کرتاہے اور اس طرح اس عمارت کی ویرانی کا سبب بنتاہے۔
رفع اختلاف کے لئے ایک عام وسیلہاسلام نے اپنے پیروؤں کو حکم دیا ہے کہ وہ معاشرے کے فائدے کے بارے میں سوچیں اور خود خواہی سے پرہیز کرکے اپنے ذاتی مفاد کو اسلامی معاشرے کے فائدہ میں دیکھیں اور معاشرے کے نقصان کو اپنا نقصان سمجھیں۔ایک مسلمان کو پہلے حقیقی مسلمان ہونا چاہئے، اس کے بعد وہ ایک تاجر ، کسان، صنعت گر یا مزدور بنے اور جو شخص خاندان کو تشکیل دینا چاہتا ہے، اسے پہلے مسلمان ہونا چاہئے اس کے بعد اپنے فیصلہ پر عمل کرے۔ مختصر یہ کہ وہ جو بھی کام انجام دینا چاہے اور جو بھی مقام او رعہدہ سنبھالنا چاہے، اس کے لئے صحیح دین و ایمان کی ضرورت ہے۔ایسا شخص ہرکام اور ہر فیصلہ کے سلسلہ میں سب سے پہلے اسلام و مسلمین کی مصلحتوں اور فائدوں کو مد نظر رکھتا ہے، اس کے بعد اپنی ذاتی مصلحت کو مدنظر رکھتا ہے اور وہ ہزگز کوئی ایسا کام انجام نہیں دیتا جس میں اسلام و مسلمین کے لئے نقصان ہو اگر چہ اس کا م میں اس کا ذاتی فائدہ بھی نہ ہو۔البتہ معلوم ہے اگر کسی معاشرے میں اس قسم کی فکر پیدا ہو جائے تواس معاشرے کے افراد میں کبھی اختلاف پیدا نہیں ہوگا ۔خدائے متعا ل فرماتا ہے :(واعتصموا بحبل اللّہ جمیعاً ولا تفرقوا۔۔۔)(آل عمران١٠٣)”اوراللہ کی رسی کومضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو”نیز فرماتاہے:(و انّ ہذا صراطی مستقیماً فاتّبعوہ ولاتتّبعوا السّبل فتفرق بکم عن سبیلہ ۔۔۔) (انعام١٥٣)”اور یہ ہماراسیدھا راستہ ہے اس کا اتباع کرو اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ جائوکہ راہ خداسے الگ ہو جائو گے…”۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :”مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی ہونا چاہئے تا کہ اغیار کے مقابلہ میں ایک طاقت کی صورت میںآئیں ۔”(١)…………..١۔ سفینہ البحار، ج ١، ص ١٩۔
نماز،روزہ اورحج یارفع اختلافات کا وسیلہاسلام کے فخرومباہات میں سے ایک مسئلہ ”عبادت” ہے اور وہ یہ ہے کہ دوسرے ادیان کے لوگ،جیسے یہودونصاری اپنے دینی احکام کے مطابق عمومی عبادت خانوں کے علاوہ عبادت سے محروم ہیں اور ان کے مذہبی قانون کی نظرمیں وہ کلیسا اور اپنے عبادت خانوں کے علاوہ کہیں عبادت انجام نہیں دے سکتے اورنماز نہیں پڑھ سکتے ہیں ۔لیکن اسلا م میں اِن پابندیوں کو ختم کردیا گیا ہے اور ہر مسلمان پرواجب ہے کہ اپنی عبادت کوجہاں چاہے انجام دے ،مسجد میں ہو یا کہیںاور،مسلمان معاشرے میں ہو یا کفر کے معاشرے میں،لوگوں کے درمیان ہو یاتنہا ،صحت مندی کی حالت میںہو یا بیماری کی حالت میں۔١۔والمسلمون تتکافأ دماؤہم وہم ید علی من سواہم …(اصول کافی،ج١،ص٤٠٣)۔بہر حال اپنی عبادت کوانجام دینا چاہئے ،اور یہ بذات خود اسلام کی کامیابی کے اسرار میں سے ایک ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:”میرے لئے تمام روئے زمین عبادت خانہ اور پرستش گاہ ہے ۔”(١)اسی لئے شریعت اسلا م نے نماز،روزہ اورحج کو پہلے مرحلہ میں انفرادی قرار دیا ہے ،اس معنی میں کہ ہرفرد سے اس کی انجام دہی کا مطالبہ کیا ہے اور جماعت میںشریک ہونے کو لازم نہیں کیاہے ۔لیکن دوسرے مرحلہ میں ان عبادتوں کے اجتماعی فوائد کو بھی نظرانداز نہیں کیا ہے اور انھیں اجتماعی اہمیت دی ہے مثلا انسان اس کے ذریعہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میںاپنی بندگی ونیاز مندی کا اظہار کرتا ہے لہذا جماعت میں حاضر ہونامستحب قرار دیا ہے ۔اسی طرح روزہ جو انفرادی ریاضت کے لئے قرار دیا گیا ہے اور مسلمانوں کو سال میںایک مہینہ دن کے میں کھانے پینے اورجنسی آمیزش سے پر ہیز کرنا چاہئے اور اس کے ذریعہ اپنے اندر پر ہیز گاری اور تقویٰ پیدا کرے، اس کے باوجود اس کے کہ یہ ایک انفرادی فریضہ ہے اور اس میں اجتماعی پہلو نہیں پایا جاتا،لیکن شوال کی پہلی تاریخ کو ماہ مبارک رمضان میں فریضہ کے انجام کے شکرانہ میں مسلمان عید منائیں اور ان پر فرض ہے کہ نماز عید فطر کو باجماعت پڑھیں ۔اسی طرح حج میں جس کے ذریعہ ،خدا کی دعوت پر لبیک اور مادی میلانات سے دوری اورپروردگار کی ذات کی طرف توجہ کرناہوتاہے ،باوجودیکہ یہ ایک انفرادی عبادت ہے،لیکن چونکہ عبادت کی ایک خاص ومعین جگہ ہے ،لہذادنیاکے مسلمان مجبورا ایک جگہ پر جمع ہو تے ہیںاورایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو ۔ جس دن حج کے بعض اعمال انجام دئیے جاتے ہیں ۔اسلا می عید قرار دیا گیا ہے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایک جگہ جمع ہو کر نماز عید پڑھیں ۔اسلام میں جو یہ اجتماعات مقرر ہوئے ہیں ،یہ لوگوں کے طبقاتی اختلافات کو دور کرنے کا بہترین وسیلہ ہے ،کیونکہ طبقاتی اختلافات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینے کے لئے موثر ترین طریقہ ایک دوسرے کے درمیان موجود غلط فہمی کو دورکرنا ہے اور یہ خاصیت اجتماعی عبادت میں مکمل طور پر موجود ہے کیونکہ جوخدا کی عبادت کو اخلاص کے ساتھ انجام دیتا ہے ،اس کا خدا کے سواکسی اور کے ساتھ سرو کار نہیں ہوتا ہے اور خدا کی رحمتوںکے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہیں اور اس کی ابدی نعمتوں کا خزانہ کبھی ختم ہو نیوالا نہیں ہے اور اس کی ذات اقدس رکاوٹ کے بغیرہر ایک کو قبول کرتی ہے،جس کے نتیجہ میں اجتماعی عبادت کے دوران جو انس ،اورالفت ومحبت لوگوں میں پیدا ہوتی ہے وہ اختلافات اور کدورتوں کو دور کرنے کا بہترین وسیلہ ہے۔چنانچہ پہلے بھی اشارہ کیاجاچکا ہے ،کہ ہم سب جانتے ہیں کہ دین مقدس اسلام کے معارف کلی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہوئے ہیں : ”اصول دین ،اخلاق اور فقہی فروع۔”واضح ہے کہ اس کے علاوہ اصول دین ،یعنی دین کی بنیاد،تین اصولوں پر مشتمل ہے کہ انسان ان میں سے ایک کے نہ ہونے پر دین سے خارج ہوجا تا ہے:١۔ توحید ،یعنی کائنات کے پروردگار کی یکتائی کا اعتقاد۔٢۔خدائے متعال کے انبیاء علیہم السلام پرعقیدہ رکھنا ہے جن کے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔٣۔معاد پر ایمان ،یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ خدائے متعال موت کے بعد سب کو زندہ کرے گا اور ان کے اعمال کا حساب وکتاب لیا جائے گا ،نیک لوگوں کو ان کی نیکی کی جزا دی جائے گی اور برے لوگوں کوانکی برائی کی سزادی جائے گی ۔مذ کورہ تین اصولوں میںدواصولوں کا اور اضافہ کیا جا تاہے،جو شیعہ عقائد کاحصہ اور مسلمات میںسے ہیں ،اورانسان ان میںسے کسی ایک پر عقیدہ نہ رکھنے کی وجہ سے شیعہ مذہب سے خارج ہوجاتا ہے،اگر چہ اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں ہوتا ،یہ دواصول حسب ذیل ہیں :١۔عدل٢۔امامت
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.