جہان بینی کے بنیادی مسائل کا راہ حل
جب ایک انسان معرفت کے بنیادی مسائل کو حل کرنے اور دین حق کے اصول و قواعدکی پہچان کے لئے قدم اٹھاتا ہے تو وہ پہلے ہی مرحلہ میں ان سوالوں کاسامنا کرتاہے کہ وہ کس طرح ان مسائل کو حل کرے؟ کس طر یقہ سے بنیادی اور صحیح معارف کو حاصل کرے؟ اور اصولاً ان کی شناخت کے راستے کیا ہیں؟ نیز ان میں سے کسے ان معارف تک پہنحنے کے لئے انتخاب کرے؟ان مطالب پر فنی اور تفصیلی گفتگو کرنے کے لے فلسفہ کی ایک بحث ا(شیاء کی معرفت) (اپیستمولوژی) کا سہارا لینا ضروری ہے ،’ کہ جسمیں شناخت انسان کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے، اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ہم یہاں پر ان تمام پہلوؤں سے بحث نہیں کرسکتے اس لئے کہ وہ ہمیں اس کتاب میں اصل ہدف سے دور کردیں گے، اس وجہ سے ان میں سے فقط بعض کے بیان پر اکتفا کیا جاتا ہے،اور مزید تحقیق کے لے (انشاء اﷲ)ہم ضرورت پڑنے پر اشارہ کریں گے(١)……………………………(١) اس سلسلہ میں مزید اطلاع حاصل کرنے کے لئے اس کتاب کے ددوسرے حصہ ”آموزش فلسفہ” اور مقالہ ”شناخت” جو کتاب پاسداری از سنگرھای ایدۓولوژیک” میں ہے، اور ایدۓولوژی تطبیقی کے درورس میں سے پانچویں درس سے سولہویں درس تک کا مطالعہ کیا جائے
شناخت کی قسمیں ۔انسان کی اس شناخت کے اعتبار سے چار قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔١۔ شناخت علمی( تجربی) (خاص اصطلاح میں) یہ شناخت، حسی امور کی مدد سے حاصل ہوتی ہے اگر چہ عقل ادراکات حسی کی عمومیت اور اس کے مجرد عن المادہ ہونے میں اپنا پورا کردار ادا کرتی ہے شناخت علمی سے ،تجربی علوم مثلاً سائنس، لبیرٹری، اور زیست شناسی (علم حیات )جیسے علوم میں استفادہ کیا جاتا ہے۔٢۔ شناخت عقلی : ایسی شناخت مفاہیم انتزاعی (معقولات ثانیہ) کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، اس میں اساسی اور بنیادی رول عقل کا ہوتا ہے ، ہر چند اس بات کا امکان ہے کہ بعض قضایا بہ عنوان مفا ھیم انتزاعی یا مقدمہ از قیاس ہونے کی وجہ سے حسی و تجربی ہوں ، اس شناخت کی وسعتمنطق، علوم فلسفیہ، اور ریاضیات سب کو شامل ہے۔٣۔ شناخت تعبدی : اس شناخت کی حثیت ثانوی ہے، جو (قابل اعتما د ماخذ و مدرک ) (اتورتیہ) اور صادق شخص کے خبر دینے کے ذیعہ حاصل ہوتی ہے وہ مطالب جو پیروان دین ، اپنے دینی رہنماہونے کے ناطے ان کے اقوال کو قبول کرتے ہیں، اور کبھی کبھی ان کا یہ اعتقاد حس و تجربہ کے ذریعہ حاصل ہونے والے اعتقاد سے کہیں زیادہ قومی ہوتا ہے جو اسی شناخت کا ایک حصہ ہے۔٤۔شناخت شہودی : یہ شناخت دوسری اقسام کے بر خلاف مفہوم ذ ہنی کے واسطہ کے بغیر معلوم ذات عینی سے متعلق ہوتی ہے، جس میں کسی قسم کے اشتباہ کا امکان نہیں رہ جاتا لیکن جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ جو کچھ بھی شہودی اور عرفانی کے نام سے بیان کیا جاتا ہے در حقیقت شھودات کی ایک ذہنی تفسیر ہوتی ہے جو قابل خطا ہے۔(١)……………………………………………(١) رجوع فرمائیں، آموزش فلسفہ۔ تیرہوان درس.
معرفت کی قسمیںشناخت کی قسمیں جن اصولوں کی بنیاد پر بیان کی گئیں ہیں انھیں اصولوں کے ذریعہ جہاں بینی کی بھی تقسیمات کی جاسکتی ہیں۔١۔ معرفت علمی: یعنی انسان ،علوم تجربی کے ذریعہ حاصل ہونے والے نتائج کے ذریعہ ہستی کے سلسلہ میں ایک کلی معلومات حاصل کر ے۔٢۔ معرفت فلسفی: وہ معرفت جو از راہ استدلال اور عقلی کاوشوں کے ذریعہ حاصل ہو ۔٣۔ معرفت دینی: وہ معرفت جو رہبران دین پر ایمان رکھنے اور ان کی گفتار کو قبول کرنے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔٤۔ معرفت عرفانی: وہ معرفت جو کشف و شہود اور اشراق کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ واقعا جہان بینی کے بنیادی مسائل کو انھیں چار تقسیموں کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے، تا کہ ان میں کسی ایک کے برتر ہونے کا سوال پیدا نہ ہو ۔
تنقید۔حس و تجربی شناخت کی وسعت اور مادی و طبیعی قضایا میں محدودیت کی وجہ سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ علوم تجربی کی بنیاد پر معرفت کے اصول کو نہیں سمجھا جاسکتا اور اس سے مربوط مسائل کو حل نہیں کیا جاسکتا، اس لئے کہ اس کے مسائل علوم تجربی کی حدود سے خارج ہیں، اور علوم تجربی میں ان مسائل کے تحت نفی و اثبات کا امکان نہیں ہے، جس طرح سے کہ وجود خدا کو آزمائشوں کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا، یا (العیاذ باللہ) اسکی نفی کا امکان نہیں ہے، اس لئے کہ علوم تجربی کے آلات ماوراء طبیعت تک پہنچنے سے قاصر ہیں، بلکہ ان کے ذریعہ تنہا مادی قضایا میں اثبات و نفی کا حکم صادر کیا جاسکتا ہے۔لہٰذا علمی و تجربی معرفت (اپنے اصطلاحی معنی ) کی حقیقت ایک سراب سے زیادہ نہیں ہے اور اسے صحیح معنوں میں کلمہ معرفت سے یاد نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اسے ” جہان مادی کی شناخت” کا نام دیا جاسکتا ہے، اس لئے کہ ایسی شناخت معرف کے بنیادی مسائل کا جواب نہیں دے سکتی۔لیکن وہ شناخت جو تعبدی روش کے ذریعہ حاصل ہو ، جسیا کہ ہم نے اشارہ بھی کیا ہے اس کی ایک ثانوی حثیت ہے، کہ جسکا مطلب یہ ہے کہ پہلے مصدر یامصادر کا اعتبار ثابت ہوچکا ہو، یعنی پہلے مرحلہ میں کسی کی بعثت ثابت ہو تا کہ اس کے پیغامات کو معتبر سمجھاجاسکے، اور ہر امر سے پہلے پیغام ارسال کرنے والے یعنی وجود خدا کا اثبات ہونا چاہیے، لہٰذا یہ بات بطور کامل روشن ہے کہ خود پیغام ارسال کرنے والے کا وجود اور کسی پیغمبر کے وجود کو پیغام کے مستند ہونے کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جا سکتا ، جیسے کہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ چونکہ قرآن کہتا ہے ”خدا ہے” پس اس کا وجود ثابت ہے، البتہ وجود خدا کے اثبات، شناخت پیغمبر اور حقانیت قرآن کے بعد ”مخبرصادق” اور ” منا بع معتبر” کے ذریعہ، تمام فرعی مسائل اور احکامات کو قبول کیا جاسکتا ہے لیکن بنیادی مسائل کو سب سے پہلے حل کرنا ضروری ہے، پس معلوم یہ ہو ا کہ روش تعبدی بھی بنیادی مسائل کے حل کے لئے نا کافی ہے، لیکن اشراقی عرفانی روش کے سلسلہ میں بہت طولانی بحث ہے۔پہلے یہ کہ مسائل جہان بینی ایک ایسی شناخت ہے جو ذہنی مفاہیم پر مشتمل ہے لیکن متن شہود میں اسکا کوئی مقام نہیں ہے لہذا ایسے مفاہیم کے سلسلہ میں شہودپر اعتماد کرنا سھل انگاری اور ان کے ارادوں کے مطابق ہوگا۔دوسرا یہ کہ : الفاظ و مفاہیم کے قالب میں شہودات کی تفسیر اور انھیں بیان کرنا، ایک قوی ذہن کا کام ہے، جسے عقلی کاوشوں اورفلسفی تحلیلوں میں ایک طولانی مدت تک جانفشانیوں کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا جو لوگ ایسے ذہن کے حامل نہیں ہوتے وہ اپنی تعبیرات میں متشابہ مفاہیم کا استعمال کرتے ہیں جو گمراہی کے عظیم عوامل میں شمار ہوتے ہیں۔تیسرے یہ کہ : بہت سے مقامات پر جو چیز واقعاً شہود میں آشکار ہوتی ہے خیالی انعکاساور ذہنی تفسیر کی وجہ سے خود خود مشاہدہ کرنے والے کے لے ، شک و تردید کا باعث ہوتی ہے۔چوتھے یہ کہ : ان حقائق کی جستجو جسے تفسیر ذہنی (معرفت) کا نام دیا جاتا ہے سیر و سلوک میں سالہا سال زحمت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، سیر و سلوک کی روش کو قبول کرنا علمی شناخت کا ایک حصہ ہے، جس میں معرفت کے بنیادی مسائل اور مبانی نظری سے واقف ہونے کی ضرورت ہے،لہٰذا سیر و سلوک میں سفر سے پہلے ان مسائل کا حل کرنا ضروری ہے تا کہ نتیجہ میں کشف و شہود حاصل ہو سکے درں حالیکہ شہود ی شناخت کا مرحلہ انجام کار ہے اصولاً عرفان حقیقی اس کو حاصل ہوتا ہے جو راہ خدا میں خالصةً لوجہ اللہ(صرف خدا کی مرضی کے لئے) زحمت اٹھائے اورایسی سعی و کوشش راہ بندگی و اطاعت میں شناخت خدا پر منحصر ہے، جسے سب سے پہلے حاصل کرنا ضروری ہے۔
نتیجہ:اس تحقیق کے بعد جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ تنہا وہ راستہ جس نے معرفت شناسی کے بنیادی مسائل کا حل تلاش کرنے والوں کے سامنے راہیں ہموار کی ہیں وہ راہ عقل اور روش تدبر و تفکر ہے، اور اس لحاظ سے جہان بینی واقعی کو جہان بینی فلسفی تسلیم کرناچاہیے ۔البتہ عقل کے ذریعہ ان مسائل کو حل کرنا اور معرفت کو فلسفی مباحث میں منحصر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحیح معرفت حاصل کرنے کے لئے تمام فلسفی مسائل کا حل کیا جانا ضروری ہے بلکہ اس راہ میں صرف بد یہی اور چند مسائل کا حل کر لینا ہی کافی ہے کہ جو معرفت کے بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیں، اگر چہ اس کے باوجود ایسے مسائل اور اسی قسم کے بہت سے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے فلسفی مہارتوں کا زیادہ ہونا ضروری ہے، اسی طرح شناخت عقلی کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لئے مفید طریقہ شناخت کو بہ روی کار لانے کا مطلب یہ نہیں ہے بقیہ معلومات کو ترک کردیا جائے بلکہ بہت سے عقلی استدلالات میں ان مقدمات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، جو علم حضوری یا حس و تجربہ کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں، جس طرح سے کہ ثانوی مسائل اورفرعی اعتقادات کو حل کرنے کے لئے تعبدی شناخت کا سہارالیا جاسکتا ہے اور انھیں کتاب و سنت (دین کے معتبر منابع) کی اساس پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔صحیح معرفت اور آئیڈیالوجی کو حاصل کرنے کے بعد سیر و سلوک کے مراحل کو طے کرنے کے لے مکاشفات و مشاھدا ت کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے اور بہت سے وہ مسائل جو عقلی استدلالات کے ذریعہ حل ہوتے ہیں انھیں ذہنی مفاہیم کے واسطہ کے بغیر حاصل کیا جاسکتا ہے۔