اصول عملیه

542

اسی طرح اگرفقیه کو کسی فعل کے وجوب یا حرمت عملی میں شک هو یعنی یه نه معلوم هو که یه عمل واجب هے یا حرام اور اس عمل کی حرمت و وجوب پر کوئی دلیل بھی موجود نه هو تو ایسی صورت میں فقیه ( اصل تخییر) کی جانب رجوع کرتاهے جس میں مکلف مختار هوتا هے که اس فعل کو انجام دے یا اجتناب کرے۔ . اگر موارد شک کےموارد میں کوئی سابقه پهلے سے کوئی حالت موجود هو ، بعنوان مثال کے طور پر مکلف یه جانتاهو که عصیر عنبی ( انگور کارس آگ ) پر پکنے اور غلیان سے پهلے پاک تھا ، جب بھی اسے یه شک هو که غلیان باعث نجاست هے یا نهیں اور اس کے اثبات میں کوئی معتبر دلیل بھی نه هو تو سابقه پهلی والی حالت سے( استصحاب) کرکے اس پر طهارت کا حکم لگائے گا ۔اور کبھی کسی چیز میں شک کرے لیکن اس مشکوک کے اطراف میں واجب و حرام کا اجمالی علم هو مثال کے بطور مثال پر مکلف یه جانتاهے که کام معیشت کے مقدمات فراهم کرنے کےلئے کیا جائے اس میں نماز واجب هے لیکن یه نهیں معلوم که آیا نماز قصر هے یا تمام ، پس حالت سفر میں وجوب نماز کا اجمالی علم تو هے لیکن نماز کے قصر یا تمام هونے میں شک هے ۔. اور نماز کے قصر یا تمام هونے پر کوئی معتبر دلیل بھی نهیں ایسی صورت میں مکلف اصل احتیاط کی بنیاد پر اپنا عملی وظیفه مشخص کرتے هوئے دونوں حکم بجالائے گا یعنی نماز کو تمام اور قصر دونوں طرح سے انجام دے گا تاکه اسے برائت ذمه یعنی ذمه داری کی ادائیگی کا یقین هوجائے کیونکه شبهات محصوره میں علم اجمالی کاهونا احتیاط کا باعث هوتا هے ۔ برائت و استصحاب تخییر و احتیاط یه چاورں اصول اصول عملیه کهلاتے هیں جنهیں مجتهد معتبر شرعی دلیل نه هونے کی صورت میں اور شک میں موجود ه شرائط کے مطابق ان میں سے کسی ایک اصل کی مدد سے اپنے اور مقلدین کے عملی وظفیه کو مشخص کرتاهے ۔ب دوسری عبارت دیگر میں کسی بھی حالت میں فقیه پر کشف احکام کشف کرنے کے راستے مسدود نهیں بلکه کھلے هوئے هیں فقیه استنباط کی اس میں سنگلاخ وادی میں کبھی معتبر اجتهادی دلائل تک پهنچتاهے اور ان دلائل کی مدد سے احکام کو کشف کرتاهے .اور کبھی کسی حکم میں شک و شبه کا شکار هوتاهے پهلی صورت میں وه دلیل کے مطابق فتوی دیتاهے اور دوسری صورت میں ان چار اصولوں کی مدد سے وظیفه عملی معین کرتاهے پس جن امور میں اصل حکم میں شک هو که واجب هے یا حرام تو وهاں اصل برائت جاری کرتاهے اور جن موارد میں واجب یا حرام میں سے کسی ایک امر کے درمیان شک هو تو اصل تخییر سے مدد لی جاتی هے . اور جن موارد میں حکم سابقه پهلی حالت رکھتا هو ( چاهے وجوب هو یا حرمت ) تو ان موارد میں استصحاب کے مطابق سابقه پهلی حالت پر حکم لگایاجائے گا او رجن موارد میں واجب دو یا چند احتمال میں محصور هو یا یه که حرام چند احتمالات میں محصور هو تو ایسی صورت میں احتیاط کا حکم لگایاجائے گا یعنی اصل احتیاط کے حساب سے واجب کے تمام احتمالات انجام دینے هوں گے اور دوسری صورت میں حرام کے تمام احتمالات سے اجتناب کرنا هوگا ۔
یهاں پر دو نکته قابل توجه هیںالف : اصول عملیه (یعنی برائت و استصحاب و تخییر و احتیاط ) کی هر اصل محکم او رمعتبر دلیل پر استوار هے . فقط فرق اتنا هے که کسی اصل کی دلیل عقلی هے جسے اصل تخییر او رکسی اصل کی دلیل شرعی هے جیسے اصل استصحاب اور کسی اصل کی دلیل عقلی اور شرعی دونوں هے جیسے اصل برائت و احتیاط هے ان چاروں اصولوں کو علم اصول کی کتابوں میں ان کے دلائل کے ساتھ تفصیل سے بیان کیا گیا هے ۔ 9ب: مذکوره چار اصول کو کبھی شبهات حکمیه اور کبھی شبهات موضوعیه میں جاری کیا جاتاهے ۔شبهات حکمیه یعنی وه مقامات که جهاں حکم شرعی معلوم ومشخص نه هو (جیسے اوپر بیان کی گئی تمام مثالیں ) شبهات موضوعیه یعنی وه مقام که جهاں حکم شرعی تو مشخص هے لیکن موضوع خارجی کی وضعیت روشن نهیں بطور مثال کے طور پر: هم جانتے هیں که اسلام میں مست کرنےوالے مشروبات اسلام میں بطور قطعی طور پرحرام نهیں لیکن همیں شک هے که کیا یه مایع و مشروب جو همارے سامنے هے مسکر هے یا نهیں اس قسم کے موارد میں برائت او راسی طرح مناسبت کے حساب سے دوسرے اصولوں کو جاری کیا جائے گا ، اصول عملیه کے شرائط و خصوصیات او رکیفیت اجراء کے سلسله میں مباحث بهت زیاده دقیق هیں : اسی لئے صرف ایک مشّاق مجتهد هی نهایت دقت و مشق کے بعد انهیں جاری کرسکتاهے اور اصول اجراء کرنےئے اصول کے راستے تلاش کرسکتاهے ۔————–9 . کتاب انوار اصول اور دیگر کتابوں کی جانب رجوع کیا جائے .
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.