استنباط کے مورد اختلاف منابع
اب تک جن منابع کے بارے میں گفتگو هوئی وه سارے منابع استنباط کے مورد اتفاق منابع هیں ان کے علاوه اور بھی منابع هیں که جن میں فقهاء اتفاق نظر نهیں رکھتے پهلے یه بات گذر چکی که مصادر اور منابع احکام ایسے هونے چاهئیے جس سے قطع و یقین حاصل هو اور اگر ان سے ظن و گمان حاصل هوتا هوتو اس صورت میں کوئی ایسی قطعی دلیل هو جو اس ظن و گمان کے اعتبار و حجیت کو ثابت کرے ۔کتاب کے اس حصه میں جن منابع اسنتباط پر گفتگو هوگی یه وه موارد هیں که جس پر (اجتهاد رائے) کا کلمه صادق آتاهے۔ . اس لئے که اجتهاد کی دو اصطلاح هیں :الف : عام طور پر اجتهاد اسے کهتے هیں جس میں فقیه ادلهءشرعیه کے ذریعه حکم شرعی کو کشف کرنے کی کوشش کرتاهے اس طریقه کا اجتهاد تمام علمائے اسلام کے نزدیک معتبر اور مورد اتفاق هے ۔ب: اجتهاد به معنای خاص وه اجتهاد هے که جسے اجتهاد بالرأئے کها جاتا هے اس اجتهاد میں مجتهد استحسان، مصالح مرسله اور وه موارد که جن میں نص موجود نه هو سد و فتح ذرایع سے کام لیتاهے اسی لئے بعض افراد کلمه اجتهاد کو قیاس کا مترادف مانتے هیں -1 اجتهاد کی یه دوسری قسم اهل سنت سے مخصوص هے ، اخباریوں کی جانب سے شیعه اصولیوں پر جو اعتراضات هوئے او راجتهاد کو مذموم قرار کیا دیا گیا اس کی وجه یهی تھی که وه ان دو قسم کے اجتهاد میں فرق کے قائل نهیں هوئے اور یه سمجھ بیٹھے که شیعه مجتهدین کا اجتهاد اهل سنت کے اجتهاد کی طرح اجتهاد بالرأئے پر استورا هے اسی لئے انهوں نے مجتهدین اور ان کے اجتهاد کی سخت مخالفت کی ۔اگرچه (اجتهاد بالرأئے )کے طرفداروں نے استحسان ،قیاس او ردیگر تمام موارد کے اعتبار و حجیت پر کتاب و سنت سے دلیلیں پیش کی هیں لیکن هماری نظر میں اس قسم کے اجتهادات کی دو وجهیں هیں :الف : ایک وجه خود صحابه ءکرام هیں بعض صحابه ءکرام کا اجتهاد بالرأئے سے کام لینا جب که دیگر صحابه ءاس قسم کے اجتهاد کے سخت مخالفت تھے جناب ابن عباس اور عبدالله بن مسعود کے بارے میں نقل هوا هے که وه اجتهاد بالرأئے کرنے والوں کو مباهله کی دعوت دیتے تھے حضرت علی علیه السلام سے روایت هےکه آپ نے فرمایا :”لوکان الدین بالرأی لکان المسح علی باطنة الخف اولی من ظاهره “۔.اگر نظام دین اجتهاد بالرأئ پر قائم هوتا تو تلوے پر مسح کرنا پیر کی پشت پا پر مسح کرنے سے بهتر سمجھاجاتا-2۔ وه افراد جو اجتهاد بالرائے میں سرفهرست هیں اورشهرت رکھتے هیں ان میں سب سے پهلے عمرابن خطاب هے اور اصحاب کے بعد ابو حنیفه کو امام اهل الرأئے کا امام کهاگیا اسی وجه سے اکثر علماء و محدثین نے ابو حنیفه کی مذمت کی هے-3 مکتب رائےکی نسبت فقهائے کوفه کی جانب دی گئی جب که ان کے مقابل فقهائے مدینه کو مکتب حدیث سے یاد کیا گیا-4. وه افراد که جن کا نام اصحاب الرأئے میں آتا هے ان میں سے چند نام یه هیں ابو یوسف ابن سماء ابو مطیع بلخی اور بشیر مرلسی-5۔ب: اجتهاد بالرأئے کے رواج کی دوسری وجه یه که رحلت پیغمبر (ص)کے بعد وصول احکام کے راستے بند هوگئے جیسے هی آپ نے وفات پائی وحی کا سلسله منقطع هوگیا اور لوگ خاندان وحی یعنی اهل بیت پیغمبر(ص)سے دور هوگئے جس کی وجه سے وه حقیقی احکام جو شارع کے مورد نظر تھے ان تک پهنچنے کا راسته بند هوگیا اور یهی بات اجتهاد بالرائے کی تقویت کا سبب بنی ب دوسری عبارت دیگر میں انسداد احکام کا تصور اجتهاد بالرائے کا سبب بنا کیونکه روز مره کے حوادث و واقعات سے حالات کی تبدیلی اور وسائل و آلات کی ترقی کی وجه سے هرروز نئے نئے مسائل وجود میں آتے رهے که جس کی تعداد کم نه تھی او ریه تصور کیا جانے لگا تھا که ایک طرف نصوص دینی ان مسائل کے جواب کےلئے کافی نهیں دوسری طرف دین اسلام آخری دین الهیٰ هے جو رهتی دینا تک قائم و دائم رهنے اور تمام وظایف کو بیان کرنے والا هے پس لازم هے که اس قسم کے اجتهاد ات کو حجت قرار دے کر جدید مسائل میں استنباط احکام کا رسته کھولاجائے ۔اس کے برعکس پیروان مکتب اهل بیت علیهم السلام ائمه معصومین علیهم السلام کی سنت کو پیغمبر(ص)کی سنت کے برابر جانتے تھے اس لئے انهیں احادیث کی دسترسی میں کوئی مشکل یپش نهیں آئی اور وه اس لحاظ سے غنی رهے اور واضح هے که سنت میں ایسے کلی اور عام قواعد موجود هوتے هیں جنهیں جزئی موارد پر تطبیق دیاجاسکتا هے کیونکه ان کلی قواعد میں موارد شک ، فقدان نص یا تعارض نصوص کی صورت میں مکلفین کے وظائف کو بیان کیا گیا هے-6 اسی لئے اجتهاد بالرائے کی نوبت هی نهیں آئی اس لئے که وه اصول جن کا ذکر اوپر گذر چکا وه رفع انسداد کو دور کرنے کےلئے کافی هیں ۔بهرحال هم یهان اجتهاد بالرائے کے چند مصادیق کو بیان کرتے هیں ۔————–1 . روضة الناضر ، ج2 ،ص141 .2 . الاحکام فی اصول ا لااحکام ، ج 4 ، ص 47 ، سنن بهیقی ، ج1 ، 292 .3 . تاریخ بغدادی ،ج 13 ، ص 413 .4 . مناهج الاجتهاد فی الاسلام ، ص 115 .5 . مناهج الاجتهاد فی الاسلام ، ص 117 .6 . اسی کتاب میں مسائل مستحدثه کے عنوان کے تحت جو مطالب آئے هیں ان کی جانب رجوع کریں .