قرآن مجید کی نظر میں خداشناسی کا طریقہ

320

یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان فطرت اور جبلت کی رو سے حقیقت پسند ہے ، یعنی لامحالہ ہمیشہ حقیقت کی جستجو اور حق کی پیروی کرنے والا ہو تا ہے ،اس نے اس فطری عادت کو کسی سے یاد اور کہیں سے نہیں سیکھا ہے ۔انسان اگر کبھی سخت رویہ اختیار کر کے حق کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا ہے ،وہ اس لئے ہے کہ وہ خطا واشتباہ سے دو چار ہوتا ہے اور حق و حقیقت اس کے لئے واضح نہیں ہوتی ہے اگر اس کے لئے حق واضح ہو تاتو غلط راستہ پر نہ چلتا ۔کبھی انسان نفسانی خواہشات کی پیروی میں ایک قسم کی دماغی بیماری سے دو چار ہوتا ہے اور حق کی شیرینی کا مزہ اس کے منہ میں کڑوا بن جاتا ہے ،اس وقت حق کو جانتے ہوئے بھی اس کی پیروی نہیں کرتا ہے ۔اس کے باوجود کہ وہ حق کی حقانیت اور یہ کہ اسے اس کی پیروی کرنی چاہئے ،کااعتراف کرتا ہے ،لیکن اسکی اطاعت کرنے سے سر کشی کرتا ہے۔ چنانچہ بہت سے ایسے اتفاقات بھی ہو تے ہیں کہ انسان مضر اورنقصان دہ چیزوں کا عادی ہو کر ،اپنی انسانی فطرت ،جوکہ خطرہ اورضررسے محفوظ رکھتی ہے ،کو پامال کر تا ہے ،اور ایک ایسے کام کو انجام دیتا ہے ،جس کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ نقصان دہ ہے۔ (جیسے :سگریٹ ،شراب اور نشہ آور چیزوں کے عادی لوگ )قرآن مجید انسان کو حق پسندی اور حق کی پیروی کر نے کی دعوت دیتا ہے اور اس سلسلہ میں زیادہ تاکید کرتا ہے اور گوناگون بیانات کے ذریعہ انسان سے درخواست کرتا ہے کہ حق پسندی اور حق کی پیروی کی فطرت کو اپنے اندر زندہ رکھے۔خدائے متعال فرماتا ہے:(۔۔۔فماذا بعد الحق الا الضلل۔۔۔) (یونس٣٢)”اورحق کے بعد ضلالت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔”(والعصر انّ الانسان لفی خسر الّا الذین ء آمنوا وعٰملوا الصّٰلحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصّبر) (عصر ١۔٣)”قسم ہے عصر کی ،بیشک انسان خسارہ میںہے ۔علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے اور ایک دوسرے کوحق اور صبر کی وصیت ونصیحت کی۔”واضح ہے کہ خداوند عالم کی یہ ساری تاکید یں اس لئے ہیں کہ اگر انسان اپنی حقیقت پسندی کی فطرت کو زندہ نہ رکھے اور حق و حقیقت کی پیروی کی کوشش نہ کرے تو اپنی سعادت و کامیا بی کا پابند نہ ہو گا اور وہ نفسانی خواہشات اوراپنی مرضی کے مطابق جوچاہے گا کہے گا اور جو چاہے گا کرے گا۔ اور غلط تصورات اور خرافی افکار میں گرفتار ہو گا اور اس وقت ایک چوپایہ کی طرح اپنی راہ ( جو انسانی سر مایہ ہے) سے بھٹک کر ، ہوا و ہوس ،لا ابا لی اور اپنی نادانی کی پھینٹ چڑھ جائیگا ۔خدائے متعال فرماتا ہے :(ارء یت من اتّخذ الٰہہ ہوٰہ افانت تکون علیہ وکیلا ٭ ام تحسب ان اکثر ہم یسمعون او یعقلون اِنْ ہم الّا کالانعام بل ہم اضلّ سبیلا) (فرقان ٤٣،٤٤)”کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات ہی کو اپنا خدا بنا لیا ہے،کیاآپ اس کی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں ؟کیاآپ کاخیال یہ ہے ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے؟ ہرگز نہیں یہ سب جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ گم کردہ راہ ہیں ۔”البتہ جب انسان کی حقیقت پسندانہ فطرت زندہ ہو تی ہے اورحق کی پیروی کرنے کی عادت اس میںکارفرما رہتی ہے ،تو یکے بعد دیگرے اس کے لئے حقائق واضح ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ جس حق وحقیقت کو پالے گا اسے دل سے قبول کرے گا اور سعادت و خوشبختی کی راہ میں روزبروز آگے بڑ ھتا چلاجائے گا ۔خداوندمتعال تمام صفات کمالیہ کا مالک ہے
کمال کیا ہے؟ایک گھر کو اس وقت کامل گھر کہہ سکتے ہیں ،جب ایک گھرانے کی ضروریات زندگی کے تمام چیزیں اس میں موجود ہوں ،چنانچہ اس میں مہمان خانہ،باو رچی خانہ ،غسل خانہ وغیرہ کے لئے کافی کمرے موجود ہوں ،جس گھر میں جس قدر یہ وسائل کم ہوں اسی قدر اسے ناقص سمجھا جائے گا ۔اسی طرح ایک انسان میں اس کی فطری خلقت کے مطابق جن چیزوں کا موجود ہونا ضروری ہے ،اگر وہ سب اس میں پائی جاتی ہوں تو وہ کامل ہے ،اگر ان میں سے کسی ایک کی کمی ہو، یعنی وہ ہاتھ ،پائوں یا آنکھ سے محروم ہو تو اسی ا عتبارسے ناقص سمجھا جائے گا ۔لہذامذکورہ بیان سے معلوم ہواکہ صفت کمال وہ چیز ہے کہ جو خلقت کی ضرور توںکو پیداکرتی ہے اوراس کے نقص کو دو ر کرتی ہے ،علم کی صفت کے مانند کہ جہل کی تاریکی کو دور کر کے عالم کے لئے معلوم کو واضح کردیتا ہے اور” قدرت”کہ صاحب قدرت شخص کے مقاصد اور ا غراض کو ممکن بنادیتی ہے اور اسے ان پر مسلط کر دیتی ہے ا یسے ہی دوسرے صفات ہیں جیسے صفت حیات وغیرہ ۔ہماراضمیر فیصلہ کر تا ہے کہ خالق کائنات ( جو ھستی عالم اور مخلو قات عالم کا سر چشمہ ہے، ہر فرض کی گئی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور ہر نعمت وکمال کو فراہم کرتا ہے) تمام صفات کمال کا مالک ہے ، کیونکہ ایک حقیقت پسندنظر کے مطابق یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی شخص ا یسی نعمت کسی کو بخش دے جوخودنہ ر کھتاہویا جس عیب میں وہ خود مبتلا ہو دوسروں سے اس کو دور کرے۔خدائے متعال اپنے کلام پاک میں اپنے تمام صفات کمال کی ستائش کرتا ہے اور خود کو ہر قسم کے عیب ونقص سے پاک ومنزہ قرار دیتاہے:(وربّک الغنیّ ذوالرّحمة۔۔۔) (انعام ١٣٣)”تیرا پروردگار بے نیاز اور مہر بان ہے”(اللّہ لا الہ الّالہ ہولہ الاسما ء الحسنی ) (طہ ٨)”وہ اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے،اس کے لئے بہترین نام ہیں ۔”وہ زندہ، عالم،د یکھنے والا،سننے والا،قادر،خالق اور بے نیاز ہے ، پس خدائے متعال کو تمام صفات کمال کا مالک اور اس کی ذات اقدس کو ہر صفت نقص سے پاک و منزہ جاننا چاہئے ،کیونکہ اگر اس میں نقص ہو تا تو اسی لحاظ سے نیاز مند ہوتا اور اس اعتبارسے اس سے بالاتر کسی اور خدا کو ہونا چاہئے تھا جو اس کی نیاز مندی کو دور کر سکتا ۔(سبحانہ وتعالی عمّا یشرکون) (یونس ٥)”وہ پاک و پاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند وبرتر ہے”
توحید اور یکتائی(لوکان فیہما آلہة الّا اللّہ لفسد تا۔۔۔) (انبیاء ٢٢)” یاد رکھو اگر زمین وآسمان میں اللہ کے علاوہ اور خدا بھی ہوتے تو زمین و آسمان دونوں بر باد ہو جاتے۔”
وضاحتاگر کائنات پر کئی خدائوںکی حکومت ہوتی ،جیسا کہ بت پرست کہتے ہیںکہ کائنات کے ہر شعبہ کاایک الگ خدا ہے ۔ز مین وآسمان اور دریا و جنگل کا الگ الگ خدا ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کائنات کی ہر جگہ پر خدائوں کے درمیان اختلاف کی وجہ سے الگ الگ انتظام بر قرار ہو تا اور اس صورت میں کائنات کا کام لامحالہ تباہی وبر بادی سے دوچار ہوتا ،چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات کے تمام اجزاء آپس میں ھم آہنگ اور مکمل طور پر موافق ہیں اور سب مل کر ایک نظام کو تشکیل دیتے ہیں ،اس بناپر، کہنا چاہئے کہ خالقِ کائنات ایک سے زیادہ نہیں ہے۔یہاں پر یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ فرض کئے گئے خدا، چونکہ عاقل ہوں گے اور وہ جانتے ہوں گے کہ ان کا اختلاف کائنات کو تباہی وبربادی کی طرف لے جائے گا،لہذا وہ ہر گز آپس میں اختلاف نہیں کریں گے ،کیونکہ اس صورت میں وہ ایک دوسرے کے کام میں مؤثر ہوں گے اور ہر ایک دوسرے کی موافقت اور اجازت کا محتاج ہو گا اور اکیلے ہی کوئی کام انجام نہیں دے سکتا ۔ جب کہ خدائے تعالی کو ا حتیاج سے منزہ وپاک ہونا چاہئے ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.