صفات فعلیہ

304

خالق و مخلوق کے درمیان لحاظ کیا جانے والا رابطہ غیر محصور ہے، لیکن پھر بھی اس کی دو قسمیں کی جا سکتی ہیں، پہلی قسم وہ روابط ہیں جو مستقیماً خالق و مخلوق کے درمیان ملاحظہ کئے جاتے ہیں جیسے ایجاد، خلق اور ابداع وغیرہ، اور دوسری قسم ان روابط کی ہے جو چنددوسرے روابط کے ذریعہ وجود میں آتے ہیں جیسے کہ رزق، اس لئے کہ پہلے مرحلہ میں روزی سے فائدہ اٹھانے والا جن چیزوں کو بہ عنوان رزق استعمال کرتا ہے اسے ملاحظہ کیا جائے، اور پھر اسے مہیا اور عطا کرنے والے کو مد نظر رکھا جائے، یا پھر ایک ایسے رابطہ کو ملاحظہ کیا جائے جو خالق و مخلوق کے درمیان پائے جانے والے چند روابط پر مترتب ہوتے ہوں جیسے مغفرت کہ جو، ربوبیت تشریعی الٰہی اور خدا کی جانب سے احکامات کے صادر ہونے اور پھر بندہ کے عصیان( گناہ) کرنے پر منحصر ہے۔نتیجہ: صفات فعلیہ کو حاصل کرنے کے لئے خالق و مخلوق کے درمیان مقایسہ اور خالق و مخلوق کے درمیان موجود ہ رابطہ کا لحاظ کرنا ہوگا تا کہ ان روابط کے ذریعہ ایک مستقل مفہوم وجود میں آئے اِس وجہ سے ذات مقدس الٰہی خود بخود اور اُن روابط کے لحاظ کئے بغیر صفات فعلیہ سے متصف نہیں ہو سکتی لہذا صفات ذاتیہ اور صفات فعلیہ کے درمیان بنیادی فرق یہی ہے۔البتہ جسیا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ امکان ہے کہ اگر صفات فعلیہ کو ان کے مبادی اور منشا کے تحت ملاحظہ کیا جائے تو اس صورت میں ان سب کو صفات ذاتیہ کی طرف لوٹانا ہوگا، جیسا کہ اگر خالق یا خلاق کو اس معنی میں لیا جائے کہ جس میں خلق کی قدرت ہو تو اس کی باز گشت صفت ٫٫قدیر،، کی طرف ہوگی یا اگر صفت ٫٫سمیع ،، اور بصیر کو مبصرات و مسموعات کے جاننے والے کے معنی میں لیا جائے تو اس کی باز گشت ”علیم” کی طرف ہوگی۔اسی طرح وہ بعض مفاہیم جنھیں صفات ذاتیہ میں شمار کیا جاتا ہے انھیں ایک اضافی اور فعلی معنی میں ملاحظہ کیا جائے تو اس صورت میں ان کا شمار صفات فعلیہ میں ہوگا جیسے کہ مفہو م علم قرآن میں متعدد مقامات پر بطور صفات فعلی استعمال ہوا ہے(١)وہ مہم نکتہ جسے یہاں بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جب خدائے متعال اور مادی موجودات کے درمیان رابطہ تصور کیا جاتاہے اور اس طرح خدا کے لئے صفات فعلی حاصل ہوتے ہیں تو یہ صفات اس رابطہ کے طرف موجودات مادی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے قید زمانی و مکانی سے منسوب ہوتے ہیں اگرچہ اس رابطہ کی پہلی طرف یعنی خدا ایسے قیود اور حدود سے منزہ ہے۔جیسے کہ رزق خدا سے لطف اندوز ہونے والے کا عمل ایک خاص زمان و مکان میں واقع ہوتا ہے لہٰذا یہ قید روزی سے مستفیض ہونے والے سے متعلق ہوگی نہ روزی عطا کرنے والے سے اس لئے کہ ذات الٰہی ہر قسم کے زمان و مکان سے مستغنی ہے۔یہ نکتہ ایک ایسا وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعہ ان صفات اور افعال الٰہی کو حل کیا جا سکتا ہے کہ جن کی وجہ سے متکلمین کے درمیان شدید اختلاف ہے۔……………………(١) سورہ بقرہ۔ آیت / ١٨٧،٢٣٥ سورہ انفا ل ۔آیت/ ٦٦ سورۂ فتح ۔ آیت/ ١٨ ،٧ ٢ سورہ آل عمران ۔آیت /١٤٠ ،١٤٢
خالقیت۔واجب الوجود کے اثبات کے بعد ممکن الوجود کی خلقت کی پہلی علت کے عنوان سے اور اس مطلب کے پیش نظر کہ تمام ممکن الوجود اپنی ہستی میں اس کے محتاج ہیں واجب الوجود کے لئے صفت خا لقیت اور ممکن الوجود کے لئے مخلوقیت کا مفہوم حاصل ہوتا ہے مفہوم خالق جو اس رابطہ کے ذریعہ وجود میں آتا ہے علت وجود آفرین اور موجد ( ایجاد کرنے والا) سے مساوی ہے اور تمام ممکن الوجود اور ضرورت مند موجودات اس رابطہ کے ایک طرف ہونے کی وجہ سے صفت مخلوقیت سے متصف ہوتے ہیں۔لیکن کبھی کلمہ ”خلق” محدود معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور تنہا وہی موجودات اس رابطہ کے طرف قرار پاتے ہیں کہ جو مادہ اولیہ سے خلق ہوئے ہیں اور ان کے مقابل میں مفہوم ”ابداع” ( ایجاد کرنا) ان موجودات کے لئے استعمال ہوتا ہے کہ جو مادہ اول سے مسبوق نہ ہو ( جیسے مادہ اولیہ اور مجردات) اس طرح ایجاد کو خلق و ابداع میں تقسم کیا جاتا ہے ۔بہر حال خدا کے خلق کرنے کا مطلب اشیا میں انسانوں کے تصرف اور انھیں بنانے کی طرح نہیں ہے کہ جس میں حرکت اور اعضاء بدن کے استعمال کی ضرورت پڑتی ہے، اور حرکت کوبعنوان ”فعل” اور اس کے قضایا کو بعنوان ”نتیجہ فعل” یاد کیا جاتا ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ”خلق کرنا” یعنی ٫٫ فعل،، ایک شیء اور خلق کیا ہوا یعنی ٫٫مخلوق،، ایک دوسری شیء ہو اس لئے کہ خدا ، موجودات جسمانی کے خواص سے منزہ ہے اگر خدا کے خلق کرنے کو مصداق عینی زائد فرض کر لیا جائے اس کی خلق کی ہوئی ذات پر ، تو پھر اسے ایک ممکن الوجود اور خدا کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق شمار کیا جائیگا ، اور اس کے خلق کرنے گفتگو تکرار ہو گی بلکہ جیسا کہ صفات فعلیہ کی تعریف میں بیان ہوا کہ یہ صفات وہ مفاہیم ہیں کہ جو صفات خداو خلق کے درمیان موجود نسبتوں کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں اور نسبتوں کا قیام عقل کی بنیاد پر ہے
ربوبیت۔خالق و مخلوقات کے درمیان جن روابط کا لحاظ کیا جاتا ہے وہ یہ کہ مخلوقات اپنی آفرینش میں خدا کے محتاج ہونے کے علاوہ اپنی زندگی کے تمام مراحل میں اس سے وابستہ ہیں اور کسی بھی قسم کے استقلال سے عاری ہیں وہ جس طرح چاہے ان کے امور میں تصرف اور ان کے امور کی تدبیر کر ے۔جب اس رابطہ کو بصورت کلی تسلیم کرلیا گیا تو اس سے مفہوم ربوبیت اخذ ہو نا لازم ہے کہ جس کا لازمہ امور کی تدبیر کرناہے، اور اس کے بے شمار مصادیق ہیں جیسے حفاظت کرنا، زندہ کرنا، مار ڈالنا ، روزی عطا کرنا، کمال عطا کرنا، راہنمائی کرنا، امرو نہی کرنا وغیرہ۔ربوبیت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ربوبیت تکوینی یعنی تمام موجودات کی احتیاجات کو بر طرف کرنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا، یعنی کہنا بہتر ہے کہ وہ پورے جہان کا چلانے والا ہے، لیکن ربوبیت تشریعی صرف باشعور اور مختار موجودات سے مخصوص ہے، جیسے انبیاء کو مبعوث کرنا، آسمانی کتابوں کو نازل کرنا، وظائف کی تعین اور احکام و قوانین کے بیان کرنے جیسے امور کو شامل ہے۔نتیجہ۔ ربوبیت مطلق الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ مخلوقات اپنے تمام مراحل وجود میں خدا سے وابستہ ہیں، اور مخلوقات کی آپسی وا بستگی کا سرا بھی واجب الوجود تک پہنچتا ہے، وہ وہی ہے جو اپنی بعض مخلوقات کے ذریعہ بعض کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ، اور دوسری پیدا کی ہوئی اشیا کو اپنی مخلوقات کے لئے غذا بناتا ہے، اور اپنی باشعور مخلوقات کو باطنی عوامل(عقل اور حواس خمسہ) اور ظاہری عوامل (انبیائ، آسمانی کتب) کے ذریعہ ہدایت کرتا ہے اور مکلفین کے لئے احکام و قوانین وضع کرتا ہے۔ربوبیت بھی خالقیت کی طرح ایک اضافی اور نسبتی مفہوم ہے، بس فرق اتنا ہے کہ مختلف موارد اور مقامات پر مخلوقات کے درمیان خاص اضافات و روابط ملاحظہ کئے جاتے ہیں، جیسا کہ مفہوم رزاقیت کے سلسلہ میں گذر چکا ہے۔مفہوم خالقیت اور ربوبیت میں جب خوب غور و فکر کیا جائے تو ان کے درمیان نسبت اور اضافت سے یہ معلوم ہو جاتا ہے، کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے متلازم ہیں، اس اعتبار سے محال ہے کہ جہان کا ٫٫رب،، اس جہان کے خالق کے علاوہ کوئی اور ہو، بلکہ وہی خدا ،جو مخلوقات کومختلف خصوصیات اور ایک دوسرے سے مرتبط و وابستہ خلق کیا ہے وہی ان کی حفاظت کرنے والا ہے، حقیقت میں ، ربوبیت و تدبیر کا معنی و مفہوم مخلوقات کی تخلیقی کیفیت ، اور ان کے آپسی ارتباطات و تعلقات سے اخذ ہوتا ہے ۔
الوہیت۔مفہوم ”الہ” اور ”الوہیت” کے سلسلہ میں صاحبان نظر کے درمیان شدید اختلاف ہے کہ جسے تفاسیر کی کتابوںمیں بیان کیا گیا ہے لیکن جو بات ہمارے نزدیک قابل اہمیت ہے وہ یہ کہ ٫٫الہ،، بہ معنی لائق عبادت ہونا(عبادت و اطاعت کے لحاظ سے شائستہ و سزا وار ہونا ) جیسے کہ ” کتاب” وہ چیز جو لکھے جانے کے قابل ہو۔اس معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے الوہیت ایک ایسی صفت ہے کہ جس کے لئے اطاعت و عباد ت کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا اگر چہ گمراہوں نے ،اپنے لئے باطل خدائوںکا انتخاب کرلیا ہے، لیکن جو ٫٫ ذات،، عبادت و اطاعت کیلئے شا ئیستہ و سزا وار ہو وہی ٫٫ذات،، خالق و رب قرار پائے گی، اور یہ ایک اعتقادی حصار ہے کہ جسے ہر شخص کے لئے ماننا ضروری ہے یعنی خدا کو واجب الوجود خالق اور صاحب اختیار ماننے کے علاوہ اسے اطاعت و عبادت کے لائق سمجھے اسی وجہ سے اس مفہوم کو اسلام کا شعار مانا گیا ہے (لا الہ الا اللہ)۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.