عصمت

261

  حکمت الٰہی کاتقاضاہے کہ (خداوند)انسانوں کے درمیان کچھ ایسے افراد منتخب کرے جو اسکے اہداف ومقاصد اور ان تک پہنچنے کی راہیں انسانوں کو تعلیم دیں اورپھروہ لوگ بھی ان کو دوسروں تک پہنچائیں ۔اب یہ سوال پیش آتا ہے :ٹھیک ہے خداوند عالم نے پیغمبر کو منتخب کیا اور اس پر بعض مطالب کی وحی کی کہ اسے بندوں تک پہنچائے ۔اب ہمیں کیسے اطمینان حاصل ہو کہ خداوند عالم نے جو کچھ اپنے پیغمبر پر وحی نازل فرمائی تھی بالکل وہی من وعن بندوں تک پہنچی ہے ؟دوسرے الفاظ میںوہ پیام جو خداوند عالم کی طرف سے اسکے بندوں پر نازل ہوتا ہے کئی مرحلوں کو طے کرتا ہے تب بندوں تک پہنچتا ہے فرض کیجئے اگر ان مراحل میں کوئی غلطی ہوجائے، بطور مثال ،وحی پہنچانے والے نے پیغمبرتک وحی پہنچانے میں غلطی یا انحراف سے کام لیا ہو،یا پیغمبر وحی کے سمجھنے میں ،یا وحی کی تبلیغ کے وقت غلطی کر بیٹھے یا یہ احتمال ہو کہ العیاذباﷲنبی نے (جان بوجھ کر) کوئی بات بدل کر بیا ن کردی ہے تو جب تک ان مراحل و مراتب کے سلسلے میںہم کو یہ اطمینان نہیں ہوگا کہ اس دوران کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے اس وقت تک لوگوں پر حجت تمام نہیں ہوگی تو اسی دلیل کی بنیاد پر کہ جن کے تحت حکمت الہٰی تقاضا کرتی ہے کہ لوگ راہ سعادت و شقاوت کو پہچانیں اور خداوند عالم کی معرفت حا صل کریں ۔جہاں تک مقاصد الٰہی کو درک کرنے کی بات ہے تو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں ہو ئی ہے یہی دلیل کافی ہے ۔یعنی جب ہم نے اس بات کو سمجھ لیا کہ خود خدا وند عالم کی حکمت کا تقاضا ہے کہ لوگ الٰہی مقاصد کا علم حاصل کریں تو جو کچھ اس عالم ہونے کا لازمہ ہے یہی دلیل مرحلہ بہ مرحلہ ان سب کے لئے کافی ہے کیونکہ اگر ان میں سے کسی ایک مرحلہ میں کوئی غلطی یا خطا ہوجائے تو مقصد ہی فوت ہوجائیگا اوروہ الٰہی مقصد پورا نہیں ہوگا پس یہی دلیل اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ الٰہی اغراض و مقاصد اپنے اصل متن کی صورت میں ہی لوگوں تک پہنچتے ہیں اور خدا کی طرح سے معین درمیانی واسطے کی غلطی کا ارتکاب نہیں کرتے بنابراین وحی کے لانے والے فرشتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وحی کے حصول اور نبی تک پہنچانے میں کوئی غلطی نہ کریں اور خود انبیاء علیہم السلام کے لئے بھی ضروری ہے کہ پیغام وحی صحیح طورپر وصول کریں اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں بھی کوئی غلطی وخطا نہ کریں معلوم ہوا کہ اسی پیغام کا اپنے اصل سر چشمہ سے لوگوں تک پہنچنے کے تمام مراحل میں غلطی وخطا سے محفوظ رہنا اسی دلیل کے ذریعہ ثابت ہے۔یعنی اسی دلیل سے وحی کو صحیح طورپر وصول کرنے اور اس کو لوگوں تک پہنچانے کے سلسلے میںانبیاء علیہم السلام اور ملائکہ کی عصمت کی ایک قسم ہے جو انبیاء علیہم السلام کیلئے اور انبیاء سے پہلے ملائکہ کیلئے ثابت ہوتی ہے۔لیکن عصمت کے دوسرے معنی اوردوسرے مراتب بھی ہیں منجملہ یہ کہ عمل کے میدان میں بھی انبیاء کو غلطی نہیں کرنا چاہئے یعنی وہ اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی کی نہ صرف خلاف ورزی نہ کریں بلکہ ان کا عمل بھی خود ان پر نازل ہونے والی وحی کے مطابق ہونا چاہئے حتّیٰ اس سے بھی بڑھکر ان کو اپنی نبوت ورسالت سے پہلے بھی معصوم ہونا چاہئے اور کبھی کسی گنا ہ کا ار تکاب نہیں کر نا چا ہئے اور پھر اس سے بھی بڑھکر نہ صرف یہ کہ وہ گنا ہ و سر کشی نہ کریں بلکہ احکام کو بیان کر نے کے علا وہ بھی ان سے کو ئی غلطی اور سہو و نسیان صا در نہیں ہو نا چا ہئے ۔مذ کو رہ دلیل ، عصمت کے ان مر اتب کو بیان نہیں کرتی بلکہ فقط اتنا بیا ن کر تی ہے کہ وہ ہدف الٰہی کہ جس کا بندو ں کے لئے سمجھنا ضرو ری ہے ، اصل صور ت میں ان تک پہنچنا ہی چا ہئے لیکن یہ کہ انبیا ء علیہم السلام کو اس کے مطابق عمل بھی کر نا چاہئے یا نہیں ؟ یہ دلیل اس بات کو ثابت کر نے کی قدرت نہیں رکھتی بلکہ ہمیں آیات، روا یا ت اور دوسری دلیلو ں سے اس مطلب کو معلوم کر نا ہو گا ۔پہلے مسئلے میں یعنی ”وحی کو لیکر لو گو ں تک پہنچا نے میں انبیاء علیہم السلام کا معصوم ہو نا ”اس طور پر کہ وہ کوئی غلطی نہیں کر تے ، یعنی جا ن بو جھ کر خود پر نا زل ہو نے والی وحی کے خلاف ،کو ئی بات لو گو ں تک نہیں پہنچا تے ۔ اس ذیل میں عقلی دلیل کے علا وہ بہت زیا دہ آیات و روا یات مو جو د ہیں جو اس بات کی تا ئیدکرتی ہیں لیکن یہا ں قا بل توجہ بات یہ ہے کہ جس شخص پر ابھی نبی کی نبوت نیز اس کی کتاب کی حقانیت ثابت نہ ہو ئی ہو اس کے لئے کتاب کے مطالب سے استد لال کر نا بے فا ئدہ ہے اس لئے کہ فرض یہ ہے کہ اس کو ابھی نبی اور اس کی کتاب کے با رے میں شک ہے ۔لہٰذا ایسے شخص کے سا منے پہلے عقلی دلیل ہی قا ئم کرنا چا ہئے ۔ہا ں یہ ثابت ہو جا نے کے بعد کہ خداوند عا لم کی طرف سے ایک کتا ب ہی نا زل ہو ئی ہے ۔ اس کتا ب کے مطا لب بھی اس کے لئے حجت ہو ں گے۔مثال کے طور پر یہ ثابت ہو جا نے کے بعد کہ قرآن خدا وند عالم کی طرف سے معجزہ ہے فطری طور پر اس کے مطالب بھی تمام لو گو ں کے لئے حجت ہو ں گے لیکن اس سے پہلے کے مر احل میں ہم جو بھی دلیل پیش کریں اس کی بنیا د عقل پر استوار ہو نا چا ہئے ۔
ملا ئکہ کی عصمتقر آ ن کریم میں وہ آیات مو جو د ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ملا ئکہ معصوم ہیں اور وہ الٰہی پیغامات پہنچا نے میں کو ئی غلطی نہیں کرتے اسی طرح انبیا ء علیہم السلام بھی جان بو جھ کر خطا سے محفوظ ہو نے کے ساتھ ساتھ وحی کے پیغام وصول کر نے اور لو گو ں تک پہنچا نے میں بھی غلطی اور خطا سے محفو ظ ہو تے ہیں ۔ہم ملا ئکہ کی عصمت کے با رے میں کچھ آیا ت ذیل میں پبش کر رہے ہیں قر آ ن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :(وَقَا لُوْااتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَداً سُبْحَٰنَہُ بَلْ عِبَا دمُّکْرَمُوْنَ۔لَایَسْبِقُوْنَہُ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمْرِہِ یَعْمَلُوْنَ)(١)”اور (اہل مکہ ) کہتے ہیں کہ خدا ئے رحمان صا حب او لاد ہے وہ اس سے پاک و مبرا ہے بلکہ (وہ فرشتے)خدا کے معزز بندے ہیں جو اس کی بات پر اپنی بات مقدم نہیں کر تے اور یہ لو گ اسی کے حکم پر چلتے ہیں ”۔ دوسری آیت(۔۔۔لَا یَعْصُوْنَ اللَّہَ مَاأَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُوْمَرُوْنَ)(٢)”خداجس بات کا حکم دیتا ہے فرشتے اس کی نا فر ما نی نہیں کر تے اور وہی کر تے ہیں جو انھیں حکم دیا گیا ہے ”۔قرآن نے خاص طور سے حضرت جبرئیل کے با رے میں (جو قر آنی وحی میں وا سطہ رہے ہیں) یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ خدا وند عا لم جو کچھ ان پر وحی کر تا تھا وہ من و عن پیغمبر اسلا م ۖ تک اسی طرح پہنچا دیتے تھے ۔ خدا کی وحی اور پیغام وصول کر نے اور اس کو پیغمبر اسلام ۖتک پہنچا نے کے سلسلے میں عصمتِ جبر ئیل کی تصدیق ہے، رہا یہ مسئلہ کہ جنا ب جبر ئیل کے سلسلے میں یہ خا ص طور سے اہتمام کیو ں کیا گیا ؟ اس کا راز یہ ہے کہ بنی اسرائیل حضرت جبر ئیل کی نسبت بہت زیا دہ حسا سیت رکھتے تھے بنی اسرا ئیل پر جو کچھ بھی عذا ب نا زل ہو ئے ( خو د ان کے عقیدہ کے مطابق)حضرت جبر ئیل کے ذریعہ ہی نا زل ہو ئے تھے ۔ اسی بنا ء پر وہ پیغمبر اکرم ۖکی خد مت میںحا ضر ہو کر کہنے لگے آپ پر جو فرشتہ نا زل ہو تا ہے کو ن ہے ؟اگر وہ جبر ئیل ہے تو ہم آپ کی با تو ں کو قبو ل نہیں…………..١۔سو رئہ انبیاء آیت ٢٦۔٢٧۔٢۔سورئہ تحریم آیت٦۔کریں گے کیو نکہ ان کو ہم سے دشمنی ہے اس وقت یہ آیت نا زل ہو ئی :(قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوّاً لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہُ نَزَّ لَہُ عَلَیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ ا للَّہِ)(١)”(اے رسول ان لو گو ں سے )جو جبر ئیل کے دشمن ہیں کہد یجئے انھو ں نے خدا کے حکم سے(اس قرآن کو)تمہارے قلب پرنازل کیاہے”۔اس آیۂ شریفہ سے اس با ت کا پتہ چلتا ہے کہ جو کچھ بھی حضرت جبرئیل نے پیغمبر ِ اکرم ۖ پر وحی کیا ہے وہی ہے جو خدا نے ان سے فر ما یا ہے اور انھو ں نے اس کو پہنچا نے میں کو ئی کو تا ہی یا مدا خلت اور تصرف نہیں کیا ہے ۔ قرآن کریم میں ار شاد ہو تا ہے:( اِ نَّہُ لَقَوْ لُ رَسُوْلٍ کَرِ یْمٍ ۔ذِ یْ قُوَّ ةٍ عِنْدَ ذِیْ الْعَرْشِ مَکِیْنٍ ۔مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ )(٢)”بیشک یہ (قرآن )ایک معززپیغا مبر( جبرئیل )کی بات ہے جو عرش کے ما لک کی با رگا ہ میں بلند رتبہ ہے فرشتو ں کا سر دار اور اما نت دار ہے ”۔یہ ان مقا مات میں سے ہے جہا ں ملا ئکہ کو بھی رسو ل کہا گیا ہے اور کچھ دو سری آیات جیسے سورئہ حج میں آیا ہے 🙁 اﷲُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلَٰئِکَةِ رُسُلاً)(٣)” خدا فر شتو ں میں سے بعض کو اپنے احکام پہنچا نے کے لئے (رسول یعنی پیغا مبر کے طور پر) منتخب کر لیتا ہے ”۔جن اوصاف کا ان آیتو ں میں ذکر ہے ان سے پتہ چلتا ہے کہ فرشتۂ وحی کی طرف سے کسی تشویش کی ضرورت نہیں ہے فرشتہ ”رسو لٍ کریمٍ ذی قوةٍ ” ہے ۔چو نکہ ممکن ہے کو ئی یہ خیال کرے کہ جس وقت جبر ئیل وحی لیکر پیغمبر کے پاس آ رہے ہو ںراستہ میں ان پر شیاطین حملہ کر کے وحی (کی آیات ) چھین لیں اور اس میں کو ئی کمی یا زیا دتی کر دیں ۔اسی لئے یہا ں پر جبرئیل کی اس قوت و طاقت پر زور دیا گیا ہے کہ جبر ئیل اس قدر قوی ہیں کہ پیغام پہنچا نے میں کو ئی بھی طا قت ان پر قا بو حا صل نہیں کر سکتی ۔ یقیناً ہم نہیں کہہ سکتے کہ جنا ب جبرئیل تک کس طرح وحی پہنچتی تھی اور پیغمبرتک کس طرح وہ پہنچا تے تھے لیکن معقو ل کے ساتھ محسوس کی تشبیہ کے طور پر یہ فرض کر لیجئے کہ ایک شخص کسی چیز کو لیکر کسی دو سرے شخص کے پاس…………..١۔ سورئہ بقرہ آیت ٩٧۔٢۔سو رئہ تکویر آیت ١٩ ۔ ٢١ ۔٣۔سورئہ حجآیت ٧٥۔پہنچا نے جا رہا ہے اور راستہ میں کو ئی چو ر اس پر حملہ کر دے یا کسی بہا نہ سے اس چیز میں رد و بدل کر دے ،یا اس میں کسی چیزکی کمی یا زیادتی کر نا چا ہتا ہے ۔ قرآ ن کریم ایسے میں فر ما تا ہے کہ جنا ب جبر ئیل اس طا قت کے مالک ہیں کہ کو ئی بھی طا قت کسی طرح بھی ان کی پیغا م رسا نی میں کو ئی مدا خلت اور تصرف نہیں کر سکتی۔ اب جبکہ معلوم ہو گیا کہ شیا طین جبر ئیل پر غا لب آ کر ان کی رسالت میں کو ئی مد ا خلت او ر تصر ف نہیں کر سکتے تو اب سوا ل پیدا ہو تا ہے کہ کیا خود جبرئیل اس وحی میں کو ئی تصر ف کر سکتے ہیں ؟ قر آ ن کریم فر ما تا ہے :”مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ” جبر ئیل تمام فر شتو ں کے سردار اور اما نتدار ہیں ۔ اس بنا پرجبرئیل کی طرف سے بھی وحی میں دخل اندازی اور تصرف کا احتمال نہیں رہ جا تا ۔ایک اور آیت میںخدا وند عا لم فر ماتا ہے :(وَمَانَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِرَبِّکَ لَہُ مَا بَیْنَ اَیْدِ یْنَا وَمَاخَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذَٰلِکَ وَمَاکَانَ رَبُّکَ نَسِیّاً )(١)”اور ہم (فرشتے )آپ کے پر ور دگا ر کے حکم کے بغیر زمین پر نہیں اتر تے جو کچھ ہما رے سا منے اور ہما ری پس پشت اور جو کچھ ان کے در میان ہے (سب کچھ ) اسی کا ہے اور تمہا را پر ور دگا ر کچھ بھو لتا نہیں ہے ”۔پس یہ آیتیں اس چیز کی ضما نت ہیں کہ ملا ئکہ ہر طرح کی خطا اور شیا طین کے تسلط و تصر ف سے محفو ظ ہیں ۔
عصمتِ انبیا ء علیہم السلام( وحی سمجھنے میں )کیا انبیا ء علیہم السلام سے وحی سمجھنے میں غلطی ممکن ہے ؟ عا م انسا نو ں کے لئے تو ایسا ہو تا ہے کہ جب وہ کسی سے گفتگو کر تے ہیں تو بعض او قات ان کی بات صحیح طو ر پر نہیں سمجھ پا تے یا کچھ کا کچھ سن لیتے ہیں تو کیا انبیا ء کے بارے میں بھی اس بات کا احتمال ہے کہ مثلاً جب جبر ئیل ان کے پاس خدا کا پیغا م لائیں تو وہ جبر ئیل کی با تیں کچھ کا کچھ سمجھ لیں ؟ یا فرض کیجئے خدا کا پیغام صحیح طور پر سمجھ تو لیں لیکن کیا یہ احتمال پا یا جا تا ہے کہ وہ تبلیغ کے مر حلے میں پیغا م خدا لوگوں تک پہنچا تے وقت غلطی سے دو چا ر ہو جائیں ؟ اور اگر وہ غلطی کے مر تکب نہیں ہو تے تو اس کی دلیل کیا ہے ؟مذ کو رہ عقلی دلیل کے قطع نظر ، اس سلسلہ میں بھی آ یتیں مو جو د ہیں جو اس بات کی ضا من ہیں کہ انبیا ء علیہم السلام نہ تو وحی کے سمجھنے میں غلطی کر تے اور نہ ہی اس کو لو گو ں تک پہنچا نے میں خطاکر تے ہیں خدا وند عالم ارشا د فر ما تا ہے:( عَالِمُ الْغَیْبِ فَلاَیُظْہِرُعَلَی غَیْبِہِ َحَدًا۔ِلاَّمَنْ ارْتَضَی مِنْ رَسُولٍ فَِنَّہُ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہِ رَصَدًا۔لِیَعْلَمَ َنْ قَدْ َبْلَغُوارِسَالَاتِ رَبِّہِمْ وََحَاطَ بِمَالَدَیْہِمْ وََحْصَی کُلَّ شَیْئٍ…………..١۔سورئہ مریم آیت ٦٤ ۔عَدَدًا )(١)”(خدا ) غیب کا عالم ہے اور اپنی غیب کی بات کسی پر ظاہر نہیں کر تا مگر وہ جس پیغمبر کو منتخب فر ما ئے تو اس کے آگے اور پیچھے نگہبا ن (فرشتے ) مقرر کر دیتا ہے تا کہ دیکھ لے کہ انھو ں نے اپنے پرور دگار کے پیغا مات (لو گوں تک ) پہنچا دیئے ہیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے سب اس کے حصار میںہے اور ایک ایک چیز اس کے زیر تسلط ہے ”۔”فانّہُ یَسْلَکُ مِنْ ”اب وہ جس رسول اور پیغمبر کو پسند اور منتخب کر لیتا ہے اس کے آ گے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے اور اپنے حصار میں رکھتا ہے کو ئی ان پر اعتراض نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان کی رسالت میں خلل اندازی کر سکتا ہے ۔ وہ اس طرح الٰہی نگہبا نوں کے احا طہ میں رہتے ہیں کہ کو ئی خطا نہیں کر تے ۔”لِیَعْلَمَ اَنْ قَدْ ۔۔۔”خدا یہ کام انجام دیتا ہے تا کہ وہ سمجھ لے کہ انھو ں نے اپنے پر ور د گا ر کے پیغا مات ٹھیک ٹھیک پہنچا دیئے ہیں۔اس آیۂ شریفہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انبیا ئے الٰہی وحی کے سمجھنے اور بعینہ ان ہی الفاظ میں لو گو ں تک (منطوق کلا م پہنچا نے میں )غلطی نہیں کر تے ۔ اس لئے کہ اگر ان میں خطا کا احتمال ہو تو ”لِیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَ بْلَغُوْا رِسَا لَاتِ رَبِّھِمْ ”متحقّق نہیں ہو گا جب خدا وند عالم کے علم میں انھو ں نے اس کے پیغا مات صحیح طور پر لو گو ں پہنچا دیئے ہو ں تو ان میں کسی خطا کا احتما ل نہیں پا یا جاتا ۔ یہ آیت اس چیز کا بہترین ثبو ت ہے کہ انبیا ئے الٰہی وحی کا پیغام سمجھنے اور لو گو ں تک پہنچا نے میںکو ئی غلطی اور خطا نہیں کر تے ۔ یعنی یہ بھی اسی عقلی دلیل کے ما نند ہے کہ اگر ایسانہ ہو تو مقصد بھی فوت ہوجائے گا اور یہ حکمت الٰہی کے خلا ف ہے ۔
کیا انبیا ء علیہم السلام وحی میں کسی چیز کا اضا فہ کر سکتے ہیں ؟اب جبکہ طے پا گیا کہ انبیاء علیہم السلام وحی کے سمجھنے اور تبلیغ کر نے میں کو ئی غلطی نہیں کر تے بالکل صحیح اور مکمل طور پر لو گو ں تک پہنچا تے ہیں تو کیا ان کے لئے وحی میں کسی چیز کا اضا فہ کرنا ممکن ہے ؟ گذشتہ آیت میں خداوند عالم نے فر ما یا تھا کہ خدا وند عا لم جو کچھ ان پر وحی کر تا ہے انبیا ء اسی طرح اس کو لو گو ں تک پہنچا تے ہیں اور ان کی اس طر ح حفا ظت کرتے ہے کہ خد اوند عا لم کے پیغاما ت بالکل صحیح طور پر لوگوں تک پہنچ جا ئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے لئے ممکن ہے و ہ وحی میںکسی اور چیز کا اضا فہ کردیں ؟اور کوئی ایسی با ت پر جو خد اوند عا لم نے ان پر وحی نہ کی ہو وحی کے عنو ان سے لوگوں تک پہنچا دیں ؟…………..١۔سورۂ جن آیت ٢٦۔ ٢٨ ۔اس منزل میں بھی (گذ شتہ آیات میں ذکر شدہ علت سے عمو می استفا دہ کے علا وہ )بہت سی دلیلیں ہیں جو اس چیز پر دلا لت کر تی ہیں کہ خدا وند عالم بندو ں تک اپنے پیغا ما ت پہنچا نے کے لئے کسی ایسے ہی شخص کو منتخب کر تا ہے کہ جس کے با رے میں اطمینان ہوکہ وہ خیا نت نہیں کرے گا ۔ ور نہ خدا کا مقصد فوت ہو جا ئے گا اگر رسو ل معصوم نہ ہو اوریہ احتمال پا یا جا ئے کہ وہ اپنی طرف سے بھی لو گو ں کے سا منے کچھ بیان کر سکتا ہے تو خدا کی غرض فوت ہوجا ئے گی کیو نکہ لوگ شبہہ میں پڑ جا ئیں گے اور وحی اور غیر وحی میں فرق نہیں کر سکیں گے ۔ہم اس سلسلہ میں بھی متعدد آ یات سے استفا دہ کر سکتے ہیں پہلے ان آیات کو بیان کر دیں کہ جن میں کلی طور پر کہا گیا ہے کہ نبی پیغام وحی میں اپنی طرف سے کو ئی اضا فہ نہیں کرتا 🙁 وَمَااَرْسَلْنَامِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ اِلَّابِاِذْنِ اللَّہِ)(١)”اور ہم نے کو ئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ خدا کے حکم کے تحت لو گ اس کے حکم کی اطا عت کریں ”۔ظا ہر ہے کہ خدا کا رسول جو کچھ بھی لو گو ں تک پہنچا ئے اس پر عمل کرنا لو گو ں کا فریضہ ہے اب اگر پیغمبر اپنی طرف سے کو ئی بات اضافہ کر دے تو اس پر عمل ضروری نہیں ہو گا ۔ حا لا نکہ خداوندعالم نے حکم دیا ہے کہ ہر رسول کی مطلق طور پر اطا عت کر نا چا ہئے ۔ معلوم ہوا کہ جو کچھ بھی انبیاء علیہم السلام الٰہی پیغام کے عنوان سے بیا ن کر تے ہیں وہ خدا کی رضا کے مطابق تا ئید شدہ ہے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ انبیاء علیہم السلام جن با توں کی تبلیغ فر ما تے ہیں وہ سب خدا وند عا لم کی تا ئید شدہ ہیں اور ان کی کلی طور پر اطا عت ہو نی چا ہئے دو سرے لفظو نمیں : خدا وند عا لم ایسے کو پیغمبر نہیں بنا تا جو خدا وند عا لم کے پیغا مات میں اپنی طرف سے کسی چیز کا اضا فہ کر دے ۔دوسری آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے با رے میں ہے نصا ریٰ کا عقیدہ تھا کہ عیسیٰ بن مر یم نے اپنے کو لو گو ں کے سا منے خدا کے بیٹے کی حیثیت سے پہچنو ا یا ہے اور اپنی پر ستش کر نے کی دعوت دی ہے ۔ بہت سی آیتو ں میں اس مو ضو ع کے با رے میں بحث کی گئی ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے اور اسی انتساب کی بنیا د پر جو نصا ریٰ نے حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف دی ہے ایک آیت میں خدا وند عالم حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کر تا ہے :(ئَ أَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُ مِّیَ اِلَٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللَّہِ۔۔۔)(٢)…………..١۔سورئہ نسا ء آیت ٦٤۔٢۔سو رئہ مائدہ آیت ١١٦۔”کیا تم نے لو گو ں سے کہا ہے کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ما ں کو خدا بنا لو ”۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی نفی میں جوا ب دیتے ہو ئے عرض کر تے ہیں 🙁 اِنْ کُنْتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ۔۔۔ )”اگر میں نے ایسا کچھ کہا ہو تا تو تجھ کو خود معلوم ہو تا کیونکہ تو میرے دل کی سب بات جا نتا ہے ”۔پیشِ نظر آیت میں گو یا خدا وند عالم استد لال کے پیرا ئے میں فر ما تا ہے کہ اس کا کو ئی سوال ہی نہیں ہے کہ خداوند عالم کسی کو رسول بنا ئے اور وہ خدا وند عا لم کے اغراض و مقا صد کے خلاف بات کرے ۔ خدا وند عالم بھی کسی ایسے شخص کو کہ جس کے یہاں اس طرح کا احتمال بھی ہو رسا لت کے لئے منتخب نہیں کر سکتا ۔اس کی دو ہی صو رتیں ہوسکتی تھیں یا تو خدا جا ہل ہو تا اور اس کو یہ معلو م ہی نہ ہو تا کہ یہ شخص ایسا کرے گا یا یہ کہ وہ عا جز ہو تا اور اس کو ایسا کرنے سے نہ روک سکتا اور خدا وند عالم نہ جا ہل ہے اور نہ عاجز،اور وہ فر ماتا ہے :(وَمَاکَانَ لِبَشَرٍاَنْ یُوْ تِیَہُ اللَّہُ الْکِتَٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنَّبُوَّةَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِکُوْنُوْا عِبَا داً لِّی مِنْ دُوْنِ اﷲِ)(١)”کسی آدمی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ خدا اسے کتاب ، حکم اور نبوت عطا فر ما ئے اور وہ لو گو ں سے کہے کہ خدا کو چھوڑ کر میرے بندے بن جا ؤ ”۔کیا خدا ایسے کو پیغمبر بنا سکتا ہے کہ خدا نے تو اس کو تو حید کی رہنما ئی کے لئے بھیجا ہو اور وہ لوگوں کو شرک کی دعوت دے ؟ خدا وند عالم کبھی بھی ایسے پیغمبر کا انتخاب نہیں کر سکتا ۔پیغمبراسلام ۖکے با رے میں ہے کہ مشر کین آپ کی طرف افتراء کی نسبت دیتے تھے ۔ وہ کہتے تھے (العیاذ با ﷲ ) آپ جو کلمات خدا سے منسوب کر تے ہیں وہ خود آپ ہی کے کلمات ہیں صرف اس لئے کہ لو گ قبو ل کر لیں، کہتے ہیں کہ خدا نے ایسا فر ما یا ہے ۔ بہت سی آ یات ہیں جن میں خدا وند عا لم نے مشر کین کی زبا نی پیغمبر پر افترا ء کی نسبت نقل کی ہے ۔ آج بھی بعض دا نشور اور مستشر قین جب دین اسلا م کا ایک تر قی یا فتہ دین کے عنو ا ن سے تعا رف کرا تے ہیں اور دین اسلا م کی تعلیما ت کی تعریف کر تے ہیں اس کے سا تھ ہی یہ کہتے ہیں کہ اسلا م کا قانون بنا نے وا لے (نبی) بات منو ا نے کے لئے اپنی با ت کو خدا سے منسوب کر دیتے تھے ۔ اس زما نہ میں بھی اس طرح کی…………..١۔سورئہ آل عمران آیت ٧٩۔با تیں تھیں لیکن جو دین اسلا م قبو ل نہیں کر نا چا ہتے تھے ۔وہی اس طرح کی با تیں بنا یا کر تے تھے۔ خداوندعالم فر ما تا ہے کہ اگر یہ طے ہو تا کہ جو کچھ ہم نے اپنے نبی پر وحی کی ہے وہ اسکے خلاف ایک حرف بھی لو گو ں سے کہیں گے تو ہم ان کو ایسا کر نے کی مہلت ہی نہ دیتے ار شا د ہو تا ہے:( وَ لَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَابَعْضَ الاَ قَاوِیْلِ۔لَاَخَذْنَامِنْہُ بِالْیَمِیْنِ۔ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہ الْوَ تِیْنَ۔فَمَامِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْہُ حَٰجِزِیْنَ )(١)”اگر رسو ل ہما ری طرف سے کو ئی با ت گڑھ کر کہتے تو ہم پو ری قو ت کے سا تھ ان کو رو ک دیتے اور پھر ہم ان کی رگِ حیا ت ہی قطع کر دیتے اور تم میں کو ئی مجھے اس سے روک نہیں سکتا تھا ” ۔یہا ں پر (لَا خَذْ نَا مِنْہ ُ بِا لْیَمِیْنِ) ”تو ہم ان کو دا ہنے ہا تھ سے پکڑ لیتے ”سے مرا د یہ ہے کہ ہم ان کو اپنی پو ری قوّت سے روک دیتے ۔ ( عربی زبان میں اس طرح کے جملے قد رت کی علا مت ہو تے ہیں کیو نکہ عام طو ر پر انسا ن کا داہنا ہاتھ اس کے با ئیں ہا تھ سے زیا دہ قو ی ہو تا ہے ) اور نہ صرف یہ کہ ہم ایسی بات کر نے سے روک دیتے بلکہ ان کی رگ حیا ت کو منقطع کر دیتے ”ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَ تِیْنَ ”اور کو ئی شخص ہم کو ایسا کر نے سے روک بھی نہیں سکتا تھا۔یہ آیا ت اس چیز پر دلا لت کر تی ہیںکہ انبیا ء علیہم السلام وحی کو سمجھنے اور اس کو من و عن لو گو ں تک پہنچا نے میں کو ئی بھی غلطی یاخطا نہیں کر تے اور نہ ہی اپنی طرف سے اس میں کسی چیز کا اضا فہ کرتے ہیں ۔
مقا مِ عمل میں انبیاء علیہم السلام کی عصمتعقل ہم سے کہتی ہے کہ بندو ں تک الٰہی پیغام من و عن با لکل صحیح پہنچنا چا ہئے لہٰذا انبیا ء علیہم السلام کاوحی کے سمجھنے اور لوگو ں تک پہنچا نے میںقطعی طو ر پر معصو م ہو نا ثا بت ہے لیکن مقا م عمل میں بھی خود انبیا ء علیہم السلام ان پیغامات پر ضرور عمل کر تے ہیں اس کو ثا بت کر نے کے لئے یہ دلیل کا فی نہیں ہے۔ بعض علما ء علم کلام نے مقا م عمل میں انبیاء علیہم السلام کی عصمت عقل کے ذریعہ ثا بت کر نے کی چند صورتیں بیا ن کی ہیں منجملہ وہ کہتے ہیں :قو ل کی طرح عمل بھی کسی کا م کے جا ئز ہو نے پر دلا لت کر تا ہے ۔ اگر پیغمبر (العیا ذ با ﷲ ) کسی گنا ہ کا ارتکاب کر تے تو لو گ ان کے عمل کو اس گنا ہ کے جا ئز ہو نے کی دلیل سمجھتے اور اس سے بھی خدا وند عالم کی حکمت فوت ہوجاتی۔ خدا وند عالم نے انبیا ء علیہم السلام کو اسی لئے بھیجا ہے کہ وہ لو گو ں کوسمجھائیںکہ کونسا کام کر نا چا ہئے اور کو نساکام…………..١۔سورئہ الحا قہ آیت ٤٤تا٤٧۔نہیں کر نا چا ہئے ۔ اگر کو ئی پیغمبر عملی طور پر کسی گنا ہ کا مرتکب ہو تولوگ اُس کو اِس گنا ہ کے جا ئز ہو نے کی دلیل سمجھیں گے اور اس سے خدا کی حکمت فوت ہوجا ئے گی ۔یہ دلیل بہت زیا دہ یقین آور نہیں ہے اس لئے کہ ممکن ہے کو ئی شخص خدا کے پیغا م کو صحیح طو ر پر لوگوں تک پہنچادے اور اُن سے کہے کہ اس کے مطابق کام انجا م دینا چا ہئے لیکن میں بھی تمہا ری طرح کبھی کبھی گنا ہ کا مر تکب ہو جا تا ہوں اور میرا فلا ں کام خلا ف ورزی کی وجہ سے تھا لیکن تم اس گنا ہ کا ارتکاب نہ کر نا ۔ عقل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اتنا کہنا کا فی نہیں ہے اور یہ عقلی طور پر محا ل بھی نہیں ہے البتہ ہما رے پاس کتا ب و سنت سے کا فی دلیلیں موجود ہیں جو اس چیز پر دلا لت کر تی ہیں کہ انبیاء علیہم السلام حتیٰ رسالت سے پہلے بھی معصوم ہو تے ہیں لیکن عصمت کی ضرورت پر عقلی دلیل کاقا ئم کر نا آ سا ن نہیں ہے ۔ ہم عقل کے ذریعہ جو بات انبیا ء علیہم السلام کی عصمت کے لئے ثابت کر سکتے ہیں وہ وحی کے سمجھنے اور اس کو ٹھیک ٹھیک لو گو ں تک پہنچا نے کے سلسلے میں ان کا معصوم ہو نا ہے ۔ ہاں یہ خدا وند عالم کی طرف سے ایک لطف ہے کہ انبیا ء علیہم السلام عملی طور پر بھی خطا و غلطی سے معصوم ہو تے ہیں کیونکہ خطا و غلطی سے معصوم ہو نے کی وجہ سے لوگ ان پر زیادہ اعتماد کر یں گے اور ان کی رفتا ر لو گو ں کیلئے نمو نۂ عمل ہوگی اور لوگ ان (معصو موں ) کی رفتار و کر دار سے پو ری طرح تمسک کر سکیں گے۔ یہ ان پر خداوند عالم کا ایک لطف ہے لیکن ہم اس بات کی ضرو رت عقلی دلیل کے ذریعہ ثا بت نہیں کر سکتے البتہ انبیا ء علیہم السلام کی عصمت پربہت سی آیات دلالت کر تی ہیں اور روا یات بھی کثر ت سے مو جو د ہیں۔اس مسئلہ میں مسلما نو ں کے مختلف فر قو ں کے در میان کئی جہتو ں سے کم و بیش اختلاف رہا ہے انبیا ء علیہم السلام نبو ت ملنے کے بعد معصو م ہو تے ہیں اس با رے میں تقر یباً سبھی متفق ہیں لیکن بعض کے نز دیک نبو ت ملنے سے پہلے معصیت کا امکان پایا جا تا ہے اور بعض کا خیا ل ہے کہ انبیا ء علیہم السلام ایسا فعل انجا م دے سکتے ہیںجو بعد میں خود ان کے دین میں حرا م ہو جا ئے لیکن ابھی حرا م نہیں ہو ا ہے اور بعض کا یہ نظر یہ ہے کہ وہ صرف گنا ہ کبیرہ سے معصو م ہو تے ہیں ۔ان تمام نظر یو ں کے طر فدا روں نے اپنے اپنے نظر یو ں کو ثا بت کر نے کے لئے کچھ عقلی دلیلیں پیش کی ہیں منجملہ یہ کہ : اگر کو ئی شخص کسی گنا ہ کامر تکب ہو ا ہوتو یہ اس شخص کے وقار کو ختم کر دیتا ہے اور لوگ ایسے شخص پر اعتماد نہیں کر تے۔ لہٰذا نبی کو خو د بھی عملی طور پر بُرے اعمال سے محفو ظ رہنا چا ہئے تاکہ لو گو ں کی نظر میں قا بل اعتماد رہے ۔ اس دلیل کی بنیاد بھی گمان پر ہے اس لئے کہ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ ایک شخص کے پاس کتاب ہے اور وہ اِس کتاب کو خداوند عا لم کی طرف سے لو گو ں کے لئے لیکر آیا ہے اور اس کتا ب کو اس نے لو گو ں تک پہنچا کر حجت تمام کر دی ہے تو اس صورت میں خود اس کو بھی کتا ب کے خلا ف عمل نہیں کر نا چا ہئے اس پر کو ئی عقلی دلیل قا ئم کرنا مشکل ہے البتہ اس کی تر جیح اور اولو یت میں کو ئی شبہ نہیں ہے ۔بہر حا ل شیعو ں کا عقیدہ ہے کہ انبیا ء علیہم السلام اپنی پیدا ئش سے مو ت تک تمام گنا ہو ں سے خواہ کبیر ہ ہو یا صغیرہ محفو ظ ہیں اور حضرت آ دم علیہ السلام سے لیکر حضرت خا تم النبیین تک کسی ایک نبی نے بھی اپنی پو ری عمر کے دوران چھو ٹے سے چھو ٹے گنا ہ کا بھی ارتکا ب نہیں کیا ہے لیکن اہلسنت کے بعض فر قے ہم سے اس با رے میں کم و بیش اختلاف رکھتے ہیں اور انھو ں نے بعض شکو ک و شبہات بھی پیدا کئے ہیں شا ید ہم بعد میں ان میں سے بعض شبہات کو بیا ن کریں ۔
مقا مِ عمل میں انبیا ء کے معصوم ہو نے پر کیا کو ئی قر آ نی دلیل ہے ؟قر آن کریم کی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ انسا نو ں کے در میا ن کچھ ایسے ”مخلَص ”بند ے ہیں جن کی خلقت کے پہلے دن سے ہی جب شیطا ن نے بنی آ دم کو گمرا ہ کر نے کا اعلان کیا ہے ۔ اس کے یہا ں ان افرا د کو گمرا ہ کر نے کی طمع نہیں تھی چنا نچہ خدا وند عا لم کے در با ر سے نکا لے جا نے کے بعد اس نے قسم کھا کر کہا تھا :(فَبِعِزَّ تِکَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔اِ لَّا عِبَادَ کَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ )(١)”تیری عزت (و جلال ) کی قسم تیرے مخلَص بند و ں کے سوا ہر ایک کو ضرور گمرا ہ کر وں گا ”۔یہ”مخلصین ”بندے کس طرح کے ہیں کہ خو د شیطا ن بھی جانتا تھا کہ میں ان کو گمراہ نہیں کرسکتا ؟ وہ کون سے بندے ہیںاور ان کی کیا خصوصیتیں ہیں ؟تعبیر مخلص سے یہ مطلب نکالا جاسکتاہے کہ یہ وہ افراد ہیں جن کو خداوند متعال نے صرف اپنے لئے پاک و مخلص کیا ہے ۔قا رئین کرام : یہا ں یہ بیان کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ َمخلص (لام پر زبر )کے ساتھ اور مخلِص (لام پر زیر ) کے ساتھ دو الگ الگ مفہوم کے حامل ہیں (زیر کے ساتھ ) مخلصین وہ لوگ ہیں جو اپنی جگہ خود خلوص نیت سے خدا کے لئے عمل انجام دیتے ہیں لیکن (زبر کے ساتھ ) مخلصین وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے پاک نیت اور مخلص بنایا ہے صرف ان کے عمل میں ہی خلوص نہیں ہے بلکہ وہ خود بھی مجسمۂ خلوص ہیں یعنی ان کا پورا وجود خدا کے لئے ہے ۔ چنانچہ ان افراد سے شیطان کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔ یہ مخلص کی تعبیر تقریباً اسی اصطلاح معصوم پر منطبق ہوتی ہے ۔ جب ہم معصوم کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندہ جس کو خداوند عالم نے گناہوں سے محفوظ کردیا ہے ( البتہ یہاں پہ…………..١۔سورئہ ص آیت ٨٢ ۔٨٣ ۔یاد رکھنا چاہئے کہ یہ چیز صاحب اختیار ہونے کے منافی نہیں ہیں۔ خدا نے صرف ان کے گناہ نہ کرنے کی ضمانت لی ہے ۔ اْ ن کا اختیار سلب نہیں کیا ہے ) قرآن کریم میں معصوم کی اصطلاح استعمال نہیں ہو ئی ہے جو تعبیر” معصوم ” کے مفہوم پر منطبق ہوتی ہے ۔ یہ وہ بندے ہیں جن کو خداوندعالم نے خالص اپنے لئے قرار دیا ہے ، اور ان کے یہاں شیطان کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے اور وہ اس طرح کے ہیں کہ خود شیطان بھی ان کو گمراہ کرنے کی ہو س میں نہیں آتا۔ قرآن کریم نے کچھ ایسے انبیا ء علیہم السلام کے نام لئے ہیں جو خدا کے مخلص بندے ہیں 🙁 اِ نَّہْ مِنْ عِبَادِنَاالْمُخْلِصِیْنَ وَکَانَ مُخْلِصَاً)”بیشک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھا اور وہ میرا مخلَص بندہ تھا ”۔ان مخلص بندوں کے با رے میں بعض مقامات پر وضاحت کی گئی ہے کہ خداوند عالم چاہتا ہے کہ ان کو برے کاموں سے دور رکھے اور ان کے وجود کو ہر طرح کے انحرافات اور پلیدیوں سے محفوظ رکھے اور ان ہی مقامات میںسے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ہے جس میں قرآن نے عزیز مصر کی بیوی زلیخا کا حضرت یوسف علیہ السلام پر عاشق ہو جا نا ذکر کیا ہے یہا ں تک کہ زلیخا نے ایک ایسا کمر ہ تیا رکیا جو ہر رخ سے محفو ظ اور تنہا ہو اور وہا ں حضر ت یوسف علیہ السلام کو مشتعل کر نے کے تمام وسا ئل بھی فرا ہم تھے ا ور وہ بہا نے سے آپ کو کمرہ میںلے گئی اور دروازوں کو اس طرح بند کیا کہ کسی دو سرے کو اس کی خبر نہ ہو سکے ۔ روا یات میں یہا ں تک ہے کہ اس نے کمرہ کے چاروں طرف آ ئینہ بندی کر دی تھی کہ حضرت یو سف علیہ السلام جس طرف بھی نظر اٹھا ئیں زلیخا ہی کی تصو یر دکھائی دے اس طرح کے حا لات میں قر آ ن کریم فر ما تا ہے 🙁 وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہِ وَھَمَّ بِھَا لَوْلَا اَنْ رَّئَ ا بُرْھَٰنَ رَبِّہِ کَذَٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْئَ وَالْفَحْشَآئَ اِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَاالْمُخْلَصِیْنَ ) (١)”اس عو رت نے تو ان کو حا صل کر نے کا پکا ارادہ کر لیا تھا اب اگر انھو ں نے اپنے پر ور دگا ر کی دلیل نہ دیکھی ہو تی تو وہ بھی اس کا قصد کر بیٹھتے (لیکن ) ہم نے ایسا کیا کہ ان سے برا ئی اور بد کا ری کو دور رکھیں ، بیشک وہ (یوسف) ہما رے ”مخلَص ” بندو ں میں تھے ”۔ظا ہر ہے اس طرح کے مو ا قع پراگر خدا وند عالم کا خا ص لطف نہ ہو تو ایک عا م انسان اپنے نفس پر کنٹرو ل نہیں کر سکتا ۔ ایسے میں جب عزیز مصر کی بیو ی حضر ت یو سف علیہ السلام کی طرف بڑھی تو قبل اس کے کہ آپ بھی اس…………..١۔سو رئہ یو سف آیت ٢٤ ۔کی طرف ما ئل ہو ں خدا وند عا لم نے ان پراپنی دلیل آشکا ر کر دی اور یہ کام اس لئے کیا کہ حضرت یو سف گنا ہ سے محفو ظ رہیں ۔ رہی با ت کہ وہ دلیل کیا تھی جو خدا وند عا لم نے حضرت یو سف علیہ السلام پر آشکار کی تھی ؟ اس بارے میں کچھ ایسی آ یا ت نقل ہو ئی ہیں جن کے مطالب اطمینان بخش نہیں ہیں ۔قر آ ن کریم نے وا ضح طور پر یہ بیا ن نہیں کیا ہے کہ حضرت یو سف علیہ السلام نے کیا چیزدیکھی تھی ۔ قر آ ن نے صرف اتنا کہا ہے کہ حضر ت یو سف علیہ السلام نے ”خدا کی دلیل ”کا مشا ہد ہ کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ کو ئی غیبی بات ان پر آ شکا ر ہو ئی تھی ”دلیل ”یا ”بر ہا ن ”کی لفظ عا م طو ر سے اس جگہ بو لی جا تی ہے جہا ں انسان کو کو ئی علم حاصل ہو ۔ حضرت یو سف علیہ السلام نے کو ئی ایسی نشا نی کا مشا ہد ہ کیا جس نے ان کو غفلت سے بچا لیا ۔ ہم عر فان کی اصطلا ح میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ”الٰہی تجلّی ” تھی لیکن کیا تھی اور کس طرح کی تھی ؟ قر آ ن اس با رے میں کچھ نہیں کہتا اور ہم کو بھی نہیںپتہ کہ وہ کیا ہے کہ انھو ں نے کس چیز کا مشا ہدہ فر ما یا تھا ۔ بہر حال کو ئی ایسی چیز دیکھی تھی جس نے ان کو غفلت سے بچا لیا اور ان کی توجہ خدا وند عالم کی طرف مبذو ل کر دی ، الٰہی دلیل تھی ، خدا وند عا لم فر ماتا ہے کہ ہم نے یہ کام انجام دیا ”لنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْئَ وَالْفَْحْشَا ئَ ”تا کہ ان کو گنا ہ اور برائی سے دور رکھے ، کیوں؟ ”اِ نَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ”اس لئے کہ حضرت یو سف علیہ السلام خدا کے مخلَص بند وں میں سے تھے اور ہم اپنے مخلص بند وں سے اسی طرح پیش آ تے ہیں ۔ یعنی جب بھی ان کے سا منے انحراف کے بیر ونی عوا مل آتے ہیں ہم ان کو راہ سے ہٹا دیتے ہیں ۔قر آ ن کریم میں خدا وند عا لم نے پیغمبر اکر م ۖ کے با رے میں بھی اسی طرح کے بعض حا لا ت نقل کئے ہیں ایک جگہ خدا فر ماتا ہے :(وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنَٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْھِمْ شَیْئاً قَلِیْلاً ۔ اِذاً لَّاَذَقْنَٰکَ ضِعْفَ الْحَیَوَٰةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَانَصِیْراً )(١)”اور اگر ہم تم کو ثا بت قدم نہ رکھتے تو دور نہیں تھا کہ تم بھی کسی حد تک ان کی طرف راغب ہو جا تے اور (اگر تم ایسا کر تے تو )ہم تم کو زند گی میں بھی اور مر نے پر بھی دو ہرے (عذاب ) کا مزہ چکھا دیتے اور پھر تم کو ہمارے مقابلہ میں کو ئی مدد گا ر نہ ملتا ”اللہ نے اس وا قعہ کی طرف اس آ یت میں اشا رہ کیا ہے کہ کچھ لو گ پیغمبر اکرم ۖ کو ذاتی مقا صد کے تحت…………..١۔سورئہ اسراء آیت ٧٤ ۔٧٥ ۔اپنے فر یضہ کی انجام دہی میں کمزور دکھا نا چا ہتے تھے چنا نچہ آ نحضرت ۖ کی بعثت کے طو یل دور میں کئی ایسے مواقع پیش آ ئے ہیں کہ کچھ لوگ (کبھی کبھی آ پ کے دو ست و احباب بھی) ایسے کام کر نے کی فکر میں رہتے تھے کہ پیغمبر اکرم ۖکوبعض الٰہی احکام انجام دینے سے رو ک دیا جا ئے ۔ مثال کے طو ر پر کبھی کبھی بیجا قسم کی سفارشیں کرتے یعنی آ ج کی زبا ن میں پا رٹی با زی سے کام لیتے تھے چنا نچہ اگر کو ئی چو ری کر تا تو قانو ن کے تحت اس کے ہاتھ کٹنے چا ہئے تھے لیکن اس کے خا ندان کے افراد اپنے خا ندان کو اس بدنا می اور ننگ و عار سے بچا نے کے لئے متعدد بہانوں کے ذریعہ پیغمبر اکرم ۖکے سا منے یہ کو شش کر تے کہ آ نحضر ت اس چو ر کے متعلق حد جاری کرنے سے با ز آ جا ئیں اس قدر با تیں بنا تے اور ایسا ما حو ل تیا ر کر تے کہ کو ئی بھی اور شخص ہو تا تو ان کی بات قبول کر لیتا ۔ پیغمبر اکرم ۖکا بھی ایک انسان کی حیثیت سے جب ایسے حا لات پیش آجا تے تھے تو متا ثر ہونا ایک فطری امر تھا لیکن خدا وند عا لم ایسا نہیں ہو نے دیتا تھا، آ پ کو ملا ئکہ کی تا ئید حا صل تھی وحی نا زل ہو تی یا الہام ہو تا اور پیغمبر اکرم ۖاپنے فیصلے میں ثا بت قدم رہتے اسی طرح کے ایک مو قع کا اس آیت میں ذکر ہے خداوندعالم فرماتا ہے ”لَوْلا اَنْ ثَبَّتْنَا کَ ” ”اگر ہم تم کو ثا بت قدم نہ رکھتے ””لَقَدْ کِدْ تَّ تَرْکَن اِ لِیْھِمْ شَیْئاً قَلِیْلاً ” ”تو قریب ہو تا کہ تم بھی کسی حد تک ان کی طرف ما ئل ہو جا ؤ اور ان کی با توں پر اعتماد کر لو ” لیکن ہم تمہا ری حفاظت کرتے اور تم کو ثا بت قدم رکھتے ہیں یقیناً کو ئی انسان اگرچہ وہ خدا کا پیغمبر ہی کیو ں نہ ہو کسی بھی عالم میں اللہ کی مدد سے بے نیا ز نہیں ہے اور پیغمبر کی فضیلت یہی ہے کہ خدا وند عا لم اس کی حفا ظت کر تا ہے۔ان آیتو ں سے یہ استفا دہ ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ کو بھی خدا وند عا لم کے تما م مخلَص بندوں کی ما نند جب بھی بیر و نی عوا مل شکوک و شبہا ت میں گھیر تے تو خدا وند متعال غیبی طریقہ سے آپ کی مدد کرتا اور آپ ہر طرح کی لغز ش سے محفو ظ رہتے اور عصمت کا مطلب بھی یہی ہے ۔
کیا عصمت ”جبر ” ہے ؟عصمت یعنی حدا وند عا لم ایک انسا ن کو ہر اُس وسیلہ سے جو اس کے علم میں ہے گنا ہ اور برا ئی سے محفو ظ رکھے لیکن کیا اس کا مطلب جبر ہے یا نہیں ، انسا ن خود اپنے اختیا ر سے گنا ہ کو تر ک کر تا ہے اس با رے میں ہم اجما لی طو ر پر عر ض کر دیں کہ اس چیز پر بہت سی دلیلیں مو جو د ہیں پیغمبر بھی دو سرے تمام انسا نو ں کی طرح مکلف ہیں اور ان کو بھی ان کے اعما ل پر ثو ا ب دیا جا ئے گا اور چو نکہ اعما ل اختیا ری ہیں ، وہ گنا ہ کو ترک کر نے میں مجبور نہیں ہیں بلکہ مختا رہیں لیکن خدا وند عا لم نے ان کو اس طرح خَلْق فر ما یا ہے اور اُن کو وہ عقل عطا کی ہے کہ اپنے اختیا ر سے بُرے کامو ں کو ہاتھ نہیں لگا تے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اُ ن سے اُ ن کا اختیار سلب کر لیا گیا ہو، ور نہ اختیا ر کے بغیر گنا ہ نہ کر نا کو ئی ہنر نہیں ہو گا ، اس لئے کہ جس شخص کو خدا بُرے کا مو ں سے زبر دستی رو کے گا وہ رک ہی جا ئیگا ۔ ایک انسان کے عنوان سے پیغمبر کا کما ل یہی ہے کہ وہ اپنے اختیا ر کے با وجود خو د کو گنا ہ سے دور رکھتا ہے ۔ تو اب سوا ل یہ ہے کہ یہ کس طرح کی عصمت ہے ؟ یعنی اس کو یو ں سمجھئے کہ خدا وند عا لم نے انسا نو ں کے درمیان کچھ افرا د اس قدر مستعد اور کا مل خلق کئے ہیں کہ ان کے با رے میں اسے علم ہے کہ وہ افراد بذا ت خود گنا ہ کے مر تکب نہیں ہو ں گے ، خدا وند عا لم کے احکام کی اطا عت کر تے رہیں گے ۔ خداوندعا لم اپنے اسی علم غیب کے تحت چو نکہ وہ ان کی سر نو شت سے آ گا ہ ہے ان کو ہی اپنی رسا لت کے لئے منتخب کر تا ہے جو اپنے اختیا ر کے با وجود خدا کی نا فر ما نی کے ذریعہ گناہوں کا ارتکا ب نہیں کرتے ۔ البتہ یہ کو ئی زیا دتی یا نا انصا فی نہیں ہے یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا وندعا لم پیغمبر کی جو برے کامو ں سے بچنے میں مدد فر ما تا ہے اس میں دو سرو ں کی مدد سے دریغ کر تا ہے بلکہ قا عدہ اور اصو ل کے تحت خدا مدد کر تا ہے در اصل ، خدا وند عا لم تمام مو منین اور راہ خیر میں قدم اٹھا نے وا لے تمام لو گو ں کی مدد کر تا ہے۔ مگر اس کی مدد نہ ان افراد کی سعی و کوشش کے مطابق ایک قاعدے اور اصول کے تحت ہوتی ہے جو شخص ایک قدم آگے بڑھاتا ہے خداوند عالم دس قدم بڑھکر اس کی مدد کرتا ہے اگر کوئی سو قدم آگے بڑھاتا ہے اسی اعتبار سے خدا اس کی مدد کرتا ہے چونکہ پیغمبر اپنی تمام قوت و توانائی خدا کی بندگی کی راہ میںلگا دیتے ہیں اور کسی قسم کی کوئی کو تاہی نہیں کرتے۔ خداوند عالم بھی جہاں ان کی غیر معمولی مددکی ضرورت ہوکوئی دریغ نہیں کرتا لیکن اس مدد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو جبر کانام دیا جائے یا ان سے ان کا اختیار سَلْب کرلینے کے مترادف ہو۔جب خداوند عالم نے حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے اپنی دلیل آشکار کی ہے وہاں مد د تواسی بنیادپر ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اس طرح کی مدد کی لیاقت رکھتے تھے اور انھوں نے بھی جب خدائی دلیل دیکھی تو اس کی مدد سے استفادہ کرتے ہوئے (زلیخا کے خیال سے)منصرف ہوگئے اور ان کے دل میں گناہ کا قصد بھی پیدا نہ ہوسکا ۔خداوند عالم کی جانب سے اس طرح انبیاء علیہم السلام کی جو غیبی امداد ہوتی ہے اس کے بھی قاعدے اور اصول ہیں اور کسی بھی طرح یہ چیز اختیار سلب کرنے کا باعث نہیں بنتی ۔اس بات کو ذہن سے قریب کرنے کیلئے یوں سمجھئے کہ بہت سے ایسے برے کام ہیں کہ جن کی تمام برائیوں سے ہم آگا ہ ہیں اور کبھی بھی ہم ان کو انجام دینے کا قصد نہیں کرتے لیکن ہم اسکے انجام دینے سے مجبور بھی نہیں ایک بہت ہی گندی چیز جس کا کھانا کوئی شخص اپنی عمر کے کسی بھی مرحلے میں قصد و ارادہ کے ساتھ پسند نہیں کرتا اور نہیں کھاتا تو کیا کسی نے اس کو نہ کھانے پر مجبور کیا ہے؟قطعاًمجبور نہیں ہے لیکن اسکا کھانا اسکے خیال میںنہیں آتا۔انبیاء علیہم السلام بھی خداوند عالم کے عطا کردہ علم کے ذریعہ گناہوں کی گندگی کو اس طرح مشاہدہ کرتے ہیں کہ کبھی بھی ان کے ارتکاب کی ہوس نہیں کرتے لیکن ہم ایک بارپھر تاکید کے ساتھ کہدیں کہ اس کا مطلب ہر گز جبر نہیں ہے ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.