نبوت کو ثابت کرنے کے را ستے۔
اس کے علاوہ اس امر کا بھی امکان ہے کہ اس شخص کے گذشتہ حالات ایسے ہوں کہ بے غرض افراد اس کی باتوں پر اعتماد کرلیں ،خصوصاً جب عقل بھی اُس کی باتوں کی تصدیق کر رہی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک فرد کی پیغمبری کسی دوسرے رسول کی پیشینگوئی کے ذریعہ ثابت ہوجائے اور وہ بھی اس طرح ثابت ہوجائے کہ حقیقت کے طلبگاروں کے لئے شک و تردید کا مقام باقی نہ رہ جائے۔لیکن جب لوگوں کے پاس اطمینان بخش قرائن نہ ہوں، نیز اُن کے پاس کسی نبی کی بشارت یا تائید بھی موجود نہ ہو، تو انھیں نبوت کے اثبات کے لئے دوسر ے را ستے اختیار کرنے پڑ یں گے ، لہٰذا خدا نے اِس مشکل کو حل کرتے ہوئے اپنے رسولوں کو معجزے عطا کئے تاکہ یہ معجزے اُن کے د عوے کو ثابت کرنے میں اُن کی مدد کر یں اِسی وجہ سے اُنھیں آیات کے(١) نام سے یاد کیا گیا ہے۔نتیجہ۔ کسی نبی کے د عوے کو ثابت کرنے کے لئے تین راستے ہیں۔١۔اطمینان بخش قرائن کے ذریعہ، لیکن یہ صرف ان نبیوں کے متعلق صحیح ہے جنہوں نے لوگوں کے درمیان سالہا سال زندگی گذاری ہو، اور ایک عظیم شخصیت کے مالک ہوں لیکن اگر کوئی نبی ایام جوانی یا اپنی شخصیت کی پہچان سے پہلے وہ مبعوث بہ رسالت ہو جائے تو اُس نبی کے د عوے کو اس راہ کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔٢۔گذشتہ نبی نے، آنے والے نبی کی خبر دی ہو، یہ راستہ بھی انھیں لوگوں سے مخصوص ہے کہ جنھوں نے اُس سے پہلے کسی نبی کی معرفت حاصل کرلی ہو اور اس کی جانب سے آنے والے نبی کی تائید یا بشارت سنی ہو۔٣۔ معجزہ، یہ راستہ نہایت مفید اور تمام مقامات پر مفید ہے، لہٰذ اس کے بارے میں مزید وضاحت پیش کرتے ہیں۔
معجزہ کی تعریف۔معجزہ یعنی ایک ایسا غیر عادی عمل، جو ارادہ خداوند کے مطابق نبوت کا دعوی کرنے والے شخص کی جانب سے صادر ہو اور اُس کے دعوے کو ثابت کرے۔جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا کہ یہ تعریف تین مطالب پر مشتمل ہے۔الف: غیر عادی امور کا وجود ،جو عادی اسباب کے ذریعہ وجود میں نہیں آتے۔ب: غیر عادی امور میں سے بعض ارادہ ٔ الٰہی اور اُس کی اجازت سے واقع ہوتے ہیں۔……………………………(١)کلمہ آیات مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے جیسے علم و قدرت، حکمت ، موجودات خواہ وہ عادی ہوں یا غیر عادی۔ج: ایسے غیر عادی امور کسی پیغمبر کے دعوے کی صداقت کی علامت بن سکتے ہیں اسی وجہ سے اصطلاح میںاس کو ”معجزہ” کہا جاتا ہے۔
خارق عادت امور۔جو موجودات بھی اس کائنات میں وجود میں آتے ہیں عموماً وہ سب کے سب کسی نہ کسی اسباب و علل کا نتیجہ ہوتے ہیں جنھیں آزمائشات کے ذریعہ پہچانا جا سکتا ہے جیسے کہ فیزیک، بیا لوجی ، کیمسٹری اور روحی علوم میں ترکیبات کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے موجودات کی جزئیات کا علم ہو جاتا ہے لیکن بعض نادر مواقع میں وجود میں آنے والے بعض موجودات کاوجود میں آنا، بالکل متفاوت ہوتا ہے، جس کے تمام اسباب و علل کو حسی آزمائشات کے ذریعہ معلوم نہیں کیا جاسکتا، بلکہ صرف کچھ ایسے شواہد مل جاتے ہیں کہ جو اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ اس طرح کے موجودات کے پائے جانے میں کوئی دوسری علت کا ر فرما ہے ، جیسے کہ مرتاضوں (کے دریافت کرنے والوں) کے حیرت انگیز کام مختلف علوم کے ماہرین کا کہناہے کہ ایسے امور مادی اور تجربی قوانین کے تحت وجود میں نہیں آتے، لہٰذا اسے وہ ”خارق عادت ” کا نام دیتے ہیں۔
الٰہی خارق عادت امور۔غیر عادی امور کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے خارق عادت امور کی ایک قسم، ایسے اسباب و علل پر مشتمل ہوتی ہے جو عادی تو نہیں لیکن بشر کے اختیار میں ضرور ہیں، جسے تعلیم اور تمرین کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے جیسے کہ مرتاضوں کے غیر عادی امور ، خارق عادت امور کی دوسری قسم: صرف اذن پروردگار سے واقع ہوتی ہے کہ جس کے اختیارات کبھی بھی اُن لوگوں کے سپرد نہیں کئے جاتے جواِس سے مر بو ط نہ ہوں، اِسی وجہ اس کی دو خصوصیات پیش کی گئی ہیں ،ایک تو یہ کہ ،یہ اس قابل نہیں کہ اس کو سیکھا اور سکھایا جا سکے،دوسرے یہ کہ کسی طاقت و قوت سے مرغوب نہیں ہوتے ، ایسے غیر عا دی امور اُس کے خاص بندوں سے مخصوص ہیں، جسے کبھی بھی ہوس باز اور گمرا ہ افراد کے سپردنہیںکیا جا سکتا، لیکن یہ صرف انبیاء (ع)سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ اولیاء الٰہی بھی اس سے سرفراز ہوتے ہیں ، اِسی وجہ سے علم کلام میں تمام خارق عادت امو ر کو معجزہ نہیں کہاجاتا ، لھذا وہ خارق عادت امور جو انبیاء (ع) کے علاوہ اولیاء کرام سے صادر ہوتے ہیں انھیں کرامت کہا جاتا ہے، اِسی طرح غیر عادی علوم بھی وحی نبوت سے مخصوص نہیں ہیں، لہٰذا جب ایسے علوم انبیاء (ع)کے علاوہ دوسروں کو عطا کئے جاتے ہیں تو اُسے الہام یا تحدیث یا انہیں جیسا دوسرا نا م دیا جاتا ہے۔اس بحث کے ضمن میں خارق عادت امور (الٰہی اور غیر الٰہی) دو نوعیت سے جانے جا سکتے ہیں ، یعنی اگر خارق عادت امور کو انجام دینا قابل تعلیم و تعلم ہوتا ،یا کسی دوسرے میں اتنی طاقت ہوتی کہ اِن کے درمیان موانع یا خلل ایجاد کردے یا اِس کے اثر کو باطل کردے تو کسی بھی صورت میں یہ خدا کی جانب سے خارق العادہ امور کے حامل نہیں ہوسکتے تھے، جب کہ کسی شخص کی بد اخلاقی اور تباہ کاری کو خدا سے رابطہ نہ ہونے کی دلیل اور اُس کے امور کے نفسانی یا شیطانی ہونے کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔اس مقام پر مناسب ہے کہ ایک دوسرے نکتہ کی طرف اشارہ کر دیا جائے کہ خارق العادہامور کا فاعل، خدا کو قرار دیا جا سکتا ہے (اگر چہ تمام مخلوقات منجملہ عادی موجودات کی فاعلیت کی نسبت بھی اُسی کی طرف ہے) اس اعتبار سے اس کا محقق ہونا خدا کے اذن خاص پر موقوف ہے(١) اور اُنھیں واسطوں سے فرشتہ یا انبیاء (ع) کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے اِس لحاظ سے اس کی حثیت یا واسطہ یا فاعل قریب کی ہے ، جس طرح سے کہ قرآن میں مردوں کو زندہ کرنا، بیماروں کو شفاء دینا اور پرندوں کے خلق کرنے کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف نسبت دی گئی ہے، (٢) لہٰذا اِن دونوں نسبتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے اس لئے کہ خدا کی فاعلیت بندوں کی فاعلیت کے طول میں ہے۔………………………(١)سورۂ رعد۔ آیت /٣٧. سورۂ غافر۔ آیت /٧٨(٢)سورۂ آل عمران۔ آیت/ ٤٩. سورۂ مائدہ۔ آیت/ ١١٠
انبیاء (ع) کے معجزات کی خصوصیات۔معجزہ کی تعریف میں جس تیسرے مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء (ع)کے معجزے ان کے د عوے کے صحیح ہونے کی علامت ہیں، اِسی وجہ سے جب کسی خارق عادت امر کہ جسے علم کلام میں معجزہ کہا جاتا ہے خدا کی اجازت پر منحصر ہونے کے علاوہ پیغمبرں کی پیغمبری کی دلیل ہوتے ہوئے اُس کے مفہوم میں معمولی تبدیلی کے ساتھ اُن خارق عادت امور کو بھی شامل ہوجاتا ہے جسے امامت کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیا جاتا ہے، اور اِس طرح کرامت کی اصطلاح اُن خارق عادت امور سے مخصوص ہوجاتی ہے جو اوصیائِ الٰہی سے صادر ہوتے ہیں، جو ایسے غیر عادی امور کے مقابلہ میں ہے جس کا انحصار نفس اورشیطان پر ہو جیسے سحر، کہانت اور مرتاضوں کے افعال ،یہ قسم قابلتعلیم و تعلم ہے اور طاقتور عوامل کے مقابلہ میں مغلوب بھی ہوسکتے ہے اور اُ س کا خدا کی جانب سے نہ ہونے کے سبب اُن کے انجام دینے والوں کو گنہگار اور فاسد عقیدے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔اس مقام پر جس نکتہ کی طرف توجہ لازم ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء (ع)کے معجزات جس چیز کو براہراست ثابت کرتے ہیں، وہ انبیاء (ع) کی نبوت کا دعوی ہے ، لیکن رسالت کے پیغامات کا صحیح ہونا اور اُن کے احکامات کی پیروی کرنا بھی براہ راست اس سے ثابت ہوجاتا ہے، یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق انبیاء علیہم السلام کی نبوت عقلی دلیل اور اُن کے پیغامات تعبدی دلائل کے ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔(١)…………………(١)اسی کتاب کے چوتھے اور چوبیسویں درس کی طرف رجوع کیا جائے.