انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کے نفسیاتی اسباب

201

استکبار (خود کو بڑا سمجھنا )
قرآن کریم سے معلوم ہو تا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کر نے وا لے قوم کے سر دار اپنی ممتاز سما جی حیثیت کی وجہ سے بڑا ئی میں مبتلا تھے اور اسی جذ بہ سے وہ انبیاء علیہم السلام کے پیغام سننے اور ان کی اطاعت کر نے سے دریغ کر تے تھے ۔ گو یا اس گروہ کے لئے انبیاء علیہم السلام کے کلام کو دل میں جگہ دینا ایک قسم کا ننگ و عار تھا یہ لوگ ہمیشہ دو سروں کو اپنے راستہ پر لگا نے اور ان کو ہر طرح سے اپنے افکا ر کا تا بع بنا نے کی فکر میں لگے رہتے تھے اور یہی بڑا ئی کا تصور انبیاء علیہم السلام کی دعو ت قبول کر نے میں رکا وٹ بنتا تھا ۔قرآن کریم میں ‘ استکبار ‘کی لفظ اسی مفہوم کو بیان کر تی ہے :(قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْااِنّٰابِالَّذِیْ اٰمَنْتُمْ بِہِ کَافِرُوْنَ)(١)’جو لو گ بڑا ئی میں مبتلا تھے کہنے لگے ہم تو جس پر تم ایمان لائے ہواسے نہیں ما نتے ‘۔ہم جا نتے ہیں کہ کسی حکم کا کسی مو ضو ع پر معلق اور وا بستہ ہو نا اس کی سببیت کا پتہ دیتا ہے ۔یعنی اس گروہ کا استکبار (خود کو دوسروں سے بڑا سمجھنا )ہی ان کے کفر کا سبب تھا اور استکبار کا سر چشمہ ان کی وہی غرور و تکبر کی حا لت ہے جو ان کے دل و دما غ میں رچ بس گئی تھی البتہ بعض مقا مات پر ‘استکبار’ کو علت کے طور پر بیا ن بھی کیا گیا ہے ۔(وَاَقْسَمُوْابِاﷲِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ جَآئَ ھُمْ نَذِیْر لَّیَکُوْنُنَّ اَھْدَٰی مِنْ اِحْدَی الاُمَمِ فَلَمَّاجَآئَ ھُمْ نَذِیْر مَّازَادَ ھُمْ اِلَّانُفُوْرًا۔اِسْتِکْبَارًافِی الْاَرْضِ۔۔۔)(٢)’اور یہ لوگ تو خدا کی بڑی بڑی قسمیں کھا (کر کہتے )تھے کہ اگر ان کے پاس کو ئی ڈرا نے والا (پیغمبر) آئیگا تو وہ ضرور دوسری کسی بھی امت سے زیا دہ راہ یا فتہ بن جا ئیں گے پھر جب ان کے پاس ڈرا نے والا (رسول ) آ پہنچا تو نفرت کے سوا ان کے یہا ں کسی بھی چیز کا اضا فہ نہ ہوا اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ رو ئے زمین پر خود کو سب سے…………..١۔سورئہ اعراف آیت٧٦۔٢۔سورئہ فاطر آیت٤٢و٤٣۔بڑا سمجھتے تھے ۔۔۔’۔اِس آخر ی آیت میں لفظ ‘ استکبار ‘مفعول لہ کے عنوان سے آیا ہے اور صاف طو ر پر بیان کر تا ہے کہ ان کے کفر (یعنی انکار ) کی وجہ ان کا جذ بۂ استکبار ہے ۔اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے با رے میں آیا ہے کہ وہ آپ کی دعوت کے جواب میں حالت کفر پر با قی رہنے پر زور دیتے تھے اور ‘ استکبار ‘ سے کام لیتے تھے:(۔۔۔وَاَصَرُّوْاوَاسْتَکْبَرُوااسْتِکْبِاراً)(١)’۔۔۔اور اَڑ گئے اور بہت شدت سے اپنی استکباری اکڑ کو بڑھا تے چلے گئے ‘ ۔اور فر عون کی قوم کے با رے میں ار شاد خدا وندی ہے :(ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِ ھِمْ مُوْسَیٰ وَھَارُوْنَ اِلَی فِرْعَوْنَ وَمَلَائِہِ بِآیَاتِنَا فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُُوْا قَوْماً مُجْرِمِیْنَ)(٢)’پھر ہم نے اِن (پیغمبروں ) کے بعد مو سیٰ و ہا رون کو اپنی نشا نیا ں دے کر فر عون اور اس (کی قوم ) کے سرداروں کے پاس بھیجا لیکن انھو ں نے اکڑ دکھا ئی اور یہ جرا ئم پیشہ برے لو گ تھے ‘۔جب حضرت مو سیٰ علیہ السلام نے فر عو نیوں کو تو حید کی دعو ت دی تو انھو ں نے آ پ کی اس دعوت کے جوا ب میں اکڑ اور بڑا ئی دکھا ئی اور وہ بلند مقام جس پر وہ خود کو فا ئز سمجھتے تھے جناب مو سیٰ علیہ السلام کی بات کو قبول کر نے میں مانع ہوا ۔ مذ کورہ آیت میں حضرت مو سیٰ علیہ السلام اور ان کے بھا ئی ہا رون کے مبعوث ہو نے کا ذکر کر نے کے فوراً بعد کہا گیا ہے ‘ فَا سْتَکْبَرُوْا ‘یہ انداز اس چیز کی علامت ہے کہ ان کی مخا لفت کی وجہ ان کا وہی استکبار اور اکڑپن تھا ۔ ضمناً لفظ ‘مجر مین ‘سے بھی یہ استفا دہ کیا جا سکتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی رسالت کے انکار کا ایک اور سبب گنا ہو ں اور جرا ئم کا ارتکاب ہے ۔کچھ دوسری آیات کہ جن میں انبیا ء علیہم السلام کی مخا لفت کا سبب غر ور و تکبر بیان کیا گیا ہے ان میں ایک مند ر جہ ذیل آیت بھی ہے ارشاد خدا وندی ہے:(اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَٰدِلُوْنَ فِیْ آیٰاتِ اﷲِ بِغَیْرِسُلْطَانٍ اَتَاھُمْ اِنْ فِیْ صُدُوْرِھِمْ اِلّاَکِبْر مَاھُمْ بِبََٰلِغِیْہِ ۔۔۔)(٣)…………..١۔سورئہ نوح آیت٧۔٢۔سورئہ یونس٧٥۔٣۔سورئہ غافر آیت٥٦۔’ بیشک جو لوگ خداکی طرف سے کو ئی دلیل آ ئے بغیر خداکی آ یتوں کے با رے میں(خواہ مخواہ) جھگڑتے ہیں ان کے دلوں میں بڑائی جھا ڑ نے کے سواکچھ نہیں ہے حا لا نکہ وہ لوگ اس بڑائی تک کہ جس کی وہ آرزو رکھتے ہیں کبھی نہیں پہنچیں گے ۔۔۔ ‘۔کچھ دوسری آیتو ں میں بھی انبیاء علیہم السلام کے مخا لفوں کے استکبار کے با رے میں ذکر ہے مثال کے طور پر قر آن مشر کو ں کی صفت بیان کر تے ہو ئے ار شاد فر ما تا ہے :(اِنَّھُمْ کَانُوْااِذَاقِیْلَ لَھُمْ لَااِلَٰہَ اِلّاَ اﷲ ُ یَسْتَکْبِرُونَ)(١)’ان سے جب کہا جاتاتھاکہ خدا کے سواکوئی معبود نہیں ہے تو اکڑ دکھا تے تھے ‘۔ظا ہر ہے صرف خدا ئے وحدہ لا شریک کی پر ستش کی دعوت ،استکبار کا سبب نہیں ہو سکتی لیکن جب اس دعو ت کا مطلب مشر کو ں کا گمراہ اور ان کے آباء و اجداد کے دین کا غلط ہو نا اور اس سے اپنے دیرینہ اعتقاد ات سے ہاتھ دھوبیٹھنا لا زم آ رہا ہو تو ان کا جذبۂ استکبار حق کو تسلیم کر نے میں رکا وٹ بن جا تا ہے ۔ بنا بر این مشر کو ں کے توحید کو نہ ماننے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ خدا کی وحدا نیت پر کو ئی معقول اور وا ضح دلیل نہیں پا ئی جا تی یا حق ان پر پو شیدہ تھا ،ایسا نہیں ہے بلکہ ان کے اندر کچھ ایسے جذ بات مخفی تھے جو ان کو کفر کی طرف کھینچ لے جا تے تھے ۔ایک دو سری آیت میں استکبار کو عا لم آخرت کے وجود سے انکار کا سبب قرار دیا گیا ہے :(اِلَھُکُمْ اِلَٰہ وَاحِد فَالَّذِیْنَ لَایُؤمِنُونَ بِالْآخِرَةِقُلُوبُھُمْ مُنْکِرَة وَھُمْ مُسْتَکْبِرُوْنَ)(٢)’تمہاراپر ور دگارایک اور اکیلا ہے پس جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کے دل حق کے منکرہیں اوروہ ذا تی طور پر بڑے مغرورہیں ‘۔ظا ہری طور پر آیت کے آخری جملے ‘ وَھُمْ مُسْتَکْبِرُوْ نَ ‘میں وجہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دل سے قیامت کے منکر کیو ں ہیں ۔یعنی آخرت پر ایمان لا نے میں رکا وٹ مشر کو ں کا جذ بۂ استکبار ہے جو ان کے وجود میں پنہاں ہے ۔دوسری طرف قر آن کریم بعض عیسا ئی علماء اور پا دریوں کی اس طرح تعریف کر تا ہے :(۔۔۔وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِیْنَ آمَنُوْاالَّذِیْنَ قَالُوْانّٰانَصَٰرَیٰ ذَلِکَ بِاَنَّ مِنْھُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُھْبَانًاوَّاَنَّھُمْ لَایَسْتَکْبِرُوْنَ)(٣)…………..١۔سورئہ صافات آیت٣٥۔٢۔سورئہ نحل آیت٢٢۔٣۔سورئہ مائدہ آیت٨٢۔’اور قطعی طور پر وہ لوگ جو کہتے ہیں ہم عیسا ئی ہیں مو منین سے دو ستی کے میدان میں سب سے زیا دہ مردم دوست نظر آئیں گے کیو نکہ ان میں بعض وہ مذ ہبی رہنما اور دا نشور ہیں کہ جن میں بڑا ئی ہا نکنے کی عا دت نہیں ہے ‘۔قر آن کی نظر میں اس گروہ کا امتیاز یہ ہے کہ ان میں غرور اور گھمنڈ نہیں ہے ۔ وہ منکسر المزاج افراد ہیں جب ان کو حق کی معر فت ہو جا تی ہے تو وہ اس کو تسلیم کر لیتے ہیں ۔
احساس بر تریانبیا ء علیہم السلام کو جھٹلا نے کا ایک اور سبب جو کسی حد تک کبر و غرور سے مشا بہ ہے دو سروں پر بر تری کا جذ بہ ہے ۔ قر آن فر عون کی حا لت کو بیان کر تے ہو ئے فر ما تا ہے 🙁 ثُمَّ اَرْسَلْنَامُوْسَیٰ وَاَخَاہُ ھَٰرُوْنَ بِآ یَٰتِنَاوَسُلْطَٰنٍ مُبِیْنٍ۔اِلَیٰ فِرْعَوْ نَ وَمَلَا ئِہِ فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَا نُوْا قَوْماًعَا لِیْنَ)(١)’ پھر ہم نے مو سیٰ اور ان کے بھا ئی ہا رون کو اپنی نشا نیوں اور واضح دلیل کے ساتھ فرعون اور اس کے در با ر کے امرا کے پاس (رسول بنا کر )بھیجا تو ان لو گو ں نے بڑا ئی دکھائی اور وہ تھے ہی بڑے سرکش لو گ ‘۔یہ لوگ معا شرہ میں دوسرو ں سے بر تری اور بلندو با لا مقام کی خو اہش رکھتے تھے اور اگر وہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو قبول کر لیتے تو ان کا کھو کھلا جاہ و حشم چھن جا تا لہٰذا انبیاء علیہم السلام پر ایمان نہیں لا تے تھے ۔
ظلمانبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کا ایک اور سبب ‘ظلم ‘ ہے ۔قر آن کر یم کی بعض آیات میں دو سروں سے بر تری کی ہو س کے ساتھ ظلم و ستم کی روش کا بھی انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی مخا لفت کے دو سبب کے عنوان سے ذکر ہو ا ہے:(وَ جَحَدُوْابِھَاوَاسْتَیْقَنَتْھَا اَنْفُسُھُمْ ظُلْماًوَعُلُوًّا۔۔۔)(٢)’ با وجو دیکہ ان کا دل ان کے معجزات کا قا ئل تھا ان لو گو ں نے سر کشی اور تکبر کے سبب سے ان کا انکار کیا ‘ (بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ عِزَّ ةٍ وَ شِقَاقٍ )(٣)’ہا ں جنھو ں نے کفر اپنا یا تکبر اور عدا وت میں ہیں ‘…………..١۔ سورئہ مومنون آیت٤٥و ٤٦۔٢۔سورئہ نمل آیت١٤۔٣۔سورئہ ص آیت٢۔’ عزّة کے دو معنی ہو سکتے ہیں :١۔ایک تو عمل کے اعتبار سے بہت زیا دہ اکھڑ اور اڑیل ہو جس کو جمو د کہا جاتا ہے ۔٢۔ دوسرے معنی غرور اور خود پسندی کے ہیں دو سرے معنی کے اعتبار سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ پیغمبر کی اطاعت کو ایک طرح کی ذلت سمجھتے تھے ،غرور اور خود کو دو سروں سے با لا تر سمجھنے کے سبب ان کو نظر میں نہیں لا تے تھے ۔کچھ اور آیات میں آیا ہے کہ اصل میں ،کا فروں اور مشرکو ںکے لئے پیغمبر کی دعوت قبول کر نا بہت سخت و گراں ہو تا تھا :(کَبُرَ عَلَیٰ الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْ عُوْ ھُمْ اِلَیْہِ ۔۔۔)(١)’ تم مشر کین کو جس کی طرف بلا تے ہو اُن پر بہت شاق گزر تا ہے ‘ ۔بیشک شاق گزر نا ان ہی نفسیا تی اور اند رو نی حالات یعنی تکبر و غرور اور بر تری کے تصور کی وجہ سے تھا ۔حضرت نو ح علیہ السلام نے بھی اپنی امت کے ساتھ بحث ومنا ظرہ کر تے وقت اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔سورئہ یونس میں ارشاد ہو تا ہے:(وَ اتْلُ عَلَیْھِمْ نَبأَنُوْ حٍ اِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ یٰقَوْ مِ اِنْ کَا نَ کَبُرَعَلَیْکُمْ مَقَامِیْ وَتَذْکِیْرِیْ بِآیَا تِ اﷲِ فَعَلیَ اﷲِ تَوَ کَّلْتُ ۔۔۔)(٢)’تم ان کے سا منے نو ح کا حال پڑ ھ دو جب انھو ں نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم والو ! اگر میرا (تمہارے درمیان ) ٹھہر نا اور خدا کی آیتو ں کے ذریعہ نصیحت کر نا تم پر شاق و گراں گزر تا ہے تو(یا د رکھو ) میںصرف خدا ہی پر بھر و سہ کر تا ہو ں ‘۔
نفسانی خوا ہشاتانبیاء علیہم السلام کی مخا لفت کر نے کا ایک اور اہم سبب نفسا نی خو اہشات کا غلبہ ہے البتہ یہ نفسانی خوا ہشات تمام معنوی عیو ب کو جنم دیتی ہے۔ چنا نچہ اس کو ظلم تکبر ،غرور اور جا ہ طلبی کی ما نندتمام بر ا ئیو ں کا سر چشمہ شما ر کیا جاسکتا ہے ۔ چو نکہ جو کچھ انبیاء علیہم السلام فر ما تے تھے وہ مخا لفین کی خو اہشا ت نفسا نی سے میل نہیں کھا تا تھالہٰذا وہ ان کے مقا بل اکڑ دکھا تے تھے او ر ان کے فر مان قبول کر نے میں اپنی بے عزتی سمجھتے تھے ۔…………..١۔سورئہ شو ریٰ آیت ١٣۔٢۔سورئہ یو نس آیت ٧١۔سورئہ بقرہ میں ارشاد ہو تا ہے:( اَفَکُلَّمَاجَا ئَ کُمْ رَسُوْل بِمَا لَا تَھْوَٰ ی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ )(١)’پس کس لئے جب بھی کو ئی پیغمبر تمہا رے پا س تمہا ری نفسا نی خو اہشات کے خلاف کو ئی حکم لے کر آ یاتو تم نے اکڑ دکھا نی شروع کر دی ‘۔اس آیت میں بنی اسرا ئیل سے خطاب ہے اور اُن کی سر زنش ہے کہ کیوں صرف اتنی سی با ت پر کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت تمہا ری خو اہش کے مطابق نہیں ہے تم اکڑ دکھا نے لگتے ہو ۔
گنا ہ میں آلو دہ ہو نابعض آیا ت میںروز قیا مت اہل عذاب سے خدا وند عالم کے سوال اور احتجاج کا ذکر ہے، کہ ایسا کیوں کیا ؟ اور ان میں بھی ان کی مخا لفت کے دو اسباب تکبر اور گناہ میں آلودہ ہو نے کا ذکر ہے سورئہ جا ثیہ میں خدا فر ماتا تا ہے 🙁 وَاَمَّا الَّذِ یْنَ کَفَرُوْا اَ فَلَمْ تَکُن آ یَٰا تِیْ تُتْلَیٰ عَلَیْکُم فَا اسْتَکْبَرْ تُمْ وَکُنْتُمْ قَوْماً مُجْرِمِیْنَ )(٢)’اور جنھو ں نے کفر اختیار کیا (ان سے کہا جا ئے گا )کیا تمہا رے سا منے ہما ری آیتیں نہیں پڑھی جا تی تھیں (لیکن) تم نے تکبر کیا اور تم لوگ تو گنا ہگار اور بد کار افراد تھے ‘ ۔اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ جرا ئم اور گنا ہو ں کا مر تکب ہو نا بھی آیا ت الٰہی کے قبول نہ کر نے کا با عث ہوتا ہے ۔اس حقیقت کا سر چشمہ وہ رابطہ ہو تا ہے جو انسان کے عمل اور اس کے نفسانی ملکات کے درمیان بر قرار ہے اور اس قد رتی رابطہ کی بنیاد پر انسان کا گنا ہ میں آلو دہ ہو نا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ اس کے نفس میں کچھ ایسے رذائل اخلاقی پیدا ہو جا تے ہیں جو اس کو حق سے رو گر دانی کی طرف رغبت دلا تے ہیں ۔ ایک اور آیت میں حق سے منھ موڑنے میں تکبر کے اثر کو ایک دو سرے طریقے سے بیان کیا گیا ہے 🙁 قَدْ کَا نَتْ ء َایَا تِیْ تُتْلَیٰ عَلَیْکُمْ فَکُنْتُمْ عَلَیٰ اَعْقٰبِکُمْ تَنْکِصُوْ نَ۔ مُسْتَکْبِرِیْنَ بِہِ سَٰمِراً تَھْجُرُوْ نَ)(٣)’درحقیقت (جب ) ہما ری آیتیں تمہا رے سا منے پڑھی جا تی تھیں تو تم الٹے پا ؤں پھر جا تے تھے تمہا ری…………..١۔سورئہ بقرہ آیت٨٧۔٢۔سورئہ جا ثیہ آیت ٣١۔٣۔سورئہ مو منون آیت ٦٦۔ ٦٧۔حا لت غرور و نکبت کی تر جمانی کر تی اور تم وقت شب (اپنی نشستوں میں ) بد خلقی کی با تیں کیا کر تے تھے ‘۔بعض آیا ت میں تعلیما ت انبیاء علیہم السلام کو جھٹلا نے میں گنا ہ کے اثر کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔(اَلَّذِیْنَ یُکَذِّ بُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ۔ وَمَا یُکَذِّبُ بہ اِلَّا کُلُّ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ)(١)’ جو لو گ روزِ جزا ء کو جھوٹ سمجھتے ہیں اور اِس گناہ میںحد سے گزر جا نے وا لے افراد کے سوا کو ئی جھو ٹ نہیں سمجھتا ‘ ۔اس آیت میں قیا مت کے انکار کی ایک نفسیاتی وجہ کی طرف اشارہ ہے ۔ انسان جب گنا ہ کا عا دی ہو جا تا ہے ، ظلم و زیاد تی اور ستمگر ی اس کا پیشہ بن جا تا ہے تو آہستہ آہستہ ظلم اور گنا ہ کے آثار و نتا ئج سے اس کے دل و دماغ مانوس ہو جا تے ہیں اور وہ دل سے ان کا بندہ بن جاتا ہے ۔ایسی حا لت میں جو بھی اس کے عیش و آرام میں خلل پیدا کر ے یا اس کے گنا ہو ں کی راہ میں رکا وٹ ڈالے وہ اس سے جنگ کے لئے تیار ہو جا تا ہے اور چو نکہ حساب و کتاب اور روز آخرت پر یقین ،ظلم و زیادتی اور گنا ہ کے جا ری رہنے میں ایک اہم ترین رکا وٹ ہے اس لئے آسودہ خا طر ہو کر اپنے گندے اعمال انجام دیتے رہنے کے لئے برا ئی کا عا دی انسان حیات اخر وی کا ہی سرے سے انکار کردیتا ہے۔ اس بنا ء پر مندرجہ بالا آیت کی رو سے قیا مت کے انکار کا سبب ایک نفسیاتی محر ک ہے جو انسان کے وجود میں گناہ اور ظلم و زیا دتی کے زیر اثر پیدا ہو جا تا ہے ۔ اسی نکتہ پر سو رئہ قیامت میں زور دیا گیا ہے۔( بَلْ یُرِیْدُ الاِ نْسا نُ لِیَفْجُرَاَ مَا مَہُ )(٢)’مگر انسان تویہ چا ہتا ہے کہ اپنے آ گے بھی(ہمیشہ) برا ئی کر تا چلا جا ئے ‘۔قیا مت کے انکا ر کا سبب یہ نہیں ہے کہ قیا مت کا انکا ر کر نے وا لے قیا مت میں اپنی نئی زندگی کے سلسلے میں خدا وند عالم کے ہا تھو ں کو بندھا ہوا پا تے ہیں کہ خدا ان کو دو با رہ کیسے زندہ کر ے گا بلکہ اس کا اصل سبب وہی نفسیاتی محرک یعنی گنا ہ کی عا دت اور آزادانہ طور پر فسق و فجو ر کے ارتکاب کا شوق ہے ۔
بے نیا زی(بے فکری) کا احساسانبیائے الٰہی کے خلاف اڑ جا نے کا ایک اور سبب اپنے کو دو سروں سے بے نیاز سمجھنا ہے۔ آدمی جب اپنے کو دوسروں خاص طور پر خدا کے نبیوں اور الٰہی رہنما ؤں سے بے نیاز سمجھنے لگتا ہے تو اس میں تکبر و غرور کی آگ کے…………..١۔سورئہ مطففین آیت ١١۔١٢۔٢۔سورئہ قیا مت آیت٥۔شعلے بھڑ ک اٹھتے ہیں اور وہ حق کے مقابلہ میں اکڑتا اور سر کشی کر نے لگتا ہے قرآن کر یم اس حقیقت کو بڑے ہی اچھے انداز میں بیان کر تا ہے :(کَلَّا اِ نَّ الْاِ نْسَا نَ لَیَطْغَیٰ ۔ اَنْ رَئَ اہُ اسْتَغْنَیٰ )(١)’بیشک انسا ن جیسے ہی اپنے کو غنی سمجھنے لگتا ہے سر کش ہو جاتاہے ‘۔اب تک ہم نے امتوں کی جا نب سے انبیا ء علیہم السلام سے مخالفت کے اصل عوا مل کا قرآن کی رو شنی میں جائزہ پیش کیا ہے اب اگر ہم ان امور کے متعلق غور وفکر کریں تو ان عوا مل کے ایک ایسے مر کزی نقطہ پرپہنچیں گے کہ جس سے معلوم ہو تا ہے کہ ان عوامل کا ایک دوسرے سے خاص رابطہ ہے ان عوامل کا دوسرے بہت سے عوامل کے ساتھ طول میں رابطہ ہے یعنی ایک عامل دوسرے عامل کو اکساتا ابھارتا )ہے دوسرے گروہ کے اندر بھی یہ عوامل اسی طرح کا رابطہ رکھتے ہیں۔ مثال کے طورپر بہت سے نفسیاتی ا سباب (خاص کاموں کے انجام دینے کا سبب ہو تے ہیں اور وہ کام اپنے وقت ومقام پر مذکو رہ حالات کی عطاکردہ قوت کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ مذکورہ عوامل کے رابطہ کے با رے میں ایک طولانی بحث کی ضرورت ہے اور بہت زیادہ وسعت چاہتی ہے جو ہماری اس بحث کے دائرہ سے باہر ہے ۔
انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کے چند نمونےاب تک ہم اس نتیجہ پر پہو نچے ہیں کہ ملأ،مترفان اور مستکبرین کی انبیاء علیہم السلام کے ساتھ مخالفت کی وجہ ان نفسیا تی ملکات یعنی مادیات سے وابستگی اور نفسانی خواہشات تھی بیشک یہ حالات اور ملکات ایک خاص سانچے میں ظہور کر تے تھے اور ایک خاص عمل کا باعث بنتے۔ قرآن کریم کی بعض آیات میں ان نفسانی حالات کے کچھ جلوؤں کو بیان کیا گیا ہے ۔مثال کے طور پر کچھ مقامات پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب کا فروں کے درمیان کسی شخص کو مبعوث کیا جاتا تھا تو وہ تعجب کیا کر تے تھے ۔قرآن مجید حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی نقل کر تا ہے کہ آپ اپنی قوم سے عتاب آمیزلہجہ میں خطاب فر ما تے تھے:(اَوْعَجِبْتُمْ اَنْ جَا ئَ کُمْ ذِکْر مِنْ رَبِّکُمْ عَلَیٰ رَجُلٍ مِنْکُمْ لِیُنْذِرَ کُمْ وَلِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْ نَ )(٢)…………..١۔سورئہ علق آیت ٦۔٧۔٢۔سورئہ اعراف آیت٦٣۔’کیا تمھیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہا رے پر ور دگا ر کی طرف سے تم ہی میں سے ایک مرد پر ذکر (پند و نصیحت) نا زل ہو جا ئے کہ وہ تمھیں ڈرا ئے اور یہ کہ تم متقی بن جا ؤ اور شا ید تم پر رحم کیا جا ئے ‘۔حضرت ہود علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے گفتگوکر تے ہو ئے اسی مسئلہ پر زور دیا ہے:(اَوْعَجِبْتُمْ اَنْ جَا ئَ کُمْ ذِکْر مِنْ رَ بِّکُمْ عَلَیٰ رَجُلٍ مِنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْ وَاذْکُرُوْاذْجَعَلَکُمْ خُلَفَائَ مِنْ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَةً۔۔۔)(١)’کیا تم لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ تم تک ذکر خداتمھارے ہی کسی آدمی کے ذریعہ آجائے تاکہ وہ تمھیں ڈرائے اور (وہ وقت ) یاد کرو جب ( اس نے) تم کو قوم نوح کے بعد اُن کا خلیفہ( جانشین) بنایا اور تمہا ری خلقت و قوت میں اضا فہ کر دیا ‘ َ۔بہ ظا ہر ا ن کے متعجب ہو نے کی اصل وجہ (علیٰ رجل منکم )ہی ہو نا چا ہئے اس لئے کہ علی القا عدہ کو ئی صرف اس بات پر کہ خدا وند عالم نے اُن ہی کے در میان سے ایک شخص کو کیو ں پیغمبر قرار دیا ہے ؟کیوں حیرت میں پڑسکتا ہے انبیا ئے الٰہی بھی اس مسئلہ سے اچھی طرح وا قف تھے اور ہمیشہ یہ کو شش کر تے تھے کہ اس مسئلہ پر اُن کے تعجب اور حیرت کا بے بنیاد ہو نا آشکا ر کر دیں اور اپنی امت کو متنبہ کر یں کہ ان کے تعجب کی کو ئی وجہ نہیں ہے ۔یہی بات پیغمبر اسلام ۖکی امت کے با رے میں بھی ذکر ہو ئی ہے ۔(اَکٰانَ لِلنّٰاسِ عَجَبَاً اَنْ اَوْحَیْنَااِلَیٰ رَجُلٍ مِنْہُمْ اَنْ اَنْذِرِالنَّاسَ۔۔۔)(٢)’کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک مردپر وحی کی ہے تا کہ وہ لوگوں کو ڈرائے ۔۔۔’۔اس بات پر کا فروں کی حیرت کا مسئلہ کہ اُن ہی کے درمیا ن سے ایک شخص کو پیغمبر بنا دیا گیا ہے اس قدر سنجیدگی اختیار کر گیا تھا کہ سورئہ ص کی ابتدا ئی آیات میں اس پر بہت زیا دہ زور دیا گیاہے(وَعَجِبوُاَنْ جَائَ ھُمْ مُنْذِرمِنْھُمْ وَقَالَ الْکَافِرُوْنَ ھَذَاسَاحِرکَذَّاب)(٣)’اور انھیں اس با ت پر حیرت ہے کہ انھیں میں کا ایک ڈرانے والا ان کے درمیان آیا ہے اور کافر لوگ کہتے ہیںکہ یہ تو بڑاجادو گر اور پکّاجھوٹاہے ‘۔…………..١۔سورئہ اعراف آیت ٦٩۔٢۔سورئہ یونس آیت٢۔٣۔سورئہ ص آیت٤۔ظاہر ہے کہ جس کا نفس پاک اور سالم ہو کبھی اس بات پر حیرت نہیں کرے گا کہ خداوند عالم نے امت کے ایک سب سے قابل شخص کو دوسروں کی ہدایت کے لئے منتخب فرمایا ہے ۔ لیکن جو انسان حالات اور غلط قسم کے نفسانی جذبوں میں محصور اورمقید ہو اور استکباری تصورات ، دو سروں پر برتری کی خواہش اور خواہشات نفسانی کی پیروی میں زندگی بسر کررہا ہو اُس کو ضرور اس مسئلہ پر حیرانی ہوگی بہر حال یہ حیرانی کا فروں اور منکروں کی نفسیاتی کیفیت کو ظاہر و آشکار کرتی ہے کہ جس سے قرآن نے پردہ اُٹھا یا ہے ۔ مذکورہ حالات اسی طرح کے کافروں کے مختلف بہانوں میں بھی جلوہ نما ہیں ۔ ان میں سے بعض بہانے خداوند عالم اور بندوں کے مابین تعلقات کے طریقۂ کار سے تعلق رکھتے ہیں مثال کے طور پر کفّار کا ایک ناروا مطالبہ یہ تھا کہ خداوند عالم ان سے براہ راست کلام کرے یااُن پر معجزہ ظاہر کرے :(وَقَالَ الَّذِیْنَ لَایَعْلَمُونَ لَوْ لَایُکَلِّمُنَااﷲ ُ اَوْتَتینَا ئَ ایَة کَذَلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِثْلَ قَوْلِھِمْ۔۔۔)(١)’یہ جاہلو ں کا کہنا تھاکہ خدا ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا یا خود ہمارے لئے کوئی معجزہ کیوں نہیںآتا؟ اسی طرح ان ہی جیسی باتیںوہ لوگ (بھی) کرچکے ہیں جو ان سے پہلے تھے’۔آیت میں (کذلک قال الذین ۔۔۔)سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ بہانے تلاش کرنا کسی قوم سے مخصوص نہیں تھا جی ہاں یہ وہ بہانہ ہے جو عام طور پر رائج تھا لوگ کہتے تھے کہ خداوند عالم جو کچھ اپنے انبیا ء علیہم السلام کو عطا کرتا ہے وہ ہم کو کیوں نہیں عطا کرتا :۔(وَاِذَاجَائَتْھُمْ آیَة قَالُوْالَنْ نُؤْمِنَ حَتَّی نُؤتَیٰ مِثْلَ مَااُوْتِیَ رُسُلُ اﷲ ِ۔۔۔)(٢)’اور جب ان کے پاس کوئی آیت آتی توکہتے :جب تک ہم کوا(بھی)وہی چیز نہیں دی جائے گی جو پیغمبران خدا کو دی گئی ہے ہم ہر گز ایمان نہیں لائیں گے۔۔۔’۔قرآن نے بھی اس احمقانہ مطالبے کا جواب فیصلہ کن انداز میں دیا ہے :(۔۔۔اللَّہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ۔۔۔)(٣)…………..١۔سورئہ بقرہ آیت١١٨۔٢۔سورئہ انعام آیت١٢٤۔٣۔سورئہ انعام آیت١٢٤۔’۔۔۔خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے ۔۔۔’۔کفّار کا دوسرا بہانہ یہ تھا کہ چو نکہ انبیا ء علیہم السلا م بھی انسان سے بالاتر نہیں ہیں لہٰذا اُن پر ایمان نہیں لائیں گے ۔ قرآن کریم نے متعدد آیات میں ان بہانوں کو نقل کیا ہے:(قَالَتْْ رُسُلُھُمْ َفِی اللَّہِ شَکّ فَاطِرِ السَّمَٰوَٰاتِ وَالَرْضِ۔۔۔قَالُوْااِنْ اَنْتُمْ اِلَّابَشَر مِّثْلُنَا۔۔۔)(١)’ان کے پیغمبروں نے کہا کیا تم کو خدا کے بارے میں شک ہے جو سارے آسمان و زمین کوپیدا کرنے والا ہے؟ ۔۔۔وہ کہنے لگے : تم بھی تو ہمارے ہی ایسے آدمی کے سوا کچھ نہیں ہو ۔۔۔’۔(وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُؤمِنُوْااِذْ جَائَ ھُمُ الْھُدَیٰ اِلَّااَنْ قَالُوْا أَبَعَثَ اللَّہُ بَشَراً رَسُوْلاً)(٢)’اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آچکی تو ان کو ایمان لانے سے کوئی شے مانع نہیں ہوئی مگر یہ کہ وہ کہنے لگے کہ کیا خدا نے کسی بشر کو رسول بنا کر بھیجاہے’۔(ذَلِکَ بِاَنَّہُ کَانَتْ تَْتِیْہِمْ رُسُلَہُمْ بِالْبَیِّنَٰاتِ فَقَٰالُوْاأَبَشَر یَہْدُوْنَنَافَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوا۔۔۔)(٣)’یہ( برا نتیجہ) اس وجہ سے ہے کہ ان کے درمیان ان کے انبیا ء واضح اور روشن دلیلیں لے کر آچکے ہیںلیکن وہ لوگ کہہ دیا کرتے تھے کیا ایک آدمی ہماری ہدایت کرے گا ؟ پس یہ لوگ کافر ہو بیٹھے َاور منھ پھر لیا ۔۔۔’ ۔اس میں کو ئی شک نہیں ہے کہ کفار کا اس طرح کے بہا نہ تلاش کر نا اُن کے اُسی غرور و تکبر کے سوا کچھ نہیں تھا۔ حقیقت میں وہ انبیاء علیہم السلام سے کہتے تھے کہ تم بھی تو ہما رے ہی ایسے آدمی ہو اور جب تم کو ہم پر کو ئی بر تری وفو قیت حا صل نہیں ہے تو پھر کو ئی وجہ نہیں کہ تمہا ری بات مان لیں ۔یہ وہ چند با تیں ہیںجو انبیاء علیہم السلام کے مخا لفین کی نفسا نی کیفیت کو ظا ہر کر تی ہیں اب ہم یہ دیکھنا چا ہیں گے کہ انھوں نے انبیا ء علیہم السلام کا مقابلہ کر نے کے لئے کن طریقوں کو اپنایا لیکن اس سے پہلے مناسب ہے کہ استکبار کی بحث کو (انبیاء علیہم السلام سے جنگ و مقا بلہ کر نے کی ایک علت کے عنوان سے) مکمل کر نے کے لئے ہم قرآن کریم کے اندر مستکبروں اور مستضعفوں کا ایک جا ئزہ پیش کر دیں اور اس کے بعد اصل بحث کو آگے بڑھائیں۔…………..١۔سورئہ ابراہیم آیت١٠۔٢۔سورئہ اسراء آیت٩٤۔٣۔سورئہ تغابن آیت٦۔
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.