عا لمی رسالت کا مفہو م (حصہ دوم)
مخا لفین کی دلیلو ں پر ایک نظرمذکو رہ آ یتو ں کے پہلو بہ پہلو دو سری آیات بھی ہیں جو ممکن ہے پہلی نظر میں دین اسلام کے عا لمی نہ ہو نے پر دلا لت کر تی محسو س ہو ں چنا نچہ ان آ یات کو بعض نے پیغمبر اسلام ۖکی دعو ت اسلام کے مخصوص ہو نے کے اپنے دعو ے کو ثا بت کر نے کے ثبو ت کے طور پر پیش بھی کیا ہے یہ شبہ اس لئے پیدا ہوا ہے کہ ان آ یات میں عرب قوم یا ان کے کسی مخصوص گرو ہ کو ‘انذار کر نے یعنی ڈرا نے کی بات کی گئی ہے جیسا کہ سورئہ شوریٰ میں ارشاد ہو تا ہے :(وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُرْآناً عَرَبِیّاً لِتُنْذِرَاُمَّ الْقُرَیٰ وَمَنْ حَوْلَھَا )(١)’اور ہم نے اسی طرح آپ پر عربی قر آن کی وحی بھیجی کہ آپ مکہ اور اس کے اطراف والو ں کو ڈرائیں ‘۔(وَھَٰذَٰاکِتَا باَنْزَلْنَاہُ مُبَارَک مُصَدِّ قُ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَلِتُنْذِرَاُمَّ الْقُرَیٰ وَمَنْ حَوْلَھَا )(٢)’اور یہ (قرآن) وہ کتا ب ہے جس کو ہم نے برکت کے ساتھ نا زل کیا ہے اور (یہ کتاب ) ان کتا بو ں کی تصدیق کر تی ہے جو اس کے پہلے آ چکی ہیں اور اس لئے نا زل کیاہے کہ آپ مکہ اور اس کے اطراف میں رہنے والوں کو ڈرائیں ‘ ۔ان آیات میں پیغمبر کے ذریعہ انذار یا ڈرا ئے جا نے کے مخا طب مکہ اور ا س کے اطراف کے لوگ بیان کئے گئے ہیں ۔سورئہ مبا رکۂ یس اور قصص میں بھی آیا ہے:(۔۔۔لِتُنْذِرَقَوْماًمَا اُنْذِرَئَ ابَاؤُھُمْ فَھُمْ غَافِلُوْ نَ )(٣)’تا کہ آپ ان لو گو ں کو کہ جن کے باپ دادا ڈرائے نہیںگئے اور غفلت میں پڑے رہ گئے ڈراؤ ‘۔(لِتُنْذِرَقَوْماًمَاأَ تَٰھُمْ مِنْ نَذِیْرٍ مِنْ قَبْلِکَ ۔۔۔)(٤)’آپ ان لو گوں کوجن کے پاس آپ سے پہلے کو ئی ڈرا نے والا نہیں آیاڈراؤ ‘۔یہ آیتیں بھی اس چیز کو بیان کر تی ہیں کہ پیغمبر اسلام ۖ اس قوم کے انذار کے لئے مبعوث کئے گئے تھے کہ جس کے درمیان آ پ سے پہلے خدا وند عالم کی جا نب سے کو ئی انذار کر نے والا نہیں آیا تھا اور بہ ظاہر اس قوم سے مراد بھی اہل عرب ہیں ۔سورئہ شعراء میں بھی آیا ہے کہ پیغمبر ۖاپنے اقرباء کو انذار کر نے کے لئے ہی مبعوث کئے گئے تھے:(وَاَنْذِرْعَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ)(٥)’پیغمبر آپ اپنے قریبی رشتہ دا روں کو ڈرا ئیے’۔…………..١۔ سورئہ شوریٰ آیت ٧۔٢۔سورئہ انعام آیت ٩٢۔٣۔سورئہ مبا رکۂ یس آیت ٦۔٤۔ سورئہ قصص آیت ٤٦ ۔٥۔سورئہ شعراء آیت ٢١٤۔جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں پہلی نظر میں ان آیات سے یہی گمان پیدا ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلا م ۖ کی دعوت رسالت ایک خا ص جما عت سے مخصوص تھی لیکن ان آیات کے اسلوب و روش پر غور کر نے سے یہ بات وا ضح ہو جا تی ہے کہ ان میں سے کو ئی بھی آیت پیغمبر اسلام ۖکی دعوت کو کسی جما عت میں منحصر و مخصوص ہو نے پر دلالت نہیں کر تی ۔ ان میں کچھ آیتیں اس بات کو بیان کر تی ہیں کہ پیغمبرعر بوں کے درمیان کیوں مبعوث ہوئے ؟اور بیان کر تی ہیں کہ اس کی ایک وجہ عر بو ں کا ایک عرصہ سے انبیا ئے الٰہی سے محر وم ہو نا تھا اور یہ مسئلہ خود اپنی جگہ اس بات کا سبب بنا کہ وہ عام طور پر جہالت و بے خبری کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ ظا ہر ہے کہ پیغمبر اسلا م ۖ کا عربوں کے در میان مبعوث ہو نا کسی بھی طرح آپ کی رسا لت کا ان (عر بوں )سے مخصوص ہو نا نہیں کہا جا سکتا ۔ یہ آیات بھی کچھ دوسری آیات سے ملتی جلتی ہیں جو بیان کر تی ہیں کہ عر بوں کے درمیان کیو ں خو د ان ہی کی قو م سے پیغمبر مبعوث ہوئے ارشاد ہو تا ہے :(وَلَوْنَزَّلْنٰہُ عَلَیٰ بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَ ۔فَقَرَاَہُ عَلَیْھِمْ مَاکَانُوْابِہِ مُوْمِنِیْن)َ (١)’اور اگر ہم اس قر آ ن کو کسی غیر عرب زبان قوم میں نا زل کر تے اور (پیغمبر ) ا ن کے سا منے پڑھتا تو وہ اس پر ایمان نہ لا تے’ ۔ہما ری بحث سے مر بوط بعض دو سری آ یتیں پیغمبر اسلام ۖکی دعوت کے مختلف مر حلوں کو بیان کر تی ہیں۔ ہم جا نتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ۖ کی دعوت اگر چہ سبھی کے لئے تھی پھر بھی تبلیغ کی راہ ہموا ر کر نے اور عملی رکاوٹوں کو بر طرف کر نے کی غرض سے پیغمبر اسلام ۖ کی دعوت کا آغا زایک خاص دا ئرہ میں ہوا اور پھر بعد کے مرحلوں میں دا ئرہ وسیع ہو تا چلا گیا یہا ں تک کہ اپنے دور کی سب سے بڑی تہذیب و تمدن کو اس نے اپنا مخا طب قرار دیا۔ یہی وجہ ہے بعثت کے آغاز میں (وَاَ نْذِرْعَشِیْرَ تَکَ الْاَ قْرَبِیْنَ )’اپنے قر یبی خا ندان وا لوں کو ڈرائیے’والی آیتیں صرف پیغمبر اسلام ۖکی تبلیغ کے ابتدا ئی مرا حل کے دا ئرے کو بیان کر تی ہیں (١)بہر حال اگر چہ پہلی نظر میں ممکن ہے کہ ان آیات سے رسا لت اسلام کے محدود ہو نے کا گمان ہو لیکن ان آیات انذار پر غور و…………..١۔سورئہ شعرا ء آیت ٩٨ا۔١٩٩ ۔١۔ظا ہری طور پر سورئہ شو ریٰ کی( آیت٧)کو سو رئہ انعام کی (آیت ٩٢)پر حمل کر تے ہو ئے رسالت کے عالمی ہو نے کے دو سرے مرحلہ کو جا نا جا سکتا ہے ۔فکر کرنے سے (خاص طو ر سے ان آیات پر تو جہ کے بعد کہ جن میں رسالت کے عام ہو نے کا ذکر ہے) یہ گمان بھی ختم ہو جا تا ہے کسی غرض یا تعصب سے عا ری وہ شخص جو عمو میت پر دلا لت کر نے وا لی آیات کو ان آیا ت کے پہلو میں قرار دے کر دیکھتا ہے تو تصدیق کر تا ہے کہ پیغمبر اسلا م ۖکی دعوت اسلام عر بوں سے مخصوص نہیں تھی ۔ اس کے علاوہ تا ریخ کے مسلم الثبوت شوا ہد بھی (مثلاً پیغمبر اکر مۖ کی جا نب سے تمام مما لک کے سر برا ہو ں کے پاس دعوت اسلام کے لئے اپنے سفیروںکابھیجاجانا)اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔
تبلیغ اسلام کے تئیں جنوںکا کر داریہا ں تک یہ بات روشن ہو جا تی ہے کہ تمام لوگ (ناس) پیغمبر اسلام ۖ کی تبلیغ کے مخا طب تھے اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا یہ دعوت اسلام جنا ت کو بھی شامل ہے ؟بہ ظا ہر قر آ ن کر یم میں یہ بات صاف طور پر بیان نہیں ہو ئی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیںکہ لفظ ‘ناس ‘ (یعنی لوگ )(جو بعض آیات میں آیا ہے جیسے ‘ھُدیً لِلنّاسِ’،’کَا فَّة للنَّا س’ِ اور’بَلَا غ للنَّاسِ’بہ ظا ہر انسانو ں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے اور جنو ں کو شا مل نہیں ہے البتہ سو رئہ ‘ناس ‘ کی آخری آ یتوں میں یہ احتمال پایاجاتا ہے کہ ممکن ہے ‘ناس ‘میں جنو ں کو بھی شا مل رکھا گیا ہو:(مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔اَلَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِالنَّاسِ۔مِنَ الْجِنَّةِ وَالنََا سِ)(١)’اند ر سے وسوسہ کر نے وا لے کے شر سے پنا ہ ما نگتا ہو ں جو لو گو ں کے دلوں میں وسوسے پیدا کر تا ہے ۔وہ (وسو سہ پیدا کر نے والا )جنات میں سے ہو یا انسا نو ں میں سے ‘عبا رت ‘مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّا سِ ‘میں حرف ‘مِنْ ‘منِ بیانیہ ہے ۔ اس عبارت میںدو احتمال پا ئے جا تے ہیں : ایک تو یہ کہ اس میں ‘خنّا س ‘کی وضا حت کی گئی ہے ۔ دو سرے یہ کہ اس ‘ناس ‘ کے ذریعہ ‘فی صدورالنّا س’ کی وضا حت کی گئی ہو ،چنا نچہ دوسری صورت میں آیات کے معنی یہ ہو ں گے ‘لو گو ں کے دلو ں میں’ یعنی ‘جنا ت اور انسانو ں کے دلوں میں ‘ البتہ حق یہ ہے کہ دو سرا احتمال بہت ضغیف ہے اور لفظ ‘ناس ‘کا ظاہری طو ر پر انسان سے مخصوص ہو نا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن دو سرے احتمال کو صرف احتمال کی حد تک ر د بھی نہیں کیا جا سکتا ۔…………..١۔سورئہ ناس آیت ٤۔٦۔بہر حال جن آیات میں لفظ ‘ ناس ‘استعمال ہو ا ہے وہ صاف طور پر دلالت کر تی ہیں کہ جنا ت اسلام کی دعوت میں شا مل نہیں تھے لیکن جن آیات میں لفظ ‘عا لمین ‘استعمال ہو ا ہے ان سے یہ مطلب نکا لا جا سکتا ہے ۔اس لئے کہ ‘عا لمین ‘ہو ش و خرد رکھنے وا لے تما م عا قلو ں کو شا مل ہے اور اس اعتبار سے اس میں جنا ت کی جما عت بھی شامل ہے ۔ان آیات کے علا وہ بعض روا یات میں بھی آیا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) ‘ثقلین ‘ کی جا نب مبعوث کئے گئے ہیں (١)سورئہ احقاف کی آیات بھی اسی مفہو م کی تا ئید کرتی ہیں ارشاد ہو تا ہے :(وَاِذْصَرَفْنَااِلَیْکَ نَفَراًمِنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْآنَ۔۔۔)(٢)’اور جب (قوم ) جن سے کچھ افراد آپ کے پاس بھیجے کہ قر آن کو سنیں ۔۔۔’۔اس آیت کو اپنا مد عا ثابت کر نے اور اس پر دلیل لا نے کے لئے میں نے اس لئے نہیں پیش کیا کہ معلوم ہے آیت میں اس بات کی کو ئی تصر یح نہیں کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام ۖنے جنو ں کو اپنا پیغام سنا نے کے لئے دعو ت دی ہو بلکہ ممکن ہے خدا وند عالم نے خود کو ئی سبیل نکا لی ہو کہ جنو ں کا ایک گروہ خود آئے اور پیغمبر کی با تیں غور سے سنے ۔دوسری بات یہ کہ حتی اگر ہم اس بات کو تسلیم کر لیں کہ جن پیغمبر اسلام ۖکی دعو ت کے مخا طب نہیں تھے اور آپ کی تبلیغ انسا نو ں سے مخصو ص تھی تو بھی گز شتہ مطالب کی بنیاد پر جنو ں کا فر یضہ تھا کہ پیغمبر اسلام ۖکی دعوت سے آ گا ہی کے بعد اس کو قبو ل کر ے اور اس پر ایمان لا ئے ۔
ظہو ر اسلام کے بعد بقیہ تمام ادیان کا غیر معتبر ہو ناقر آن کر یم کی بعض آیات سے گما ن ہو تا ہے کہ ان آیات کے مطابق پیغمبر اسلام ۖ کے مبعوث ہونے کے بعدبھی دو سرے ادیا ن کی قا نونی حیثیت باقی ہے ۔گذ شتہ بحثو ں سے یہ وا ضح ہے کہ اس طرح کا نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے اور ظہو ر اسلام کے بعد اسلام سے باخبر ہو نے وا لے ہر با لغ و عا قل پر اسلام قبو ل کر نا اور مسلما نوں کی صف میں شا مل ہو نا وا جب ہے ۔اسی طرح قر آن میں ایسی آیات مو جو د ہیں جن میں اہل کتا ب کے بعض گرو ہ کی تعر یف کی گئی ہے ۔…………..١۔ ملا حظہ فر ما ئیے: بحا ر الا نوار جلد ٦٣ صفحہ ٢٩٧ ،حد یث نمبر ٤ ۔ اور جلد ١٠٢ صفحہ ١٠٥ حدیث ١٣۔٢۔سورئہ احقاف آیت ٢٩۔نمو نہ کے طور پر ہم سورئہ آل ِعمران میں پڑھتے ہیں :(لَیْسُواسَوَائً مِنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اُمَّة قَائِمَةیَتْلُوْنَ ئَ ایٰتِ اﷲِ آنٰائَ اللَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ )(١)’یہ لوگ بھی سب ایک جیسے نہیں ہیں ۔(بلکہ) اہلِ کتاب میں کچھ لوگ درست کر دا ر بھی ہیں جو راتو ں کو اُٹھکر خدا کی آیتیں پڑ ھا کر تے اور سجدے کیا کر تے ہیں ‘۔اس آیت میں بعض اہل کتاب کی تعر یف سے ممکن ہے یہ گمان پیدا ہو کہ دین اسلام کے ساتھ ہی قر آن نے ان کی بھی تا ئید کی ہے اور ان کے دین کی قا نو نی حیثیت کو قبول کیا ہے لیکن یہ خیال غلط ہے اس لئے کہ اس آیت کا مطلب دو حال سے خا رج نہیں ہے :پہلا احتمال تو یہ ہے کہ اس آیت میں ان اہل کتاب کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے کہ جنھو ں نے رسول اسلام کے دور حیات میں دین اسلام قبو ل کر نے سے انکار کیا تھا ۔ بلکہ اس کلیہ کو بیان کیا ہے کہ اہل کتاب کے در میان بھی (چا ہے ما ضی کی بات ہو یا حا ل کی )اچھے اور برے دو نوں طرح کے افراد رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ تمام یہو دی یا عیسا ئی خدا نا شناس انسان رہے ہو ں ۔ اسی بنا پر کہا جا تا ہے کہ تمام اہل کتاب کی تمام زما نوں میں، ایک ہی طرح سے مذ مت نہیں کر نا چا ہئے بلکہ ان میں ایک گروہ خدا کی عبا دت اور آیا ت الٰہی کی تلا وت کر نے والا بھی رہا ہے ۔دوسرا احتمال یہ ہے کہ مند ر جہ بالا آیت ان لو گو ں کے با رے میں ہو کہ جن تک اس وقت دعو ت اسلام نہ پہنچی ہو یا جن پر اﷲ کی حجت تمام نہ ہو ئی ہو ۔ لہٰذا جب بھی حجت تمام ہو جا ئے تو اہل کتاب کے اچھے افراد بغیر کسی شک و شبہہ کے اسلام قبول کر لیں گے ۔سورئہ مبا رکۂ ما ئدہ میں نصا ریٰ کے ایک گروہ کی اس طرح صفت بیا ن کی گئی ہے :(وَاِذَاسَمِعُوْامَااُنْزِ لَ اِلَیٰ الرَّسُوْ لِ تَریٰ اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّ مْعِ مِمَّاعَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ۔۔۔)(٢)’اور جب یہ لوگ اس (قرآن)کو سنتے ہیں جو ہما رے رسول پر نا زل کیا گیا ہے تو دیکھو کس طرح حقیقت سے آشنا ہو جا نے کے سبب انکی آنکھو ں سے بیسا ختہ آنسو جا ری ہو جا تے ہیں ‘ ۔یہ گرو ہ ان ہی لو گو ں کا ہے جو حجت تمام ہو نے سے پہلے اہل عبا دت و دعا تھے :(اُ مَّةً قَائِمَةً یَتْلُوْنَ آیَٰا تِ اﷲِ )…………..١۔سو رئہ آل عمران آیت١١٣۔٢۔سورئہ ما ئدہ آیت ٨٣۔’جو را توں کو اٹھکر خدا کی آیتو ں کی تلاوت کر تے ہیں ‘اور جب وہ قر آن سے آشنا ہو جا تے ہیں تو(تَریٰاَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّ مْعِ ۔۔۔)’ ان کی آنکھو ں سے بیساختہ آ نسو جا ری ہو جا تے ہیں ‘۔اس بنا پر اہل کتاب کا وہ گر وہ جو حجت تمام ہو جا نے کے بعد بھی اپنے دین پر ڈٹا رہے قرآن کی نظر میں کسی بھی صورت قا بل ستا یش و تعریف نہیں کہا جا ئے گا ۔