عوام کا انبیا ء علیہم السلام کے ساتھ برتائو(حصہ دوم)

258

بہانہ تلاش کرناگذشتہ قوموں کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے اپنے انبیا ء کا مذاق اڑا تے اور اس کے بعد ان پر دیوانگی اورجادوگری کی ناروا نسبتیں دیتے لیکن جب انبیاء علیہم السلام سے معجزے ظاہر ہوتے اور مخالفین کی سا زشیں نا کام بنا دی جا تیں تو وہ دوسرا طریقہ اپنا تے اور بہا نے بنانا شروع کردیتے تھے کہ پیغمبرگھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جا ئے اور اپنی دعوت تبلیغ سے باز آجائے چنا نچہ ہم اس حصّہ میں مختصر طور پر ان بہانوں کوبیان کریں گے جوعام طور پر مختلف امتوں کے درمیان رائج تھے ۔مخالفین کا ایک عام بہانہ اپنے آباؤ اجد اد کے دین پر باقی رہنا اور نئے دین کے انتخاب پر تیار نہ ہو نا تھا :(وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ اتَّبِعُوْامَااَنْزَلَ اللَّہُ ُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَاوَجَدْ نَاعَلَیْہِ آبَائَ نَا ۔۔۔)(١)’اور جب ان سے کہا جاتا :جو خدانے نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو تو (چھوٹتے ہی )کہتے : (نہیں!)بلکہ ہم تو اسی(طریقہ )پرچلیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ داداؤں کو پایا’کافروں کا ایک اوربہانا جس کا وہ سہا را لیتے یہ تھا :خدا کو ہم سے براہ راست گفتگو کرنا یا ہمارے لئے براہ راست معجزے بھیجنا چاہئے:(وَقَالَ الَّذِیْنَ لاَیَعْلَمُوْنَ لَوْلَا یُکَلِّمُنَا اللَّہُ اَوْتَْتِیْنَا آیَة کَذَلِکَ قَالَ الذین مِنْ قَبْلِھِمْ مِثْلَ قَوْلِھِمْ تَشَابَہَتْ قُلُوْبُھُمْ)(٢)’اور جا ہل و نا دان افراد کہتے ہیں کہ خدا ہم سے (خود ) کلام کیوں نہیں کرتا ؟ یا ہمارے پاس معجزہ کیوں خود نہیں آتا ؟ اسی طرح کی باتیں وہ لوگ کرچکے ہیں جو ان سے پہلے تھے اُن سب کے دل اور فکریں آپس میں ملتی جُلتی ہیں ۔۔۔’اس طرح کفار پیغمبر اکر م ۖکی دعوت قبول کرنے سے بچنے کے لئے نار و اقسم کی خوا ہشیں کیا کرتے تھے بعض( خواہشوں ) کے تو پورا نہ ہونے سے وہ خود بھی آگاہ ہو تے تھے ۔قرآن نے اس آیت میں بیان کیاہے کہ اس طرح کے بہانے تلاش کرنا مکہ کے مشر کوں سے مخصوص نہ تھابلکہ گذشتہ قوموں کے درمیان بھی ایسے لوگ مو جود تھے اور یہ یکسانیت جو کافروں کے دلوں اور نیّتوں کی مشابہت کا…………..١۔سورئہ لقمان آیت٢١۔٢۔سورئہ بقرہ آیت١١٨۔نتیجہ تمام زمانوں میں رہی ہے ۔قرآن کریم نے سورئہ مبارکہ انعام کی آیات میں بھی اسی کے مشابہ بہانے تلاش کرنے کی طرف میں اشارہ کیاہے 🙁 وَکَذَلِکَ جَعَلْنَافِی کُلِّ قَرْیَةٍاَکَابِرَمُجْرِمِیِْھَالِیَمْکَُرُوْافِیْھَاوَمَایَمْکُرُوْنَ اِلَّابِاَنْفُسِھِمْ وَمَایَشْعُرُوْنَ۔وَاِذَاجَائَتْھُمْ آیَة قَالُوْالَنْ نُؤمِنَ حَتّیَٰ نُوْتَیٰ مِثْلَ مَااُوْ تِیَ رُسُلُ اﷲِ ۔۔۔) ( ١)’ اسی طرح ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے قصور واروں کواس کام میں لگادیاکہ ان میں مکاری کیا کریں اور وہ لوگ جو بھی مکاری کرتے ہیںخود اپنے ہی خلاف کر تے ہیں اور اس کا شعور نہیں رکھتے اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں : جب تک ہم کو وہ چیز نہ دی جائیگی جو پیغمبر انِ خدا کو دی گئی ہے ہم ہرگز ایمان نہ لائیںگے ۔۔۔’ ۔اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبرجس شہر اور جس جگہ بھی مبعوث کئے جاتے تھے وہا ں کے غنڈوں اور بد معاشوں کے سردار اور بڑے بڑے مجرمین مکروحیلے سے کام لیتے تھے اور ان کا ایک بہانہ یہ تھا کہ وہ اپنے ایمان لانے کے لئے یہ شرط لگاتے تھے کہ خدا کو ان کے ساتھ بھی اپنے انبیاء جیسی رفتار کرنا چا ہئے اور جس طرح اس نے اپنے رسولوں کو معجزے عطا کئے ہیں ان کو بھی معجزے عطا کرے ۔اورکبھی کبھی مشر کین و کفا ر اس طرح کی بے عقلی کے مطالبے بھی کیا کرتے تھے کہ خو د ان کے پاس فر شتے کیوں نہیںنا زل ہوتے یا وہ براہ راست اپنے پر ور دگا ر کو کیوں نہیں دیکھتے!(وَقَالَ الَّذِیْنَ لَایَرْجُوْ نَ لِقَائَ نَالَوْلَااُ نْزِلَ عَلَیْنَاالْمَلَاْ ئِکَةُاَوْنَرَیٰ رَبَّنَا)(٢)’ اور جن لوگوں کو ہماری ملاقات کی امید نہیں ہے کہا کر تے ہیں کہ آخر ہم پر فر شتے کیو ں نہیں نا زل کئے گئے یا ہم اپنے پر ور دگار کو( کیو ں نہیں) دیکھتے ؟'(لَوْمَاتَاتِیْنَابِالْمَلَٰئِکَةِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ)(٣)’ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو فر شتے کو ہما رے سامنے کیو ں نہیں لا کھڑا کر تے’۔بعض او قات ان کا یہ بہا نہ ہو تا کہ پیغمبر پر (کیوں ایسا ) فرشتہ نہیں نا زل ہو تا کہ جس کو ہم بھی دیکھیں ؟یا ان…………..١۔سورئہ انعام آیت ١٢٣۔١٢٤۔٢۔سورئہ فر قان آیت ٢١۔٣۔سورئہ حجر آیت٧۔کے ساتھ( فرشتہ) کیو ں نہیں چلتاپھرتا ؟اوریا خدا وند عالم آسمان سے اپنے پیغمبر پر خزا نہ کیو ں نہیں نا زل کرتا :(وَقَالُوْالَوْلَااُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَک۔۔۔)(١)’اور انھوں نے کہا :ان پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا ؟۔۔۔’۔سورئہ ہود میں ارشا د ہوتا ہے :(لَوْلَااُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزاَوْجَائَ مَعَہُ مَلَک۔۔۔)(٢)’ان پر خزانہ کیوں نہیں نازل کیاگیا یا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا ؟۔۔۔’۔بعض آیات میں کفار کی زبانی یہ بھی نقل ہوا ہے کہ وہ پیغمبر اکرم ۖپر اعتراضات کیا کرتے کہ آخر ان پر کوئی آیت یا معجزہ کیوں نہیں نازل ہوتا :(وَیَقُوْلُ الَّذَینَ کَفَرُوْالَوْلَااُنْزِلِ عَلَیْہِ آیَة مِنْ رَّبِّہِ۔۔۔)(٣)’اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں کہتے ہیں کیوں ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر کوئی معجزہ نازل نہیں ہورہا ہے ؟۔۔۔’۔(وَقَالُوالَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ آیَات مِنْ رَبِّہِ۔۔۔)(٤)’اور انھوں نے کہا :کیوں ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے معجز نمانشانیاں نازل نہیںہوتیں ؟۔۔۔’اس طرح کی گفتگو سے کافروں کا مقصد کیا تھا اس بارے میں دو احتمال پائے جاتے ہیں:١۔اولاً:وہ یہ جتا نا چاہتے تھے کہ قرآن معجزہ نہیںہے اور اس کی کوئی اہمیّت نہیں ہے اور پیغمبر اکرم ۖ اپنے ساتھ کوئی معجزہ لیکر نہیں آئے ہیں ۔٢۔دوسرا احتمال یہ ہے کہ (آیات من ربہ )سے ان کی مراد مطلق طور پر معجزہ نازل ہو نے سے انکار نہیں تھا بلکہ ان کے مد نظر مخصوص قسم کا معجزہ تھا جس کے بعد کوئی بھی پیغمبر کی مخالفت کی جرأت نہ کرے اور سب ان کے سامنے…………..١۔سو رئہ انعام آیت ٨۔٢۔سورئہ ہودآیت١٢۔٣۔سورئہ رعدآیت٧۔٢٧۔٤۔سورئہ عنکبوت آیت٥٠۔سورئہ انعام آیت٣٧۔سورئہ طٰہ آیت١٣٣۔سر تسلیم جھکانے پر مجبور ہو جائیں ۔قرآن کریم نے سورئہ مبارکۂ شعرا ء میں اس مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر چہ یہ کام قدرت الٰہی کے دائرہ سے دور نہیں ہے لیکن خدا نے خود ایسا نہیں چا ہا ہے :(اِنْ نَشَاْ نُنَزِّلْ عَلَیْھِمْ مِنَ السَّمَآئِ آیَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُھُمْ لَھَاخَاضِعِیْنَ)(١)’اگر ہم چاہیںتو آسمان سے ان پر ایسا معجزہ نازل کردیں کہ اس کے سامنے ان لوگوں کی گردنیںجھک جائیں ‘۔بہر حال بہانہ ڈھونڈنے والے مشرکین اسی طرح کی باتیں بنایا کرتے تھے کہ خداوند عالم اپنے پیغمبر پر معجزہ کیوں نہیں نازل کرتا ۔کفّار کا ایک گروہ وہ بھی تھا جو قرآن سے متعلق بہانے تلاش کیا کرتا تھا کبھی وہ پیغمبر اکر م ۖ سے دوسرا قرآن لانے یا موجودہ قرآن میں تغیر و تبدل کرنے کی درخواست کرتے ہو ئے کہتے:(وَذَا تُتْلَیٰ عَلَیْہِمْ ئَ ایَاتُنَا بَیِّنَٰتٍ قَالَ الَّذِ یْنَ لَایَرْجُوْنَ لِقَائَ ناَائْتِ بِقُرْئَ انٍ غَیْرِھَذَااَوْبَدِّلْہُ )(٢)’اور جب ان لوگوں کے سامنے ہماری روشن آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو جن کو ہماری ملا قات کی امیدنہیں ہے کہتے ہیں :(اس قرآن کے بجائے کوئی اور دوسرا قرآن لاؤیا اس کو بدل ڈالو )’۔کفّار کا یہ عمل بڑا ہی ہو شیارانہ تھا وہ کہا کرتے تھے ا گر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئیں تو دوسراقرآن لے آئیے یا اس قرآن کو بدل دیجئے ۔اب اگر پیغمبر اکرم ۖ ان مطالبوں کوقبول کرلیتے ۔ تو وہ یہ نتیجہ نکالتے کہ یہ حقیقی پیغمبر نہیں ہیںکیو نکہ یہ جس کتاب کے آسمانی ہونے کے مدعی تھے اس میںانھوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے ردّو بدل کردی ہے یا اس کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔اوراگر پیغمبر ان کے مطالبے کو قبول نہیں کرتے (اور حقیقتاً ایسا ہی ہو ا)تووہ کہہ سکتے ہیں :چونکہ آپ نے ہماری درخواست قبول نہیں کی لہٰذا ہم آپ پر ایمان نہیں لائے ۔قرآن کے بارے میں کفّار کے دوسرے بہانوں میں ایک اعتراض قرآن کے تدریجی طور پر نازل ہونے کے متعلق تھا :(وَقَالَ الَّذینَ کَفَرُوالَوَْلَانُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً۔۔۔)(٣)…………..١۔سورئہ شعرا ء آیت ٤۔٢۔سورئہ یونس آیت١٥۔٣۔سورئہ فرقان آیت٣٢۔’اور کفّار کہنے لگے کہ:ان پر قرآن ایک ساتھ کیوں نہیں نازل کیا گیا ۔۔۔؟’۔کبھی کبھی اُن کے لبوں پر یہ شکوہ بھی ہو تاکہ یہ قرآن ایک عام انسان پر (کہ جس کے پاس نہ مال ہے نہ دولت اور نہ ہی معاشرہ میں کوئی مقام ) کیوں نازل کیاگیا اور شہر مکہ یا مدینہ کی کسی بڑی شخصیت پر کیوں نہیں نازل ہوا :(وَقٰالُوا لَوْلَانُزِّلَ ھَذَاالْقُرآنُ عَلَیٰ رَجُلٍ مِنَ الْقَریَتَیْنِ عَظیِْمٍ)(١)’اور (کفّار) کہتے:یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی بڑںے آدمی پر کیوںنہیں نازل کیا گیا ‘۔کفار کے کچھ اور بہانے جن کو الزامات کی ہی ایک قسم شمار کیا جاسکتاہے یہ تھاکہ پیغمبراکرم ۖ اپنی دعوت کے تمام مطالب دوسرے انسانوںسے ہی سیکھے ہیں خداوند عالم کی جا نب سے نہیں ہیں لہٰذا آپ پر ایمان لانے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی :(ثُمَّ تَوَلَّوْاعَنْہُ وَقَالُوْامُعَلَّم مَّجْنُون)(٢)’پس لوگوں نے ان سے رو گردانی کی اور کہنے لگے :یہ تو سکھایا پڑھا یاہوا دیوانہ ہے ‘۔کفّار کے اس بہانہ کو سورئہ مبارکۂ نحل میں ذرا صاف طور پر بیان کیا گیا ہے:(وَلَقَدْ نَعْلَمُ َ نَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَایُعَلِّمُہُ بَشَر۔۔۔)(٣)’اور ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ (کفّار) کہا کرتے ہیں :بجز اس کے کچھ نہیں کہ کو ئی آدمی ان کو پڑھا تا ہے ۔۔۔’قرآن کریم کی بعض آیات میں کفّار کے مختلف بہانوں کو ایک ساتھ بھی بیان کیا گیا ہے :(وَقَالُوْالَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّٰی تَفْجُرَلَنَامِنَ الْاَرْضِ یَنْبُوْعاً اَوْتَکُونَ لَکَ جَنَّة مِنْ نَخِیْلٍ وَعِنَبٍ فَتُفَجِّرَالْاَنْہَارَخِلَٰلَھَاتَفْجِیْراً۔اَوْتُسْقِطَ السَّمائَ کَمَازَعَمْتَ عَلَیْنَاکِسَفَاًاَوْتَْتِیَ بِاﷲ ِ وَالْمَلَٰئِکةِ قَبِیْلاً۔اَوْ یَکُونَ لَکَ بَیْتمِنْ زُخْرُفٍ اَوْتَرْقَیٰ فِی السَّمَائِ وَلَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّیٰ تُنَزِّلَ عَلَیْنَاکِتَابَاًنَقْرَؤُہُ)(٤)…………..١۔سورئہ زخرف آیت٣١۔٢۔سورئہ دخان آیت١٤۔٣۔سورئہ نحل آیت١٠٣۔٤۔سورئہ اسراء آیت٩٠،٩٣۔’او ر انھوںنے کہا :جب تک تم ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ نہیںبہانکا لوگے ہم ہر گزتم پر ایمان نہ لائیں گے یا کھجوروں اور انگوروں کا تمہارا اپنا باغ ہواوراس میں تم سب کے سا منے بیچ سے نہریںجاری کرکے دکھادو یا جیسا تم ادعا کرتے ہو ہم پرآسمان ہی کو ٹکڑے (ٹکڑے) کرکے گرادو یا خدا اور فرشتوں کو ( ہمارے روبرو )گوا ہ میں پیش کرو یا تمہارے پاس کوئی طلائی محل ہو یا تم آسمان پر چڑھ کے د کھاؤ اور ہم تمہارے اوپر چلے جانے سے (بھی) مطمئن نہ ہوںگے جب تک ہمارے پڑھنے کے لئے آسمان سے کو ئی کتاب نازل نہ کرو ‘۔قارئین کرام جیسا کہ آپ نے دیکھاکہ قرآن کریم نے ان آیات میں کفّار کے نا روا مطالبوں کو اور ناقابل قبول توقعات کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ کیسے اس گروہ نے اپنا ایمان لانا ان ناروا مطالبوںکے پوراہونے کے ساتھ مشروط کر دیا ہے مندرجہ ذیل آیت میں بھی اسی طرح کے کچھ اور بہانے نقل کئے ہیں :(وَقَالُوامَالِ ھَٰذَاالرَّسُولِ یَْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْواقِ لَولَااُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَک فَیَکُونَ مَعَہُ نَذِیْراً۔اَوْ یُلْقَیٰ اِلَیْہِ کَنْزاَوْتَکُونُ لَہُ جَنَّة یَْکُلُ مِنْہَا)(١)’اور انھوں نے کہا :یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ؟ان کے پاس کوئی فرشتہ کیوں نہیں نا زل ہواتا کہ وہ بھی ان کے ساتھ ڈرا یا کرتا ؟یا ان کے پاس کوئی خزانہ ہی نا زل کردیا جاتا یا ان کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا کہ اس سے کھاتے(پیتے)؟۔۔۔’۔یہاںیہ بات بیان کردینا بھی مناسب ہے کہ یہ بہانے تلاش کرنا مکہ کے مشرکوں سے مخصوص نہیں تھا بلکہ اہل کتاب کا بھی ایک گروہ اسلام قبول نہ کرنے کے لئے بہانے تلاش کیا کرتا تھا۔ قرآن کریم نے ان بہانوں کو بطور مفصّل بیان کیاہے یہ پہلی آیت یہودیوں کے بارے میں ہے :(اَلَّذِیْنَ قٰالُوْااِنَّ اللَّہَ عَھِدَاِلَیْنَااَلاَّنُؤمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّیٰ یَْتِیَنَابِقُرْبَانٍ تَْکُلُہُ النَّارُ)(٢)’انھوں نے کہا کہ:خدانے تو ہم سے عہد با ند ھاہے کہ ہم اس وقت تک رسول پر ایمان نہ لا ئیں کہ جب تک وہ ہمارے لئے قربانی نہ لائے اور اس (قر بانی) کو (آسمانی )آگ (قبول ہو جانے کی نشانی کے طور پر )بھسم نہ کر دے) ‘۔…………..١۔سورئہ فرقان آیت٧۔٨۔٢۔سورئہ آل عمران آیت١٨٣۔اس طرح اہل کتاب اپنے لئے ایک مخصوص آسمانی کتاب کے خواہاں تھے :(یَسْئَلُکَ اَھْلُ الْکِتَابِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْہِمْ کِتٰبَاًمِنَ السَّمَآ ئِ فَقَدْسَأَلُوْامُوسَیٰ اَکْبَرَمِنْ ذَلِکَ فَقَالُوْااَرِنَااللَّہَ جَھْرَةً فَاَخَذَتْہُمُ الصَّٰعِقَةُ بِظُلْمِھِمُ)(١)’اہل کتاب تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تم ان پر آسمان سے کوئی کتاب پوری (ایک ساتھ) اترو ادو البتّہ یہ لوگ موسیٰ سے تو اس سے بھی بڑے مطالبے کرچکے ہیں چنانچہ وہ کہتے تھے :ہمیں خداکو کھلم کھلا دکھادو تب اُن کو اُن کی شرارت کی (سزا کے طور پر )بجلی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا’۔
ڈرانااوردھمکاناجب مخالفین کی طرف سے تمسخر ،تحقیر اور تہمت کچھ بھی کارگر ثابت نہ ہوسکی اور ان کی بہانے بازیاں ان کے کسی کام نہ آئیں تو انھوں نے پیغمبر اکرم ۖکو ان کے اہداف سے روکنے لئے دوسرے حربے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا یہ نیا حربہ انبیاء علیہم السلام کو ڈرانا، دھمکانا اورخوف زدہ کر نے کا حر بہ تھا :(وَقَالَ الَّذِ یْنَ کَفَرُوْالِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِنْ اَرْضِنَااَوْلَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاْ فَاَوْحَیٰ اِلَیْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظَّالِمِیْنَ)(٢)’اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اپنے پیغمبروں سے کہا :ہم تم کواپنی سرزمین سے نکال با ہر کریں گے مگر یہ کہ تم پھر ہمارے مذہب کی طرف پلٹ آئو ۔پس ان کے پروردگار نے ان پر وحی کی کہ ہم ان ظا لمین کو ضرور ہلاک کردیں گے ‘۔جملہ ‘لِرُسُلِھِمْ ‘سے یہ بات واضح ہے کہ ڈرانے یاد ھمکانے کا مسئلہ ایک یادو انبیاء سے مخصوص نہیں رہا ہے بلکہ کفّار کی تمام قوموںکا یہی شیوہ تھاکہ جب مقابلے کے تمام راستے بے نتیجہ رہ جاتے تووہ اپنے انبیاء سے کہا کرتے تھے :یا تو تم اپنی دعوت سے باز آجائو اور ہمارے ہم مذہب بن جائو یا ہم تم کو اپنی سرزمین سے باہر نکال دیںگے…………..١۔سورئہ نساء آیت١٥٣۔٢۔سورئہ ابراہیم آیت١٣۔البتہ جب یہ نوبت آجاتی تو خدا اپنے انبیاء علیہم السلام کو اطمینان دلاتاتھا کہ وہ ان کے مخا لفین کو ہلاک کردے گا :دوسری آیت میں خداوند عالم ارشادفرما تا ہے :(کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَالْاَحْزَابُ مِنْ بَعْدِھِمْ وَھَمَّتْ کُلُّ اُمَّةٍ بِرَسُوْلِھِمْ لِیَْخُذُوْہُ وَجَٰدَلُوْابِالبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْابِہِ الْحَقَّ فََخَذْتُھُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ)(١)’ان سے پہلے نوح کی قوم نے اور ان کے بعد مخا لفین کے (دو سرے گروہوں)نے (اپنے پیغمبروں کو ) جھٹلایا اورہر امت نے اپنے پیغمبر کے بارے میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کو گرفتار کرلیں اور باطل باتوں کے ذریعہ جنگ و جدل سے کام لیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے حق کو اکھاڑ پھینکیں تو ہم نے بھی ان کو گرفت میں لے لیاپھرتم نے (دیکھا کہ ان پر) ہمارا عذاب کیسا (سخت )ہوا ؟’۔مندرجہ بالا آیت حقیقت سے پردہ اٹھا دیتی ہے کہ نہ صرف پیغمبر اسلام ۖکی قوم بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی قوموں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو جھٹلا یا ہے اور اس بات کی کو شش کی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو گرفتار کرلیں اوران کو باطل و بیہودہ بحثو ںکے ذریعہ شکست دیدیں ۔یہی طریقہ پیغمبر اسلام ۖ کے مقابل بھی اختیار کیاگیا ارشاد ہو تا ہے:(وَاَنْ کَادُوالَیَسْتَفِزُّوْنَکَ مِنَ الْاَرْضِ لِیُخْرِجُوْکَ مِنْہَاوَاِذَالّاَیَلْبَثُونَ خِلَٰفَکَ اِلّاَقَلِیْلاً۔ سُنَّةَ مَنْ قَدْاَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُسُلِنَاوَلَاتَجِدُ لِسُنَّتِنَاتَحْوِیْلاً)(١)’اور تم کو اس سرزمین سے اکھاڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی تھی تاکہ تم کو اس سے نکال باہر کریں اور اس صورت میں وہ (بھی)تمہارے بعد یہ لوگ چند روز کے سوا ٹھہرنے بھی نہ پاتے ‘۔مندرجہ بالا آیات سے اس اہم نکتہ کا پتہ چلتا ہے کہ خداوند عالم کی سنّت انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے والوں اور ڈرانے دھمکانے والوں سے مقابلہ کرنے میں ہے ۔یہ خداوند عالم کی ایک سنّت ہے کہ جب بھی انبیاء کا مقابلہ اس حد تک پہنچ جائے کہ کوئی گروہ ان کی جان لینے کا قصد کرلے اور عملی طور پر ایسے حالات پیدا ہوجائیں جس سے لوگوں کی ہدایت کے تمام راستے بند ہوجائیں اور حق کے کامل طور پر مخفی ہونے کا خوف پیدا ہوجائے تو اس وقت خداوند عالم دشمنوں اور مخالفوں کی جماعت پر اپنا عذاب نازل کرتا ہے ۔یہ وہ سنت ہے جو گذشتہ تمام اقوام میں جاری تھی :…………..١۔سورئہ غافر آیت٥۔٢۔سورئہ اسراء آیت٧٦۔٧٧۔سورئہ احزاب میں ارشاد ہو تا ہے:(وَلَنْ تَجِدلِسُنَّةِ اللَّہِ تَبْدِیْلاً)(١)’اور تم خداکی سنّت میں ہرگز تغیر و تبدیلی نہ پاؤگے ‘۔اور اصولی طور پر قرآن کریم میں اکثر وہ مقامات جہاں پر سنت خدا کے بارے میں گفتگوہوئی ہے وہ ان قوموں اور گروہوں پر عذاب نازل ہونے سے مربوط ہے جہاں ان کی مخالفت خداوندعالم کے رہبروں سے انتہا کو پہنچ چکی ہواور ان کی ہدایت کی کوئی امید کی کرن باقی نہ رہ گئی ہو ۔یہاں یہ سوال ممکن ہے کہ اگر اس طرح کی سنّت موجود ہوتی تو کوئی پیغمبر ہی قتل نہ کیا جاتا اس لئے کہ جب تک انبیاء علیہم السلام کو شہر بدر کرنے اور قتل کرنے کی بات نہ چھڑے وہ اس وقت تک تبلیغ کرتے رہیں ،مخالفوں کا مقابلہ کرنے میں مقاومت کریں اور جب کام اس منزل (ان کو شہر بدر کرنے یا قتل کر نے کی نوبت آجا ئے ) تک پہنچ جائے تو عذاب الٰہی نا زل ہو جا ئیگا اورانبیاء علیہم السلام کے تمام دشمن نیست و نا بود ہو جا ئیں گے۔حالانکہ قر آن کریم میں انبیاء علیہم السلام کو قتل کرنے کے بارے میں آیات موجود ہیں :(۔۔۔وَقَتْلِھِمُ اْلَنبِیَائَ بِغَیْرِحَقِّ۔۔۔)(٢)’۔۔۔اور ان (بنی اسرائیل )کا ناحق انبیاء کو قتل کرنا ۔۔۔’۔ایک اور آیت میں ارشاد ہو تا ہے : (۔۔۔فَلِمَ تَقْتُلُونَ اَنْبِیَائَ اﷲ ِ۔۔۔)(٣)’۔۔۔پس تمہارے بزرگ کیوں خداکے پیغمبروں کو سابق میں قتل کیا کرتے تھے ؟۔۔۔’۔جواب:قرآن کریم میں یہ مطلب صاف طور پر بیان نہیں ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کی مخالفت اور ان کا مقابلہ دو طریقوں سے ہوتا :کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگوں کے مابین خداوندعالم کی طرف سے کوئی کتاب شریعت نہیں ہوتی تھی اور ایسے ہی حالات میں ایک پیغمبر مبعوث کیا جاتا تھا تا کہ ان کو کفر و شرک سے نجات دلائے۔ ان پر اپنی حجت تمام کرے اور چراغ ہدایت کو روشن رکھے ۔ان حالات میں اگر وہ پیغمبر اپنی قوم کے ہاتھوں قتل کردیا جاتا تو چراغ ہدایت مکمل طور پر خاموش ہوجاتااور خداوند عالم کی پیغمبر کو مبعوث کرنے کی غرض نقض ہوجاتی ۔…………..١۔احزاب آیت٦٢۔٢۔سورئہ نساء آیت١٥٥۔٣۔سورئہ بقرہ آیت٩١۔اور جب لوگوں پر خداکی حجت تمام ہوجاتی اوروہ حق قبول کرنے سے انکار کردیتے تو عذاب الٰہی نازل ہوتاتاکہ پیغمبر اور مومنین کو چھٹکارامل جائے اور زمین، خداکی حجت سے خالی نہ رہنے پائے۔لیکن بعض زمانوں میں لوگوں کے درمیان کتاب خدا اور شریعت الٰہی موجود تھی اورحق کے طالبوں کے لئے حق کی معرفت کا راستہ ہموار تھا۔اس طرح کے تاریخی دور میں مبعوث ہونے والے انبیاء علیہم السلام کا فریضہ لوگوں کو اسی دین اور کتاب کی دعوت دینا اور ارشاد کرناتھا۔مثال کے طورپر بنی اسرائیل کے درمیان حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت رائج تھی اور آپ کے بعد جو متعدد پیغمبر مبعوث کئے گئے وہ لوگوں کو آپ کی ہی کتاب و شریعت کی دعوت دیا کرتے تھے اور حقیقت میں وہ مولوی دین کے مبلّغین تھے ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں ایک یا چند انبیاء علیہم السلام کا قتل ہونا حق کے کلی طور پر محو ہوجانے، سارے معاشرے کے گمراہ ہوجانے اور ہدایت کے تمام راستوں کے مسدود ہوجانے کے مساوی نہ تھا ۔خداوند عالم ایسے حالات میں اپنی حکمت بالغہ کی بنیاد پر لوگوں کے انبیاء علیہم السلام کی شان میں گستاخی کرنے یہاں تک کے لوگوں کو ان کے قتل کرنے تک کی فرصت عطا کرتاتھااور اسی وجہ سے بنی اسرائیل کے بہت سے پیغمبر کا فروں اور اپنے دشمنوں کے ہاتھوں قتل کئے گئے ۔ہم نے جو کچھ مندرجہ بالا حصّہ میں بیان کیا مختلف طریقوں سے لوگوں کے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ برتاؤ کرنے کے بارے میںتھا۔اب ہم یہ بیان کریں گے کہ خداوندعالم نے انبیاء کی قوموں کے ساتھ کیابرتاؤ کیا ہے ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.