فقر و تنگ دستی میں حکمت پوشیدہ ہے
حضرت زکریااور ان کے فرزند حضرت یحیٰی
حضرت زکریا کی عمر شریف ننانوے سال اور ان کی بیوی کی اٹھانوے سال تھی۔ اس قدر ضعیفی کے باوجود آپ رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہوئے اور پروردگار عالم سے راز و نیاز کرتے رہے:
قَالَ رَبِّ اِنِیْ وَھَنَ الْعَظْمُ مِنّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْباً وَّلَمْ اَکُنْم بِدُعَائِکَ رَبِّ شَقِیّاً وَاِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَائِیْ وَکَانَتْ اِمْرَاَتِیْ عَاقِراً فَھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیّاً یَّرْثُنِیْ وَیَرثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیًا یَازَکَرِیَّا اِنَّا نُبشَرِکَ بِغُلٰمٍنِ اسْمُہُ یَحْییٰ لَمْ نَجْعَلہ لَّہُ مِنْ قَبْلُ سَمِیّاً قَالَ رَبِّ اَنّیٰ یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّکَانَتِ امْرَاَتی عَاقِراً وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَر عِتِیّاً قَالَ کذٰلِکَ قَالَ رَبُّکَ ھُوَ عَلَیَّ ھَیِّنٌ وَّقَدْ خَلَقْتُکَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَکُ شَیْئاً
"عرض کی:اے میرے پالنے والے! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں۔ بڑھاپے سے سر کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ اے پالنے والے تیری بارگاہ میں دعا کر کے نا امید نہیں رہا ہوں اور میں (اپنے مرنے کے بعد) اپنے وارثوں سے ڈرتا ہوں(مبادا بنی اسرائیل کے میرے چچا زاد بھائی میرا ترکہ حاصل کر کے آپ کی مرضی کے خلاف خرچ کریں) اور میری بیوی (ام کلثوم بنت عمران) بانجھ ہے۔ پس تو مجھ کو اپنی بارگاہ سے ایک جانشین (فرزند)عطا فرما جو میری اور یعقوب کی نسل کی میراث کا مالک ہو اور اس کو شائستہ بندہ بنا۔ فرمایا : (اے زکریا) ہم تم کو ایک لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں ، جس کا نام یحییٰ ہو گا اور ہم نے اس سے پہلے کسی کو اس کا ہم نام نہیں پیدا کیا۔ زکریا نے عرض کی: اے میرے پروردگار! بھلا مجھے لڑکا کیونکر پیدا ہو گا اور حالت یہ ہے کہ میری بیوی تو بانجھ ہے اور خود حد سے زیادہ بڑھاپے کو پہنچ چکا ہوں۔
(خدا نے فرمایا) سچ ہے۔ حالت یہی ہے(مگر) تمہارا پروردگار فرماتا ہے: یہ بات ہم پر (کچھ دشوارنہیں) آسان ہے۔ اور (تم اپنے کو تو یاد کرو) اس سے پہلے تم کو پیدا کیا حالانکہ تم کچھ بھی نہ تھے۔"
آخر کار اللہ تعالیٰ نے زکریا (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی اور حضرت یحییٰ متولد ہوئے۔
اگر کوئی شخص لمبی مدت والی کسی بیماری میں مبتلا ہے اور اس علاج نہیں ہو رہا ہے اور بظاہر نا امید ہے تو یہ بھی دو باتوں سے خالی نہیں۔ پہلی یہ کہ مطابق احادیث بیماری اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گی۔ دوسری یہ کہ مرض طولانی ہونے کے بعد مایوسی کے عالم میں دعا و مناجات اور صدقہ سے شفا حاصل ہوتی ہے۔اس طرح نجات حاصل کرنے کی سعی ہو جاتی ہے۔
حضرت ایوب (علیہ السلام) اور بلا ئیں
انسان کو ندامت اور بصیرت حاصل کرنے کے لیے حضرت ایوب (علیہ السلام) کے حالات کا مطالعہ کرنا چاہیئے۔ سات سال یا بنا بر روایت ِ دیگر اٹھارہ سال شدید مرض وتکلیف میں مبتلا ہونے کے بعد عرض کیا:
رَبِّ اِنِّیْ مَسَّنِیَ الُضّرُّوَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔
"اے میرے پروردگار! بے شک میں ضرر (جانی و مالی) سے دوچار ہوں ۔ اب تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے (اور تیری ہی امید ہے)۔"
اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی، بیماری سے شفا عطا فرمائی اور مال و دولت واپس دے دیا۔
فقر و تنگ دستی میں حکمت پوشیدہ ہے
اگر کوئی عرصہ دراز پریشانی کی حالت میں رہا ہو اور چاروں طرف سے راہ ِ نجات مسدود ہو گئی ہو تو یہ دو حالتوں سے باہر نہیں۔ اول یہ کہ اس کی تنگ دستی و پریشانی میں ایسی حکمت و مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے کہ اگر ابتدا سے وہ خود آگاہ ہوتا تو اسی فقیری کو اختیار کرتا اور اس پریشانی کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیتا اور خوش حال رہتا۔ دوئم یہ کہ جو لوگ صبح کا وقت نہایت فقیری اور بے توانی میں گذار لیتے ہیں وہ شام کے وقت انتہائی آرام و آسائش سے بے نیا ز ہو جاتے ہیں۔
خالی ہاتھ میں دولت
نمونے کے طور پر ایک عجیب و غریب کہانی کتاب "فرج بعد الشدہ" سے یہاں نقل کی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ: ایک بڑا تاجر کہتا ہے کہ میں حج کے سفر میں تھا ۔ میرے ساتھ تین ہزار دینار سونے اور جواہرات کی تھیلی تھی جسے میں اپنے کمر بند میں باندھے ہوئے تھا۔ ایک مقام پر رفع حاجت کے لیے کمر بند کھول کر بیٹھا تو وہیں تھیلی گر گئی۔ وہاں سے آگے کئی میل دور جانے کے بعد مجھے یاد آیا۔ لیکن واپسی ممکن نہ تھی۔ چونکہ میرے پاس مال و دولت بکثرت تھی اس لیے میں چنداں متاثر نہیں ہو ۔ اتفاقاً جب وطن واپس پہنچا تو گرفتاریوں اور پریشانیوں کے دروازے میرے سامنے یکے بعد دیگرے کھلنے لگے اور بتدریج سارے اموال میرے ہاتھ سے نکل گئے۔ میری عزت ، ذلت میں تبدیل ہو گئی۔ دوست احباب سے شرمندگی ، دشمن کی چہ می گوئی اور مال و اقبال کی بربادی سے تنگ آکر وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ مسافرت کے دوران رات کسی دیہات میں بسر کی۔ میرے ساتھ مال دنیا میں چاندی کے سکے کا چھٹا حصہ تھا۔ اندھیری رات کے علاوہ بارش بھی ہو رہی تھی۔ میں اپنی بیوی کے ساتھ ایک معمولی مسافر خانے میں رات گذارنے چلا گیا۔ اتفاقاً وہیں بیوی کے وضع حمل کے آثار نمودار ہونے لگے اور بچہ کی ولادت بھی ہو گئی۔ بیوی مجھ سے کہنے لگی کہ مجھے جلد از جلد کچھ کھانے کے لیے دو ورنہ میں بھوک سے مر جاؤں گی۔ چنانچہ نہایت پریشانی کے عالم میں ایک سبزی فروش کے مکان پر گیا۔ مجبوری ظاہر کی تو بڑی مشکل سے دروازہ کھولا۔ میں نے چاندی کا سکہ اسے دے دیا۔ اس نے تھوڑا سا دہی اور گھی ٹھیکرے کے برتن میں لا کر مجھے دیا۔ یہ لے کر جب مسافر خانہ کے نزدیک پہنچا تو میرے پاؤں پھسل گئے اور میں گِر پڑا۔ ٹھیکرے کا برتن ٹوٹ گیا اور جو کچھ اس میں تھا وہ گر گیا۔ اس وقت میرے صبر کا پیمانہ چھلک گیا، زندگی سے جی بھر گیا، دونوں ہاتھوں سے اپنے رخساروں پر طمانچے مارنے لگا اور بے اختیار بلند آواز سے رونا شروع کر دیا۔ سامنے ہی بلند و بالا شان دار مکان تھا۔ ایک آدمی نے اس کھڑکی سے سر نکال کر مجھے آواز دی کہ اس آدھی رات کو تم کیا شورو غل کر رہے ہو اور ہمارے آرام کو کیوں خراب کر رہے ہو؟ تم کون ہو؟
جواباً میں نے اپنا تمام ماجرا مختصراً اُسے سنایا تو وہ کہنے لگا یہ سارا شور و فریاد کیا صرف چاندی کا سکہ ضائع ہونے پر کر رہے ہو؟ شرم کرو۔
ا س کی باتوں سے میرا دل مزید جل گیا۔ میں نے کہا : بھائی خدا بہتر جانتا ہے میں اس قدر کم ظرف و نادار نہیں تھا۔ لیکن اس وقت میں اور میری بیوی و بچہ بھوک کی شدت سے جان بلب ہیں۔ میں بیوی اور بچہ کی حالت سے پریشان ہوں۔ خدا کی قسم فلاں سال میں نے حج کیا تھا اور بہت ثروت مند تھا۔ فلاں منزل پر تین ہزار دینار اور سونا جواہر سے بھری ہوئی تھیلی گم ہو گئی جس سے میں متاثر نہیں ہو۔ چونکہ اور بھی دھن دولت محفوظ تھا۔ آپ اللہ سے ڈریں اور مجھے بُرا بھلا نہ کہیں۔جب یہ باتیں اس نے سنیں تو کہنے لگا کہ تیری تھیلی کی کیا نشانی ہے؟ مجھے رونا آیا اور کہا کہ آپ مجھے اس موقع پر یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ وہ گھر سے باہر آیا اور کہنے لگا جب تک اپنی تھیلی کی نشانی نہ بتاؤ گے میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔
پس میں نے اس کو نشانیاں بتائیں تو میرا ہاتھ پکڑ کر وہ اپنے گھر لے گیا اور کہا تیرے بیوی اور بچے کہا ں ہیں۔ میں نے ان کا پتہ بتایا۔ اس نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ جا کر اُنہیں لے آئے۔ چنانچہ غلام گیا اور لے آیا اور اپنے حرم سرا میں جگہ دے دی اور دیگر ضروریات فراہم کر دیں۔ جب صبح نمودار ہوئی تو کہنے لگا کہ اپنی بیوی کے صحت یاب ہونے تک تم یہیں رہو۔ دس دن تک مہمان کی طرح پذیرائی کرتا رہا اور روزانہ دس بیس دینار بھی دیتا رہا۔ میں ان سب باتوں سے متعجب ہو ا کہ آخر اس قدر نوازش کیوں؟ پھر اس نے سوال کیا تمہارا کیا کاروبار ہے؟
میں نے کہا تجارت پیشہ ہوں اور اس فن میں مہارت رکھتا ہوں۔
میزبان نے کہا میں تم کو سرمایہ فراہم کرتا ہوں ۔ تم شراکت پر خرید و فروخت شروع کرو ۔ پھر دو سو دینار مجھے دئیے اور میں نے کاروبار شروع کر دیا۔ کچھ مدت بعد جتنا فائدہ حاصل ہوا تھا اس کے سامنے پیش کیا۔وہ دوسرے کمرے میں گیا اور ایک تھیلی لے آیا۔ یہ وہی تھیلی تھی جو سفر حج میں کھو گئی تھی۔ اسے دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی، حیرانی ہوئی۔ یہاں تک کہ میں بے ہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو میں نے کہا: اللہ ،اللہ ،اللہ یہ وہی تھیلی ہے جو سفر حج میں گم ہو گئی تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اجازت لے کر اپنے وطن لوٹا۔ اس سے دوبارہ رحمت کے دروازے کھلنے لگے اور عیش و عشرت سے زندگی بسر ہونے لگی۔
عَسَیٰ اَنْ تَکْرَھُواشَیْئاً وَّھُوَ خَیْرٌ لکُمْ وَعَسَیٰ اَنْ تُحِبُّوا شَیْئاً وَّھُوَ شَرُّ لَکُمْ ط
"عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو پسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بُری ہو۔"
سَیَجْعَلُ اللّٰہُ یَعْہَ عُسْرٍ یپسْراً ط
"خدا عن قریب ہی تنگی کے بعد فراخ عطا کرے گا۔"
مشکلا ت میں نا امیدی کا علاج
اگرکوئی زمانے کے حادثات میں مبتلاہوجائے تودوچیزوں کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنا چاہئیے۔
اوّل یہ کہ اس دنیاکی زندگی ہروقت آزمائش اورحادثات سے ٹکراؤ کرتی رہتی ہے اورکوئی ان سے بچ نہیں سکتا۔
دوسرے یہ کہ دوسرے لوگوں کی پریشانیوں اوربرے حالات پرنظررکھناچاہئیے جواس کی حالت سے بدترہے اسطرح کے تقابل سے غمزدہ دل کو سکون حاصل ہوتا ہے۔انسان جتنے بھی مصائب وآلام سے دوچار ہوجائے پھربھی رحمتِ الٰہی سے ہرگزناامیدنہیں ہونا چاہیئے۔چونکہ ماضی میں بے شمارلوگ زمانے کے عجیب وغریب حادثات اورمصائب سے دوچار ہوئے اورچھٹکارے کاتصوّربھی نہیں تھامگرخدائے رحیم نے ان کونجات بخشی۔چنانچہ کتاب’فرج بعدالشّدة‘ میں محترم مولَف جناب حسین بن سعیددہستانی نے پانچ سو سے زیادہ ان لوگوں کی روایتیں نقل کی ہیں جن کوسختی وپریشانی کے بعدآسانی وراحت ملی۔اس کے علاوہ ہمارے تجربات شاہدہیں کہ بزرگانِ دین کے توسّل کی برکت اورصدقہ ودعاء کے اثرسے بہت سی سختیوں میں گرفتاراشخاص آزاد ہوئے۔
مذکورہ کتاب میں مدینہ کے کسی بزرگ سے یہ روایت منقول ہے؛وہ کہتاہے کہ میں نعمت ودولت سے مالا مال تھا ۔اچانک فقروناداری میں مبتلا ہوگیا۔چنانچہ جناب حضرت جعفرصادق کی خدمت میں باریاب ہو کر اپنی پریشانی عرض کی۔آپ نے میری حالت دیکھ کر بہت ترس کھایااوراظہارِ ہمدردی کیانیزیہ اشعار میری تسلّی کیلئے ارشادفرمائے
فَلَا تَجْزَعْ وَاِنْ اَعْسَرْتَ یَوْماً
فَقَدْ اَیْسَرْتَ فِی الدَّھْرِ الطَّوِیْلِ
اگرکچھ دن سختی میں رہو تو بے صبری نہ کرنا ۔چونکہ تم نے طویل مدّت آرام و آسائش میں بسر کی ہے۔
فَاِنَّ الْعُسْرَ یَتْبَعُہُ الْیَسَارا
وَقَوْلُ اللّٰہِ اَصْدَقَ کُلَّ قِیْلٍ
پس بے شک ہر سختی کے بعد آسانی ہے ۔اوراللہ کاقول ہرقول سے سچا ہے۔
فَلَایتَأ سَ فَاِنَّ الْیَاْسَ کُفْرٌ
لَعَلَّ اللّٰہَ یُغْنِیْ عن قَلیْلٍ
تومایوس نہ ہونابیشک ناامیدی کفر ہے۔شاید اللہ قلیل مدّت میں تجھے بے نیاز کردے ۔
فَلَا تَظْنُنْ بِرَبِّکَ ظَنَّ سَوْءٍ
فِاِنَّ اللّٰہَ اَوْ فیٰ بِالْجَمِیْلِ
پھراسکے بعد اپنے رب سے بدگمان نہ ہو جانا۔یقینااللہ اچھے پیرائے میں اپنا وعدہ پوراکریگا۔
فَلَوْ اَنَّ الْعُقُوْلَ یَسُوْقُ رزقاً
لَکَانَ الْمَالُ عِنْدَ زَوِیْ الْعُقُوْلِ
اگرلوگوں کی عقلیں رزق پیدا کرنے کاسبب ہوتیں․تودنیا کامال ودولت صرف عقلاء کے ہاتھوں میں ہوتا۔
فَلَا تَیٴَسْ اِذا مَانابَ خَطْبٌ
فَکَمْ فِیْ الْغَیْبِ مِنْ عَجَبٍ عَجِیْبٍ
خبردار! اگرتم سختی کے جال میں پھنس جاؤ توناامیّد نہ ہونا۔چونکہ پس پردہ قدرت کے عجیب وغریب کرشمے پوشیدہ ہیں۔
راوی کہتاہے جب میں نے امام (علیہ السلام)سے یہ اشعارسنے تواسقدرخوشی اور اطمینان خاطر ہوگیا کہ ناامیدیاں امید میں تبدیل ہوگئیں رحمت کے دروازے میرے سامنے کھلنے لگے اور بہت جلد اللہ تعالیٰ نے غم وفکر سے آزاد کردیا۔
قَابِلِ توجّہ
اس کتاب میں حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ سارے ہموم وغموم اور سختیاں دور ہونے کیلئے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی جائے
لَااِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمیْنْ۔ اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا اُشْرِکَ بِہِ شَیْئًا
یاد رکھےئے مایوسی تمام گزشتہ گناہوں سے بدتر ہے چونکہ مایوسی اس بات کی دلیل ہے کہ عبدو معبود کارشتہ منقطع ہوگیا اور فطرت اولیہ سے صرفِ نظر کیا گیا ہے۔ ورنہ جب تک ذرہ برابر ایمان کسی کے دل میں موجود رہتا ہے تو اس کا پالنے والے سے لاتعلق ہونامحال ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ ناامیدی کے عالم میں عقلت سے لاشعوری طور پر ساری امیدیں منقطع ہو جائیں پھر رحمت واسطہٴ الہٰی کی طرف متوجہ ہو جائے اور ناامیدی کے گناہ سے توبہ کرے۔