صوفیانہ زندگی کے بارےاسلامی نقطہ نظر

555

                                      اسلامی نقطہ نظر
(١)فقرکے بارے میں۔

(٢) زاہدانہ اورصوفیانہ زندگی گزارنے کے بارے میں۔

(٣)مالدار اور فضول خرچ کی طرح زندگی گزارنے کے متعلق گفتگو ۔
 

بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ رب العالمین و الصلوة والسلام علی رسول اللہ وآلہ الائمة المعصومین۔

گزشتہ ہفتوں کی طرح میں ایک خطبہ میں اقتصاد اور دوسرے خطبہ میں جنگ کی تازہ ترین صورت حال کے متعلق گفتگو کروں گابہرحال عدالت اجتماعی کے متعلق میں نے وعدہ کیا تھا کہ مختلف فصلوں میں بحث کروں گا اور نتیجہ آخری مراحل میں بیان کروں گا ۔
اسلامی نقطہ نظر۔

ابھی تک اسلامی نقطہ نظر سے دو فصلوں میں بحث کی گئی ہے۔

(١)اسلام کی کام اور تولید کے متعلق تاکید۔
 (٢) اسلامی نقطہ نظر سے پسندیدہ طرز زندگی۔

اسلام افراد کیلئے کثرت مال اور فقر وفاقہ کو اچھا نہیں سمجھتا بہرحال بحث کو انجام تک پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ میں احادیث کا سہارا لے کر اسے اختتام تک پہنچائوں اور پھر تیسری بحث کا آغاز کروں ۔

کام کے متعلق کافی مقدار میں آیات اور احادیث ذکر کر چکا ہوں کہ انسان کس طرح بہتر زندگی گزار سکتا ہے ۔

جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ۔

ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاو یرزقہ من حیث لا یحتسب ۔(١)     

 جو شخص متقی ہے خدا اسے زندگی کی ضروریات فراہم کر دیتا ہے اور وہ اسمقام کا سوچ بھی نہیں سکتا،جہاں سے وہ اسے روزی عنایت کرتا ہے۔

 جب یہ آیت نازل ہوئی تو بعض مسلمان اسے بہتر طور پر نہیں سمجھ سکے اور کہنے لگے کہ خدا نے ہماری زندگی کا بیمہ کر لیا ہے ہمیں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور وہ صرف عبادت اور آخرت کے کاموںمیں مصروف ہو گئے۔

 جب حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوا کہ معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں تو آپ نے انہیں بلا بھیجا جب وہ آئے تو ان سے پوچھا کہ کس چیز کی وجہ سے آپ اس غلط کام میں سر گردان ہیں انہوں نے عرض کی۔
 قد تکفل اللہ عنا بارزاقنا۔

 خدا نے ہمارے تمام اخراجات کی ذمہ داری اٹھائی ہے لہذ اہم کوئی کام نہیں کریں گے حضرت نے فرمایا یہ درست نہیں ہے خدا نے تو کہاہے کہ جائو کام بھی کرو اور عبادت بھی کرو اور اپنے مستقبل سے نہ گھبرائو اگر فقط عبادت میں لگے رہے تو خدا تمہاری دعائیں قبول نہیں کرے گا ۔(یہ پہلی بحث کے متعلق گفتگو تھی )
روح قناعت موجب خیر ہے

جہاں تک دوسرے حصہ کا تعلق ہے کہ زندگی اپنی ضروریات کے مطابق ہو نی

چاہئیے اس کے متعلق میں ایک جملہ عرض کرتا ہوں کہ قناعت ہی انسانی زندگی میں خیر کاموجب ہے۔فقر بری چیز ہے اس کے متعلق حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں۔
 ما ضرب اللہ عبادہ بسوط اوجع من الفقر۔

 خداوندعالم نے اپنے بندوں کو فقر کے تازیانہ سے زیادہ سخت کسی اور تازیانہ سے نہیں مارا ۔
دردناک تازیانہ

فقر،معاشرے کے لئے درد ناک تازیانہ ہے، اس سے بچنا ضروری ہے البتہ مال ودولت سے زیادہ محبت رکھنے والے کے متعلق امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔

زیادہ مال ودولت رکھنے والا شخص اس مریض کی طرح ہے جو کھانا دیکھ تو سکتا ہے لیکن کھا کر اس سے لذت حاصل نہیں کر سکتا ، یہ حسرت اس کے دل میں رہ جا تی ہے اسی طرح دنیا پرست ،ان حقیقی نعمتوں تک نہیں پہنچ سکتا اور عبادت خدا وندی سے سکون حاصل نہیں کر سکتا۔

اسلام ہم سے کام چاہتا ہے بہت زیادہ فقر اور مال داری کو ہمارے لئیے پسند نہیں فرماتا۔

آج تیسری بحث مال ودولت کو صحیح مقام پر خرچ کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے متعلق ہے یعنی ہم نے کام کیا تھا اس سے مال دار ہو گئے اب اسے کہاں کہاں صرف کریں ؟ اسلام کا معاشرے کے متعلق کیا فرمان ہے۔

 آیا اسلام ریاضت کو پسند کرتا ہے، آیا بے حد وحساب اسراف اور فضول خرچی کی اجازت دیتا ہے ۔

 آج کی بحث انہی سوالات کے جواب سے متعلق ہے ان میں غور فرمائیں کیونکہ یہ مباحث اس جمہوری اسلامی میں آپ کے لئے بہترین نمونہ ہیں خصوصا ًجو لوگ اسلامی معاشرہ کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں یا اپنے اندر ان اسلامی خصوصیات کو دیکھنا چاہتے ہیں ان کے لیئے ضروری ہے کہ ان مسائل سے آگاہ ہوں اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے بہرحال اسلام بے جا ریاضت اور اسراف کو پسند نہیں کرتا ۔
کثرت ریاضت کی مذمت

اسلام نے کسی وجہ کے بغیر بے حد و حساب ریاضت کی مذمت کی ہے اور اسے درست نہیں سمجھا اسی طرح فضول خرچ زندگی گزارنے کو بھی انسانی شان کے خلاف شمار کیا ہے اور معاشرے کے لیئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔

 لہذا ان دونوں سے اجتناب کرنے میں بہتری ہے سعادت و شقاوت اور خوش بختی اور بد بختی کے متعلق مختلف نظریات موجود ہیں بعض مکاتب فکر خیال کرتے ہیں کہ لذت اور مادہ اصل ہیں یعنی تمام سہولیات جیسے نعمت اور لذت وغیرہ کو انسانی زندگی کے لیئے مفید سمجھتے ہیں۔

 لیکن بعض مکاتب فکر کے خیال میں زندگی کی تمام سہولتیں جیسے سعادت خوشبختی وغیرہ ریاضت اور روح کو تقویت دینے میں ہی منحصر ہیں اورانسانی جسم ان تمام مادی اور نفسانی خواہشات کا قلع قمع کر دیتا ہے۔

 یہ دو متضاد مکاتب فکر ہیں ان میں سے ایک کی بنیاد اور اساس مغرب اور دوسرے کی مشرق ہے یعنیبھارت وغیرہ ریاضت اور روم و یونان لذت کے قائل ہیں لیکن اسلام کا ان دونوں کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔
 دنیا و آخرت کا رابطہ  

اسلام اخروی سعادت کو اساس اور بنیاد قرار دیتا ہے اور اخروی زندگی کو اس دنیا سے علیحدہ شمار نہیں کرتا یعنی دنیا اور آخرت کا آپس میں اس طرح ربط و تعلق ہے کہ آخرت اس دنیا سے بنتی ہے اور دنیا آخرت میں اثر انداز ہے دنیا اور آخرت کی لذات متضاد نہیں ہیں بلکہ باہم اکٹھی ہیں لہذا انسان مادی اور معنوی لحاظ سے خوش بخت بن سکتا ہے ۔

 جبکہ بے حد وحساب ریاضت اور لذت انسان کی شکست کا موجب ہیں یہ انتہائی اہم نقطہ نظر ہے ، جسے میں نے گزشتہ ابحاث میں ذکر کیا ہے جبکہ لوگ مختلف انداز میں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوری لوگوں کے لئے طبعی سہولتوں اور دنیا سے بہتر استفادہ کو پسند نہیں کرتا وہ عوام کو رہبانیت اور ریاضت کی طرف لے جا رہا ہے۔

 میرے خیال میں یہ بحث اسلام اور جمہوری اسلامی کے تعارف کے لحاظ سے ایک مفید بحث ہے میری تائید میں قرآن مجید اسلامی فلسفہ اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے فرامین کو عملی زندگی میں دیکھا جا سکتا ہے آج میں محققانہ انداز میں دو طرح کی گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
 (١) اسلام فضول خرچی کا مخالف ہے۔

(٢) اسلام بے جا ریاضت کی اجازت نہیں دیتا ۔

اسکا ثبوت قران مجید کی اس آیت مبارکہ میں اس انداز سے ہے ۔

قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ و الطیبات من الرزق قل ھی للذین امنوا فی الحیوة الدنیا خالصةیوم القیامہ۔

( اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے) پوچھو کہ جو زینت اور کھانے کی صاف ستھری چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہیں ،کس نے حرام کر دیں؟تم خود ان سے کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں قیامت کے دن ان لوگوں کے لئے خاص ہیں۔(2)

پیغمبر اسلام کے زمانہ میں صوفیانہ طرز عمل

حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں صوفیانہ طرز عمل پھلنے پھولنے لگا تھا۔ جس کے چند نمونے میں اپنی ابتدائی گفتگو میں پیش کر چکا ہوں۔ بہر حال جب یہ مسئلہ بڑھا تو قران مجید نے مختلف مقامات پر صوفیانہ طرز فکر کی شدید مذمت کی اور فرمایا خبردار اسلامی معاشرہ ان انحرافات کا شکار نہ ہو جائے ۔

خداوند عالم نے فرمایا اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ریاضت کے دعوے داروں سے کہوکہ خدا کی طرف سے کس نے ان زینتوں اور نعمتوں کو انسان کے لیئے حرام قرار دیا ہے ؟ جبکہ یہ حرام نہیںہیںاور ان پر مومنین کا مسلم حق ہے ۔البتہ دنیا میں یہ نعمتیں مشکلات کے ساتھ ہیں اور آخرت میں خالص اور پریشانی کے بغیر ہیں ایک اور آیت اس مقام پر نازل ہوئی ، جب کچھ لوگوں نے یہ عہد کر لیا کہ ہم لوگ روزہ شب بیداری اور جنسی لذت سے دوری اختیار کریں گے ، آیت ان کو سرزنش کرتی ہے کہ اپنی قسم اور عہد کا کفارہ دے کر اپنی منت توڑ ڈالو ، دنیا سے استفادہ کرو۔

قرآن مجید کی بعض آیات ایسی ہیں جو کھانے پینے سے زیادہ زینت کی طرف توجہ مبذول کراتی ہیںبعض آیات فن، ہنر، سلیقے، قدرتی مناظر سے استفادہ کرنے اور خلقت کی طرف تحریک دلاتی ہیں اورکچھ آیات بتاتی ہیں کہ ستارے در اصل زمین کے لیئے زینت ہیں ا ور ایک آیت میں مسلمانوں سے برملا کہا جا رہا ہے کہ ۔
 خذوازینتکم عند کل مسجد۔

ہر نماز کے وقت بن سنور کر نکھر جایاکرو۔(3)

 یعنی یہ آیت صراحت کے ساتھ کہتی ہے کہ جب بھی مسجد اور معاشرے کی طرف جائو تو زینت کے ساتھ جائو ، پھٹے پرانے لباس کے ساتھ نہ جائو البتہ یہ ممکن ہے کہ ریاضت کے قائل اس کا کوئی اور معنی کریں لیکن ان کا معنی درست نہیں ہے کیونکہ مندرجہ بالا مثالیں برملا کہتی ہیں کہ اسلام دنیاوی مفاد اور زینت سے صحیح استفادہ کرنے کے حق میں ہے ۔

نماز کی حالت میں حضرت امام حسن علیہ السلام کا لباس

اس مقام پر حضرت امام حسن علیہ السلام کے متعلق مشہور روایت کو بیان کرتا ہوں۔

(کان یلبس اجود ثیابہ عند الصلوة)(اذا قام الی الصلوة یلبس اجود ثیابہ۔

 آپ نماز کی حالت میں بہترین لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے کسی نے پوچھا آقا آپ خدا سے ملاقات کرنے کے لیئے ایسا لباس کیوں زیب تن کرتے ہیں؟
 حضرت نے فرمایا۔
 ان اللہ جمیل و یحب الجمال۔

 خداوند عالم کی ذات جمیل ہے اورخوبصورتی کو پسند کرتی ہے ۔یعنی صفات ثبوتیہ جمالیہ اس کے ساتھ مخصوص ہیں اور ان صفات ثبوتیہ کے جمال کو ایسا پسند کرتا ہے کہ یہ جمال اس کے غیر میں موجود نہیں ہو سکتا۔البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں ان کا تذکرہ بعد میں ہو گا ۔

دنیاوی نعمتوں سے استفادہ مسلمانوں کا حق ہے

چند چھو ٹی سی شرائط کے ساتھ دنیاوی نعمتوں سے استفادہ کرنا مسلمانوں کا حق ہے کفار اور فاسق مومن اور متقی لوگوں کے سایہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں اگر مومن نہ ہوتے تو خداوند عالم انہیں کچھ نہ دیتا کیونکہ سب کچھ اصل میں مومنین کے لیئے بنا ہے۔

 قرآن مجید میں واضح طور پر موجود ہے کہ ان نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھانا غلط ہے ۔ ھو الذی جعل لکم الارض ذلولا فامشو فی مناکبھا و کلو ا من رزقہ۔(4)

 اس زمین کو خدا نے تمہارے لیئے تابع کیا ہے اس پر چلو پھرو اور جتنا چاہو اس کے رزق سے استفادہ کرو۔

 اس موضوع پر اور بھی بہت سی آیات ہیں مولا ئے کائنات اور دوسرے آئمہ اطہار علیہم السلام کی روایات اس مطلب کی تائید کرتی ہیں۔
 معاشرے پر نا مناسب زہد کے برے اثرات

حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کومعلوم ہوا کہ ایک صحابی ریاضت کے دلدادہ بن گئے ہیں روزہ ، شب بیداری ، اور عبادت میں مصروف ہو گئے ہیں اور ان کی بیوی سیاہ لباس زیب تن کیے ہوئے ہے۔

 حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوئے اور منبر پر جا کر فرمایا ۔

نجانے مسلمان یہ بدعت کہاں سے لائے ہیں ؟

حضرت سلمان فارسی نے حضرت ابودرداکے ساتھ صیغہ اخوت پڑھا ہوا تھا ایک دن

سلمان ان کے گھرگئے اور دیکھا کہ ان کی بیوی پریشان ہے اور بغیر زینت کے ہے۔ اس سے پوچھا ایسا کیوں ہے؟ کیا تم شوہر دار نہیںہو ؟

 اس نے جواب دیا میرا شوہر تارک دنیا بن بیٹھا ہے اور نظر بھی کم ہی آتا ہے دن گھر سے باہر اور رات شب بیداری میں گزار دیتا ہے ، مجھ سے لاتعلق ہو گیا ہے اس وجہ سے میں ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں ۔

 حضرت سلمان نے اس کے گھر آنے تک انتظار کیا جب وہ آیا تو اسے کہا یہ کیا زندگی ہے ؟ کیا تم مسلمان نہیں ہو ؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ایسی زندگی نہیں گزارتے ہیں؟ کیا تیرا کوئی اور دین ہے ؟ اسلام اس کا نام نہیں ہو سکتا؟ جب کہ تو میرا بھائی ہے۔
 ابودردا نے کہا ۔

 میری نظر میں اس دنیا کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اس وجہ سے میں نے اسے آخرت کے سپرد کر دیا اوراس قسم کی باتیں کرنے لگا حضرت سلمان سمجھاتے رہے کہ ایسا ہیں ہے۔ اتنے میں کھانا لایا گیا ،سلمان نے کہا مجھے روزہ ہے۔

 ابودردا نے کہا مستحبی روزہ میزبان کے کہنے پر افطار کر لینا چاہیے۔

سلمان نے کہا تم بھی افطار کرو بہر حال دونوں نے کھانا کھایا ۔سلمان رات یہیں رہے ۔ رات کو ابودردا عبادت کے لیئے چلاگیا۔

حضرت سلمان نے اسے کہا اپنی بیوی کے پاس جائو۔ ، یہ تمہارا کیا طریقہ ہے ؟

 اگر اس طرح کی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو سب اسلام سے دور ہو جائیں گے، معاشرے میں اس طرح زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ خدا نے تیرے بدن ، آنکھوں ، ہاتھ ، معدہ اور دوسرے تمام اعضاء کے حق مقرر فرمائے ہیں تم ان تمام اعضاء کے ساتھ ظلم کر رہے ہو ایسا کیوں کر رہے ہو؟ اور کیا تجھ پر تیری روح کا بھی کوئی حق نہیںہے؟
حضرت علی علیہ السلام کی نصیحت

حضرت امیر علیہ السلام بصرہ میں کسی پرانے جاننے والے کے گھر گئے اسکا بہت بڑا گھر تھا بہت سے کمرے ، کافی فرش،کھلا صحن ،دیکھ کر حضرت نے فرمایا ۔

تم نے اسراف کیا ہے جبکہ تو ا س سے اپنی آخرت کا سامان کر سکتا تھا اس نے جھکے ہوئے سر سے عرض کیا مولا میں جانتا ہوں کہ میں نے اسراف کیا ہے میرا ایک بھائی میرے برعکس ہے اسے بھی نصحیحت فرمائیں وہ آپ کو اس کے گھر لے گیا۔

 حضرت نے دیکھا وہ عبادت میں مصروف ہے جبکہ اہل خانہ ایک گوشہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں حضرت نے اسے کہا یہ کیا طریقہ کار ہے ؟ کیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسی طرح زندگی بسر کرتے تھے میں تمہارا خلیفہ ہونے کے باوجود ایسی زندگی بسر نہیں کرتا۔

 اس نے کہا میں نے سنا ہے کہ آپ جو کی روٹی تناول فرماتے ہیں آپ فلا ں کھانا کھاتے ہیں اور فلاں غذا تناول فرماتے ہیں حضرت نے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے ۔

ثانیا مجھ میں اور تجھ میں فرق ہے میں لوگوں کا قائد ہوں میں ایسی زندگی اس لیئے گزارتا ہوں کہ فقیر اور غریب لوگ خود کو تسلی دے سکیں۔

 یہی وجہ ہے کہ قائدین کا معاملہ عوام الناس سے جدا ہے ۔ بہر حال حضرت امیر علیہ السلام نے دونوں کی تادیب کی اور فرمایا تم دونوں جس راستے پر ہو وہ اسلام نہیں ہے بلکہ تم اعتدال کے ساتھ زندگی گزارو۔

معاشرے کی ترقی میں صوفیانہ طرز عمل خطرناک ہے

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ظاہر بین صوفیوں سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے جب آپ کو صاف ستھرا لباس زیب تن کیے دیکھا تو اعتراض کیا۔

 کافی میں بھی حدیث ہے شائد اس خطبہ میں پوری بیان نہ کر سکوں ۔بہر حال حضرت نے صوفیانہ طرز عمل کو اس معاشرے کیلئے خطرناک قرار دیا میںبہت سی ا حادیث اور روایات بیان کر چکا ہوں۔ اب میں ان کی جمع بندی کرتا ہوں۔
 معاشرے پر نا مناسب ریاضت کے برے اثرات

اس وقت اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلام میں ریا ضت کا یہ معنی نہیں ہے کہ انسان دنیاوی نعمتوں سے بالکل بہرہ مند نہ ہو۔ لہذا جوگی قسم کے لوگوں نے بھارت وغیرہ میں جو رویہ اختیار کیا ہے اسلام اس کی مذمت کرتا ہے یہ لوگ کئی کئی گھنٹے سورج کو دیکھتے ہیں تاکہ ان کی آنکھیں روشنی کھو بیٹھیں۔

 ان لوگوں کا نظریہ ہے کہ جس قدر انسان گر جائے اتنی اس کی روح کو تقویت ملتی ہے اور یہ لوگ روح کو اہم تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے تقویت ملنی چاہئیے ۔اس طرح کئی کئی ماہ اپنے ایک ہاتھ کو کھینچتے رہتے ہین تا کہ وہ بڑا ہو جائے اور دوسرا چھوٹا یا مٹھی بند رکھتے ہیں تا کہ نا خن دوسری طرف سے نکل آئیں اور ہاتھ نا قص ہو جائیں اپنے جسم کو ننگا کر کے پتھروں سے رگڑتے ہیں کئی کئی کلو میٹر چلتے ہیں گرم لوہے پر لیٹ کر خود کو اذیت پہنچاتے ہیں ان ریاضتوں کو یوگ کا نام دیا گیا ہے ۔

یوگا اسی یوگ سے لیا گیا ہے اسلام ان افکار کی نفی کرتا ہے ایسی اذیت کی اجازت نہیں دیتا ایسے افکار معاشرے کو بے روح کرنے کیلئے وجود میں آتے ہیں ،اسلام اور معاشرے کیلئے یہی بہتر ہے کہ ہم تصوف کو اس قسم کی باطل رہبانیت سے دور رکھیں اور عمدہ زندگی کے طلبگا ربن جائیں۔

فضول خرچ خدا کے محبوب نہیں بن سکتے

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ا سلام فضول خرچی اور مسرفانہ زندگی کی بھر پور مذمت کرتا ہے قرآن مجید کا ارشاد ہے ۔
ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین(5)       
فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں۔

امام خمینی نے جو امریکہ کو’ شیطان بزرگ’کا لقب دیا ہے ،اس کے باوجود

سرمایہ کار لوگ امریکی پا لیسی کے حق میں ہیں ،ان کی طینت مغربی ہے یہ مستقل ہو ہی نہیں سکتے اور یہ لوگ اس آیت کے مصداق ہیں ۔

ولاتبذرتبذیرا ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین(6)            

اس طرح کی اور آیات بھی ہیںخدا فضول خرچ لوگوں کو دوست نہیں رکھتا اس کے علاوہ روایات کی کثیر تعداد فضول خرچی کے خلاف موجود ہے اور آپ کے ذہن میں بھی کافی روایات موجود ہو نگی،میں چند روایات کاتذکرہ کر کے اپنی بحث کو نتیجے تک پہنچاتا ہوں۔
فضول خرچ کی سزا

حضرت امیر اپنے دور حکومت میں منبر پر تشریف لے گئے اور غصہ کی حالت میں ارشاد فرمایا میں نے سنا ہے کہ ایک شخص اسلام لانے کے بعد الٹے پائوں پھر گیا ہے اور مرتد ہو گیا ہے۔

 اس کا گھر زندگی کے تمام وسائل سے پر ہے جبکہ اس کے نزدیک ایک غریب آدمی رہتا ہے اس کے پاس رات کا کھانا تک نہیں ہے یہ فضول خرچ بچی کھچی روٹی کوڑے میں پھینک دیتا ہے اور وہ غریب آدمی وہاں سے تاریکی میں اٹھا لاتا ہے اور پیٹ بھرتا ہے۔ اگر میں اس شخص کو پاؤں تو پہلے تو اسے توبہ کرنے کا کہوں گا۔ اگر توبہ نہ کرے گا تو حد جاری کروں گااور کوڑے لگائوں گا۔

 اس روایت کی سند مجھے یاد نہیں ہے اور میں اس سے فقہی استدلال بھی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں اہل فتویٰ نہیں ہوں اگر ہوتا تب بھی اس کی سند کے واضح ہونے کے بغیر فتو یٰ نہ دیتا۔

 البتہ میں یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر یہ صحیح السند روایت ہو تو حضرت نے اسے فضول خرچی کہا ہے اور امیر شخص کے متعلق اس سزا کو تجویزفرمایا ہے۔ لہذا اگر ولی امر معاشرہ کی اصلاح فرمانے کے لیئے ایسی سزا تجویز کریں تو یہ ایک منطقی بات ہو گی۔ علماء اعلام سے بھی اس فتویٰ کے متعلق حکم خدا معلوم کیا جاسکتا ہے۔ بہرحال حضرت امیر علیہ السلا م ایسے فضول خرچ شخص کو سزا دینا چاہتے تھے تاکہ معاشرہ فساد اور تباہی کی راہ پر گامزن نہ ہو جائے ۔
ریا کا گھر آگ کا گھر ہے

روایت میں ہے کہ حضرت نبی ۖ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

 ریا کے گھر سے دور رہو ریا کا گھر روز قیامت آگ سے بھر جائے گا مالک کو اسی گھر میں سزا دی جائے گی۔

 لوگوں نے پوچھا مولا ریا کے گھر سے کیا مراد ہے ؟ حضرت نے فرمایا۔ وہ گھر جو دوسروں کو دکھانے کے لیئے بنایا جائے البتہ جو شخص اپنے بیوی بچوں کے لیئے گھر بنائے اس میں چند سہولتیں بھی میسر ہوں جیسے ڈرائنگ روم بیڈ روم لائبریری وغیرہ تو ایسا گھر بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 لیکن جو شخص بینک سے غلط قرض ، یا دھوکہ دہی سے دولت کما کر ، لوگوں کو دکھانے کے لیئے گھر بناتا ہے اور اس میں ہر قسم کی تزئین کرتا ہے تاکہ لوگ اس کی قارونی زندگی کو دیکھ کر کہیں۔
 یا لیت لنا مثل ما اوتی قارون انہ لذو حظ عظیم۔(7)

کاش ہمیں بھی قارون کے مال و دولت جتنی مقدار مال مل جاتا؟۔

 حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیںاس گھرکا مالک اپنے اس جرم کی وجہ سے قیامت کے دن عذاب میں ہو گا اصولی طور پر اسراف حرام ہے خواہ دوسروں کے پاس وافر مال و دولت ہی کیوں نہ ہو ، البتہ اگر دوسروں کے پاس نہ ہو اور یہ اسراف کرے تو یہ انتہائی غلط ہے ۔

معا شرہ کی طبقاتی تقسیم اور فقر کی حکومت

معا شرہ کی طبقاتی تقسیم اور فقر کی حکومت انتہائی خطر ناک تبدیلیاں لاتی ہے لہذا اس کی شدید مخالفت کرنی چا ہیے اور معاشرے کو تقسیم ہونے سے بچاناچاہئیے انتہائی مال ودولت اور انتہائی فقر معاشرہ کے لئے موت ہے۔

 یعنی ایک طبقہ کو تو کوئی سہولت میسر نہ ہو اور دوسرا امیرانہ زندگی بسر کرے تو یہ بدترین حالت ہے اور معاشرہ کے قتل کے مترادف ہے اس سے کینہ اورنفرت جنم لیتی ہے اور بھائی چارہ ختم ہو کر رہ جاتا ہے لوگ ایک دوسرے سے جا نوروں کا سا سلوک کرتے ہیں اس سے محبت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ طریقہ غیر اسلامی معاشرہ میں بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا مثلا ایک تو بہت بڑے بنگلے میں رہے جبکہ پندرہ افراد پر مشتمل ایک کنبہ کرائے کے دو کمروں میں مشکل سے گزارا کرے ۔

یہ درست نہیں ہے اس سے دنیا وآخرت برباد ہو جاتی ہیں انسانیت کا نام ونشان مٹ جاتا ہے انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کی دنیا اسی قاعدہ پرعمل کر رہی ہے اور ہمارا ملک بھی اس میں شامل ہے۔ البتہ اب پہلے کی نسبت کچھ بہتری دیکھنے میں آتی ہے۔جب ہم دنیا کے مصارف کو دیکھتے ہیں تو ان کا احصی ہمارے لئے ممکن نہیں ہے مثلاً امریکہ ‘١٧’ملین بیرل تیل صرف کرتا ہے۔ جب کہ چین خود ایک صنعتی ملک تصورکیا جاتا ہے اور ایک سو کروڑ افراد پر مشتمل ملک ہونے کے باوجود دو(٢) ملین بیرل تیل تولید کرتا ہے اور ایک ملین کو فروخت کرتا ہے ۔

یورپ کی مشترکہ منڈی اور زرعی محصولات

یورپ کی مشترکہ منڈی کئی ملین ڈالر زرعی پیداوارکے خاتمہ کے لیئے خرچ کر رہی ہے اور اپنے کاشتکاروں سے غلہ خرید کر ضائع کر دیتی ہے جبکہ بنگلہ دیش اوربھارت میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔

 افریقہ میں ان اموال کا انبار لگ سکتا تھا۔ جبکہ آپ نمائش گاہ کی تصویروں کوملاحظہ کرتے ہیں کہ بھوک کی وجہ سے ان لوگوں پر کیا گزر رہی ہے بلا مبالغہ یورپ کا کوئی مالدار مر جائے تو اپنی بلی اور کتے کے لیئے کئی ملین ڈالر وقف کر جاتا ہے لیکن دوسری طرف لوگ اپنے بچوں کی پڑھائی کے لیئے قلم پینسل تک نہیں خرید سکتے ۔

٩٠ فیصد اموات نامناسب غذا کی وجہ سے ہیں

ایک عام انسان کو ہر روز ٢٧٠٠ کیولری کی ضروت ہوتی ہے جبکہ اس دنیا کے دو تہائی افراد ٥٠٠کلیلوری سے کم انرجی صرف کررہے ہیں ۔ ( ڈاکٹری وصیت نامہ)ایک معتبر کتاب ہے اور اس پر چھ سو ڈاکٹروں نے دستخط کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ٩٠فیصد اموات خوراک کی کمی کی وجہ سے واقع ہوتی ہیںاکثر بیماریوں کی جڑ غذا کی کمی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ امریکہ وغیرہ میں طبعی عمر کی حد بہت زیادہ ہے جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش وغیرہ میں انتہائی کم ہے اسی طرح نوزائیدہ بچوں کی اموات بھی ان ممالک میں زیادہ ہیں اس کی کچھ وجہ تو علاقائی ہے۔

 لیکن بنیادی وجہ بٹرے ملک ہیںاور یہ ممالک چاہتے ہیں کہ دنیا میں ایک طبقہ ضرورہماری خدمت کے لیئے ہونا چاہیئے تا کہ ہم ان سے خام مال حاصل کر سکیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ جمہوری اسلامی دنیا میں مضبوط ملک کی حیثیت سے پہچانا جائے اور ہم امریکہ اور یورپ جیسے ظالم ملکوں سے اپنا حق چھین لیں ، انہیں اپنے ملک میں نہ آنے دیں اور جہاں انہیں دیکھیں نیست ونابود کر دیں تاکہ برائی جڑ سے ختم ہو جائے ۔

ان کی مثال ایسے حشرات کی طرح ہے کہ جب وہ مرنے لگتے ہیںتوایک اور کیڑے کو ایسا مسموم کرتے ہیں(8) کہ وہ مرنے نہ پائے تاکہ جب انڈوں سے بچے نکلیں تو پہلے اسے غذا کے عنوان سے کھائیں اور اپنی جان بچا لیں ۔
استعماری طاقتوں کی پالیسی

 آج دنیا کی استعماری طاقتوں کی بھی یہی پالیسی ہے کہ لوگوں کو ایسی زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ نہ وہ مر سکتا ہے نہ ہی زندہ رہ سکتا ہے تاکہ کبھی ان کا مقابلہ نہ کر سکے۔

 شاہ کے زمانہ میں سینکڑوں افراد کا یہی طریق زندگی تھا جبکہ جمہوری اسلامی کی اہم ذمہ داری اس طلسم کو توڑنا اور عزت دار زندگی گزارنے کی راہ ہموار کرنا ہے ۔

 اگر ہم میں اسلامی شجاعت ہے اور خود کو حضرت امیر کا پیروکار سمجھتے ہیں تو ہمیں ان کے سامنے ڈٹ جانا ہو گا اور اپنے حق کے حصول تک ان کا مقابلہ کرناہوگا یہاں تک کہ وہ ہمارے سامنے سر تسلیم خم کر یں۔
 فضول خرچ طاغوتوں کا نمونہ

میری نظر میں تہران میں موجود امیر اور کمزور لوگوں کا فرق بہت ہی نامناسب ہے یہ اسلامی روح کے منافی ہے اور اس کے حل کے لیئے صحیح اسلامی طریقوں پرعمل پیرا ہونا ضروری ہے ۔

فضول خرچ لوگوں کے متعلق اسلام نے واضح طور پر کہا ہے

 (انہ لا یحب المسر فین)۔ان المبذرین کانوااخوان الشیاطین۔ (9)

اللہ تبارک و تعالی اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور یقناً فضول خرچ تو شیطان کے بھائی ہیں

یہ دنیا کے فضول خرچ طاغوتوں کانمونہ ہے ہمیں ان کا مقابلہ کرنا چاہیے

اور کمزور اور غریب لوگوں کے متعلق سوچنا چاہیے ان کے متعلق ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں کہ جن کی وجہ سے یہ کمزور اور غریب ہو گئے ہیں ۔بہرحال اس بحث کی کچھ تفصیل بعد والے خطبہ میں بیان کروں گا اور اسلامی اقتصادی نظام کے حوالہ سے جمع بندی کرنے کے بعد واضح ہو جائے گا کہ اسلامی معاشرہ ان کا مخالف ہے اگر ہم اس مقام پر پہنچ جایئں اور غریب لوگوں کی فکر نہ کریں تو یہ مسلمانی نہیں ہے۔

 بہرحال ہمیں اس جنگ اور اقتصادی محاصرہ کی حالت میں اسراف سے بچنا چاہیئے،

بجلی اور پانی کی وزارت بھی اعلان کرتی ہے کہ بجلی کم صرف کریں ملکی حالات کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ 

 لیکن اس جنگ کی حالت مین بعض امیر گھرانے بجلی کا بے جا مصرف کرتے ہیں البتہ غریب لوگون کے پاس تو اتنی رقم ہی نہیں ہے وہ لوگ عموما ایک یا دو بلب استعمال کرتے ہیں کہ جن میں بجلی کم استعمال ہوتی ہے ، بہر حال آپ بجلی کم صرف کریں ۔
اسراف حرام ہے

خواتین و حضرات اسلام میں اسراف حرام ہے، چہ جائیکہ جنگ کی صورت حال ہو، جب ہماری شرائط اور تقاضے اس طرح ہیںہمارا ایک دینی اورانقلابی معاشرہ ہے تو ہمارا فرض بنتا ہے کہ فضول خرچ لوگوں کے سامنے ڈٹ جایئں اور اپنے خاندان اور بچوں کو بتایئں کہ وہ اسراف اور فضول خرچی میں مبتلا نہ ہوں۔ 
 
 
حوالہ جات
 (١)طلاق:٢،٣
(2)اعراف: ٣٢)
(4)ملک:١٥
 (5) اسراء  :٢٧
(6)اسرائ:٢٦ ،٢٧
(7)قصص:٧٩

(8)یہ انوفل نامی کیڑا ہے۔
(9)اسرائ:٢٧

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.